سب سے اعلی و اولی ھمارا نبی ﷺ از قاری حنیف ڈار

سب سے اعلی و اولی ھمارا نبی ﷺ !!

فرماتے ھیں کہ قندیل بلوچ کے لئے سرِ عام دعا کرنا مناسب نہیں ، اس سے دیگر بچیوں کی جھجھک ختم ھونے کے امکانات بھی پیدا ھو سکتے ھیں ، نیز نبئ کریم ﷺ نے مقروض کی نمازِ جنازہ نہ پڑھا کر اس کا جواز پیدا کیا ھے ،،
عرض کیا کہ نبئ کریم ﷺ سے اگر آپ تھوڑا سا حسنِ ظن سے کام لے لیتے تو یہ غلط فہمی پیدا ھو ھی نہیں سکتی تھی جس نے آپ کو اس مقام پر لا کھڑا کیا کہ ملحدین کو یہ کہنے کا موقع مل گیا کہ لقب رحمۃ للعالمین اور غریب کا جنازہ پڑھانا بھی گوارا نہیں کیا ،،
قرض لینا کوئی گناہ نہیں خود نبئ کریم ﷺ کی سیرت میں درج ھے کہ آپ نے نہ صرف ھجرت والی اونٹنی قرض پر لی بلکہ حضرت عائشہ صدیقہؓ کا حق مہر بھی ابوبکر صدیقؓ سے قرض لیا ، نیز آپ ﷺ کے وصال کے وقت آپ کی زرہ یہودی کے یہاں رھن رکھی ھوئی تھی ،،
2088 – حدثنا عمر بن حفص بن غياث حدثنا أبي حدثنا الأعمش قال ذكرنا إبراهيم الرهن في السلف فقال لابأس به . ثم حدثنا عن الأسود عن عائشة رضي الله عنها 
: أن النبي صلى الله عليه و سلم اشترى طعاما من يهودي إلى أجل فرهنه درعه ،،
پھر رسول اللہ ﷺ نے مقروض کا نمازِ جنازہ نہ پڑھانے کی بات کیوں فرمائی اور کیا واقعی آپ نے کسی مقروض کی نماز نہیں پڑھی ؟
آپ نے مقروض سے نفرت کی وجہ سے یہ بات نہیں فرمائی تھی بلکہ مقروض اور اس کے اھل خانہ پر رحمت ، محبت اور شفقت کے جذبے کے تحت یہ بات فرمائی تھی کہ رب سے اس کی مغفرت کی دعا سے پہلے خود اپنے حقوق تو اس کو معاف کرو، لہذا اس غریب کا قرض ادا کر دیا گیا اور نبئ کریم ﷺ نے اس کی نمازِ جنازہ بھی پڑھائی اور اس کے اھل و عیال کے سر سے بوجھ بھی ھٹا دیا جو ایک طرف مرنے والے کے غم سے نڈھال تھے تو دوسری طرف قرض کے خیال نے ان کا خون خشک کیا ھوا تھا ، اس کے بعد یا تو قرض دینے والے ھی میت کا قرض معاف کر دیتے یا کچھ مخیر صحابہؓ ادا کر دیتے ، اور اس کے بعد نبئ کریم ﷺ کو جنازے کی دعوت دیتے ، اس کے باجود آپ ﷺ اس بات کو یقینی بنا لیتے کہ مقروض کا قرض ادا کر دیا گیا ھے ،، یہ عملی تعلیم تھی کہ ایک میت اور اس کے گھر والوں کے ساتھ حقیقی ھمدردی کا سلوک کس طرح کیا جا سکتا ھے ،،
مگر اب تو لوگوں نے ایسی ایسی رسمیں ایجاد کر رکھی ھیں کہ جو سفید پوش زندگی بھر قرض نہیں لیتا یہ لوگ اس کے فوت ھوتے ھی اس کے گھر والوں کو قل شریف، چافتہ شریف ،چہلم شریف اور برسی شریف کے ذریعے مقروض کر کے ھی چھوڑتے ھیں ، اور مرنے والے کا دھیان مرتے وقت بھی اسی بات میں اٹکا ھوتا ھے کہ میرے مرنے کے بعد ان رسموں کی ادائیگی کی کیا سبیل بنے گی ،بعض بیچارے تو وصیت کر دیتے ھیں کہ فلاں زمین کا ٹکڑا بیچ کر ان بخشانے والوں کو ھڈی دے دینا ،

سورس

Dr. Muhammad Hamidullah
Visit Website of Dr. Muhammad Hamidullah
Leave A Reply

Your email address will not be published.