قرآن کن عورتوں کی تأدیب(مار پیٹ) کی اجازت دیتا ہے ! تحریر مبین قریشی

قرآن کن عورتوں کی تأدیب(مار پیٹ) کی اجازت دیتا ہے !

( محترم برادر مبین قریشی کی بہترین کاوش )

ملحدوں نے سینکڑوں کی تعداد سے اردو پیج بنا کر مذھب کے خلاف جنگ کو ہمارے معاشرے میں اور ہماری ہی زبان میں جاری کر رکھا ہے۔ دوسری جانب ہمارا رویہ یہ ہے کہ گویا جس نے ملحد بننا ہے وہ لاکھ بنتا رہے مگر ہم نے قرآن سے کئے گئے اسلاف کے استنباط کو ہی اسلام کی واحد نمائندہ تعبیر تسلیم کرنا ہے۔ گویا جس کسی نے مسلمان رہنا ہے وہ اسی تعبیر سے جڑا رہے اور جسکو اعتراضات ہیں وہ اپنی جو راہ چاہے وہ راہ ناپ لے۔ اس صورت حال میں جو لوگ مقابلے کے لئے اترتے ہیں تو چونکہ انھیں دین کا صحیح ماخذ بھی بتانا ہوتا ہے اور ظنی ماخذوں کا مقام بھی بتلانا ہوتا ہے اور ساتھ ساتھ دین ( قرآن اور سنت) کا مطالبہ اور پھر اس مطالبے سے کئے گئے استنباط کا فرق بھی سامنے رکھنا ہوتا ہے ، اسلئے چند احباب ملحدوں کو تو نظر انداز کردیتے ہیں لیکن انکے مقابلے میں اترنے والے اپنے ہی بھائیوں کو فتوے کے سینگوں پر دھر لیتے ہیں۔ الحاد مغرب کو فتح کرتا ہوا ہمارے معاشرے میں گھس چکا ہے۔ اسکا مقابلہ نہ عیسائیت کرسکتی تھی اور نہ کوئی اور مذھب ۔ اسکا فطری مقابلہ اسلام ہی سے بنتا ہے، اور آنے والے سالوں میں یہ مقابلہ صرف انھی دو فریقوں کے درمیان مرکوز ہونے جارہا ہے۔ ہم لوگوں کے لئے بہت ضروری ہے کہ دین اور دین سے کئے گئے استنباط کے فرق کو سامنے رکھیں ۔ اسلاف کے استنباط پر بھی جہاں جہاں نظر ثانی کی ضرورت ہے وہاں کی جاسکتی ہے۔ استنباط کا جتنا حق انھیں تھا اتنا ہی ہمارے پاس بھی موجود ہے ۔ ورنہ اگلی نسل ملحدوں کے سپرد کرنے کے لئے تیار ہوجائیں ۔ آج سے کچھ دہائیوں قبل تک یہ سارا الحاد انگریزی زبان میں تھا جسکی وجہ ہمارے اردو عربی جاننے والے اہل علم اس تک برآے راست رسائ نہیں رکھتے تھے۔ اب وہ سارا مواد اردو میں منتقل ہونا شروع ہوگیا ہے اور سوشل میڈیا پر اسکی بھرمار ہے اسلئے اب ہمارے اہل علم بھی اگر چاہئیں تو تسلی کرسکتے ہیں کہ جن اپنے ہی بھائیوں کے خلاف وہ فتوی گری کے مرتکب ہوتے رہتے ہیں وہ کس نئی آفت سے برسر پیکار ہیں۔ مختصرا یہ کہ؛

سکوت صحرا کے رہنے والو زرا رتوں کا مزاج سمجھو!
ابھی تو گھٹن اتنی ہوگی کہ سانس لینا عذاب ہوگا !

ملحدین کے وہ اعتراضات جو قران مقدس کے متعلق ہوتے ہیں ان میں سے ایک مشہور ترین اعتراض یہ ہے کہ قرآن مردوں کو اپنی بیویوں کو مارنے کی اجازت دیتا ہے۔ ظاہر ہے کہ وہ لوگ اس اعتراض کو اتنے سادہ لفظوں میں نہیں دھراتے، اسکے ساتھ جتنی کچھ لفاظی ہوتی ہے وہ میں نے نظر انداز کرکے صرف لب لباب بیان کردیا ہے۔ اس ضمن میں ہمارے جانب سے جو مناسب ترین جواب دیا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ قرآن نے گھر بچانے کے لئے ایک آخری حربے کے طور پر یہ اجازت دی ہے۔ مزید یہ کہ یہ اجازت بھی اپنے ساتھ کچھ پابندیاں رکھتی ہے۔ مثلاً یہ کہ چہرے پر نہیں مارا جاسکتا اور مزید یہ کہ بدن کے باقی کسی حصے پر بھی ایسا نہیں مارا جاسکتا کہ وہ بدن پر نشان چھوڑ دے۔ مزید یہ بھی کہ ایسا صرف سرکشی یعنی نشوز کی صورت میں ہی اجازت ہے۔
تاہم میں جب بھی قرآن کی تلاوت کرتے ہوے سورہ النساء کی متعلقہ آیات پر پہنچتا ہوں تو مجھے احساس ہوتا ہے کہ قرآن کا مدعا کچھ اور ہے۔ میں اپنا فہم اہل علم کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں تاکہ اگر وہ اس فہم پر اعتراض وارد کرسکیں تو یہ زاویہء نگاہ اہل علم کے علمی محاسبے سے ضرور گزرنا چاہئے۔
مذکورہ بالا اعتراض اور اسکا جواب سورہ النساء کی آیت ۳۴۴ سے پیش کیا جاتا ہے۔ قبل اسکے کہ میں اس آیت پر بات کروں ، میں چاہوں گا کہ سورہ کو شروع سے لیکر چلا جائے تاکہ اس آیت کا سیاق و سباق بھی سامنے رہے اور سورہ کا اسلوب بھی سامنے آ جائے۔ یہی دو باتیں اس آیت کو سمجھنے کے لئے فیصلہ کن حیثیت رکھتی ہیں۔ اس سورہ کو قرآن نے معاشرے کے پسے ہوے مظلوم طبقوں میں سے عورتوں اور غلاموں کے حقوق سے شروع کیا ہے۔ اسلوب یہ ہے کہ انکے حقوق اور مردوں کے فرائض بیان کئے جارہے ہیں ۔ حقوق و فرائض کی اس قانون سازی کی حکمت پہلی ہی آیت میں یہ کہہ کر بیان کردی کہ تم سب نفس واحدہ ( ایک ہی مادے) سے بنے ہو تو تم میں فرق کس بنیاد پر ہوسکتا ہے؟ تمھارے ماں باپ ایک ہی تھے تو تم میں چھوٹا بڑا ہونے کا میعار کس بات کو قرار دیتے ہو؟ یعنی تم سے کسی کو کسی پر بطور انسان کوی پیدائشی فضیلت نہیں ہے اور تم سب برابر ہو۔ اس حکمت کے بعد آیات یوں چلتی ہیں ۔
۱۱: یتیم بچے اور بیوہ عورتیں بے سہارا ہوجانے کی وجہ سے پسا ہوا طبقہ ہوتا ہے، انکے اموال کی حفاظت کا قانون۔
۲۲: عورتوں کا بھی مردوں کی طرح وراثت میں حق اور اسکا قانون ۔ بلکہ تقسیم کے موقع پر باقی یتیم اور نادار رشتہ داروں کا خیال رکھنے کی ترغیب ۔
۳۳: اب کیونکہ اخلاق پر مبنی معاشرہ قائم ہورہا ہے جس میں فحاشی کی حیثیت بنیادی گناہ اور جرم دونوں کی ہے اسلئے غیرت اور اخلاق کا بہانہ لیکر کہیں جبلتوں کے زور سے سرزد ہونے والا گناہ اور جرم کسی کمزور کی جان نہ لے لے ۔ کیونکہ جرم کے بعد انسان کمزور پوزیشن پر کھڑا ہوجاتا ہے اسلئے اس جرم کی آخری درجہ کی سزاوں کا قانون ۔ فحاشی کو کاروبار بنانے والیوں کا جرم ثابت ہونے کی شرائط کا قانون جسکے بغیر ان پر ہاتھ ہی نہیں ڈالا جاسکتا، انکے علاوہ عام لوگوں سے جبلت کی وجہ سے کبھی اس جرم کے سرزد ہوجانے پر قانون اور انھیں مجرم ثابت کرتے ہوے بھی مزاج میں آخری درجہ کی رعایت کی تلقین ۔
۴۴: بیویوں کو اگر ڈھیروں مال بھی دے دیا ہو اور پھر کبھی بات طلاق تک پہنچے تو وہ مال واپس نہ ہونے کا قانون۔ تاہم اگر وہ علیحدگی بیوی کی فاحشہ مبینہ کی وجہ سے ہورہی ہے تو اس پر بھی طلاق تک جانے کی بجاے بھلے طریقے سے مل رہنے کی سفارش ۔ لیکن اگر اس بیوی کی فاحشہ مبینہ ایسی تھی کہ آپکو کراہت ہونے لگی ہے تو اس پر بھی سفارش اور پھر قانون۔
۵۵: بدوں میں سے کچھ لوگ اتنے پست تھے کہ وہ باپ کے مرنے کے بعد اپنی ماں کے علاوہ باپ کی دوسری بیویوں کو اپنے لئے وراثت کا مال سمجھ کر بانٹ لیتے تھے۔ اس رسم پر شدید تنقید اوران بیوہ خواتین کی عصمت کا قانون۔ ضمنا محرمات کو گنوا دیا گیا اور اسکے بعد کہا گیا انکے علاوہ باقی کسی بھی عورت سے نکاح کرسکتے ہو۔ لیکن اس نکاح کا بھی قانون یہ ہے کہ محصنین غیر مسفحین۔ یعنی محض عورت کو شہوت کا زریعہ سمجھ کر کوئ نکاح نہیں ہوتا بلکہ اس سے گھر اور خاندان آباد کرنے ہی کی علت سے اگر نکاح ہو تو وہ نکاح قبول ہوتا ہے۔ اور پھر اس قانون کے ساتھ انکے مہر کے حق کے قانون کا بیان ۔

درج بالا پانچ نکات سورہ النساء کی پہلی ۲۴ آیات کا خلاصہ ہے۔ اسکے بعد وہ مضمون شروع ہوگا جسکے ضمن میں مذکورہ آیت نمبر ۳۴ بھی آے گی۔ آگے کی آیات تھوڑی تفصیل طلب اور میری پوسٹ کا اصل مقصد ہیں اسلئے ان پر تفصیلی بحث حصہ دوم میں ہوگی ۔ اگلی آیات میں بھی آپ انشآاللہ دیکھیں گے کہ قرآن کس طرح ایک پسے ہوے طبقے کو گھر فراہم کررہا ہے اور جب تک غلامی ختم نہیں ہوجاتی ان میاں بیوی کے لئے کیسے قانون سازی کررہا ہے

آیت ۲۴ تک ہم نے دیکھ لیا تھا کہ قرآن پسے ہوے کمزور طبقے مثلاً یتیم، بیوہ عورتیں اور بالعموم خواتین کی پشت پناہی پر کیسے کھڑا ہوا اور اس نے کیسے پوری معاشرت کو انکے حق میں قانون سازی کرکے بدل دیا۔ مزید یہ بھی کہ فحاشی کا جرم ایسا ہوتا ہے کہ جس میں ایک خاتون بھی ملوث ہوجاتی ہے۔ اس جرم کے ثابت ہوجانے پر ملزمہ ایک کمزور پوزیشن پر چلی جاتی ہے، قرآن نے یہاں بھی مداخلت کرکے رویوں میں تبدیلی پر زور دیا اور یہ بھی کہ اگر سزا دینا ناگزیر بھی ہو تو متعلقین کے غیض و غضب کے پیش نظر آخری درجہ تک کی سزا خود مقرر کرکے انھیں پابند کردیا۔
اسکے بعد اس معاشرے کے ایک اور پسے ہوے کمزور طبقے یعنی غلاموں اور لونڈیوں کو لیا۔ غلاموں کو آزاد کرنے کا سلسلہ تو مکہ کے ابتدائی دور سے شروع تھا ۔ مکہ میں سب بڑی مالی عبادت کسی غلام کو آزاد کروانا ہی تھا۔ اسلئے مالدار صحابہ نے اس عمل میں اپنی بساط کے مطابق بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ یہ عمل مدینہ میں بھی جاری رہا۔ حتی کہ قرآن نے مزید آگے بڑھ کر غلاموں کی آزادی کے لئے قانون سازی بھی کی۔ اسطرح مرد غلام ایک اچھی خاصی تعداد میں آزاد ہوتے چلے گئے۔ اس طرح جو غلام آزاد ہوتے وہ آزاد کرنے والے شخص کے خاندان کا حصہ تصور کئے جاتے۔ اس رشتہ کو ولاء اور آزاد ہونے والے شخص کو "مولی” جمع ” موالی” کہا جاتا۔ غلام کے پاس بعض اوقات یہ اختیار بھی ہوتا کہ وہ اپنی ولاء سابق مالک کی بجاے کسی اور سے قائم کرلے، اس رشتے کو "ولاء بالعتق” کہا جاتا تھا۔ ولاء کے اس رشتے سے سابق مالک کو ایک فائدہ تو یہ ہوتا کہ بعض مرتبہ وہ آزاد ہونے والے شخص سے کچھ رقم متعین کرلیتا جو اسے آزاد ہوکر کمانے کے بعد کچھ مدت تک پچھلے مالک کو دینا ہوتی تھی اور وہ آذاد کردہ غلام کی موت کی صورت میں اسکی وراثت میں بھی ماں باپ کا حصہ وصول کرتا تھا۔ آزاد کردہ غلام کو اسکا فائدہ یہ ہوتا کہ وہ اسی خاندان کا حصہ سمجھا جاتا اور اسکی حفاظت یا کسی جرم کی صورت میں تاوان وغیرہ آزاد کرنے والے قبیلے کے ذمہ ہوتا تھا۔ یہ بالکل آجکل کی انشورنس کی طرح کی کفالت ( تکافل) کا معاہدہ ہوتا تھا۔ تاہم معاشرتی طور پر لوگوں کی نفسیات ایک دن میں نہیں بدل سکتیں۔ اسلئے آزاد عورتیں ان موالیوں سے شادی کرنا معیوب اور کسر شان سمجھتی تھیں ۔ رسول اللہ نے اپنی قریبی ترین رشتہ دار اور اعلی درجہ کی متقی خاتون کے زریعہ بھی ایک تجربہ کیا مگر وہ رشتہ بھی پنپ نہ سکا۔ اسی طرح جب عرب شعراء میں سے ابوالبجیر اور عبدالقیس نے جب اپنی بیٹیوں کی شادی اپنے موالی سے کی تو انکی باقاعدہ ہجو کہی گئ۔

لونڈیوں کے ساتھ دو قسم کے مسائل تھے۔ ایک تو انھیں آزاد کرکے انکی روٹی کپڑا مکان کا بندوبست ممکن نہ تھا۔ دوسرا انکی تربیت کے مسائل تھے۔ عموماً نوجوان لونڈیوں سے عصمت فروشی یا ناچ گانے کا کام کروایا جاتا۔ جو لوگ یہ کام نہیں کرواتے تھے انکی لونڈیوں کے بھی چوری چھپے یارانے چلتے تھے۔ وہ معاشرے کے نوجوان لڑکوں اور باقی غلاموں کے نرغے میں ہی گزر بسر کرتی تھیں ۔ وہ کیونکہ باقی غلاموں کے ساتھ ہی کام کاج کرتے پرورش پارہی ہوتی تھیں اسلئے وہ ایک گھر کے نظم کی پابندی اور رشتوں کی تقسیم وغیرہ کے لئے بھی موزوں نہیں ہوتی تھیں ۔ اسلئے ان سے شادی کرنا تو خود کو معاشرے میں بالکل رسوا کردینے والا معاملہ تھا۔
عورتوں کو آزاد کروانے کا کام تو مدینہ میں آکر ہی ممکن تھا۔ لیکن مردوں کو آزاد کروانے کا کام مکہ کے ابتدای سالوں سے شروع ہوچکا تھا۔ مثلاً ابن سعد کی طبقات الکبری میں جن ۲۱۸ مہاجرین کا تزکرہ ہے ان میں سے ۶۱ آذاد کردہ غلام تھے۔ اور مدینہ میں جن انصار صحابہ کے نام لکھے گئے ہیں ان میں سے ۸۶ آزاد کردہ غلام تھے۔ یعنی جنکا تذکرہ میسر ہوسکا انکی تعداد کا پانچواں حصہ آزاد کردہ غلاموں پر مشتمل ہے۔ اور مہاجرین کا ۲۸ فیصد انھیں لوگوں پر مشتمل ہے۔ غلام کچھ ایسے نامور لوگ نہ ہوتے تھے کہ اس معاشرے میں انکا تذکرہ زبان زد عام ہو جو بعد کی تاریخ کا حصہ بن سکے۔ تاہم بعد میں ان لوگوں نے تمام بڑے بڑے علمی عہدے سنبھالے تو انکا تذکرہ میسر ہونے لگا۔ لیکن روایات اور آثار سے اندازہ ہوتا ہے کہ سورہ النساء کے نازل ہونے تک انکی تعداد بقیہ مسلمانوں کی تعداد کا کم و بیش تیسرا یا چوتھا حصہ تو ضرور تھی۔ اور جیسا اپر عرض کیا کہ آذاد خواتین ان سے شادی نہیں کرتی تھیں۔ اسطرح اسلامی معاشرے کا یہ ایک بڑا حصہ تھا جو مسلمان ہوجانے کے بعد زنا بھی نہیں کرسکتا تھا اور انکے لئے گھر کی سہولت بھی میسر نہ تھی۔
درج بالا پس منظر میں قرآن نے اس معاملے کو اٹھایا اور ان لوگوں کو مومنہ لونڈیوں کے ساتھ شادی کرنے کی ترغیب دی۔ جسکے نتیجہ میں انکا مزکورہ جبلی مسئلہ حل ہوجانا تھا اور لونڈیوں کے لئے آزادی کے بعد کے حالات کا حل نکل آنا تھا۔ سورہ النساء کی آیت ۲۶ ( پچھلی پوسٹ) کے بعد کی آیات انھیں مومن موالیوں اور لونڈیوں کے متعلق ہیں ۔ ان آیات میں قرآن نے ان سے عقد موالات کرکے آذاد کرنے والے مسلمانوں کو تنبیہ کی کہ وہ عقد موالات کی شرائط کے زریعے کوی ایسا کام نہ کریں کہ کسی کا مال باطل طریقہ سے کھانا بنتا ہو۔ اس معاملے میں نرمی کے عوض انکے گناہ معاف کردینے کی بشارت دی۔ جیسا کہ پہلے بتایا کہ آزاد لوگوں کا لونڈیوں سے شادی کرنا تو ایک محال امر تھا ہی ، غلام بھی کیونکہ ایک دوسرے کے رازوں سے واقف ہوتے تھے اسلئے انکے لئے بھی انھیں اپنی بیویاں بنا لینا ایک بڑا نفسیاتی اور معاشرتی مسئلہ تھا۔ موالی مومنوں کو یاد کروایا کہ تم سب ایک ہی گروہ کے لوگ ہو اسلئے اللہ تم سب کے ایمان سے واقف ہے۔ یہی ایک واحد رستہ ہے کہ آزاد کردہ غلاموں کے زریعہ لونڈیوں کی آزادی کا بندوبست بھی کیا جاے اور ان کی جبلی ضرورتوں کے پورا کرنے کا بندوبست کرکے زنا کا رستہ بھی بند کیا جاے۔ اس پوری حکمت کو پیش نظر رکھئے اسکے تناظر میں ہی اگلی آیات سمجھ آئیں گی۔ آپ دیکھیں گے کہ جن عورتوں کو شادی کے بعد قرآن نشوز ( متخذات الاخدان ۔ چوری چھپے یارانے) پر شوہر کو ہلکی پھلکی مار کا حق دیا ہے وہ یہی موالی مومنین اور انکے عقد میں آنے والی آزاد کردہ لونڈیاں ہیں
بیان کردہ معاشرے کا پس منظر ذھن میں رکھئے اور آئیے اب سورہ النساء کی آیت ۲۴ کے بعد کی ایک ایک آیت پر غور کرتے ہیں ۔ آپ غور کرتے جائیے گا کہ کیا یہ آیات آزاد مرد و عورت کے متعلق ہیں یا پھر اس دور کے آزاد کردہ غلام اور لونڈیوں کے متعلق ہیں ؟

آیت ۲۵: لونڈیوں سے نکاح ، انکا مہر، مقصد نکاح ، نکاح کے بعد بدکاری ہوجانے کی سزا کے احکام :
و من لم یستطع منکم طولا ان ینکح المحصنت المومنات فمن ما ملکت ایمانکم من فتیتکم المومنات۔ واللہ اعلم بایمانکم ، بعضکم من بعض ۔
اور جو تم میں سے ان عورتوں جو خاندان اور رشتوں کے حصار میں ہوتی ہیں ( محصنات) سے نکاح کی وسعت و قدرت نہیں رکھتے، انھیں چاہئے کہ وہ تمھاری ملک یمین ( لونڈیوں) سے جو مومنہ لڑکیاں ہوں ان سے نکاح کرلیں۔ اللہ تمھارے ایمانوں کا حال خوب جانتا ہے کہ تم سب ایک ہی قبیل کے لوگ ہو۔
آخری جملے کا پس منظر پچھلی پوسٹ میں واضح کیا کہ ان لونڈیوں کے پس منظر کی وجہ سے آزاد لوگ تو درکنار آزاد کردہ غلام بھی ان سے شادی کا رجحان نہیں رکھتے تھے کیونکہ ایمان لانے سے پہلے کی انکی ہسٹری طعنہ کا سبب بنتی تھی۔ یہ ایک نفسیاتی اور معاشرتی مسئلہ تھا۔ واقفان حال جانتے ہیں کہ اسطرح کے طعنوں نے ختم ہونے یا مانند پڑنے میں بھی بعد ازاں کتنا وقت لیا۔ اسی لئے ایک تو ان لونڈیوں کے مومنہ ہونے کی شرط بھی لگای اور ساتھ ان آزاد کردہ مومن غلاموں کو بھی باور کروایا کہ تم سب ایک ہی قبیل کے لوگ تھے، ایمان لانے کے بعد بھی اللہ تمھارے ایمانوں سے خوب واقف ہے۔
فانکحوھن باذن اھلن ؛ وہ کیونکہ آزاد خواتین نہیں ہیں کہ جس عاقل بالغ مرد و عورت کی باہمی رضامندی ہو نکاح کرلیں ۔ لہذا انکے سرپرستوں ( اھل) کے اذن سے ہی ایسا ممکن ہوگا۔ ان سرپرستوں کے اذن کو ذھن میں رکھئے گا کیونکہ آگے چل کر طلاق کے وقت بھی انکی سرپرستی کا ذکر آئیے گا جسے کچھ لوگوں نے سیاق و سباق کو نظر انداز کرکے آزاد لوگوں کی طلاق کی شرط بھی بنا دیا ہے۔
واتوھن اجورھن بالمعروف: اور معروف کے مطابق انکا مہر ادا کرو۔ یہ پابندی پچھلی آیات میں آذاد خواتین کے معاملے میں جہاں کہیں بھی آی ہے ساتھ ہی یہ استثناء بھی آیا ہے کہ اگر آپس کی رضامندی سے تمھارے درمیان کوی سمجھوتہ ہوجاے تو پھر اس میں کوی حرج نہیں۔ لیکن لونڈیوں کے معاملے میں یہ استثناء اسلئے بیان نہیں ہوا کیونکہ انکی مہر کی رقم انکے مالکان بطور عقد ولاء اور عقد تکافل رکھتے تھے۔ اسلئے آذاد کردہ لونڈی کے پاس اسکے متعلق کچھ خود سے سمجھوتہ کرنے کا اختیار نہ ہوتا تھا۔ عرب دنیا میں اب بھی یہ رقم والدین ہی لیتے ہیں۔
محصنت غیر ممسفحت ولا متخذات الاخدان : انھیں نکاح کے بعد رشتوں کے حصار ( محصنات) میں رہنا ہوگا اور اسکا مقصد بھی رشتہ ازدواج قایم کرنا ہی ہوگا نا کہ محض جبلی ضرورت کی شہوت رانی۔ اور نہ ہی یہ اس نکاح کے حصار میں آنے کے بعد چوری چھپے آشنائیاں کرتی پھریں گی۔ آیت ۲۴ میں آزاد عورتوں کے لئے متخذات الاخدان ( چوری چھپے آشنائیاں رکھنا) کا ذکر نہیں ہوا محض پہلی دو شرطیں بیان ہوئیں ہیں ، کیونکہ یہ تیسری خصلت جیسا کہ پہلے عرض ہوچکا کہ ان لونڈیوں کے معاملے میں عام سی بات تھی۔ آزاد عورتوں کے معاملے میں اسطرح کی فحاشی وغیرہ کا رواج اس معاشرے میں بھی نہ تھا جنھیں رسول کی ضرورت تھی۔ اس لفظ کو بھی یاد رکھئے گا کیونکہ آگے چل کر اسی کے معاملے میں نشوز کے متعلق وہ آیت آئے گی جسکے لئے میں یہ پوسٹس لکھ رہا ہوں۔

فاذا آحصن فان اتین بفاحشہ فعلیھن نصف ما علی المحصنت من العذاب۔

پھر جب انھیں لونڈیوں سے اٹھا کر رشتوں کے حصار میں لایا جا چکے، یعنی نکاح کرکے بطور بیوی رشتے میں بندھ چکیں ، اور اسکے بعد زنا کی مرتکب ہوں تو انکی سزا آزاد عورتوں کے مقابلے میں آدھی ہوگی۔ یہ قانون ظاہر ہے کہ مجرم اور مجرمہ کے حالات کو مدنظر رکھ کر دیا گیا ہے۔ عام آزاد عورتیں پیدائش سے ہی باپ کے حصان میں ہوتی ہیں اور پھر شوہر کے حصان میں آتی ہیں ، اسلئے انکی تربیت اور ان لونڈیوں کی تربیت جو کبھی کسی کے حصان میں رہی نہ ہوں اس میں فرق ہے۔ اسلئے شادی سے پہلے کے حصان کے عدم وجود کی وجہ سے انکی سزا آدھی ہوگئی۔
ذلک لمن خشی العنت منکم، وان تصبروا خیرلکم، واللہ غفور رحیم۔ یہ قانون ان لوگوں کے لئے دیا گیا ہے جنھیں جائز جبلی سہولت میسر نہ ہونے ( غلام اور لونڈیاں) کی وجہ سے بدکاری کا اندیشہ ہو۔ یعنی ہر بوڑھے غلام اور بوڑھی لونڈی کے لئے بھی اور باقیوں کے لئے بھی جنھیں بدکاری میں پڑ جانے کا اندیشہ نہ ہو انکے لئے یہ حکم کوی فرض حکم کی حیثیت نہیں رکھتا۔ جنھیں یہ سہولت جب تک میسر نہ آسکے یا پھر وہ ویسے ہی صبر کرسکتے ہوں تو وہ صبر ہی کریں کہ ایک معاشرے میں خاندانوں کی دو طرح کی اقسام پیدا کردینا مقصود نہیں ، بلکہ حالات کے پیش نظر صبر نہ کرسکنے والوں کے لئے ایک حل پیش کیا گیا ہے۔ جیسا کہ سورہ کی پہلی آیت میں قرآن نے واضح کیا کہ تم سب ایک ہی ماں باپ کی اولاد ہو اور ایک ہی مادے سے پیدا ہوے ہو اسلئے تم میں اونچ نیچ کی کوی وجہ ممکن نہیں ۔ اللہ اور اسکا رسول چاہتے تو یہ ہیں کہ آذاد مرد لونڈیوں سے اور موالی آذاد عورتوں سے شادی کریں جسکی رسول اللہ نے حضرت زید کے معاملے میں کوشش بھی کی ہے تاکہ اسلامی معاشرت میں دو طرح کے خاندان وجود میں نہ آجائیں ۔ لیکن انسانی فطرت کا تقاضا یہ ہے کہ شہوت کی جبلت کا دارومدار بھی پسندیدگی اور ناپسندیدگی سے جڑا ہوا ہے۔ اسلئے اس ضمن میں زبردستی کا کوی بھی حکم خلاف فطرت ہوگا۔ لہذا جو تو صبر کرسکیں ، جیسے کہ بوڑھے لوگ، انکے لئے تو یہی بہتر ہے کہ صبر کرلیں ، لیکن جنکے لئے صبر ممکن نہیں ( نوجوان) تو انکے لئے حیا کی قدر کے پیش نظر جو احکام دئے گئے ہیں وہ اس دوسری قدر ( معاشرتی تفاوت میں کمی) کی نسبت ذیادہ ضروری ہیں اسلئے وہ اس حکم پر عمل کریں۔

آیت ۲۶ تا ۲۸: اس قانون کی مزید علت کا بیان کہ اسلامی معاشرت کی بنیادی قدر ” حیا” ہے جسکی ضد فحاشی یا بے حیائی ہے۔ اس ضمن میں جو معاشرتی احکام آرہے ہیں اور آچُکے ہیں ان میں نہ صرف یہ کہ بے حیائی کا خاتمہ مقصود ہے بلکہ فحاشی کے قرب کا خاتمہ ( سد ذریعہ) بھی مقصود ہے۔ ان قوانین سے عام لوگوں کی نسبت غلام اور لونڈیاں ذیادہ متاثر ہوئیں ہیں کیونکہ انکے پاس جبلی ضرورت پوری کرنے کے جائز مواقع مفقود ہیں ۔ ایمان لانے سے پہلے تو چوری چھپے یا رانوں کے ساتھ یہ ضرورت پوری کرلیتے تھے مگر آیندہ کے لئے اسکے مواقع بھی ختم ہوگئے ہیں۔ اس پس منظر میں اگلی آیات دیکھیں۔
مفہومی ترجمہ:
"اللہ چاہتا ہے کہ تم پر ( حیا کے) ان طریقوں کو واضح کرے اور ( حیا کے) انھی طریقوں پر تمھیں چلاے جنکی پیروی تم سے پہلی کی امتوں کے لوگ بھی کرتے تھے۔ وہ اپنی رحمت کیساتھ ( ان آیات کے زریعہ )تمھاری جانب متوجہ ہوا ہے اور اسکی ہر پیش کردہ بات ہمیشہ علم اور حکمت پر مبنی ہوتی ہے۔ لیکن جو لوگ بدکاری کے دھندے چلانے والے ہیں وہ چاہتے ہیں کہ تم راہ راست سے ہٹ کر بھاری کجیوں میں پڑے رہو۔ ( چونکہ اسلام کی معاشرت میں سب سے بڑی قدر حیا ہے ، جسکے آڑے انسان کی شہوت کی جبلت آتی ہے اور اسکا جائز طریقہ اللہ کے ہاں صرف نکاح ہی ہے جو تمھیں میسر نہ تھا) اسلئے اللہ چاہتا ہے کہ (حیا کی قدر کے ضمن میں )عائد پابندیوں کا بوجھ چونکہ باقی لوگوں کی نسبت تم پر بھاری ہوگیا ہے اسلئے اس طریقہ سے اسے ہلکا کرے، یہ اسلئے کہ انسان جبلتوں کی کمزوریوں میں بندھا ہوا پیدا کیا گیا ہے۔”

آیت ۲۹ تا ۳۳: عقد نکاح کے اس معاہدے کا ایک ضروری فریق کیونکہ ان لونڈیوں کے مالکان ہیں جنکی مرضی اور عقد موالات کے زریعے ہی یہ نکاح ہونے ہیں ، انکو ہدایات اور ترغیب کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ لونڈیوں کے زریعے بدکاری کے دھندے پر پابندی لگنے کے بعد تم ان احکام میں سے مال بٹورنے کا کوی طریقہ ڈھونڈ لو۔ مثلاً کسی کے نکاح میں لونڈی دیکر اور اس سے اسکی آذادی کے عوض کوی مہر کی رقم اور پھر آمدن کے لحاظ سے کوی رقم بٹور لینے کے کچھ عرصے بعد اپنی لونڈی سے طلاق کا مطالبہ کروا دو۔ اسی طرح آزاد ہونے کے بعد وہ گھروں میں ظاہر ہے کہ کام کرے گی اور کچھ مال کماے گی ، وہ مال ظاہر ہے کہ اس آذاد کردہ لونڈی کا مال ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ مال اکھٹا ہوتا دیکھ کر تمھارے منہ میں پانی آجاے اور تم اس سے مال بٹورنے کی تدابیر کرکے عقد موالات کے زریعے کچھ تدابیر کرنے لگو وغیرہ۔ آیات ملاحظہ ہوں ۔
یا ایھا الذین آمنو لا تاکلو اموالکم بینکم بالباطل الا تکون تجارہ عن تراض منکم۔ ولا تقتلو انفسکم۔ ان اللہ کان بکم رحیما۔
اے ایمان والو آپس کی باہمی رضامندی کی لین دین کے علاوہ کسی بھی اور طرح کسی کا مال کھانا باطل طریقہ ہے، اسلئے تم ایسا نہیں کروگے۔ اپنے آپ کو (اس جرم کے زریعہ) ہلاکت میں نہ ڈال لینا۔ یقین کرو کہ ( اس حکم کے زریعے ) اللہ تم پر بھی مہربانی کرنے والا ہے۔
اگلی آیتوں میں پہلے درج بالا ہلاکت کا زکر اور پھر اس حکم کے زریعے مہربانی کا حکم یونہہ سنایا۔

ومن یفعل ذلک عدوانا و ظلما فسوف نصلیہ نارا۔ وکان ذالک علی اللہ یسیرا۔
اور جو یہ مزکورہ (ذالک )ظلم اور عدوان کرے گا اسکو ہم ضرور آگ میں جھونکیں گے۔ اور یہ اللہ کے لئے بہت ہی اہسان کام ہے۔
ان تجنبوا کبائر ما تنھون عنہ نکفر عنکم سیاتکم و ندخلکم مدخلا کریما۔
اور وہ کبائر ( ظلم اور عدوان) جن سے تمھیں منع کیا جارہا ہے، اگر تم ان سے بعض رہے تو تمھاری برائیوں کو ہم نظر انداز کر کے تم کو عزت کی جگہ ( جنت) میں داخل کردیں گے۔

اس نئے عقد میں مرد بھی کسی کے عقد موالات میں بندھا ہوا ہے اور عورت بھی۔ عقد تکافل کے زریعے انکی کمای میں سے بھی کچھ حصہ اور پھر عقد موالات کے زریعے انکی موت کے بعد انکے چھوڑے ہوے ترکے میں بھی ماں باپ کے ترکے کا حصہ انھیں سابقہ مالکان کو ملنا ہے۔
لہذا ان لونڈیوں اور غلاموں کو آذاد کرنے کے بعد اگرچہ یا تو انھیں ہاتھ سے کام کرنے پڑیں گے یا پھر مزدوری دیکر جو کہ انکے سامنے ایک نقصان کا سودا ہے۔ لیکن آخرت کا جو اجر اسکے بدلے اپر والی آیت میں بیان ہوا ہے وہ بہت بڑا ہے۔ اسکے علاوہ دنیا میں بھی انکے لئے بالکل نقصان کا معاملہ نہیں بلکہ اس عقد کے زریعے کچھ نہ کچھ انھیں مل ہی جاے گا۔ اگلی آیتوں میں اسکی وضاحت یونہہ کی:

ولا تتمنوا ما فضل اللہ بہ بعضکم علی بعض۔ للرجال نصیب مما اکتسبوا، والنساء نصیب مما اکتسبن ۔ واسلوا اللہ من فضلہ ۔ ان اللہ کان بکل شیء علیما۔ ولکل جعلنا موالی مما ترک الوالدان والاقربون۔ والذی عقدت ایمانکم فاتوھم نصیبھم۔ ان اللہ کان علی کل شی ء شھیدا۔
اللہ جو تم سے بعض پر بعض کو اپنے فضل سے نواز دیتا ہے تو اس معاملے میں حرص میں نہ پڑجانا۔ جو کچھ مرد کمائیں گے وہ ان مردوں کے حصے کا مال ہے اور جو کچھ یہ عورتیں کمائیں گی وہ ان عورتوں کے حصے کا مال ہے۔ اللہ ہی سے اسکے فضل کی دعا کرنی چاہئے، یقیناً وہ ہر ایک شے کا علم رکھنے والا ہے۔ اور ہم نے ہر اس ترکے کے موالی بھی پیدا کردئے ہیں جو والدین اور رشتہ دار چھوڑتے ہیں ( جنکا زکر اسی سورہ میں پہلے آچکا)۔ اب رہے وہ لوگ کہ جن سے یہ عقد و پیمان ( عقد موالات) ہورہا ہے تو انکو انکا حصہ بھی دو ( اسی قانون میں سے ماں باپ والا حصہ انکو مل جاتا تھا)۔ یقیناً اللہ ہر شے پر گواہ ہے۔

ان آیات کے بعد آیت ۳۴ آگئ ہے جسکے لئے یہ پوسٹ لکھی ہے۔ اسے اگلی پوسٹ میں زیر بحث لائیں گے۔ تاہم اب تک آیات ( آیت ۲۵ سے ۳۳) پر غور کریں اور فیصلہ کریں کہ کیا یہ اس دور کے آذاد میاں بیوی یعنی آجکل کے ہر میاں بیوی کے متعلق بات چل رہی ہے یا عقد موالات کے زریعے آذاد کردہ غلاموں اور لونڈیوں کے متعلق بات چل رہی ہے؟
ابتک کی آیات کا خلاصہ یہ تھا کہ وہ آذاد کردہ غلام ( موالی) جنھیں آذاد عورتوں سے نکاح کی سہولت میسر نہیں وہ مومنہ لونڈیوں میں سے نوجوان لڑکیوں سے اپنے گھر بسالیں۔ ایسا لازما ان لونڈیوں کے مالکان سے معاہدے کے زریعے ہی ممکن ہوگا۔ ان مالکان کو بھی اس امر میں تعاون کرنے پر آخرت کی بخشش کی نوید سنای ۔ عقد موالات کے زریعے وہ مہر کی رقم بھی وصول کریں گے اور وراثت میں بھی حسب معاہدہ وراثت کا حصہ ( چھٹا حصہ)۔ سورہ النساء کی ان آیات کا انداز تو ترغیب دلانے والا ہے لیکن قرآن نے رفتہ رفتہ اس حکم میں سختی کی اور سورہ النور میں جاکر تو ان لونڈیوں اور غلاموں میں سے اس وقت تک آذاد نہ کئے جاسکے تھے انکے مالکان کو حکم دیا کہ انکی شادیاں کرواو۔ اور جنھوں نے اپنی مرضی سے ابتک غلاموں کو آذاد نہیں کیا تو انکے غلام اگر مکاتبت ( معاہدہ) کرکے آذاد ہونا چاہیں تو انکے مالکان کے لئے لازما انھیں آذاد کرنا ہوگا۔ اسی طرح لونڈیوں سے کوی بھی فحاشت نہیں کروای جاسکتی۔ جو زبردستی کرے گا تو اس کا گناہ ان لونڈیوں کی بجاے انکے مالکان ہی کے زمہ ہوگا ( النور ۳۲-۳۳)۔ رسول اللہ نے بھی اس ضمن میں متعدد اقدامات کئے جو روایات میں محفوظ ہیں۔ یعنی اس پسے ہوے مجبور طبقے کی پشت پر خدا اور رسول بھر پور طور پر کھڑے ہوے۔ ان احکامات سے عربوں کی ہزاروں سال سے چلتی ہوی معاشرت کو تبدیل کیا گیا۔ تاہم اس ضمن آذاد ہونے والے مردوں سے کہیں زیادہ آذاد کردہ لونڈیوں کے مسائل درپیش تھے ۔عام آذاد عورت تو متعدد رشتوں کے بندھن سے بندھی ہوتی ہے اسلئے اسکے لئے معاشرے میں کوئ بے حیائ پھیلانا ممکن نہیں ہوتا کیونکہ اسکا باپ ، بھائ ، ماں ، چچا/ تایا ، ماموں ، دادا / نانا وغیرہ کئی ایسے رشتے ہوتے ہیں جو اسکی بے راہ روی کی راہ میں قدرتی رکاوٹ ہوتے ہیں ۔ لیکن یہ آذاد کردہ لونڈیاں ان بندھنوں سے بھی آذاد ہونگی اور مالکوں کی برتری سے نکل کر اپنے ہم پلہ آذاد کردہ غلام کو بھی شائد کسی کھاتے میں نہ لکھیں۔ اسلئے آذاد مرد و عورت کے نکاح کی واحد ضروری شرط ( محصنین غیر مسفحین) کے علاوہ بقیہ تمام تر شرائط کو تو فریقین کی باہمی رضامندی پر چھوڑ دیا لیکن ان آذاد کردہ لونڈیوں کی مزکورہ خاص پوزیشن کی وجہ سے قران نے انکی شرائط نکاح میں خود سے اضافہ کیا جو کہ آیت ۳۴ میں یونہہ بیان ہوی ہیں :
الرجال قومون علی النساء
یہ مرد ان عورتوں پر قوام ( نگہبان / امور طے کرنے والے) ہونگے۔
یہ مرد اور ان عورتوں سے کون سے مرد اور عورتیں مراد ہیں ؟ ظاہر ہے کہ جنکا تزکرہ چل رہا ہے ، یعنی آذاد کردہ لونڈیاں اور آذاد کردہ غلام ۔ رجال اور نساء پر ” ال” بھی اسی تخصیص کے لئے ہے اور پس منظر میں تزکرہ بھی انھی کا چلتا آرہا ہے۔
اس انتظام کی دو حکمتیں واضح فرمائیں :
بما فضل اللہ بعضھم علی بعض
و بما انفقوا من اموالھم
اس وجہ سے کہ مرد کو اللہ نے طبعا بعض قوتیں عورتوں سے زیادہ دی ہیں
اور اس وجہ سے کہ مردوں نے اپنے مال خرچ کرنے ہیں ۔ ( یعنی یہ عورت بھلا کماے گی لیکن اسکی آذادی کے لئے مال خرچ کرنے سے لیکر موت تک کی مالی زمہ داریوں کا بوجھ اس مرد پر ہوگا۔ جیسا کہ پہلے انکے مالکوں پر ہوتا تھا)۔
غلاموں اور لونڈیوں سے بھرے معاشرے میں یہ ایک بہت ہی پرکشش آفر تھی۔ بھلا کونسی عورت نہ چاہے گی کہ اسکا بھی گھر آباد ہو اور بھی ایک گھر کی آذاد مالکن بن کررہے۔ اسلئے قرآن نے اس نکاح کے لئے ان لونڈیوں پر مزید واضح کیا کہ تم میں سے کون سی خواتین اس اسکیم کے لئے صالح ( مناسب / فٹ فار) تصور کی جائیں گی:
۱۱: قنتت۔ اطاعت شعار ( جیسا کہ اپر عرض کیا کہ باثر مالکوں کے تسلط سے نکل کر اپنے ہم پلہ آذاد کردہ غلام کے قابو سے باہر ہونے سے میں کیا خدشات ہوتے ہیں جو متعدد رشتوں میں بندھی آذاد عورت کے معاملے میں نہیں ہوتے)۔
۲: حفظت للغیب۔ پوشیدہ حقوق کے معاملات کی حفاظت کرنے والیاں۔
انکے خاوندوں کو ان پر قوام مقرر کرنے کی سبب جو اختیار بحثیت قوام ان کو ملنے چاہیے تھے وہ بھی اس نکاح کا حصہ یونہہ قرار پاے:
والتی تخافون نشوز ھن
اور اگر یہ نشوز کا خوف پیدا کردیں تو
۱: فعظوھن۔ تو انھیں سمجھاؤ ( دلائل سے تربیت)
۲۲: واھجروھن فی المضاجع ۔ بستروں پر ان سے علیحدگی اختیار کرلو ( احساسات و جذبات سے تربیت)
۳۳: واضربوھن۔ اور مار بھی سکتے ہو ( آخری کوشش جسکے بعد طلاق ہوسکتی ہے اور وہ پھر سے غلامی کے منہ میں لوٹ جائیں گی)۔
جسطرح قرآن نے ان مراحل کی ترتیب بتای ہے وہ اسی ترتیب سے طے پائیں گے۔ آیت والتی تخافون ، اور وہ جو اندیشہ پیدا کردیں سے شروع ہوی ہے۔ ظاہر ہے کہ اندیشہ کسی بھی بدگمانی کی بجاے کسی مشاہدے کی بنیاد پر ہی ہونا چاہئے۔ پہلے مرحلے کے بغیر دوسرے یا تیسرے مرحلے پر جانا اس لئے ناجائز ہے کہ خدشے کے محقق ہوے بغیر وہ اقدام ظلم ہیں۔ تیسرا مرحلہ صرف اسوقت آے گا جب پہلے مرحلے کے محقق ہونے کے باوجود دوسرے مرحلے کے جذبات کو بھی وہ عورت خاطر میں نہ لاکر اپنا کام جاری رکھے ہویے ہو۔ آیت ۲۴ میں ہی جیسا کہ عرض کیا تھا کہ عام آذاد عورتوں کے مقابلے میں ان کے لئے متخذات الاخدان ( چوری چھپے یارانے) سے اجتناب کی بات آی تھی۔ شادی کے بعد بھی ان لونڈیوں نے کیونکہ اسی ماحول میں محنت مزدوری کرنی ہے تو انکے ضمن میں اس عارضے کا خدشہ شادی کے بعد بھی باقی رہ سکتا ہے۔ اسلئے ان سے گھر کے ادارے سے نشوز کا خدشہ اس معاملے میں بھی ہوسکتا ہے اور اس معاملے میں بھی کہ جیسا اپر عرض کیا کہ باثر مالکوں کے تابع رہنے کی عادت کے بعد اپنے ہم پلہ آذاد کردہ غلام کو بطور خاوند قوام کی حیثیت سے قبول کرنے کی بجاے سرکشی پر اتر آئیں۔ تاہم اس تیسرے اقدام کے متعلق یہ بھی احکام ہیں کہ یہ مرحلہ تشدد کی بجاے محض علامتی ہونا چاہئیے۔ نہ ہی منہ پر مارا جاسکتا ہے اور نہ ہی ایسا زور سے کہ جسم پر مار کا نشان آے۔
فان اطعنکم فلا تبغوا علیھن سبیلا۔
اور اگر تم انھیں اطاعت گزار پاو تو پھر خوامخواہ ان پر دست درازی کے بہانے تلاش نہ کرو۔
اس جملے نے بالکل واضح کردیا کہ یہ اقدام محض بدگمانی پر نہیں اٹھایا جاسکتا، پہلے اور دوسرے اقدام کے بعد اگر بالکل واضح ہوجاے تو تب ہی تیسرا اقدام اٹھایا جاسکتا ہے۔
ان تینوں اقدام کے بعد یا اسکے دوران ہی اگر بات طلاق کی نوبت تک چلی جاے تو پھر:
فابعثوا حکما من اھلہ و حکما من اھلھا، ان یریدا اصلاحا یوفق اللہ بینھما۔
پھر مرد اور عورت دونوں کے سرپرستوں میں سے ایک ایک بلالو۔ وہ دونوں اگر اصلاح چاہیں گے تو اللہ انکے درمیان موافقت کی راہ نکال دے گا۔
آیت ۲۵۵ کو ذھن میں لائے جہاں انکی شادی کے وقت بھی کہا گیا تھا کہ فانکحوھن باذن اھلھن، ان لونڈیوں کی سرپرستوں کے اذن سے انکے ساتھ نکاح کرو۔ اس ضمن میں پہلی آیت (۲۵) اور آخری آیت (۳۵) دونوں واضح کررہی ہیں کہ یہ کون سی خواتین کے متعلق بات ہورہی ہے۔ درمیان کی آیات کا بھی لفظ لفظ واضح کررہا ہے کہ یہ عام آذاد عورتوں کے متعلق احکام نہیں بیان ہورہے بلکہ لونڈیوں کے متعلق احکام ہیں اور ان احکام کے پیچھے زمینی حقائق ہیں جنکو سمجھے بغیر ان احکام کی حکمت پر کوئ اعتراض وارد نہیں کیا جاسکتا۔ اس آخری آیت سے جن احباب نے گواہ کو آذاد مرد و عورت کی شرط قرار دیا ہے وہ بھی اس پورے سیاق و سباق میں دیکھ سکتے ہیں کہ کیا یہ شرط کہیں آذاد مرد و عورت کے لئے بیان ہوئ ہے۔ ان لونڈیوں کے لئے اس شرط کا بیان اسلئے ضروری ہے کہ انکا نکاح صرف مرد و عورت کے باہمی معاہدے تک محدود نہیں بلکہ اسمیں ایک تیسری پارٹی بھی ہے جسکے ساتھ یہ عقد موالات میں بندھے ہوے ہیں ، اسلئے نکاح و طلاق دونوں صورتوں میں اسکا اذن اور عملداری ضروری ہے۔
مجھے ان آیات کے متعلق مختصرا یہی کچھ عرض کرنا تھا کہ یہ آیات ایک مخصوص طبقے کے متعلق ہیں ۔ عام مرد و عورت کے نکاح و طلاق اور بقیہ معاملات قرآن کے بقیہ مقامات پر تفصیل سے زیر بحث آئے ہیں اور وہی آذاد معاشرت اور عائلی زندگی کے قانون ہیں ۔ لیکن سورہ النساء کی آیت ۳۴ کو پیش کرکے قرآن پر جو اعتراض کیا جاتا ہے وہ اعتراض عدم تدبر کی وجہ سے پیدا ہوا ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

سورس

Dr. Muhammad Hamidullah
Visit Website of Dr. Muhammad Hamidullah
Leave A Reply

Your email address will not be published.