صابی کون؟ تحریر ابن آدم
قرآنِ پاک کے تین مقامات پر صابی نامی ایک گروہ کا ذکر ہے اور تینوں ہی جگہ یہود اور نصاریٰ کے ساتھ مذکور ہے. سورہ بقرہ اور سورہ مائدہ میں ان کا ذکر بالاختصاص اُس گروہ کے طور پر ہوا ہے جس کے پاس کتاب کا علم ہے، اور وہ بنی اسرائیل کے سلسلے میں سے ہی کسی کے ساتھ جڑا ہے۔ سرزمینِ عرب میں کیونکہ یہ طبقہ بطور مذہبی گروہ کے آباد نہیں تھا اس لیے بعد کے اہل علم میں اس بات پر اختلاف رہا ہے کہ درحقیقت صابی نامی گروہ ہے کون؟ ایران عراق میں ایک طبقہ کیونکہ شروع سے ہی وہاں کے سابق مذہبی رسومات پر بھی اہل کتاب ہونے کا ٹھپہ لگوانا چاہتا تھا تو کوشش ہوئی ہے کہ اس لفظ کا تعلق کسی طرح وہاں پہنچایا جائے مگر کیونکہ قرآن پاک میں سوره حج کی آیت نمبر ١٧ میں صابیوں کے ساتھ ساتھ مجوسیوں کا بھی ذکر بیک وقت کر دیا گیا ہے لہٰذا یہ گروہ مجوسی ہرگز نہیں ہو سکتا. ارشاد ہوتا ہے:
جو لوگ ایمان لائے، اور جو یہودی ہوئے، اور صابئی، اور نصاریٰ، اور مجوس، اور جن لوگوں نے شرک کیا، ان سب کے درمیان اللہ قیامت کے روز فیصلہ کر دے گا، ہر چیز اللہ کی نظر میں ہے ﴿۱۷﴾
یہ قرآن پاک کی اس دلیل قطعی کا احسان ہے کہ امت میں کسی سنجیدہ حلقہ کی طرف سے صابیت کو مجوسیت کے مترادف کے طور پر نہیں سمجھا گیا ورنہ آج ان گنت طرق سے روایتیں ہم تک پہنچی ہوئی ہوتیں کہ قرآن میں جہاں جہاں صابی کا لفظ ہے اسکو مجوسی کا قائم مقام ہی سمجھا جائے اور پھر نتیجتاً اس بات سے اختلاف رکھنا بھی دائرہ اسلام سے خارج ہونے کے برابر قرار دے دیا جاتا. تاہم پھر بھی بعض حلقوں نے اس گروہ کا تعلق وہیں سے جوڑنے کی کوشش کی ہے اور صابیت کو مجوسیت اور یہودیت کے بین بین کوئی مذہب قرار دیا ہے۔
ایک اور گروہ کا ماننا ہے کہ کیونکہ قرآن پاک میں خود قرآن کے علاوہ تین کتابوں توریت، زبور اور انجیل کا نام لیکر ذکر ہوا ہے، لہذا جس طرح یہودی توریت کو ماننے والے ہیں اور نصاریٰ انجیل کو ماننے والے ہیں اسی طرح صابی زبور کے ماننے والے ہیں. مگر توریت کا انکار کرتے ہوئے زبور کا اقرار کوئی معنی نہیں رکھتا، کیونکہ توریت اسرائیلی قوم کی اساسی کتاب ہےاور سورہ بقرہ اور مائدہ کے بیان سے بھی یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ یہ گروہ بنی اسرائیل ہی کی کوئی شاخ ہے۔ اور بالفرض صابیوں نے اگر توریت کو مانتے ہوئے زبور کو مانا ہے، تو یہ تو تمام یہود و نصاریٰ مانتے ہیں، تو پھر صابیوں اور یہودیوں میں وجہ تفریق زبور پر ایمان یا عدم ایمان بالکل نہیں ہوسکتا-
ایک تیسرے طبقہ کا کہنا ہے کہ دور فترت سے متصل قبل مبعوث ہونے والے دو انبیاء حضرت یحییٰ اور حضرت عیسیٰ سے تعلق جوڑنے والے دو گروہ بالترتیب صابی اور نصاریٰ ہیں، گویا صابی حضرت یحییٰ کو ماننے والے ہوۓ اور عراق کے ایک باطنی فرقے ‘مندائی’ کے متعلق یہ دعوی بھی منسوب ہے کہ وہ حضرت یحییٰ کو مانتے ہیں اور انکی اصطباغ کا طریقہ حضرت یحییٰ ہی کی سنت ہے۔ اسی لیے بعض لوگوں کا خیال ہے کہ یہی وہ فرقہ ہے جس کو قرآن میں صابی کہا گیا ہے. مگر اس بات میں اتنا وزن نہیں ہے۔ سورہ بقرہ اور مائدہ تو یہ بتا رہی ہیں کہ صابی کوئی اسرائیلی گروہ ہے، مگر مندائی فرقہ تو حضرت ابراہیم، موسیٰ اور عیسیٰ سبھی کا منکر ہے- اور ویسے بھی حضرت یحییٰ نبی تھے رسول نہیں تھے، اور قرآن انکی بعثت کا بنیادی مقصد ہی یہ بتاتا ہے کہ وہ بنی اسرائیل سے حضرت عیسیٰ کی تصدیق چاہتے تھے، اور اللہ نے انکی پیدائش اسرائیلیوں میں مقدس ترین جانے گئے خاندان بنی ھارون میں کی تھی اور یہ پیدائش انکے والدین حضرت زکریا اور الیشبع کے انتہائی بڑھایے اور بانجھ پن میں ہوئی تھی تاکہ وہ بنی اسرائیل کے لیے ایک نشانی بنیں اور بنی اسرائیل حضرت عیسیٰ کے رسول ہونے کے سلسلے میں حضرت یحییٰ کی بات پر کان دھریں- یہ کیونکر ممکن ہے کہ تمام رسولوں کا انکار کرتے ہوئے ایک نبی کا اقرار کیا جائے اور وہ بھی محض خانہ پری کے لیے۔ یہاں سے یہ معلوم ہوا کہ اسلامی ریاست میں اپنے اوپر اہل کتاب کا لیبل لگوانے کے لیے اس باطنی فرقے نے اپنی ایک رسم کو حضرت یحییٰ سے جوڑ کر اسکا فائدہ اٹھانا چاہا تھا۔
ایک چوتھے حلقہ کا کہنا ہے کہ عباسی خلیفہ مامون کے دور میں جزیرہ یا موجودہ کردستان میں حران میں آباد ایک فرقہ نے صابی ہونے کا دعوی کیا تھا جو کہ اپنی نسبت حضرت حضرت ادریس سے بتاتا تھا. ان کی رسومات میں ستارہ پرستی بھی شامل تھی کیونکہ صباؑ النجم ستارہ نکلنے کے معنی میں اتا ہے اس لئے ان ستارہ پرستوں کا صابی ہونے کا دعوی مان لیا گیا حالانکہ قرآن میں جس طور صابیوں کا ذکر سوره بقرہ اور سوره مائدہ میں آیا ہے اس سے یہ بات عیاں ہے کہ یہ گروہ اہل کتاب میں سے ہی ہے اور قوم حران کا دعوی ہرگز درست نہیں. امام ابو حنیفہ بھی صابیوں کو اہل کتاب ہی کا ایک گروہ مانتے تھے. چوتھی صدی کے مشھور حنفی عالم ابو بکر الجصاص اپنی تفسیر احکام القران میں فرماتے ہیں کہ ان کے زمانے میں صابی کے نام سے مشہور طبقہ یعنی اہل حران اپنی رسومات کے باعث اہل کتاب نہیں قرار دیے جا سکتے. اس بات سے تو واضح ہوا کہ اہل حران کے لئے صابی کا استعمال امام ابو حنیفہ کے بعد ہی کسی دور میں رائج ہوا.
پھر صابی کون ہیں؟
قرآن کی جن آیات میں صابیوں کا ذکر ہے ان میں یہودیوں کے لئے لفظ "یہود” کی بجائے "الذین ھادوا” یعنی "وہ لوگ جو یہودی ہو گئے” کے الفاظ اے ہیں. دوسری طرف صباؑ علیہا کسی کے خلاف بغاوت کرنے یا دشمنی کرنے کو کہتے ہیں. (تاج العروس) تو یہ صابی فرقہ کون ہے اس کے لئے اسرائیل کی مختصر تاریخ خود ہی گواہی دے دیتی ہے. بنی اسرائیل کی متحدہ سلطنت کے آخری بادشاہ حضرت سلیمان تھے جن کا تعلق قبلہ "یہودا” سے تھا. حضرت سلیمان کے انتقال کے بعد ان کا بیٹا رحبعام بادشاہ بنا تاہم شمال کے ١٠ قبائل نے بغاوت کر کے اپنی علیحدہ سلطنت قائم کر لی جس کا نام اسرائیل رکھا. بن یامین کا قبیلہ، سمیون کے قبیلہ کے بعض افراد، بنی لاوی کا ایک حصہ قبیلہ یہودا کے ساتھ رہا اور انھوں نے اپنی سلطنت کا نام یہودا رکھ لیا. یعنی یہ وہ لوگ تھے جو "الذین ھادوا” وہ جو یہودی بن گئے. جبکہ شمالی قبائل نے بغاوت کی اور صباؑ علیہا کے مصداق وہ صابی بن گئے. بعد کے ادوار میں اپنے دارالسلطنت سماریہ کی مناسبت سے سامری بھی کہلائے. انجیل میں ان کا ذکر سامری کے طور پر ہی مذکور ہے. فی زمانہ بھی ان کو سامری ہی کہا جاتا ہے. حضرت الیاس اور حضرت الیشع اسی قوم میں مبعوث ہوئے تھے.
سن ٧٢٢ قبل مسیح میں سامری قوم آشوریوں کے ہاتھوں بری طرح پامال ہوئی. تاہم ان کے بعض افراد پھر بھی اپنے علاقے میں مقیم رہے. یہ لوگ عہد نامہ قدیم یا تناخ کی صرف ابتدائی پانچ (٥) کتابوں یعنی کہ توریت کو مانتے ہیں. زمانے کے ساتھ ساتھ یہ طبقہ محدود سے محدود تر ہوتا چلا گیا. تاہم یہ تاحال بھی معدوم نہیں ہوا ہے.
خلاصہ کلام یہ ہوا کہ
صابی وہ لوگ ہوئے جو صرف توریت کو مانتے ہیں
یہود یا وہ جو یہودی ہوئے وہ توریت اور زبور دونوں کو مانتے ہیں
اور نصاریٰ توریت، زبور کے ساتھ ساتھ انجیل کو بھی مانتے ہیں، اور یہ تینوں گروہ بنی اسرائیل ہی سے نکلنے والی شاخیں ہیں جو کہ دور نبویﷺ میں بھی موجود تھیں اور آج بھی موجود ہیں۔