صحیفہ دانیال میں بخت نصر کا خواب (۲) از مبین قریشی
—
حصہ اوّل میں ہم دانیال علیہ سلام کی تعبیر کو تاریخ کے تناظر میں چوتھی ریاست تک دیکھ چکے کہ وہ بازنطینی ریاست تھی جو تاریخ کے مطابق تیسری ریاست کو ختم کرکے ظہور پزیر ہوئی تھی۔ پانچویں سلطنت حضرت دانیال نے اس چٹان کو بتایا تھا جو مورتی سے ٹکرائی تھی ، جسکی تفصیل حضرت دانیال نے یونہہ بتائی تھی؛
ا: اس چٹان کو کسی انسان نے نہ ہی اکھاڑا تھا اور نہ ہی کسی انسان نے مورتی پر پھینکا تھا۔
ب: اس سلطنت کو خدا نے پیدا کیا تھا اسلئے وہ خدائی بادشاہت تھی۔
ج: اس پانچویں سلطنت کو چوتھی سلطنت ( یعنی روم) اور اسکے بادشاہوں کے ہوتے ہوئے بننا تھا اور شروع میں یہ ایک چٹان کی صورت میں ہونی تھی جس نے رفتہ رفتہ پہاڑ بنتے ہوئے پھیلنا تھا۔(ملاحظہ ہو دانیال باب ۲ ، آیات ۳۴، ۳۵ اور ۴۴ وغیرہ) ۔
پانچویں سلطنت کونسی تھی ؟
چوتھی سلطنت کے دوران قائم ہونے والی خدائی بادشاہت کی دعویدار سلطنت صرف اور اسلامی سلطنت کا ہونا ہی ممکن ہے۔ اس پانچویں اسلامی سلطنت ( بخت نصر کے خواب کے مطابق ) کو ایک چٹان کی طرح خدا نے مکہ کی چٹانوں میں جاء الحق کہتے ہوئے تین سو ساٹھ مورتیاں گراتے ہوے کاٹا ( جسکی روئداد قرآن میں محفوظ ہے ) جو پھر خواب کے مطابق پہاڑ بنتے ہوئے رفتہ رفتہ زمین پر پھیلتے ہوئے اور اولاد ابراھیم کے پورے علاقے کو اپنی لپیٹ میں لیتے ہوئے مورتی کا سر ( بخت نصر کے علاقے) یعنی عراق ، لبنان ، سوریا، فلسطین اور اسرائیل کیساتھ ساتھ مورتی کی چھاتی اور بازو ( ذوالقرنین کے علاقے) یعنی فارس اور مدیا ( وسطی ایشیائ ریاستیں ) مورتی کا پیٹ ( سلطنت یونان کے علاقے) یعنی وسطی ایشیاء ، افغانستان ، عراق ، سوریا، مصر، ترکی ، لبنان ، فلسطین ، افریقہ اور یورپی ممالک اور پھر انھی علاقوں پر رومی سلطنت یعنی مورتی کی ٹانگوں سے ٹکراتی چلی گئی۔ پانچویں ریاست کے وجود کے وقت اصل سکہ رائج الوقت اس چوتھی ریاست یعنی بازنطینی ریاست کو ہی ہونا چاہئے تھا۔ اسی لئے جب فارس نے روم کو شکست دی تو فوراً قرآن نے مداخلت کرکے معاملے کو واضح کیا کہ یہ وقتی فتح ہے ، جبکہ عنقریب روم فارس کو شکست دے گا۔ مجوسی فارس کو خدا نے برائے نام چوتھی ریاست کے ہوتے ہوئے پانچویں سلطنت کو پیدا ہونے دینے کے لئے حالات کو متوازن رکھنے کے لئے قائم رکھا ہوا تھا ۔ اسی لئے رسول اللہ نے فرمایا تھا کہ فارس نطحہ او نتحتان ثم لا فارس بعدھا ابدا، والروم ذات القرون کلما ذھب قرن خلف قرن مکانہ( مصنف ابن ابی شیبہ، مسند الحارث ، زوائد الھیثمی، بقیہ الحارث) یعنی فارس ایک دو جھٹکوں پر کھڑا ہوا ہے اور پھر یہ کبھی لوٹ کر پہلے والا فارس نہیں بنے گا، جبکہ روم ذات القرن ( عہد گر) ہے ، جب کبھی اسکا ایک عہد ختم ہوگا تو اسکے پیچھے دوسرا قرن اسکی جگہ لے لے گا۔ یعنی جو بات حضرت دانیال نے فرمائی تھی کہ پانچویں سلطنت یعنی خدائی بادشاہت چوتھی سلطنت کے دوران قائم ہونی ہے اسکی وضاحت رسول اللہ نے اسکے ذات القرون ہونے سے فرمائی ہے۔ بلکہ صحیفہ دانیال کی مذکورہ پانچ سلطنتوں پر رسول اللہ نے یہ اضافہ بھی فرمایا کہ پانچویں سلطنت بھی پانچ قرون پر ہی مشتمل ہوگی ( اسکی وضاحت پھر کبھی)۔ اسی طرح غور کرنے کا مقام ہے کہ رسول اللہﷺ کبھی خود فارس کے مقابلے میں نہ نکلے جبکہ فارس نے رسول اللہﷺ کو گرفتار کرنے کے لئے سپاہی بھی بھیجے تھے اور آپ ﷺکا نامہ مبارک بھی چاک کیا تھا۔ اسکی وجہ مذکورہ بالا حدیث سے واضح ہے کہ رسول اللہ ﷺ فارس کو عارضی کھڑی ہوئی دیوار سمجھتے تھے اور اسکے متعلق قطعا فکر مند نہ تھے۔ جبکہ روم کو آپ اپنی قائم کردہ خدائی بادشاہت کیساتھ ساتھ چلنے اور رفتہ رفتہ ختم ہونے والی ذات القرون سلطنت فرماتے تھے اسلئے آپ خود نکلے، بلکہ یہ وہ واحد جنگ تھی جسمیں شمولیت اختیار نہ کرنے والوں کو قرآن نے پکڑا ۔ روم کیساتھ کشمکش غزوہ تبوک سے شروع ہوئی اور پھر روم کا سارا مراکش تک کا علاقہ پہلے ہی جھٹکے میں فتح ہوگیا۔ رومی ھرقل کے رسول اللہﷺ کے نامہ مبارک پر ابوسفیان کے سامنے الفاظ بھی بخاری میں مذکور ہیں کہ و قد کنت اعلم انہ خارج ، لم اکن اظن انہ منکم کہ میں جانتا تھا کہ اس موعود پیغمبر کا اب ظہور ہونا ہے، لیکن میرا گمان یہ نہ تھا کہ وہ تم لوگوں میں سے ہونگے، عنقریب اب وہ میری اس جگہ کے مالک ہوجائیں گے۔ ھرقل کوئی غائب بین نہیں تھا بلکہ اپنی کتابوں کا ایک دیہاتی کی بجائے ایک جہاندیدہ حکمران کے طور پر مطالعہ کرنے والا شخص تھا۔ بالاخر اس پانچویں سلطنت نے ۶ اپریل ۱۴۵۳ بروز جمعہ کو چوتھی ریاست کے دارلخلافہ یعنی قسطنطنیہ کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ جسکے نتیجے میں بازنطینی سلطنت یعنی چوتھی ریاست بھی ختم ہوگئی۔
درج بالا سارے حقائق کے ہوتے ہوئے محمد رسول اللہ ﷺ کے ہاتھوں قائم ہونے والی خدائی بادشاہت کو صحیفہ دانیال کے مطابق موعود بادشاہت تسلیم نہ کرنے کی کوئی وجہ ممکن نہیں ہے۔ چلیں کوئی اسے صحیفہ دانیال کے مطابق موعود پانچویں سلطنت نہ مانے ، لیکن اسکے قائم ہونے اور مزکورہ بالا حقائق کے مطابق اسکے پھیلنے کی صحیفہ دانیال کے مطابق پھر ہی خود ہی کوئی عقلی توجیہہ کرکے ہمیں بھی سمجھا دے۔ اہل کتاب کے علماء اس پانچویں خدائی سلطنت کی جتنی کچھ تاویلات بھی کرتے ہیں وہ سب محمد رسول اللہﷺ کے ہاتھوں قائم ہونے والی سلطنت کو مکمل طور پر نظر انداز کرکے ہی کرتے ہیں کہ جیسے اسکا کوئی وجود ہی نہ ہو۔ انکی مستقبل میں قائم ہونے والی کسی سلطنت کی تاویلات اسلئے قابل قبول نہیں کہ دانیال علیہ سلام کی تعبیر کے مطابق یہ اسلامی سلطنت چٹان کی طرح مورتی پرگر کر پہاڑ بن کر اور پھر چوتھی سلطنت کا خاتمہ کرکے لفظ بلفظ حضرت دانیال کی تعبیر پر پہلے ہی پوری اتر چکی ہے۔ ان زمینی حقائق سے انکار ممکن نہیں ہے، اور آپ چاہے محمد رسول اللہﷺ کو سچا رسول نہ مانیں لیکن انکا اولاد ابراھیم میں سے ہونے اور پھر اولاد ابراھیم ہی میں سے خدائی بادشاہت کے خدائی واعدوں کو آپ اولاد ابراھیم کی تکوین ہونے سے کتاب تکوین کی روشنی میں ہرگز نہیں ٹھکرا سکتے۔ جب ایک مساوات میں دو چیزیں حتمی طور پر معلوم ہوں تو ان سے تیسری غیر معلوم کے متعلق پیدا ہونے والا نتیجہ حتمی ہونا چاہئے۔ اسلئے محمد رسول اللہ ﷺ کا حتمی طور پر اولاد ابراھیم ہوتے ہوئے اور پھر اولاد ابراھیم میں منصب امامت ہوتے ہوئے انکے ہاتھ سے قائم ہونے والی ریاست اگر صحیفہ دانیال کی پانچویں ریاست پر حرف بحرف سو فیصد پوری اتر رہی ہے تو اسے دانیال علیہ السلام والی موعود پانچویں ریاست اور محمد رسول اللہﷺ کو موعود رسول ماننے کے سامنے کوئی ذھنی الجھن ہرگز قائم نہیں رہنی چاہئے۔
( صحیفہ دانیال میں بخت نصر کے خواب کی تفسیر مکمل ہوئی)۔