رضی اللہ عنھم تحریر:قاری حنیف ڈار
رضی اللہ عنھم
تحریر:قاری حنیف ڈار
سب سے پہلے یہ آیت سورہ بینہ میں نازل ھوئی جہاں یہ اھل کتاب کافروں اور مشرکین کافروں کے بالمقابل نازل ھوئی ،
إن الذين كفروا من أهل الكتاب والمشركين في نار جهنم خالدين فيها أولئك هم شر البرية ۔آیت 6
بےشک جن لوگوں نے کفر کیا اھل کتاب میں سے اور مشرکین مکہ میں سے یہ لوگ جھنم میں جائیں گے اور اس میں ہمیشہ رہیں گے یہ ھیں وہ لوگ جو بدترین مخلوق ہیں ۔
اس کے بعد اگلی آیت میں ھر ایمان اور عمل صالح والے کو لایا گیا ہے ،
إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ أُوْلَئِكَ هُمْ خَيْرُ الْبَرِيَّةِ
جَزَاؤُهُمْ عِندَ رَبِّهِمْ جَنَّاتُ عَدْنٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا رَّضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ ذَلِكَ لِمَنْ خَشِيَ رَبَّهُ
بے شک جو لوگ ایمان لائے اور اعمال صالحہ کیئے ،یہ لوگ ہیں جو بہترین مخلوق ہیں ،
ان کا بدلہ ان کے رب کے پاس باغات کی صورت ہے کہ جن کے دامن میں نہریں بہتی ھونگی ھمیشہ ھمیش ان میں رھا کریں گے ، اللہ ان سے راضی ھوا اور وہ اللہ سے راضی ھوئے ( یہ جزاء پا کر ) یہ جزاء ھر اس شخص کے لئے ھے جو اپنے رب سے ڈر گیا
اس کے بعد یہ آیت صلح حدیبیہ میں بیعت کرنے والے چودہ سو صحابہؓ کے بارے میں نازل ھوئی ،،جو کہ درجِ ذیل ھے ۔
لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ إِذْ يُبَايِعُونَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ فَعَلِمَ مَا فِي قُلُوبِهِمْ فَأَنْزَلَ السَّكِينَةَ عَلَيْهِمْ وَأَثَابَهُمْ فَتْحًا قَرِيبًا (18۔فتح)
تحقیق اللہ راضی ھو گیا ایمان والوں سے جب انہوں نے بیعت کی آپ سے درخت کے نیچے ،بس اللہ نے جان لیا جو کہ ان کے دل میں تھا چنانچہ نازل کی سکینت ان پر اور بدلے میں دی ایک قریب کی فتح ۔
رضا کا یہ سرٹیفیکیٹ صرف ان صحابہؓ کا طرہ امتیاز ھے جس میں اور کوئی بھی قیامت تک شریک نہیں ھو سکتا چاھے وہ اس وقت مکے میں تھا یا مدینے میں ۔ اسی لئے اس سورت میں واضح کر دیا گیا ھے کہ آنے والے اس غزوے میں کہ جس میں بہت سا مال غنیمت ملے گا ان چودہ سو کے علاوہ اور کوئی نہیں جائے گا ، جو کہ غزوہ خیبر تھا اگرچہ دوسرے لوگ جانے پر اصرار بھی کریں ۔
یہی 1400 محمد رسول اللہ والذین معہ ہیں اس میں قیامت تک ایک بندہ مزید داخل نہیں کیا جا سکتا ، اور انہی چودہ سومیں سے وہ لوگ ہیں جن کی نشانیاں تورات و انجیل میں بھی بیان کی گئ ہیں ،، اور یہی وہ لوگ ہیں جو اشداء علی الکفار رحماء بینھم ھیں ،،
-(مُّحَمَّدٌ رَّسُولُ اللَّهِ وَالَّذِينَ مَعَهُ أَشِدَّاء عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاء بَيْنَهُمْ تَرَاهُمْ رُكَّعاً سُجَّداً يَبْتَغُونَ فَضْلاً مِّنَ اللَّهِ وَرِضْوَاناً سِيمَاهُمْ فِي وُجُوهِهِم مِّنْ أَثَرِ السُّجُودِ ذَلِكَ مَثَلُهُمْ فِي التَّوْرَاةِ وَمَثَلُهُمْ فِي الْإِنجِيلِ كَزَرْعٍ أَخْرَجَ شَطْأَهُ فَآزَرَهُ فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوَى عَلَى سُوقِهِ يُعْجِبُ الزُّرَّاعَ لِيَغِيظَ بِهِمُ الْكُفَّارَ وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ مِنْهُم مَّغْفِرَةً وَأَجْراً عَظِيماً) (الفتح 29 )
اس کے بعد یہ آیت سورۃ توبہ میں ۱۰۰ ویں نمبر پر نازل ہوئی ہے ،، جس میں رضا صرف السابقون الاولون مہاجرین اور انصار صحابہؓ کو دی گئ ھے ، باقی صحابہ اورقیامت تک آنے والے عام مومنین کی رضا کی ان السابقون الاولون کی پیروی کے ساتھ مشروط کر دیا ھے ، اس میں صحابی اور غیر صحابی کی کوئی تفریق نہیں ،، ھر صحابی کے ساتھ رضی اللہ عنہ بعد میں ٹھوکا گیا ھے اور کیوں ٹھوکا گیا ھے وہ آگے چل کر بیان ھو گا ۔۔
وَالسَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنصَارِ(( وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُم بِإِحْسَانٍ )) رَّضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ وَأَعَدَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي تَحْتَهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا ۚ ذَٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ (100)
اور اگلی ہی آیت میں یہ بھی فرما دیا ھے کہ مدینے اور اس کے ارد گرد رھنے والے سارے ہی رضی اللہ عنھم نہیں ھیں بلکہ ان میں ماھر منافقین ہیں جن کوآپ نہیں پہچان سکتے ھم ان کو جانتے ہیں ، سوال یہ ھے کہ جن منافقین کو رسول اللہ جیسی صاحبِ بصیرت اور صاحبِ وحی ہستی نہیں پہچان سکتی اگرچہ وہ کب سے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ رہ رہے تھے تو چار دن کسی راوی کے ساتھ رہ کر یا سو سال پہلے کی اس کی تعریف سن کر کوئی کیسے تعین کر سکتا ھے کہ وہ معصوم اور ثقہ ہے ؟
( وممن حولكم من الأعراب منافقون ومن أهل المدينة مردوا على النفاق لا تعلمهم نحن نعلمهم سنعذبهم مرتين ثم يردون إلى عذاب عظيم) (101 ۔توبہ)
آپ کے ارد گرد کے بدو اور مدینے والوں میں ماھر منافق ہیں جن کو آپ نہیں جانتے مگر ھم جانتے ہیں ۔ ھم ان کو دو دفعہ عذاب دیں گے اور آخرت کے عظیم عذاب کی طرف لوٹائے جائیں گے ۔
صحابہ ایک دوسرے کو موجودگی یا عدم موجودگی میں کبھی بھی حضرت یا رضی اللہ عنہ نہیں کہتے تھے سیدھا نام سے پکارا کرتے تھے اور عدم موجودگی میں باپ کا نام بھی ساتھ بول دیا کرتے تھے یا کنیت سے بلاتے تھے ،
بعد میں جب فرقے بن گئے تو دوسری صدی میں فرقوں کی پہچان کے لئے ترضی اور تسلیم کو سیاسی بنیاد پر اختیار کیا گیا ، مثلا اگرآپ صحابی کے ساتھ رضی اللہ عنہ بولیں گے تو سمجھا جائے گا کہ ٓپ اھل سنت میں سے ہیں ،خوارج میں سے نہیں کیونکہ خوارج صحابہ پر ترضی نہیں کرتے تھے ، اگرآپ صحابی کے لئے علیہ السلام کا صیغہ استعمال کرتے ہیں تو اس کا مطلب ھے کہ آپ شیعہ ہیں ، اور اب بھی آپ حضرت علیؓ یا حضرت فاطمہؓ کے ساتھ علیہ السلام یا علیہا السلام لکھ دیجئے تو لوگ کہتے ہیں کہ دیکھا اس کے اندر کا رافضی باھر ٓ گیا ہے ، حد یہ ہے کہ امام بخاری کی طرف سے حضرت علیؓ کے ساتھ علیہ السلام لگانے پر شیعہ ھونے کا شک کیا گیا اور شارحین نے اس کی کئ صفائیاں پیش کی ہیں .
سعودی عالم شیخ صالح بن عبد العزیز آل الشیخ نے صراحت کی ہے کہ صحابہ کرام کی عظمت و احترام کا مسئلہ عقائد میں شامل نہیں لیکن مخالف فرقوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اِس مسئلے کو بھی عقائد میں داخل کیا گیا ہے، وہ مزید وضاحت کرتے ہیں کہ مخالف فرقوں کے مقابلے میں اہلِ سنت کے اپنے امتیازات ہیں، جن میں سے بعض کو اُنھوں نے اپنی عبادات اور (روز مرہ کے) کلام میں بھی شامل کر لیا، جیسے جمعہ کے اور دیگر خطبوں میں صحابہ کرام، ازواجِ نبی اور پوری آلِ رسول کے لیے "رضی اللہ” کا لگانا کیونکہ صحابہ کرام اور امہات المؤمنین کے ناموں کے ساتھ "رضی اللہ”، عہدِ رسالت میں استعمال نہیں ہوتا تھا، نہ ہی حضرات ابوبکر، عمر اور عثمان کے دور میں ایسا ہوا۔ تابعین کے زمانے کے بعد اہلِ سنت نے شیعہ، خوارج اور دیگر فرقوں کے مقابلے میں صحابہ اور ازواجِ نبی کے ناموں کے ساتھ "رضی اللہ” لگانا شروع کیا یوں یہ اہلِ سنت کی پہچان بن گیا۔
جہاں تک نبی کریم کے نام کے ساتھ درود کی بات ہے تو آپ نے اِس میں آل کو بھی شامل کرنے کا ارشاد فرمایا (صلی الہ علیہ و آلہ وسلم)، چونکہ شیعہ اور دیگر گروہ صرف نبی کریم اور آلِ نبی علیھم الصلاۃ و السلام پر ہی درود و سلام بھیجتے ہیں، اِس لیے اہلِ سنت نے اِس میں صحابہ کرام کو بھی شامل کر دیا۔۔۔
اصل عبارت ملاحظہ ہو:
فهذا الفصل ذكر فيه شيخ الإسلام الشيخ تقي الدين أحمد بن تيمية رحمه الله تعالى أصلا من أصول أهل السنة ألا وهو اعتقادهم في الصحابة رضوان الله عليهم ، وما يعقدون عليه قلوبهم وما ينطقونه بألسنتهم في أمر صحابة رسول الله صَلَّىْ اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمْ.
وأصل هذه المسألة أُدخِلَت في العقائد لأجل مخالفة من خالف فيها ، لأن أمر الجماعة قبل أن تتفرق الأمة كان على هذا الاعتقاد ،كان على اعتقاد جميع ما جاء في الكتاب والسنة من الأصول والفروع ، من القواعد والتفريعات لكن ثَمَّ مسائل ظهرت طوائف خالفت فيها۔۔۔
كانت لأهل السنة شعارا وأدخلوها في أشياء من العبادات وفي كلامهم كما فعلوا في إدخال الترضّي عن الصحابة و الترضي عن أمهات المؤمنين والترضي عن جميع الآل في خطبة الجمعة وفي غيرها من الخطب ، فإن إدخال الترضي عن الصحابة وعن زوجات النبي صَلَّىْ اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم ْلم يكن بالأمر الأول ، لم يكن في عهده عليه الصلاة والسلام ولا في عهد أبي بكر وعمر ولا في عهد عثمان ، ثم بعد ذلك الأئمة من التابعين فمن بعدهم أدخلوا هذا الترضي وأدخلوا هذا الشعار لأنه صار شعارا لأهل السنة في مقابلة غيرهم من الروافض والخوارج والنواصب ومن شابه اولئك .
كذلك في مسألة الصلاة على النبي صَلَّىْ اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمْ، الأصل فيها أن الصلاة عليه ، عليه الصلاة والسلام وعلى آله كما جاء ذلك مبينا في حديث أبي حميد وغيره في الصحيحين وغيرهما فإن النبي صَلَّىْ اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمْ علمهم أن تكون الصلاة عليه وعلى آله ، فأدخل أهل السنة إذا ذكروا الصلاة عليه ، عليه الصلاة والسلام ، وأرادوا أن يذكروا الآل ، أدخلوا معهم الصحابة ، فقالوا صلى الله عليه وعلى آله وصحبه ولم يقتصروا على الآل ، وهذا عند أكثر أهل السنة لأجل ألا يشابهوا الرافضة والشيعة في توليهم للآل دون الصحب .
(الَّلآلئ البهية في شرح العقيدة الواسطية، جلد 2، صفحہ 410-4111، مطبوعہ ریاض، سعودیہ 2010ء)