سارے صحابہ ایک جیسے نہیں ،،، از قاری حنیف ڈار
رضی اللہ عنھم کی آیت کے نزول کے بعد بعض صحابہؓ اگرچہ بدری بھی تھے ان کو حد ماری گئ ،، حضرت حسانؓ اور حضرت مسطحؓ بدری صحابی تھے ،، تو جب دنیا میں ان پر شریعت جاری ھوئی ھے ، غامدیہ عورت کو صحابیہ ھونے کے باوجود رجم کیا گیا ،،حمنہ بنت جحشؓ کو نبی ﷺ کی سالی اور پھوپھی زاد بہن ھونے کے باوجود 80 کوڑے کی حد ماری گئ، جب بنو خزیمہ کی فاطمؓہ نامی عورت نے چوری کی اور اس کا ھاتھ کاٹنے کا حکم ھوا تو لوگوں نے اسامہؓ کو سفارشی بنایا ،سفارش سن کر آپ ﷺ نے اسامہؓ کو جھڑک دیا اور فرمایا کہ ” اتشفع فی حدٍ من حدود اللہ؟ ” کیا تو اللہ کی حدوں میں سے ایک حد کو لاگو ھونے سے روکنے کی سفارش کرنے آئے ھو ، اس کے بعد منبر پہ چڑھ کر خطبہ دیا کہ لوگو،، تم سے پہلی امتیں اسی لئے برباد ھو گئیں کہ ان کا بڑا جب گناہ کرتا تھا تو اس کو چھوڑ دیتے تھے اور جب کوئی چھوٹا جرم کرتا تھا تو اس کو سزا دیتے تھے ، مگر جہاں تک میرا تعلق ھے تو ” اللہ کی قسم اگر محمدﷺ کی بیٹی فاطمہؓ بھی چوری کرے تو اس کا ھاتھ کاٹ دوں گا ،،،
عن عائشة – رضي الله عنها – أن قريشاً أهمهم شأن المرأة المخزومية التي سرقت ، فقالوا :من يكلم فيها رسول الله -صلى الله عليه وسلم- ؟فقالوا : ومن يجترئ عليه إلا أسامة ، حِبُّ رسول الله -صلى الله عليه وسلم-.
– فكلمه أسامة .
– فقال رسول الله -صلى الله عليه وسلم- : « أتشفع فى حد من حدود الله ».
ثم قام فاختطب فقال : « أيها الناس إنما أهلك الذين قبلكم أنهم كانوا إذا سرق فيهم الشريف تركوه ، وإذا سرق فيهم الضعيف أقاموا عليه الحد ، وايم الله لو أن فاطمة بنت محمد سرقت لقطعت يدها » .
حقوق العباد صحابہؓ کو بھی معاف نہیں ،
وعن أبي هريرة رضي الله عنه , قال : (( خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ خَيْبَرَ ، فَلَمْ نَغْنَمْ ذَهَبًا وَلَا فِضَّةً ، إِلَّا الْأَمْوَالَ وَالثِّيَابَ وَالْمَتَاعَ ، فَأَهْدَى رَجُلٌ مِنْ بَنِي الضُّبَيْبِ ، يُقَالُ لَهُ : رِفَاعَةُ بْنُ زَيْدٍ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غُلَامًا ، يُقَالُ لَهُ : مِدْعَمٌ ، فَوَجَّهَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى وَادِي الْقُرَى ، حَتَّى إِذَا كَانَ بِوَادِي الْقُرَى ، بَيْنَمَا مِدْعَمٌ يَحُطُّ رَحْلًا لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، إِذَا سَهْمٌ عَائِرٌ فَقَتَلَهُ ، فَقَالَ النَّاسُ : هَنِيئًا لَهُ الْجَنَّةُ ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : « كَلَّا وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ ، إِنَّ الشَّمْلَةَ الَّتِي أَخَذَهَا يَوْمَ خَيْبَرَ مِنَ الْمَغَانِمِ ، لَمْ تُصِبْهَا الْمَقَاسِمُ ، لَتَشْتَعِلُ عَلَيْهِ نَارًا » ، فَلَمَّا سَمِعَ ذَلِكَ النَّاسُ ، جَاءَ رَجُلٌ بِشِرَاكٍ ، أَوْ شِرَاكَيْنِ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ : « شِرَاكٌ مِنْ نَارٍ ، أَوْ شِرَاكَانِ مِنْ نَارٍ » )) متفق عليه .
اللہ کے رسولﷺ کا غلام مدعمؓ جو نبئ کریم کے اونٹ کی دیکھ بھال کرتا تھا وہ نبئ کریم ﷺ کے اونٹ پر پالان رکھ رھا تھا کہ ایک نامعلوم تیر آکر اس کو لگا اور وہ اسی جگہ گر کر شھید ھو گیا ،، صحابہؓ پکارے کہ اس کو جنت مبارک ھو ،، اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا کہ ھر گز نہیں ،میں اس پر مال غنیمت کی وہ چادر آگ بن کر بھڑکتے دیکھ رھا ھوں جو اس نے خیبر کے دن جمع نہیں کرائی تھی ،، متفق علیہ ،، گویا حقوق العباد پر صحابی کو مرنے کے بعد بھی حساب دینا ھو گا ،،
اللہ کے رسولﷺ کا اعلان ،،
وعن أبي هريرة رضي الله عنه قال : (( قَامَ فِينَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَذَكَرَ الْغُلُولَ , فَعَظَّمَهُ وَعَظَّمَ أَمْرَهُ ، قَالَ : « لَا أُلْفِيَنَّ أَحَدَكُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ عَلَى رَقَبَتِهِ شَاةٌ لَهَا ثُغَاءٌ عَلَى رَقَبَتِهِ فَرَسٌ لَهُ حَمْحَمَةٌ ، يَقُولُ : يَا رَسُولَ اللَّهِ أَغِثْنِي ، فَأَقُولُ : لَا أَمْلِكُ لَكَ شَيْئًا قَدْ أَبْلَغْتُكَ , وَعَلَى رَقَبَتِهِ بَعِيرٌ لَهُ رُغَاءٌ ، يَقُولُ : يَا رَسُولَ اللَّهِ أَغِثْنِي ، فَأَقُولُ : لَا أَمْلِكُ لَكَ شَيْئًا قَدْ أَبْلَغْتُكَ وَعَلَى رَقَبَتِهِ صَامِتٌ ، فَيَقُولُ : يَا رَسُولَ اللَّهِ أَغِثْنِي ، فَأَقُولُ : لَا أَمْلِكُ لَكَ شَيْئًا قَدْ أَبْلَغْتُكَ , أَوْ عَلَى رَقَبَتِهِ رِقَاعٌ تَخْفِقُ ، فَيَقُولُ : يَا رَسُولَ اللَّهِ أَغِثْنِي ، فَأَقُولُ : لَا أَمْلِكُ لَكَ شَيْئًا قَدْ أَبْلَغْتُكَ » )) متفق عليه .
اللہ کے رسولﷺ نے ھم میں کھڑے ھو کر خطبہ دیا اور مالِ غنیمت میں کمی بیشی سے خبردار کرتے ھوئے فرمایا کہ میں قیامت کے دن تم میں سے کسی کے کندھے پر بکری لدی ھوئی نہ دیکھوں کہ وہ منمنا رھی ھے اور وہ بندہ کہہ رھا ھو کہ یا رسول اللہ ﷺ میری مدد فرمایئے،، اور میں جواب دوں کہ میں کوئی اختیار نہیں رکھتا ، میں نے تمہیں یہ بات پہنچا دی تھی،نہ کسی کے کندھے پہ گھوڑا، اونٹ ،سونا چاندی یہانتک کہ وہ معمولی چیز بھی کہ جسے ھوا کا جھونکا ھلا کر رکھ دے اور تم مجھے پکارو کہ یا رسول اللہ میری مدد کیجئے اور میں جواب دوں کہ میں تمہارے لئے کچھ نہیں کر سکتا ،،،میں تمہیں اصل صورتحال بتا کر آیا تھا ،، متفق علیہ ،،
اس کے بعد گزارش ھے کہ ھم نے صحابہؓ کو جو اختیارات اور جو سہولیات پچھلی چودہ صدیوں میں الاٹ کر دی ھیں وہ تو خود صحابہؓ کی سوچ میں دور دور تک نہیں تھیں ،، قرآن میں جتنی وعیدیں آئی ھیں وہ سب سے پہلے صحابہؓ کے بارے میں تھیں وھی ان کے فوری مخاطب تھے اور باقی امت بعد میں اس کی مخاطب ھے ،، اور صحابہؓ نے ان وعیدوں کو اپنے بارے میں سمجھا تبھی اللہ سے ڈرے اور اپنی اصلاح کی ،، فمن یعمل مثقال ذرۃٍ خیراً یرہ، ومن یعمل مثقال ذرۃٍ شراً یرہ ،، صحابہ کے لئے سب سے پہلے تھی ،، اتقوا اللہ حق تقاتہ سب سے پہلے صحابہ کے لئے تھی ،، والسارق والسارقۃ فاقطعوا ایدیھما چور مرد اور چور عورت کا ھاتھ کاٹ دو سب سے پہلے صحابہؓ کے لئے تھی اور سب سے پہلے ان کے ھی ھاتھ کاٹے گئے ،الزانیۃ والزانی فاجلدوا کل واحد منھما مائۃ جلدہ ، زانی عورت اور زانی مرد کو 100 کوڑے مارو،، صحابہ کے لئے پہلے تھی اور پہلے کوڑے صحابہؓ کو ھی لگے اور پہلے سنگسار صحابہ ھی ھوئے ،، کہیں نہیں لکھا کہ یہ سارے قوانین 1400 سال بعد والے پاپیوں کے لئے ھیں اور صحابہؓ کو کچھ نہ کہنا ،،
ابوبکر الصدیق رضی اللہ عنہ کے بارے میں آتا ھے کہ وہ فرمایا کرتے تھے کہ کاش میں کسی درخت کا پتہ یا گھاس کا تنکا ھوتا جسے کوئی بکری کھا گئ ھوتی ،، اور مرنے سے پہلے جو تنخواہ لی تھی وہ واپس کر دی ،وصول اس لئے کی تھی کہ قانون بن جائے کہ تنخواہ لی جا سکتی ھے مگر تقوے کا یہ عالم کہ مجھے اس کی ضرورت نہیں،، بعد میں جو کچھ لکھا گیا ان سب میں یہ تاثر دیا گیا کہ گویا اللہ کے یہاں بھی عدل کوئی نہیں ایک ایلیٹ کلاس ھے کہ جس کو ھر خون معاف اور ھر خیانت کی اجازت دے دی گئ ھے ،،
اب آپ جوابی بیانیہ پڑھ لیجئے کہ میرے سوالوں کو چھیڑا تک نہیں گیا ،،
1- کیا قرآن کی آیات خود صحابہ میں تفریق نہیں کر رھی اور ان کے الگ الگ درجات ان کے بیک گراؤنڈ کی بنیاد پر طے کر رھی ھیں مثلاً فتح مکہ سے پہلے والے اور بعد والے ،، السابقون الاولون اور متأخرون کے درمیان ،،
2- کیا خود اللہ نے ھی نہیں فرما دیا کہ ” لا یستوون عنداللہ ” یہ اللہ کے نزدیک برابر نہیں ھیں
3- کیا بندہ جب تک قرآن کے خلاف عقیدہ نہ بنائے تب تک اھل سنت نہیں ھو سکتا ؟