دین اور ضروریاتِ دین از قاری حنیف ڈار

دین اور ضروریاتِ دین !

دین الگ چیز ھے اور اس کی ضروریات الگ چیز ھیں دین تو نبئ کریمﷺ کے زمانے میں مکمل ھو گیا تھا مگر اس وقت وہ ایک بستی کی ضروریات رکھتا تھا،جس طرح انسان الگ چیز ھے اور انسان کی ضروریات الگ چیز ھیں ،، علاقہ اور عمر بدلنے سے انسان کی ضروریات تو تبدیل ھو جاتی ھیں مگر انسان وھی رھتا ھے ،کامل مکمل "

مثلاً بیس دن کا بچہ بھی ایک مکمل انسان ھوتا ھے جو اعضاء 30 سال کے بندے کے ساتھ ھوتے ھیں وھی سارے اعضاء 30 دن کے بچے کے ساتھ بھی ھوتے ھیں ، اس کے والدیں شکر کرتے ھیں کہ اللہ نے صحیح سلامت اور سالم بچہ دیا ھے ، مگر اس کے بعد اس کی ضروریات عمر کے ساتھ بڑھتی چلی جاتی ھیں ،، رشتے ناتوں کا بھی جال بچھتا چلا جاتا ھے ،، یہی معاملہ دین کا ھے کہ یہ مکمل تو جزیرۃ العرب میں ھو گیا تھا اور سند بھی عطا کر دی گئ تھی ” الیوم اکملت لکم دینکم ” مگر یہ دین جزیرۃ العرب کا دین نہیں تھا یہ ساری دنیا کا دین تھا ،، اور اس کو ھر کلچر ، ھر موسم ،اور ھر براعظم کے انسان کی نفسیات کا سامنا کرنا تھا ،لہذا اس میں اتنی گنجائش اور flexibility رکھی گئ ھے کہ یہ سارے زمانوں اور سارے علاقوں کی ضرورت پوری کرے ،، جس طرح نبئ کریمﷺ کی عدم موجودگی میں بھی دعوت کا کام جاری رھے گا تو دین کو تازہ خون اور تازہ ذھن ملتا رھے گا ، کلمہ پھیلانے اور کملہ پڑھانے والے آج بھی موجود ھیں مگر کلمہ وہ نبی ﷺ کے نام کا ھی پڑھاتے ھیں ،، اسی طرح دین کی ضروریات کے لئے اللہ پاک نے ھر زمانے میں اس زمانے کے ذھن اور نفسیات کو ایڈریس کرنے والے لوگ پیدا فرمائے ، اگرچہ لوگوں نے انہیں ھر ممکن طریقے اور ھر دستیاب ذریعے سے روکنے کی بھرپور کوشش کی مگر جو چراغ اللہ جلاتا ھے اسے لوگ سارے کے سارے مل کر بھی نہیں بجھا سکتے !
ایک بچہ بچپن میں بہت معصوم اور خوبصورت ھوتا ھے مگر اس کی معصومیت اور خوبصورتی کو محفوظ رکھنے کے لئے اس کے اعضاء پر لوھے کے خول نہیں چڑھائے جا سکتے ،،

الغرض فقہیں دین کی ضروریات کو پورا کرنے کا ایک فطری طریقہ کار ھے ، جس کو لوھے کے خول میں تبدیل نہیں کر دینا چاھئے اور نہ ھی دین کو اپنے علاقے اپنے کلچر اور اپنے وقت یا زمانے کے خود چڑھا کر اسے چھوٹے سر والا شاہ دولہ بنا دینا چاھئے ! رہ گئے اختلافات تو وہ ھر زمانے میں ھوئے ھیں ، اور اسلامی تاریخ میں کوئی بھی غیر متنازعہ نہیں ھے ،مگر یہ اختلاف صرف اختلاف رائے تک رھنا چاھئے ،ھندو مسلم اختلاف نہیں بنا لینا چاھئے ،

آج کا نوجوان جب دستیاب نیٹ ورک کو سرچ کرتا ھے تو وہ بہت سارے نظر آتے ھیں ،، مگر سب پہ اپنی اپنی فقہ ، اپنی اپنی مسجد کا پاس ورڈ لگا ھوتا ھے ، اور وہ اس پاس ورڈ تک رسائی نہیں رکھتا ،، اسے اسی کا نیٹ ورک سوٹ کرتا ھے جس نے کسی مسلک کا پاس ورڈ نہ لگایا ھو ،، اگر آپ جوان خون چاھتے ھیں تو اس کے لئے پاس ورڈ ھٹا دیجئے ، آپس کی فرقہ وارانہ اور مسلکی نفرت اور منافرت ختم کر دیجئے اور نوجوان کا رستہ چھوڑ دیجئے تاکہ وہ اپنی سہولت کے مطابق جس طرف چاھے راغب ھو جائے ، جس مسجد میں چاھے نماز پڑھے اور جس کے پیچھے چاھے پڑھے ،، مسجد کے محراب و منبر سے لوگوں کے سماجی مسائل کو ایڈریس کیجئے اور آگے بڑھ کر ان کی مشکلات کو حل کیجئے تا کہ لوگ مسجد کو بھی اپنے سماج کا حصہ سمجھیں ،جنگ و جدال کا مورچہ نہیں ، مساجد سے اللہ اور اس کے رسولﷺ کو ماننے کی دعوت دیجئے ، اپنے اکابر کو ان پر مت لادیئے ،، غالباً حجاج منبر سے اپنے اکابر کی شان بیان کر رھا تھا کہ ایک مشہور صحابی کھڑے ھوئے اور عین اس کے منبر کے سامنے نفل شروع کر دیئے ،، اس نے کہا کہ خطیب جب خطبہ دے رھا ھو تو نفل پڑھنے سے منع نہیں کیا گیا ؟ آپ نے سلام پھیر کر جواب دیا ،، ھمیں اللہ کے ذکر کے لئے نفل پڑھنے سے روکا گیا تھا ، تیرے باپ دادا کے کارنامے سننے کے لئے نہیں روکا گیا تھا ،،

سورس

Dr. Muhammad Hamidullah
Visit Website of Dr. Muhammad Hamidullah
Leave A Reply

Your email address will not be published.