زنا بالجبر ،حنفی فقہ اور امام سرخسی از محمد حسن الیاس

زنا بالجبر پر ہمارے جلیل القدر فقہا کے نقطہ نظر پر ہم کئی نے طالب علمانہ سوالات اٹھاۓ تھے،اس کی توضیح میں کی گفتگو میں میں معروف فقیہ اور عالم ابن عبدالبر کی معروف کتاب الاستذکار سے فقہا کا موقف بھی نقل کیا تھا ،وہ لکھتے پیں:

وَقَدْ أَجْمَعَ الْعُلَمَاءُ عَلَى أَنَّ عَلَى الْمُسْتَكْرِهِ الْمُغْتَصِبِ الْحَدَّ إِنْ شَهِدَتِ الْبَيِّنَةُ عَلَيْهِ بِمَا يُوجِبُ الْحَدَّ أَوْ أَقَرَّ بِذَلِكَ فَإِنْ لَمْ يَكُنْ فَعَلَيْهِ الْعُقُوبَةُ وَلَا عُقُوبَةَ عَلَيْهَا إِذَا صَحَّ أَنَّهُ اسْتَكْرَهَهَا وَغَلَبَهَا عَلَى نَفْسِهَا وَذَلِكَ يُعْلَمُ بِصُرَاخِهَا وَاسْتِغَاثَتِهَا وَصِيَاحِهَا وَإِنْ كَانَتْ بِكْرًا فِيمَا يَظْهَرُ مِنْ دَمِهَا وَنَحْوِهَا مِمَّا يُفْصِحُ بِهِ أَمْرُهَا …

علما کا اس بات پر اتفاق ہے کہ زبردستی اور جبرا زنا کرنے والا موجب حد ہے،اگر اس پر گواہیاں پیش کر دی جائیں،وہ گواہیاں جو حد کو لازم کرتی ہیں۔یا پھر وہ آدمی خود اس کا اقرار کر لے۔اگر ایسا نہیں ہوتا (یعنی نہ گوائیاں پوری ہوتی ہیں نہ وہ اقرار کرتا ہے)تو اسے قید کیا جائے گا،البتہ اس خاتون کو قید نہیں کیا جائے گا،اگر یہ ثابت ہوجائے کہ اس خاتون کے ساتھ زبردستی کی گئی ہے۔اور یہ زبردستی اس کی چیخ و پکار اور مدد طلب کرنے کے قرائن سے جانی جا سکتی ہے،اور اگر وہ کنواری ہے تو اس زبردستی کے معاملے کو اس کے خون کے اثرات اور اس جیسے قرائن بھی واضح کر سکتے ہیں۔

(الاستذکار جلد ۷ صفحہ ۱۴۶۔ابن عبد البر)

حنفی فقہ کے ایک فاضل محقق نے ہمارے ان دلائل سوالات کے جواب میں درج ذیل دو اہم باتیں فرمائی ہیں :

۱-فقہ حنفی میں زنا بالجبر کے ثبوت کے لیے چار گواہوں کی شرط نہیں ہے ۔

۲-فقہ حنفی زنا بالجبر کو زنا کے علاوہ ایک شنیع جرم تسلیم کرتی ہے اور اس کے لیے علحیدہ سزا بھی تجویز کرتی ہے ۔

یہ دو باتیں انھوں نے ان الفاظ میں پیش فرمائی ہیں:

"یہ بھی فقہاے کرام نے واضح کیا ہے کہ "سیاسہ جرائم” کا ثبوت صرف اقرار یا گواہوں سے نہیں ہوتا بلکہ اس کےلیے قرائن ، حالات، سابقہ ریکارڈ اور دیگر ذرائع بھی قابلِ قبول ہیں بشرطیکہ اسلامی قانون کے عمومی قواعد کی روشنی میں قاضی انھیں کافی سمجھے۔ گویا یہاں بھی انھوں نے معاملہ قاضی کے اجتہاد اور صواب دید پر چھوڑا ہے”.

وہ مزید فرماتے ہیں:

"زنا اگر اکراہ کے ساتھ ہو تو اس بحث میں فقہاے کرام یہ بھی واضح کرتے ہیں کہ یہ فعل محض زنا سے زیادہ شدید اور شنیع جرم ہے اور اسی لیے اس پر محض زنا کے احکام کا ہی نہیں بلکہ دیگر جرائم کے احکام کا بھی اطلاق ہوتا ہے ۔ امام سرخسی نے تصریح کی ہے: وجنايته إذا استكرهها أغلظ من جنايته اذا طاوعتہ۔ (اس شخص کا جرم ، جب وہ عورت کو مجبور کردے، زیادہ سنگین ہے بہ نسبت اس صورت کے جب وہ اس کے ساتھ راضی ہو ".

فاضل محقق کے ان دو انکشافات کے بعد ہم طالب علم اب تک حنفی فقہ کے مصادر سے جو بات سمجھتے آرہے تھے ان کی اصلاح کرنے اور اپنے جہل مرکب پر شرمندہ ہو کر فقہ حنفی کے سحر میں ایک بار پھر سے گرفتار ہوگئے تھے۔اور اسی حالت ندامت میں امام سرخسی کی مبسوط کھول لی تاکہ حق کا سامنا براہ راست کر لیاجائے۔

فاضل محقق نے سرخسی کی جس گفتگو سے یہ عبارت (وجنايته إذا استكرهها أغلظ من جنايته اذا طاوعتہ )نقل کر کے زنابالجبر پر فقہ اسلامی کا جو ڈاکٹرائن دریافت کیا تھا وہ گفتگو یہاں سے شروع ہوتی ہے:

“(قَالَ) وَإِذَا شَهِدَ الشُّهُودُ عَلَى رَجُلٍ أَنَّهُ اسْتَكْرَهَ هَذِهِ الْمَرْأَةَ فَزَنَى بِهَا حُدَّ الرَّجُلُ دُونَ الْمَرْأَةِ؛ لِأَنَّ وُجُوبَ الْحَدِّ لِلزَّجْرِ وَهِيَ مُنْزَجِرَةٌ حِينَ أَبَتْ التَّمْكِينَ حَتَّى اسْتَكْرَهَهَا، وَلِأَنَّ الْإِكْرَاهَ مِنْ جِهَتِهَا يُعْتَبَرُ فِي نَفْيِ الْإِثْمِ عَنْهَا عَلَى مَا ذَكَرْنَا فِي كِتَابِ الْإِكْرَاهِ أَنَّ لَهَا أَنْ تُمَكِّنَ إذَا أُكْرِهَتْ بِوَعِيدٍ مُتْلِفٍ، وَالْحَدُّ أَقْرَبُ إلَى السُّقُوطِ مِنْ الْإِثْمِ فَإِذَا سَقَطَ الْإِثْمُ عَنْهَا فَالْحَدُّ أَوْلَى، وَيُقَامُ الْحَدُّ عَلَى الرَّجُلِ؛ لِأَنَّ الزِّنَا التَّامَّ قَدْ ثَبَتَ عَلَيْهِ وَجِنَايَتُهُ إذَا اسْتَكْرَهَهَا أَغْلَظُ مِنْ جِنَايَتِهِ إذَا طَاوَعَتْهُ”.

(صفحہ 54 جلد 9المبسوط لسرخسی)

ترجمہ:

جب گواہ اس بات پرقائم ہوجائیں کہ اس مرد نے اس خاتون کو مجبور کر کے اس کے ساتھ واقعتا زنا کیا ہے تو اس مرد کو حد لگائی جائے گی۔عورت کو نہیں لگائی جائے گی۔اس لیے کہ مرد پر حد کا وجوب توبیخ کے لیے ہے اور یہ عورت تو ملامت اور سرزنش کر کے (زنا پر)قدرت دینے سے انکار کرنے والی تھی. یہاں تک کہ اس خاتون کو(انکار کے باوجود )اس مرد نے مجبور کر دیا۔اور یہ "اکراہ” اس خاتون کی طرف سے گناہ صادر ہونے کی بھی نفی کرتا ہے. جیسا کہ ہم کتاب اکراہ میں بتا چکے ہیں کہ اس عورت نے جب اس کو قدرت دی تو ہلاکت کی وعیدوں کے ساتھ (مجبورا) دی۔لہذا اس خاتون سے جب گناہ ختم ہوگیا تو حد کو تو بطریق اولی اس سے ختم ہوجانا چاہیے۔اور بندے پر تو حد بہرکیف حد لگائی جائے گی اس لیے کہ اس نے زنا کے عمل کو تکمیل تک پہنچایا ہے اور اس لیے حد لگائی جائے گی کیونکہ اس شخص کا مجبورکر کے یہ کام کرنا زیادہ سنگین ہے،اس سے کہ وہ خاتون کو راضی کر کے کرتا۔”

ہم ایک بار پھر اپنے جہل مرکب کا اقرار کرکے یہ معصومانہ سوال کرتے ہیں،ممکن ہے سرخسی کی مبسوط کا کوئی دوسرا قلمی نسخہ فاضل محقق کی گرفت میں ہو، ممکن ہے ہماری عربی دانی نے ہمیں دھوکہ دے دیا ہو، ممکن ہے ہماری گستاخیوں کی وجہ سے سرخسی نے اپنی بات تک پہنچنے کے سب دروازے ہم پربند کر دیے ہوں ،لیکن امید ہے کہ آپ کے ساتھ ایسا ہرگز نہیں ہوا ہوگا۔اگر نہیں ہوا تو پھر فقہ اور اصول فقہ کے ان ناقص طالب علموں کو بتائیں کہ امام صاحب کی عبارت سے جو دو باتیں دریافت کی گئی ہیں وہ آخر کہاں بیان ہوئی ہیں۔جو باتیں یہاں اس عبارت میں بیان ہوئی ہیں وہ تو اس سے بالکل مختلف ہیں۔

اگر امام صاحب کی پوری بات پڑھی جائے تو وہ تین باتیں بیان فرما رہے ہیں:

پہلی یہ کہ اس شخص پر جس نے زور زبردستی سے زنا کیا اس کا یہ جرم ثابت ہونا،گواہوں کی گواہی پر موقوف ہے۔

یعنی زبردستی زنا کرنے کے اس جرم کو اسی طرح ثابت کیا جائے گا جیسے زنا بالرضا کے جرم کو شہادتوں سے ثابت کیا جاتا ہے۔

دوسری بات یہ کہ اس جرم کے ثبوت کے بعد اسے جو سزا دی جائے گی وہ وہی سزا ہے جو زنا کی عام حد ہے یعنی سو کوڑے۔گویا جو شھادت کا نصاب اوپر بیان کیا گیا وہ زنا کی اسی سزا کا تھا جو قرآن مجید میں بیان ہوئی ہے لہذا اب اس مرد کو سو کوڑوں کی حد لگائی جائے گی۔

تیسری یہ کہ امام صاحب کی مکمل گفتگو کے آخری جملے سے (وجنايته إذا استكرهها أغلظ من جنايته اذا طاوعتہ)جو نظریہ برآمد کیا گیا ہے وہ تو امام صاحب بیان ہی نہیں کر رہے۔امام صاحب تو یہ بیان کر رہے ہیں کہ اگرچہ وہ عورت اس پورے عمل میں رضامندی سے شامل نہیں ہوئی لیکن چونکہ مرد شریک تھا اور اس نے زنا کیا لہذا اسے تو حد بہرکیف لگنی ہی لگنی ہے۔ یہاں یہ کہاں کہا گیا ہے کہ حد کے علاوہ محض اکراہ کے سبب اب اس مرد کو اضافی سزا دی جائے گی ۔اور جو دی جائے وہ اس عبارت میں کہاں گم ہوگئی ہے؟

ریپ کے متاثرین پر فقہی احسانات کی گفتگو کا آغاز "اگر زینب زندہ ہوتی” سے ہوا تھا۔

جواب میں فاضل محقق نے زنا بالجبر کے حوالے سے فقہائے احناف کا کل تک یہ موقف بیان کیاتھا کہ زنا بالجبر فساد فی الارض ہے، سوال ہوا فساد فی الارض کی سزا تو قرآن میں بیان ہوئی ہے، اس پر کہا گیا کہ اب زنا بالجبر سیاسہ کے اصول کے تحت موت کی تعزیری سزا بن گیا ہے، پوچھا گیا کہ چار گواہوں کی شرط کے ساتھ؟ پھر حنفی فقہ سے چار گواہ غائب ہوگئے ۔جب دلائل سے انہیں دوبارہ دریافت کیا گیا تو پر زنا بالجبر چار گواہوں کو مان کر سو کوڑوں کی حد کے ساتھ اکراہ کی اضافی تعزیر بن گیا، یہ وہ آخری دعوہ تھا جس کے ثبوت میں اما سرخسی کی عبارت کے چند الفاظ پیش کیے گئے تھے۔

اب فاضل محقق کی ایک اور تحریر بھی سامنے آئی ہے اپنے مقالے،‘The Crime of Rape and the Hanafi Doctrine of Siyasa’، میں امام سرخسی کی کتاب، ‘المبسوط’ کے حوالے سے نابالغ بچی کے ریپ کی سزا کو بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

” اگر کوئی شخص نابالغ بچی کے ساتھ زبردستی جنسی عمل کرے، اور اس میں بچی کونقصان پہنچا دے، تو اس پر کوئی حد نہیں (یعنی جرم ثابت ہو چکا،مگراس کے باوجود اس شخص پر کوئی حد نہیں لگائی جائے گی)، وجہ یہ ہے کہ زنا کی ضروری شرط پوری نہیں ہوئی، (شرط پوری کیوں نہیں ہوئی، تفصیل آگے آتی ہے)، تاہم، اس شخص کو تعزیرًا سزا دی جائے گی، اور وہ بچی کو ایک تہائی دیت اور مہر دینے کا پابند کیا جائے گا، لیکن اگر اسے پوری دیت دینی پڑے، تو اس سے مہر دینے کا مطالبہ نہیں کیا جائے گا۔

اس جزئیے پر حنفی عالم مولاناعمار خان ناصر صاحب اپنی کتاب "حدود و تعزیرات: چند اہم مباحث”، میں تبصرہ فرماتے ہیں:

"فقہی ’نکتہ رسی‘ کی دلچسپ ترین مثال اس جزئیے میں ملتی ہے کہ اگر کوئی شخص کسی نابالغ بچی کے ساتھ زنا کرے تو اس پر حد جاری کی جائے گی، لیکن اگر زنا کے نتیجے میں بچی کی دونوں شرم گاہیں آپس میں مل جائیں تو زانی حد سے مستثنیٰ قرار پائے گا۔ اس کی وجہ یہ بیان کی گئی ہے کہ زنا کی حد تب واجب ہوتی ہے جب یہ فعل کامل صورت میں واقع ہوا ہو اور فعل کے کامل ہونے کے لیے ضروری ہے کہ اس کا محل بھی کامل ہو۔ چنانچہ اگر زنا کے نتیجے میں بچی کی دونوں شرم گاہیں آپس میں نہیں ملیں تو یہ اس کی دلیل ہے کہ محل اس فعل کی صلاحیت رکھتا ہے، لیکن اگر شرم گاہیں مل گئی ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ محل جماع سرے سے اس فعل کا متحمل ہی نہیں تھا، اس لیے زنا کا فعل کامل صورت میں واقع نہیں ہوا اور اس پر حد نہیں لگائی جا سکتی۔یہ جزرسی غالباً کسی داد کی محتاج نہیں ہے۔”

ہمارا خیال ہے فاضل محقق کو اس مقام پر فقہ حنفی کا یہ قرض بھی اتار کر ہمارے سوالات کا دو ٹوک جواب دے ہی دینا چاہیے کہ اس کے علاوہ بھی اگر فقہائے احناف کا کوئی موقف ہے تو وہ سامنے لے آئیں ممکن ہے ہمارے ناقص مطالعے سے حقائق اوجھل رہ گئے ہوں اور ہاں اس کے بعد اپنے رشحات فکر فقہ حنفی کے اکابر علما کے سامنے بھی ہیش فرما کر تصدیق کرلیں تاکہ ہمیں معلوم ہوجائے کہ حنفیت کے اس ارتقاء کو آیا وہ تسلیم بھی کرتے ہیں یا نہیں۔

Dr. Muhammad Hamidullah
Visit Website of Dr. Muhammad Hamidullah
Leave A Reply

Your email address will not be published.