شخصیت سازی کا المیہ ۔۔۔۔ قاری حنیف ڈار
شخصیت سازی کا المیہ
قاری حنیف ڈار
ہمارے ملک کا سب سے بڑا المیہ شخصیت سازی انسان بنابے والے اداروں میں شخصت سازی کا فقدان ، ہمارے ہاں دنیا کے تمام تر شعبوں سے منسلک ماہرین کی زیر نگرانی بہترین سکلز پر بہترین لوگ تیار کئے جاتے ہیں انسانیت شعور اور تہذیب سے جڑی قدروں سے آزاد بے فکر باغی اور بے حس لوگ جنکا ٹارگٹ صرف اور صرف حصولِ دنیا ہے جسکے تگ و دو میں کوئی بھی چیز حائل نہیں ہے جائز ناجائز کا تصوّر مٹ چکا ہے اللہ اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم سے محبت جذباتی ہے زندگیاں ان اصول و ضوابط سے یکسر خالی ہیں جنہیں کتابوں اور نصابوں میں زندگی گزرانے کے سنہری اصول قرار دیا گیا ہے پڑھایا جاتا ہے مگر اپنایا نہیں جاتا ہے لفّاظی ہماری بول چال رکھ رکھاؤ اور معمولات کا حصّہ ہے کوئی شخص مکمل طور پر اسلام میں داخل نہیں ہونا چاہتا الا وہ احباب جنہیں ان کے بڑوں نے بچپن سے اس پر کاربند کیا ہو ،یہی وجہ ہے کہ میجوریٹی از اتھارٹی کی بنیاد پر وہی بات قابلِ عمل و تقلید ہے جسے ہر خاص و عام کرنا چاہتا ہے
کیا میں نے درست کہا ؟
چائے میں سے لسّی نکالنے کی ناکام کوشش ہمارے دانشورں نے لے رکھی ہے کہ وہ سارا قصور حکمرانوں پر ڈال دیتے ہیں میں کہتا ہوں فرشتے بٹھا دیجئے پاکستان میں مگر جو سسٹم عوام میں رچ بس گیا ہے جس سسٹم پر ہم نے نسلیں پروان چڑھا دیں ہیں اس کے علاوہ سب ناکام ہوں گے اور وہ سسٹم لوٹ مار کا ہمیں ہماری شخصیت سازی میں دیا گیا ہے، کوئی انہونی نظر بندی سے تو ممکن ہے مگر دیر پا اور قابلِ تقلید ہرگز نہیں ہے ،جب تک ہم سب اجتماعی طور پر ایک قوم کو تشکیل نہیں دیں گے یہ جھگڑا قائم رہے گا ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے پہلے شخصیت سازی فرمائی اور پھر قوانین پر عمل درآمد کروایا گیا ،پہلے استعداد پیدا کی گئی پھر بیج بویا گیا ہماری حکومت ہمارے اداروں میں جو لوگ ہیں وہ اجتماعی طور پر ہم سب کے مکتبہء فکر نے تشکیل دیے ہیں اور اسکی سب سے بڑی زمہ داری ان احباب کی ہے جنکے کے پاس والدین بچے جننے کے بعد تین تین چار چار سال کے بچے حوالے کر کے 20 سال تک بے فکر ہوجاتے ہیں اور 20سال کے طویل عرصے میں جو جنریشن تیار ہو کر باہر عملی میدان میں زندگی کے تمام شعبوں سے وابسطہ ہوتی ہے ان کی دماغ سازی شخصیت سازی کے زمہ دار کوں لوگ ہیں جن پر لاکھوں روپے پچھلے 20 سالوں میں بلکہ کروڑوں روپے خرچ کئے گئے ہیں کیا وہ صاحبِ کردار احباب ہیں ؟ اور حکمران بھی تو اس معاشرے کے لوگ ہیں جو اس معاشرے نے انہیں دیا وہ وہی تو کریں گے پھر صرف حکمران ہی کیوں ہم سب کیوں نہیں ؟