شفاعت کا عقیدہ تحریر محمد نعیم خان

شفاعت کا عقیدہ

تحریر: محمد نعیم خان

(پی ڈی ایف فائل لنک)

جو آیات شفاعت کے خلاف پیش کی جاتی ہیں مثال کے طور پر ، 2:123، 2:254، 4:123. 6:51، 6:80، 32:4، اس سے تو کسی کو اختلاف نہیں لیکن جو آیات اس کے حق میں پیش کی جاتی ہیں مثال کے طور پر 2:255, 10:3، 19:85، 20:109، 21:25، 34:23، 43:86، 53:26۔

 اس میں جو بنیادی بات ہے وہ شفاعت کے لفظ کا مطلب نہ سمجھنے یا پھر صرف ایک ہی مطلب لینے اور ہر جگہ اس ہی مطلب کا استعمال ہے . اس کی بنیادی وجہ ہمارے مترجموں نے پہلے سے ایک عقیدہ ذہن میں لے کر ان آیات کا ترجمہ کیا ہے . اگر قرآن کی بنیادی تعلیمات کو سامنے رکھا جاے تو شفاعت کا عقیدہ کہیں بھی ثابت نہیں ہوتا

شفاعت کے عربی کے لفظ کے بنیادی مطلب ، ساتھ کھڑے ہونا ، معاونت ، اس طرح ساتھ مل جانا کہ اس کا زوج بن جانا ، اس کی معاونت کے لیے ہر وقت ساتھ ہونا .

اس کے معنی سفارش کے اس لیے ہو نگے کہ ایک شخص کسی دوسرے شخص کی معاونت کے لیے اس کے ساتھ کھڑا ہو جاتا ہے اور اس کے حق میں سفارش کرتا ہے .

جیسے سوره النساء کی آیت 85 میں ہے

مَّن يَشْفَعْ شَفَاعَةً حَسَنَةً يَكُن لَّهُ نَصِيبٌ مِّنْهَا ۖ وَمَن يَشْفَعْ شَفَاعَةً سَيِّئَةً يَكُن لَّهُ كِفْلٌ مِّنْهَا ۗ وَكَانَ اللَّـهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ مُّقِيتًا ﴿85﴾

جو بھلائی کی سفارش کریگا وہ اس میں سے حصہ پائے گا اور جو برائی کی سفارش کرے گا وہ اس میں سے حصہ پائے گا، اور اللہ ہر چیز پر نظر رکھنے والا ہے(85)

اوپر والی آیت میں اگر سفارش کی جگہ مدد کے لیے اٹھ کھڑے ہونا اور ساتھ ہو جانا ترجمہ کیا جائے تو آیت بہتر سمجھ آتی ہے

اس کے بعد سورہ الزالزہ کی آیات کو بھی دیکھیں جو شفاعت کی نفی کرتی ہے دین کی بنیادی عمارت ہی قانون مکافات عمل پر کھڑی ہے .

فَمَن يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَرَهُ ﴿7﴾ وَمَن يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا يَرَهُ ﴿8﴾

پھر جس نے ذرہ برابر نیکی کی ہوگی وہ اس کو دیکھ لے گا (7) اور جس نے ذرہ برابر بدی کی ہوگی وہ اس کو دیکھ لے گا(8)

قرآن میں سورہ البقرہ میں صاف الفاظ میں لکھا ہے :

وَاتَّقُوا يَوْمًا لَّا تَجْزِي نَفْسٌ عَن نَّفْسٍ شَيْئًا وَلَا يُقْبَلُ مِنْهَا شَفَاعَةٌ وَلَا يُؤْخَذُ مِنْهَا عَدْلٌ وَلَا هُمْ يُنصَرُونَ ﴿48﴾

اور ڈرو اُس دن سے جب کوئی کسی کے ذرا کام نہ آئے گا، نہ کسی کی طرف سے سفارش قبول ہوگی، نہ کسی کو فدیہ لے کر چھوڑا جائے گا، اور نہ مجرموں کو کہیں سے مدد مل سکے گی(48)

جو آیت شفاعت کے حق میں اکثر دی جاتی ہے وہ سوره بقرہ کی آیت 255 ہے …

……. مَن ذَا الَّذِي يَشْفَعُ عِندَهُ إِلَّا بِإِذْنِهِ …………

…….. کون ہے جو اُس کی جناب میں اُس کی اجازت کے بغیر سفارش کر سکے؟ ……

اس سے یہی نتیجہ اخذ کیا جاتا ہے کہ شفاعت الله کی اجازت سے کی جا سکتی ہے اور رسول الله الله کی اجازت سے ہی شفاعت کرینگے

اس سے ایک آیت پیچھے جائیں تو وہاں ہے ….

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَنفِقُوا مِمَّا رَزَقْنَاكُم مِّن قَبْلِ أَن يَأْتِيَ يَوْمٌ لَّا بَيْعٌ فِيهِ وَلَا خُلَّةٌ وَلَا شَفَاعَةٌ ۗ وَالْكَافِرُونَ هُمُ الظَّالِمُونَ ﴿254﴾

اے لوگو جو ایمان لائے ہو، جو کچھ مال متاع ہم نے تم کو بخشا ہے، اس میں سے خرچ کرو، قبل اس کے کہ وہ دن آئے، جس میں نہ خریدو فروخت ہوگی، نہ دوستی کام آئے گی اور نہ سفارش چلے گی اور ظالم اصل میں وہی ہیں، جو کفر کی روش اختیار کرتے ہیں(254)

اگر ان دونوں آیتوں کو دیکھیں تو بظاھر ان میں تضاد نظر آتا ہے کیوں کہ ایک میں سفارش قبول کرنے اور میں نہ کرنے کی بات ہے

ایک بات یہاں اگر سمجھ لی جاے تو ان آیات کو سمجھنے میں آسانی ہوتی ہے . قرآن میں موت کے بعد کے حالات کو الله نے انسانوں کو سمجھانے کے لیے تمثیلی انداز اختیار کیا ہے . وہاں کیا زندگی ہوگی ، کیسے معاملات ہونگے اس کو اس دنیا میں سمجھنا مشکل ہے . اس لیے یہ تمام باتیں تمثیلی انداز میں سمجھائی گی ہیں .

اس ہی طرح جزا سزا کی حقیقت کو سمجھانے کے لیے تمثیلی انداز میں ایسا نقشہ کھینچا ہے کہ جیسے عدالت میں ملزموں کی پیشی ہوتی ہے مقدمہ کی سماعت کے بعد حکم سنایا جاتا ہے ، مقدمہ میں حاکم کے علاوہ ، ملزم ہوتا ہے ، گواہ ہوتے ہیں ، پولیس کے سپاہی ہوتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔

قرآن نے اس قسم کی استعاروں میں حقیقت کو بیان کیا ہے مثال کے طور پر سورہ الانعام میں کہا ہے کہ جس شخص کا حساب ہو رہا ہوگا وہ عدالت میں اکیلا کھڑا ہے

وَلَقَدْ جِئْتُمُونَا فُرَادَىٰ كَمَا خَلَقْنَاكُمْ أَوَّلَ مَرَّةٍ وَتَرَكْتُم مَّا خَوَّلْنَاكُمْ وَرَاءَ ظُهُورِكُمْ ۖ وَمَا نَرَىٰ مَعَكُمْ شُفَعَاءَكُمُ الَّذِينَ زَعَمْتُمْ أَنَّهُمْ فِيكُمْ شُرَكَاءُ ۚ لَقَد تَّقَطَّعَ بَيْنَكُمْ وَضَلَّ عَنكُم مَّا كُنتُمْ تَزْعُمُونَ ﴿94﴾

(اور اللہ فرمائے گا) "لو اب تم ویسے ہی تن تنہا ہمارے سامنے حاضر ہوگئے جیسا ہم نے تمہیں پہلی مرتبہ اکیلا پیدا کیا تھا، جو کچھ ہم نے تمہیں دنیا میں دیا تھا وہ سب تم پیچھے چھوڑ آئے ہو، اور اب ہم تمہارے ساتھ تمہارے اُن سفارشیوں کو بھی نہیں دیکھتے جن کے متعلق تم سمجھتے تھے کہ تمہارے کام بنانے میں ان کا بھی کچھ حصہ ہے، تمہارے آپس کے سب رابطے ٹوٹ گئے اور وہ سب تم سے گم ہوگئے جن کا تم زعم رکھتے تھے(94)

پیچھے سے ایک سپاہی تمہیں ہانکتا ہوا ہمارے پاس لے کر آئے گا۔ جس کا ذکر سورہ ق میں کیا ہے۔

وَجَاءَتْ كُلُّ نَفْسٍ مَّعَهَا سَائِقٌ وَشَهِيدٌ ﴿21﴾

ہر شخص اِس حال میں آ گیا کہ اُس کے ساتھ ایک ہانک کر لانے والا ہے اور ایک گواہی دینے والا(21)

یہ گواہ خود بہ خود اس شخص کے ساتھ کھڑے نہیں ہو جائینگے بلکہ جس کو بلایا جائے گا وہی آے گا اور اسے گواہی دینے کی اجازت دی جائے گی . یہی وہ شفیع (ساتھ کھڑے ہونے والے ) جن کا ذکر ان قسم کی تمام آیات میں آیا ہے اور یہی ذکر سوره بقرہ کی آیت 255 میں .

آخر میں ایک بات کی وضاحت کردوں کہ یہ گواہی بندوں کے لئے ہوگی تاکہ ان میں سے کوئی اپنے دل میں یہ خیال بھی نہ لاسکے کہ اس کے ساتھ نہ انصافی ہوئی ہے۔ اللہ تو سورہ البقرہ کی آیت 255 میں یہ بیان کرچکا ہے کہ وہ سب جانتا ہے جو اگے ہے اور جو پیچھے ہے ۔ اس لئے کوئی بھی اللہ کے انصاف پر انگلی نہیں اُٹھا سکے گا۔ جیسا کہ اللہ نے قران میں فرمایا ہے کہ اُس دن سب کا فیصلہ کردیا جائے گا اور کسی پر بھی ذرہ برابر بھی ظلم نہیں ہوگا۔

ختم شد

٭٭٭٭٭

Dr. Muhammad Hamidullah
Visit Website of Dr. Muhammad Hamidullah
1 تبصرہ
  1. […] Download from Archive Download from Scribd Unicide Text […]

Leave A Reply

Your email address will not be published.