"صحیح” یا”سہی”
"صحیح” یا”سہی”
عام طورپرجن الفاظ کے لکھنے میں اشتباہ ھوتاھے، ان میں سے "صحیح "اور "سہی "بھی ھیں، کہ بسااوقات اچھے خاصے ذی علم افرادبھی ان کے اصل مواقعِ استعمال کاادراک نہیں کرپاتے اورایک کودوسرے کی جگہ استعمال کربیٹھتے ھیں ـ
صحیح اسمِ صفت ھے، اصلاً عربی زبان کالفظ ھے اور "سالم "کے مترادف کے طورپربھی مستعمل ھے، اس کامعنی ھے درست، تندرست، پورا، سارا، سموچا،کسی قول یافعل کی تصدیق کرنا …البتہ درست کے معنی میں "صحیح "کااستعمال شائع وذائع ھے؛ لیکن جب تندرست کے معنی میں استعمال ھوتاھے، تو عام طورپر "صحیح سلامت”یا "صحیح سالم "لکھتے اوربولتے ھیں، اسی طرح پورااورمکمل کے معنی میں بھی عام طورپرصرف "سالم "لکھتے یابولتے ھیں،جیسے:
دیوارتوھے راہ میں سالم کھڑی ھوئی
سایہ ھے درمیان سے کٹ کرپڑاھوا
لغت کی کتابوں میں "صحیح "کاایک معنی دستخط بھی مذکورھے، مگرمیرے مطالعے میں اس معنی میں یہ لفظ اب تک نہیں آیاھے ـ
فی الجملہ اس لفظ کے محلِ استعمال میں کوئی اشتباہ نہیں ھوناچاھیے، کیوں کہ اس کااستعمال ھراس مقام پرھوتاھے، جہاں کسی قول، فعل، امر یاشئ کی تاییدمقصودھو، مثلاً: آپ کاموقف صحیح ھے، آپ کی بات صحیح تھی، آپ نے صحیح قدم اٹھایا وغیرہ ـ
"سہی "کی اصل بھی "صحیح "ھی ھے، البتہ اس کااستعمال "صحیح "جتناعام نہیں ھے اورنہ اس کے محلِ استعمال میں عمومیت ھے،فرہنگِ آصفیہ میں اس لفظ کاایک تلفظ "سئی "بھی بتایاگیاھے اور اس کے کل گیارہ مواقعِ استعمال درج کیے گئے ھیں، ھم ذیل میں بالاختصاران کاذکرکرتے ھیں؛ تاکہ سمجھنے میں بھی سہولت ھواور "سہی "کے استعمال کے صحیح مواقع کی شناخت ھوسکے:
1:ٹھیک، بجا، درست کے معنی میں جیسے:جوتم کہو، سوہی سہی!
2:براے ایجاب، قبول، منظور، تسلیم، مانا، فرض کیا، جیسے غالب کے اس شعرمیں:
ہم بھی دشمن تونہیں،ھیں اپنے
غیرکوتجھ سے محبت ہی سہی!
3:براے شرط جیسے: آتوسہی! کھاتوسہی! جاتوسہی! وغیرہ
4:تکمیلِ فعل کے لیے، جیسے:میاں کھاؤتوسہی پھرتکلف کرلینا!یعنی پہلے کھاناتوکھالو یاجیسے:
اس کویاں لاتوسہی، سوچ میں بیٹھی ھے کیوں؟
(رنگین)
5:غنیمت ہے، مغتنم ھے، بہترھے کے معنوں میں، جیسے:
ایک ہنگامہ پہ موقوف ھے گھرکی رونق
نوحۂ غم ہی سہی، نغمۂ شادی نہ سہی!
(غالب)
یارسے چھیڑچلی جائے اسد
گرنہیں وصل توحسرت ہی سہی!
(غالب)
6:تسلیِ خاطر کے واسطے، جیسے:
اپنی ہستی سے ھوجوکچھ ھو
آگہی گرنہیں، غفلت ہی سہی!
(غالب)
ھم بھی تسلیم کی خوڈالیں گے
بے نیازی تری عادت ہی سہی!
(غالب)
7:تاکیدکے لیے، جیسے:
کچھ تودے اے فلکِ ناہنجار
آہ وفریادکی رخصت ہی سہی!
(غالب)
8:تسلسل کے معنی میں، جیسے:
قطع کیجے نہ تعلق ھم سے
کچھ نہیں ھے توعداوت ھی سہی!
(غالب)
9:تاکیدِکلام یعنی مانو، جانو، خیال کروکے معنی میں،جیسے:
عشق مجھ کونہیں وحشت ہی سہی
میری وحشت تری شہرت ھی سہی!
(غالب)
10:منظورکرو، قبول کروکے معنی میں، جیسے:
میرے ھونے میں ھے کیا رسوائی
اے وہ مجلس نہیں، خلوت ھی سہی!
(غالب)
یعنی جلوت نہ سہی، مجھے خلوت میں ھی بلانامنظورکرو
11:ہرچہ باداباد، کچھ بھی ہو، کچھ پروانہیں کے معنی میں، جیسے:
چلویونہی سہی، ھم فقیرھی سہی وغیرہ
(مستفادازفرہنگِ آصفیہ، جلد: سوم، ص: 140-141،فیروزاللغات وغیرہ)