ذرا نماز پڑھنا سکھادیجے تحریر ڈاکٹر محمد عقیل
ذرا نماز پڑھنا سکھادیجے
ڈاکٹر محمد عقیل
o "پوچھو کیا پوچھنا چاہتے ہو۔”
• یہ بتائیں کہ نماز کی نیت زبان سے کرنی ہے کہ دل میں۔
o میاں نیت زبان سے کرو یا دل میں کرو، ہر صورت میں خالص ہونی چاہیے۔”
• جواب کچھ عجیب تھا لیکن اگلا سوال :اچھا ہاتھ کانوں تک اٹھانے ہیں یا کاندھے تک؟
o میاں کان اور کاندھے سے کیا فرق پڑتا ہے۔ حقیقت میں تو ہاتھ نفس کی پوجا سے اٹھانے ہیں۔
• اچھا ہاتھ کہاں باندھنے ہیں، سینے پر کہ ناف کے نیچے ؟
o ارے صاحبزادے، ہاتھ ادب سے باندھنے ہیں ، جہاں ادب محسوس ہو وہیں رکھ لو۔
• سورہ فاتحہ امام کے پیچھے بھی پڑھنی ہے یا چپ رہنا ہے؟
o بھائی ، جب تمہارا نمائیندہ خدا سے سب کے لیے باآواز بلند بول رہا ہو تو تمہیں بولنے کی کیا ضرورت؟ اور جب وہ خاموش ہو تو تمہارے چپ رہنے کا کیا مقصد؟
• اچھا سمجھ گیا لیکن یہ آمین زور سے بولنی ہے کہ آہستہ؟
o میاں، آمین کا مطلب ہے” قبول فرما”۔ تو کبھی یہ آہ زور سے نکلتی ہے تو کبھی آہستہ۔دعا کی قبولیت آواز کی بلندی نہیں دل کی تڑپ کا تقاضا کرتی ہے۔
• سنا ہے رکوع میں کمر اتنی سیدھی ہوئی ہو کہ پانی کا پیالہ بھی پشت پر رکھ دیا جائے تو اس کا لیول برقرار رہے؟
o میاں ، جب غلام جھکتا ہے تو کیا بادشاہ پیالہ رکھ کر کمر کا تناو چیک کرتا ہے؟ وہ تو تمہارے بے اختیار سے جھکنے کو دیکھتا ہے اور بس۔
• کیا رکوع سے اٹھ کر دوبارہ رفع یدین کرنا ضروری ہے؟
o جناب من ، اصل کام تو تکبیر یعنی خدا کی بڑائی بیان کرنا ہے، اب یہ بڑائی ہاتھ اٹھاکربیان کرلو یا بنا ہاتھ اٹھائے۔
• حضور ، کیا سجدے میں اتنا اونچا ہونا لازمی ہے کہ ایک چھوٹا بکری کا بچہ نیچے سے نکل جائے؟
o میرے دوست، سجدہ تو عاجزی و پستی کی انتہائی علامت ہے۔ بادشاہوں کے بادشاہ کے حضور ناک رگڑتے وقت کس کو ہوش ہوگا ہے کہ اونچائی اور لمبائی کتنی ہے؟
• حضرت آپ تو ساری باتوں میں اتنی وسعت اور آپشنز پیدا کررہے ہیں جبکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ "صلو کما رائتمونی اصلی” یعنی نماز اس طرح پڑھو جیسے مجھے پڑھتے ہوئے دیکھا ہے۔
o ارے بھائی ہم نے تو نبی کریم کو نماز میں روتے ہوئے دیکھا، گڑگڑاتے دیکھا، ادب و احترام کا پیکر بنے قیام میں دیکھا، قرآن کو سمجھ کر پڑھتے ہوئے دیکھا، اپنے رب کے آگے بے تابی سے جھکتے دیکھا، تڑپتے ہوئے سجدہ کرتے دیکھا، قومہ و قعدہ میں بھی دعائیں مانگتے ہوئے دیکھا، تسبیحات بدل بدل کر پڑھتے ہوئے دیکھا، اپنے رب کو خوف و امید سے پکارتے ہوئے دیکھا۔ہم نے یہی دیکھا اور یہی سمجھا کہ نماز کا اصل مغز یہی سب کچھ ہے ۔ یہی وہ نماز ہے جس کے لیے نبی نے حکم دیا کہ نماز اس طرح پڑھو جیسے تم مجھے نماز پڑھتے دیکھتے ہو۔
• بات اس کی سمجھ آچکی تھی کہ آج تک وہ نماز پڑھتا تو رہا ، ادا نہ کرپایا۔ موذن حی علی الصلوٰۃ کی صدائیں لگارہا تھا اور وہ اس حکم پر عمل کرنے کے لیے بے تاب تھا ” صلو کما رائیتمونی اصلی”—"نماز اس طرح پڑھو جیسے مجھے پڑھتے ہوئے دیکھا ہے”
===============================
ایک اعتراض:
ما شاء اللہ بہت پر اثر تحریر ہے ۔۔۔ نماز کی روح کو اجاگر کرنے میں معاون ۔۔۔ مگر مجھے محسوس ہوا کہ اس میں نماز کے ظاہر کو اہمیت نہیں دی گئی۔۔ یا نظر انداز کیا گیا ہے
نماز ظاہر سے شروع ہوتی ہے ۔ اور ظاہر کو پکڑے رکھ کر اصل روح تک پہنچنا ہوتا ہے ۔ ظاہر کو چھوڑ کر نہیں ۔ جیسے روزہ ظاہر(صبح سے شام تک بھوکا پیاسا رہنا) سے شروع ہوتا ہے اور ظاہر کے ساتھ ساتھ اخلاص درکار ہوتا ہے
ایک کافر کو بھی مسلمان ہونے کے لئے پہلے ظاہر نماز منہ سے کلمہ ادا کرنا ہوتا ہے خواہ کلمہ کی اصل سمجھ آئے نہ آئے۔ پھر اس ظاہر کو چھوڑے بغیر کلمہ کی اصل روح یعنی معنی و مفہوم کو سمجھنا اور اس پر بتدریج عمل کرنا ہوتا ہے ۔
ظاہر مختصر آسان نظر آنے والا اور سب سے پہلا لازمی پارٹ ہوتا ہے جسے چھوڑے بغیر اصل روح تک پہنچنا ہوتا ہے جو نسبتا مشکل اور بہت وسیع ہوتا ہے۔
اور دین اسلام میں ہر رکن کا ظاہر "معین” بھی ہوتا ہے۔ اس میں اپنی مرضی سے ، اخلاص کی خاطر بھی اور روح تک پہنچنے کے لئے بھی کوئی "تبدیلی” نہیں کی جا سکتی نہ اسے مزید "بہتر” بنایا جاسکتا ہے
کنفیوژن دور کردیں تو مہربانی ہوگی
===============================
جواب:
یہ تاثر شاید مناسب نہ ہو اس لیے یہاں یہ نہیں کہا گیا کہ ہاتھ اٹھاوّ نہ اٹھاو برابر ہے، یہ نہیں کہا کہ رکوع و سجود نہ کرو تو کوئی مسئلہ نہیں، آمین کہو نہ کہو کوئی اشو نہیں، سورہ فاتحہ بالکل ہی نہ پڑھو کوئی مسئلہ نہین۔ بلکہ یہ بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ نماز کا اصل مقصد اس کا ظاہر نہیں اس کا باطن ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خوف و بیماری کی حالت میں اور جنگ کی حالت میں نماز کا یہ ظاہر بدل جاتا ہے اور نماز چاہے بیٹھ کر لیٹ کر یا اشاروں سے جس طرح مناسب ہو پڑھ سکتے ہیں۔ لیکن نماز کا باطن نہیں بدلتا یعنی اللہ کی یاد۔ نماز کا اصل مقصد اللہ کی یاد ہے جیسا کہ قرآن میں آتا ہے اقم اصلوٰۃ لذکری یعنی نماز میری یاد کے لیے قائم کرو۔ یہی وہ اصل مقصد ہے جو ہر حال میں پورا ہونا چاہیے اور اگر یہ پورا نہیں ہورہا تو ظاہری طور پر کتنی ہی حسین نماز کیوں نہ ہو، حقیقت میں ایک لاحاصل ایکٹوٹی ہے۔ جزاکم اللہ خیرا
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ!
اس تحریر میں ایک بہت بڑا مسئلہ ہے اور وہ یہ کہ دین میں عقل نہیں چلتی۔ اس کی ایک بڑی مثال کہ جب حٖضرت علی ؓ سے کسی نے پوچھا تھا تو انہوں نے جواب دیا تھا کہ اگر دین میں عقل چلتی ہوتی تو جرابوں کے اوپر مسح پاؤں کے اوپر سے نہیں بلکہ نیچے سے ہوتا کیونکہ زمین پہ تو پاؤن نچلی طرف سے لگتے ہیں۔
دین عمل کا نام ہے اطاعت کا نام ہے چاہے عقل تسلیم کرے یا نہ کرے ۔
رہی بات نماز کی تو نبی کریم ﷺ کا حکم ہے کہ نماز ایسے پڑھو جیسے مجھے نماز پڑھتے ہوئے دیکھتے ہو۔ تو یہ حکم تو ان کے لۓ ہو گیا جنہوں نے نبی کریمﷺ نے دیکھا تو ہمارے لۓ کیا حکم ہے تو اس کا حکم بھی نبی کریمﷺ نے دے دیا تھا جب صحابہ اکرام ؓ جمع تھے تو نبی کریم ﷺ نے ان کی ڈیوٹی لگائی کہ جو میں نے تمھیں دین دیا ہے وہ ان تک پہنچا دینا جوبعد میں آنے والے ہیں اور الحمدللہ آج ہمارے پاس ہر چیز موجود ہے۔ صحیح احادیث موجود ہیں مگر افسوس کہ ہمارے پاس وقت نہیں ہے۔ بلکہ ہم نے یہ ٹھیکہ صرف علماء کو دے دیا ہے کہ ان سے لے لو جو بھی جیسا بھی دین وہ دیتے ہیں وہ صحیح ہویا من گھڑت بلکہ یہاں تک کہ ہم تو ان چیزوں کو بھی دین سمجھ کر اور کرتے جا رہے ہیں ۔۔۔ بس کرتے جا رہے ہیں جن کا ہمیں خود بھی معلوم ہوتا ہے کہ نبی کریم ﷺ اور صحابہ اکرام ؓ کے دور میں جن چیزوں کا ذکر تک بھی نہیں ہوتا تھا۔
بس ایک چیز کا دھیان رہے کہ روز قیامت جب سوال ہو گا تو جوب ہم نے خود دینا ہے۔ اور جو حساب ہوگا ہر ایک کی استطاعت کے مطابق ہونا ہے۔ جب پوچھا جاۓ گا اور کوئی جواب نہ بن پڑے گا تو سزا بھی ہمیں ہی ملنی ہے۔ لہذا ابھی وقت ہے۔ اور اپنی استطاعت خود لگائیں دین کی خاطر اور ڈریں اس وقت سے جب اللہ رب العزت کے سامنے جواب دینا ہے۔
اللہ پاک سمجھ اور عقل کی توفیق عطا فرماۓ! آمین یا رب العالمیں۔