عذاب قبر تحریر رانا محمد عاشق

اللہ تعالیٰ قرآن  پاک میں فرماتے ہیں "رَبَّنَا أَمَتَّنَا اثْنَتَيْنِ وَأَحْيَيْتَنَا اثْنَتَيْنِ فَاعْتَرَفْنَا بِذُنُوبِنَا فَهَلْ إِلَىٰ خُرُوجٍ مِّن سَبِيلٍ "وہ (قیامت کے روز)کہیں گے اے ہمارے رب موت  دی تونے ہمیں دو بار اور زندہ بھی کیا تونے ہمیں دو بار، پس  اعتراف کرتے ہیں ہم اپنے گناہوں کا ، تو کیااب  بچ نکلنے کا  ہے کوئی راستہ (المؤمن:11) ۔اور ایک دوسری جگہ فرماتے ہیں "كَيْفَ تَكْفُرُونَ بِاللَّهِ وَكُنتُمْ أَمْوَاتًا فَأَحْيَاكُمْ ۖ ثُمَّ يُمِيتُكُمْ ثُمَّ يُحْيِيكُمْ ثُمَّ إِلَيْهِ تُرْجَعُونَ”کیسے کفر کا رویہ اختیار کرتے ہو تم اللہ کے ساتھ ، حالانکہ تھے تم بے جان ، پھر زندگی عطا کی اس نے تمہیں پھر وہی موت دے گا تمہیں ، پھر وہی زندہ کرے گا تمہیں، پھر اسی کی طرف لوٹائے جاؤگے(البقرہ:28)۔

ان دو آیات کے بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ انسان کی دو زندگیاں ہیں اور دواموات۔ پہلے آدمی بے جان(موت) تھا پھر اس  کو زندگی  عطا کی گئی یعنی اس کو پیدا کیا گیا۔ پھر اس کو اللہ اسی دنیا میں مارے گا اور پھر قیامت کے دن   دوبارہ زندہ کرے گا۔ اگر یہی دو اموات اور دو زندگیاں ہیں اور یقینًا ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ، کسی اور نے نہیں کہا، تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ قبر کی تیسری زندگی  اورقیامت کے دن زندہ ہونے  سے پہلے والی تیسری موت کہاں سے آگئی؟اور اگر قبر میں زندگی نہیں ہے  اور یقینًا نہیں ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے،  تو پھر قبر کا عذاب کہاں سے آگیا؟ ویسے بھی حساب  (جو قیامت کو ہی ہوگا)سے پہلے عذاب  (سزا)اس کی توقع تو آپ ایک عام جج سے  بھی نہیں کرسکتے پھر یہ الزام ہم نے اللہ کے نام کیوں جڑ دیا جو عادلوں کا عادل ہے۔  

ذرا سوچئیے کیا قرآن میں  کہیں عذاب قبر کا ذکر ہے؟کیا عادلوں کا عادل بغیر حساب کتاب کے عذاب دے گا؟اور اگر دے گا تو قیامت کے روز اسے حساب لینے کی کیا ضرورت ہے؟ کیا تین زندگیاں اور تین اموات ہیں جبکہ قرآن دو زند گیوں اور دو اموات کی بات  کرتا ہے؟ قرآن کو غور سے پڑھیے  اس کو سمجھیے اور اس کے آفاقی پیغام کو عام کیجیئے۔یہی ہمارا مشن ہونا  چاہیئے۔ 

 

Dr. Muhammad Hamidullah
Visit Website of Dr. Muhammad Hamidullah
Leave A Reply

Your email address will not be published.