ردم ذوالقرنین ممکنہ طور پر کب زمین بوس ہوئی؟ تحریر مبین قریشی
میں پچھلی پوسٹس میں واضح کرچکا کہ ذوالقرنین کون تھے؟ کب گزرے اور انکی حکومت کہاں کہاں تک پھیلی ہوئی تھی؟ یہ بھی واضح ہوچکا کہ سورہ الکہف میں مزکور درے پر کھڑی کی گئی ردم ( اوٹ) کوہ قاف کے پہاڑی درے داریال میں بنائی گئی تھی۔ آج وہ ردم وہاں اس درے میں موجود نہیں ہے بلکہ ذیادہ سے ذیادہ اس درے میں ایک موڑ کے ساتھ جہاں راستہ انتہائی تنگ ہوجاتا ہے وہاں کچھ آثار سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ غالباً وہ ردم درے کے اس تنگ موڑ پر بنائی گئی تھی۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ ردم کب زمین بوس ہوئی؟ اس کا یقینی علم تو ابھی تک حاصل نہیں ہوسکا تاہم میں آپکے سامنے کچھ شواہد رکھتا ہوں جن کی بنیاد پر گمان غالب کی حد تک کوئی نتیجہ شائد نکالا جاسکے۔
تیمور لنگ کی فتوحات ( ۱۳۷۰-۱۴۰۵) کے وقت درہ ء داریال کسی لوہے اور تانبے کی دیوار سے بند نہ تھا۔ وہ سمرقند سے بحیرہ قزوین کے مشرقی علاقے فتح کرتے کرتے موجودہ روس کے علاقوں میں داخل ہوا۔ جاتے وقت اس نے دربند کے مقام پر پتھروں والی دیوار کا مشاہدہ کیا تھا۔ واپسی پر وہ دوسرے راستے یعنی درہ داریال سے باہر نکل کر تبریز میں داخل ہوا۔ اس درے میں اگر اس وقت کوئی آہنی دیوار ہوتی تو یقینا اسکا راستہ روکتی۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ دیوار جیسے آج موجود نہیں ہے ویسے ہی خلافت عباسیہ کے اختتام سے پہلے ہی کبھی منہدم ہوچکی تھی۔
ہمیں صحیح احادیث سے پتہ چلتا ہے کہ رسول اللہﷺ کے دور میں ہی اس لوہے کی دیوار میں شگاف پڑ چکے تھے۔ رسول اللہ کو رویاء میں اسکی حالت دکھائی گئی اور جب آپ بیدار ہوئے تو آپکے چہرہ مبارک پر افسردگی تھی اور آپ نے فرمایا کہ فتح الیوم ردم یاجوج و ماجوج مثل ھذہ وحلق باصبعہ الابھام ( بخاری و مسلم) کہ یاجوج و ماجوج کے لئے ذوالقرنین نے جو ردم تعمیر کی تھی اس میں شگاف ہوچکا ہے۔ اس صحیح حدیث کی روشنی میں عقدہ کھلنا شروع ہوجاتا ہے۔ ۵۰۰ قبل مسیح کا خام لوہا ( کچا گارا) آج کی ٹیکنالوجی کے میعار کا اسٹین لیس سٹیل تو نہیں تھا۔ پھر پتھروں میں بارش ، دو سمندروں کے درمیان آبی بخارات والی فضاء، اور موسمی تغیرات کو برداشت کرنے کی طاقت ذیادہ ہوتی ہے لیکن لوہا ہزار سال تک ( رسول اللہ ﷺ کے وقت تک اس دیوار کو بنے تقریباً گیارہ سو سال ہوچکے تھے) ان چیزوں کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔ بلکہ وقت گزرنے کے پر ایسے ماحول میں زنگ آلود (rust) ہونا شروع ہوجاتا ہے۔ پہاڑی علاقوں میں بالخصوص بارش ، ہوا ، رطوبت لوہے میں ریڈوکس (Redox) پیدا کردیتی ہے۔ اسلئے اپنی تعمیر کے گیارہ سو سال کے اندر یہ آہنی دیوار اس قدر گل سڑ چکی تھی کہ اس میں شگاف پیدا ہوگئے۔ ایک دیو قامت آہنی دیوار کو اس قدر گلنے سڑنے کہ اس میں شگاف پیدا ہوجائے تو ضرور اتنا لمبا عرصہ لے سکتی ہے مگر ایک دفعہ اس میں سڑانگ (Corrosion) پھیل جائے تو پھر اسکے مزید گلنے سڑنے میں مزید ہزار سال نہیں لگتے۔ سورہ الکہف کی آیت ۹۸ میں لفظ ” دکاء” سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ دیوار گل سڑ جانے کے بعد ایک دھچکے سے گری ہوگی۔ اس زاویے سے جارجیا کی تاریخ کا اگر مطالعہ کیا جائے تو اسکی آج تک کی معلوم تاریخ کا سب سے بڑا زلزلہ جو ماجوجی (Tmogvi) کہلاتا ہے ۱۰۸۸ء میں آیا۔ یہ رسول اللہ ﷺ کی طرف سے دیوار میں شگاف والی خبر کے تقریباً ساڑھے چار سو سال کا عرصہ ہے۔ یہ زلزلہ ۲۲ اپریل ۱۰۸۸ ء کو اتوار کے روز ایسٹر کے دن آیا اور اسقدر شدید تھا کہ جارجیا کے لوگ ایک سال تک گاہے گاہے اسکے آفٹر شاکس محسوس کرکے ذہنی مرض کا شکار رہے۔ یہ ماجوجی کے نام سے اسلئے منسوب ہوا کہ اس نے نہ صرف جارجیا کو عمارتوں کے قبرستان میں بدلا بلکہ اسکا مضبوط ترین قلعہ ماجوجی بھی اس سے مسمار ہوگیا۔ زلزلے اور قلعے کا نام وہاں کی نسل ماجوج قوم کی نسبت سے بھی کیسا معنی خیز ہے۔ بابرکت ہفتے کے آخری دن یعنی اتوار اور ایسٹر کے روز آنے والے اس زلزلے سے جارجیا میں مشہور ہوگیا تھا کہ مسیح علیہ سلام کا شائد ظہور ہونے جارہا ہے۔
زلزلے کا یہ سال وہی سال ہے جب فاطمی اسماعیلی خلیفہ ابو منصور نزار العزیز باللہ ( پانچواں خلیفہ) شام اور فلسطین فتح کرلینے کے بعد مسلمانوں کو کنٹرول کرنے کے لئے تمام سرکاری عہدے یہودیوں اور عیسائیوں میں بانٹ رہا تھا۔ اسی سال فاطمیوں نے یروشلم کا گورنر ایک یہودی ابن ابراھیم کو مقرر کیا تھا۔ باقی وزراء بھی یہودی اور عیسائی تھے۔ اسکندریہ اور یروشلم کے کلیسا میں خلیفہ ابو منصور کی عیسائی بیوی کے ہی دو بھائی بطور راھب اعظم مقرر ہوئے۔ فاطمیوں کی حکومت افریقہ سے ہوتے ہوئے شام اور مکہ سے یمن تک پھیلی ہوئی تھی جو عباسی حکومت کی خون کی دشمن تھی اور عباسی ان کے خون کے پیاسے۔ جبکہ تین سو سال پہلے یہ دونوں بطور اتحادی عربوں کے خون کے پیاسے تھے۔ بالاخر پھر ان کے کرتوتوں کے عوض ان پر یورپ سے صلیبی جنگوں کی صورت میں یاجوج اور ماجوج کا عذاب آیا۔ اس زلزلے کے پورے گیارہ سال بعد یعنی جولائی ۱۰۹۹ میں بیت المقدس مسلمانوں کے ہاتھوں سے نکل کر صلیبیوں کے ہاتھوں میں جا چکا تھا۔