رمضان ایسے گزاریں از عثمان حبیب

رمضان کا مقدس مہینہ ہمارے لیے اپنی انفرادی اصلاح کے لحاظ سے بہت اہم ہے۔ اس سلسلے میں چند گزارشات پیش خدمت ہیں، اللہ تعالیٰ ہمیں عمل کی بھر پورتوفیق سے نوازے۔ آمین
تجدید ِنیت
اولین کام یہ ہے کہ ہم اپنی نیت خالص کریں اور اللہ تعالیٰ کے حضور یہ عہد باندھیں کہ ناصرف رمضان بلکہ بقیہ سال بھر میں بھی اللہ کی اطاعت سے انحراف نہیں کریں گے۔
تزکیہ نفس کا اسلوب
تزکیہ نفس کا درست اسلوب تو وہی ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے مطابق ہو۔ کیونکہ دین کی تکمیل ہو چکی ہے اور اتباع سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہی میں تمام فلاح پوشیدہ ہے اور اس کا اچھا ذریعہ اللہ والوں کی صحبت ہے۔
اپنا محاسبہ کیجیے
یقیناً اللہ تعالیٰ ہر چیز سے واقف ہے۔کوئی چیز اس سے پوشیدہ نہیں ۔ تاہم ارشادِ ربانی (بل الانسان علی نفسہ بصیرہ) کی رو سے انسان کا سب سے بڑا محرم خود اس کی اپنی ذات ہی ہے۔ ۔ لہذا اپنی خامیوں کی لسٹ تیار کریں اوراب کی بارپکا عزم کریں کہ ان شاءاللہ اسی رمضان کے اندر ان سے چھٹکارا پانا ہے۔ کیونکہ انسان کو گناہ پر مائل کرنے والی دو چیزوں میں سے ایک شیطان ہے جسے قید کرلیاجاتاہے اور دوسرا نفس ہے جسے آپ نے اتنا کمزور کردینا ہے کہ وہ کوئی قابل ذکر قوت نہ رہے۔ مثلاً آپ سموکنگ کے عادی ہیں تواس رمضان آپ کے لیے زبردست موقع ہے، اس سے فائدہ اٹھائیں اور سگریٹ نوشی ہمیشہ کے لیے چھوڑ دیں۔ یا مثلاً اگر کوئی شخص غیبت جیسی قبیح عادت میں مبتلا ہے تو اس کے لیے سنہری موقع ہے کہ وہ اپنی زبان کو قابو رکھ سکے۔ غیبت سے بچنے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ کسی کی غیر موجودگی میں اس کا ذکر ہی نہ کیا جائے۔۔۔نہ رہے گا بانس نہ بجے گی بانسری۔۔۔۔۔آزمائش شرط ہے۔ یا پھر کوئی بدنظری جیسی خطرناک بیماری میں مبتلاہے تواس رمضان میں اپنی نظروں کی حفاظت کرکے اس مرض سے ہمیشہ کے لیے جان چھڑاسکتاہے۔ بد نظری سے بچنے کے لیے بازاروں میں اپنی آمدورفت کم سے کم کر یں اور (ہر قسم کے )غیر محرموں کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے سے اجتناب کر یں۔
لہذا اگر آپ رمضان میں اپنی خامیوں سے جان نہیں چھڑا سکے تو پھر کبھی بھی نہیں چھڑاس سکیں گے، الا ان یشاء اللہ۔ چنانچہ اس موقع سے بھر پور فائدہ اٹھائیں! کوشش کریں کہ اس مبارک ماہ میں زیادہ سے زیادہ اوقات مسجد میں گزاریں اور چونکہ رمضان، شھر قرآن ہے ،لہذا اسے قرآن مجید ہی کی معیت میں گزارا جائے۔ یا پھر اہل اللہ، بزرگ صالحین کی صحبت میں۔

اپنے شب وروز زیادہ سے زیادہ عبادات اور طاعات میں گزارے جائیں۔چنانچہ دن بھر کے معمولات کی ترتیب بنا کر اس پر عمل کی کوشش کریں۔تفصیلی منصوبہ بندی تو ہر بھائی بہن اپنے حالات کی مناسبت سے کر سکتے ہیں لیکن ایک سرسری خاکہ پیش خدمت ہے۔
قیام اللیل
رمضان میں قیام اللیل عام دنوں سے زیادہ آسان بھی ہے اور زیادہ فضیلت والا بھی۔اگر کوئی ہمت پاتا ہو تو رات کا تیسرا پہر افضل وقت ہے۔ لیکن کم از کم اتنا تو ہونا چاہیے کہ سحری سے کچھ دیر پہلے اٹھ کر نوافل ادا کر لیے جائیں۔ قیام اللیل میں قرآن کی تلاوت کا لطف اٹھائیں۔جتنی سورتیں زبانی یاد ہیں پڑھ ڈالیے۔کیا خبر اس عمل کی برکت سے ہم بھی’ وبالاسحار ھم یستغفرون’ والوں کی فہرست میں شامل ہو جائیں۔
لیکن قیام اللیل پر عامل ہونے کے لیے ضروری ہے کہ تروایح سے فارغ ہونے کے بعد بلاتاخیر سو جائیں۔ اگر عام دنوں میں ہم عشا کے بعد بھی تادیر جاگنے کے عادی ہیں ۔۔۔۔ لیکن خدارا۔۔۔ کم از کم رمضان میں ہی اس ‘‘خلاف سنت’’ عادت کو ترک کر دیا جائے اور اس طرح فجر کے بعد سونے کی عادت کو بھی جبرا چھوڑ دیا جائے۔۔۔ اور آرام کرنا ضروری ہو بھی تو ۔۔۔ اشراق کے نوافل پڑھنے کے بعد کچھ دیر آرام کر لیا جائے۔
تلاوتِ قرآن کریم
قرآن کریم کی تلاوت لطف تووہی جانتاہے جسے اس کی سعادت نصیب ہوتی ہے۔ رمضان تو ہے ہی قرآن کا مہینہ ۔لہٰذا جتنا ہوسکے تلاوتِ قرآن کو اپنا معمول بنالیں۔ایک پارہ ہو، ایک پاؤ ہو یا ایک رکوع ہی کیوں نہ ہو روزانہ بلاناغہ اپنے تلاوت کا معمول بنالیں۔جتنا پڑھیں تدبر کے ساتھ پڑھیں، غور وفکر کے ساتھ پڑھیں اور اس احساس کے ساتھ پڑھیں کہ آپ کو اللہ تعالیٰ سے شرف ہم کلامی نصیب ہورہاہے۔
اذکار مسنونہ
نماز فجر کے بعد فوراً اٹھ جانے کی بجائے اپنی جگہ پر بیٹھے بیٹھے صبح کے مسنون اذکار کا ورد کر لیا جائے، اس حوالے سے "حصن المسلم”میں موجود اذکار کی ترتیب مفید پائی گئی ہے۔
صبح کے اذکار کا وقت سورج نکلنے سے پہلے اور شام کے اذکار عصر کے بعد سے لے کر غروب آفتاب تک مسنون ہیں۔ اذکار مسنونہ کا ورد اپنی عادت بنا لیں۔ نیز رمضان چونکہ شھر قرآن ہے، لہذا کم از کم ایک پارے کی تلاوت ضرور کریں۔ ہو سکتا ہے کہ آغاز میں طبیعت کو آمادہ کرنے میں دشواری پیش آئے لیکن یاد رکھیں کہ ‘ابھی نہیں تو کبھی نہیں’۔ اگر ممکن ہو تو کیسٹ سے اچھے قرا کی تلاوت اور اللہ والوں کے بیانات سننے کا بھی اہتمام کیا جاسکتا ہے۔
سنن رواتب کا اہتمام
کوشش کریں وہ سنتیں اور نوافل جنہیں چھوڑے ایک مدت گزر گئی، انہیں از سر نو زندہ کیا جائے، مثلا اشراق ،چاشت ،تحیۃ المسجد، تحیۃ الوضواور نماز عصر کی چار سنتیں۔
ذکر اللہ
کثرت کلام اور فضول گوئی سے زیادہ سے زیادہ بچا جائے لیکن اس سے مقصود یہ نہیں کہ زبان پر تالا لگا کر بیٹھ جائیں،بلکہ ہونا یہ چاہیے کہ ہماری زبان ہمہ وقت ذکر الہی سے تر رہے۔ جتنی مسنون دعائیں منقول ہیں ان کا ورد اٹھتے بیٹھتے جاری رکھیں۔ ممکن ہے شروع میں تصنع اور بناوٹ کا خیال آئے لیکن اس وسوسہ شیطانی کو دل سے جھٹک کر اپنا معمول جاری رکھیں ۔ اگر کچھ تصنع ہوا بھی تو ان شا اللہ خودبخود دھل جائے گا۔ البتہ یہ دھیان میں رہے کہ جہرا ذکر کی بجائے سرا ً ذکر بہتر ہے۔
سورہ کہف کی تلاوت
جمعۃ المبارک کے دن سورہ کہف کو اپنا معمول بنائیں اور جمعہ کے دن عصر کے بعد کی گھڑیاں قبولیت دعا کے لیے بہت اہم ہیں ، حدیث میں ان کی بہت فضیلت آئی ہے ۔ لہذا ان اوقات کو غنیمت جانتے ہوئے اللہ کے حضور خوب دعائیں کریں۔
مطالعہ سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم
تزکیہ نفس کے حوالے سے بنیادی بات یہ ہے کہ اپنے انفرادی اور اجتماعی اعمال”سیرت نبویﷺ”کے سانچے میں ڈھل جائیں لہذا اس غرض کے لیے کتب سیرت، مثلاً سیرت النبی از علامہ شبلی نعمانی ، الرحیق المختوم کا مطالعہ شروع کر دیں۔کوشش کریں کہ سیرت کی کسی ایک مکمل کتاب کا مطالعہ ضرور کریں!
حیاۃ الصحابہ رضی اللہ عنہ سے استفادہ
صحابہ رضوان اللہ علیھم اجمعین وہ مبارک اور خوش قسمت ہستیاں ہیں جن کی تربیت نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے خود فرمائی، ان کی زندگیوں کو اپنی زندگی میں اپنانے کی نیت سے’ حیاہ الصحابہ’ کی تعلیم اگر گھروں اور مساجد میں ہو سکے تو اس کے بہت مفید اثرات عملی زندگی میں سامنے آتے ہیں۔
محاسبہ نفس
حاسبوا انفسکم قبل ان تحاسبوا ۔ روزانہ سونے سے پہلے کچھ دیر کے لیے اپنے دن بھر کے معمولات کا محاسبہ کریں۔
کثرت دعا
ان سارے معمولات کے باوجود،قبولیت اخلاص سے مشروط ہے لہذا اخلاص کی دعا ضرور کریں۔ہم اپنی تمام حاجات میں اللہ تعالیٰ ہی کے محتاج ہیں ، ان مبارک ساعتوں میں بار بار اس کا در کھٹکھٹائیں۔ بالخصوص رات کے پچھلے پہر اور بوقت افطار کی جانی والی دعائیں مقبول ہونگی (ان شا اللہ)!اللہ تعالیٰ سے اپنی ، اپنے والدین، عزیز و اقارب اور امت مسلمہ کے لیے عفو و عافیت کا سوال کریں۔
صدقہ وخیرات
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے فرماتے ہیں کہ رمضان میں جب حضرت جبریل علیہ السلام آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملتے تو آپ پہلے سے زیادہ سخاوت کرتے تھے۔خوب خوب صدقہ وخیرا ت کا اہتمام فرمائیں۔ پیشہ ور بھکاریوں کے بجائے اپنےصدقات ، خیرات اور زکو ۃ سے ارد گرد موجود غریبوں ،فقیروں کی بھر پور مدد کریں ۔بعض لوگ اپنی سفید پوشی اور خود داری کی وجہ سے کسی سے کچھ کہہ نہیں پاتے ، ایسے لوگ توجہ کے خصوصی مستحق ہوتے ہیں لہٰذا اپنے آس پاس ایسےلوگ ڈھونڈیے اور ان کے ساتھ بھر پور تعاون فرمائیں۔
ترک تعیش
یہ تو ہم سبھی جانتے ہیں کہ دنیامیں ہم عیش کوشی اور سہولت پسند ی کے لیے نہیں آئے ہیں۔بلکہ اللہ تعالیٰ کی عبادت اور زیادہ سے زیادہ آخرت کمانے کے لیے آئے ہیں۔چنانچہ رمضان کو غنیمت جان کر اپنی زندگی میں سے ان چیزوں کو آہستہ آہستہ خارج کرتے جائیں اگرچہ مباح ہی کیوں نہ ہوں لیکن ان سے آرام طلبی اور عیش پسندی کی بو آتی ہو۔اس حوالے سے دو حدیثیں یاد رکھیں:
دنیا میں اس طرح رہو گویا تم پردیسی ہو یا مسافر(بخاری: ۶۴۱۶)
دنیا مومن کے لیے قید خانہ اور کافر کے لیے جنت(صحیح مسلم:جلد سوم:حدیث نمبر 2916)
وقت افطار
افطاری کے وقت بہت زیادہ کھانے سے پرہیز کریں ۔نفس تو یہ چاہے گا کہ پورا دن بھوکا پیاسا رہنے کے بدلے چٹخارے دار کھانے ملیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ آپ اپنے نفس کی باگیں ڈھیلی چھوڑ دیتے ہیں یا قابو کر لیتے ہیں۔
افطار کے وقت انواع و اقسام کی نعمتوں سے لطف اندوز ہوتے وقت اپنے آس پڑوس میں موجود غریبوں کو بھی یاد فرمالیاکریں اور ہوسکے تو ان کے ہاں بھی افطار بھیج دیا کریں۔
آخری عشرے کا اعتکاف
آخری عشرے میں اعتکاف کی کوشش کریں وگرنہ کم از کم طاق راتیں ضرور قیام اللیل میں گزاریں۔ شب قدر کی تلاش کا خوب خوب اہتمام کیجیے۔قرآن مجید کی بعض سورتیں جو بھول چکی ہوں از سر نو یاد کرنے کی کوشش کریں۔تہجد کا زیادہ سے زیادہ اہتمام کریں۔
آخر میں یہ عرض ہے کہ اللہ تعالیٰ کا بےپایاں فضل وکرم ہے کہ اس نے ہمیں ایک بار پھر رمضان کی برکات سے مستفید ہونے کا موقع عنایت فرما دیا۔ چنانچہ اس کے ایک ایک لمحے کو غنیمت جان کر عبادت الہی میں وقف ہو جائیں۔

Image may contain: text
 
Dr. Muhammad Hamidullah
Visit Website of Dr. Muhammad Hamidullah
ماخذ فیس بک
Leave A Reply

Your email address will not be published.