سورہ النِّسَاء کی آیت 159 کی تفسیر از محمد نعیم خان
یہ آیت حضرت عیسی کی واپسی کے حق میں پیش کی جاتی ہے کہ جب اُن کی دوبارہ واپسی ہوگی تو اہل کتاب میں سے ہر ایک اپنی موت سے پہلے اُن پر ایمان لے آئے گا اس طرح پوری دنیا مسلمان ہوجائے گی۔قرآن کی روشنی میں دیکھتے ہیں کہ یہ دعوی کتنا سچا ہے اور کیا قرآن اس کی سند فرہام کرتا ہے؟ اس آیت کا سادہ سا ترجمہ پیش کر رہا ہوں : وَإِن مِّنْ أَهْلِ الْكِتَابِ إِلَّا لَيُؤْمِنَنَّ بِهِ قَبْلَ مَوْتِهِ ۖ وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ يَكُونُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًا ﴿١٥٩﴾ اور (قربِ قیامت نزولِ مسیح علیہ السلام کے وقت) اہلِ کتاب میں سے کوئی (فرد یا فرقہ) نہ رہے گا مگر وہ عیسٰی (علیہ السلام) پر ان کی موت سے پہلے ضرور (صحیح طریقے سے) ایمان لے آئے گا، اور قیامت کے دن عیسٰی (علیہ السلام) ان پر گواہ ہوں گے، (159) ترجمہ طاہرالقادری
یہی ترجمہ یا اس سے ملتا جلتا ترجمہ مولانا مودودی، احمد رضا خان، احمد علی، جالندری، محمد جونا گڑھی وغیرہ نے کیا ہے اور اس ترجمے کے پیچھے یہی عقیدہ کارفرما ہے کہ حضرت عیسی کی واپسی ہوگی اور انہیں اللہ نے آسمان پر زندہ اُٹھالیا ہے۔ یہ تمام تراجم قرآن کو سامنے رکھ کر نہیں کئے گئے بلکہ ان کی بنیاد وہ روایات ہیں جو حضرت عیسی کی واپسی کی خبر دیتی ہیں۔ اب اگر ہم قرآن سے ہی پوچھیں کہ جس وقت قرآن نازل ہو رہا تھا اُس وقت اھل کتاب کا کیا عقیدہ تھا؟۔ یہ بات تو قارئین بخوبی جانتے ہی ہونگے کہ قرآن یہود و نصاری کو اھل کتاب کہہ کر پکارتا ہے۔ اس لئے اس میں مزید تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں۔ اگر اس ہی سورہ کی آیت 171 کا مطالعہ کریں تو وہاں اللہ اھل کتاب یعنی نصاری کو اپنے دین میں غلو کرنے اور تثلیث کے عقیدے کی نفی کر رہا ہے۔ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ عیسائی نزول قرآن کے وقت اس عقیدہ تثلیث پر قائم تھے۔ وہ اس عقیدہ کو دل و جان سے قبول کئے ہوئے تھے کہ اللہ نے اپنا ایک بیٹا اس دنیا میں بھیجا جس نے سولی پر چڑھ کر اپنے خون سے ان کے گناہوں کا کفارہ ادا کیا۔ اب جو بھی ان پر یقین کرے گا وہی اللہ کی جنت کا حقدار ہوگا۔ اب دوسری جانب اھل کتاب کے دوسرے گروہ کا عقیدہ قرآن سے معلوم کرتے ہیں۔ اگر آپ اس ہی سورہ کی آیت 157 کا مطالعہ کریں تو اس میں اللہ یہ بات بیان کر رہا ہے کہ یہودی اس عقیدہ پر یقین رکھتے تھے کہ انہوں نے حضرت عیسی کو سولی پر چڑھا دیا تھا جس کی نفی اللہ اس آیت میں فرما رہا ہے کہ نہ تو انہوں نے حضرت عیسی کو قتل کیا اور نہ ہی اُن کو صلیب دی۔ اب یہ دونوں عقیدے نزول قرآن کے وقت اھل کتاب کے تھے۔ اھل کتاب کے یہ دونوں گروہ اس بات پر یقین رکھتے تھے اور آج بھی ان میں سے ایک کا یہی عقیدہ ہےکہ حضرت عیسی سولی پر چڑھ گئے تھےاور دوسرا اس زعم میں ہے کہ انہوں نے حضرت عیسی کو قتل کیا ہےاور صلیب پر چڑھانے والے یہی تھے۔اب ان دونوں عقیدوں کو سامنے رکھتے ہوئے اس آیت کا ترجمہ کریں جس کی تفسیر یہاں بیان ہو رہی ہے تو اس کا ترجمہ کچھ یوں ہوگا: اور کوئی اہل کتاب میں ایسا نہیں ہے جو اپنی موت سے پہلے ان پر ایمان نہ لائے اور قیامت کے دن عیسٰی علیہ السّلام اس کے گواہ ہوں گے (159) عربی متن میں موجود لفظ لَيُؤْمِنَنَّ واحد مذکر غائب فعل مضارع ہے یعنی ایمان لاتا ہے اور لاتا رہے گا۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کس پر؟ جس کو دوسرے لفظ بِهِ نے تفسیر کی ہے جس میں ”ھ“ کی ضمیر اس پورے سیاق و سباق میں حضرت عیسی کی طرف لوٹتی ہے جن کا زکر اس سے پچھلی آیات میں چلا آرہا ہے۔ اب ہر اھل کتاب اپنی موت سے پہلے اس بات پر ایمان لاتا ہے جس کا ذکر اُوپر میں نے بیان کیا۔ اس کا عقیدہ مکمل ہی نہیں ہوتا جب تک وہ اس پر ایمان نہ لائے۔ جس کے خلاف گواہی حضرت عیسی اللہ کے سامنے پیش کریں گے جس کر سورہ المائدہ کی آیات 115 سے 117 میں بیان ہوا ہے۔ یہ ہے اس پوری آیت کا سیاق و سباق اور اس کی تفسیر جس کو احباب ایک غیر قرآنی عقیدہ کو ثابت کرنے کے لئے پیش کرتے ہیں ۔ یہ میرا فہم ہے جو میں نے قرآن کے مطالعے سے سمجھا۔ اس میں یقیناً غلطی کی گنجائش ہوگی ۔