صلوۃ الوسطی، صلاۃ خمسہ اور قرآن از ابن آدم
فی زمانہ وہ گروہ جو سنت ہی کے منکر ہیں، اور بعض روایتوں کی آڑ لے کر سنت متواترہ کو بھی عجمی سازش گردانتے ہیں، اس بات پر مصر رہتے ہیں کہ قرآن کریم میں پانچ نمازوں کا ذکر نہیں ہے، بلکہ یہ مجوسیت سے اسلام میں در آئی ہیں- ان میں سے جو لوگ ہیت نماز کے تاحال منکر نہیں ہوئے ہیں، وہ قرآن سے محض تین نمازوں کا اثبات مانتے ہیں، کیونکہ ان کے خیال میں قران میں زیادہ سے زیادہ تین ہی نمازوں کا ذکر ہے۔
دوسری جانب روایت پرست لوگ ہیں- اگرچہ وہ پانچ ہی نمازوں کے قائل ہیں، مگر اس بات میں وہ منکرین سنت سے اتفاق کرتے ہیں کہ قرآن میں واقعی پانچ نمازوں کا ذکر نہیں ہے اور اس چیز کا علم ہمیں محض ‘حدیثوں’ سے ہی ہوسکتا ہے۔ گویا اس حوالے سے قرآن دونوں ہی جانب سے حملہ کا شکار ہوجاتا ہے، چاہے وہ لوگ ہوں جو ہر روایت پر ہی عجمی سازش کا لیبل لگا کر سنت محمدی کا انکار کرکے خود ساختہ اسلام دریافت کرنا چاہتے ہیں، یا وہ ہوں جو غلو فی الحدیث کے مرض میں مبتلا ہوکر روایات کو قرآن پر راجح مانتے ہیں۔
اسی طرح صلوۃ الوسطی کا بھی معاملہ ہے، دونوں اطراف کا ماننا ہے کہ قرآن کریم سے صلوۃ الوسطی کا تعین نہیں ہوسکتا، اگرچہ بعض منکرین سنت قران کریم میں جر کے لفظ کی نشاندہی کی وجہ سے اسکو فجر گردانتے ہیں، حالانکہ یہ کوئی دلیل نہیں بنتی۔ دوسری طرف بعض لوگ خارج از قرآن سے کسی مخصوص نماز (عصر) کی طرف اشارہ کردیتے ہیں اورپھر دعوی کرتے ہیں کہ اگر روایات نہ ہوتیں تو یہ کبھی معلوم ہی نہیں ہو سکتا تھا۔ حالانکہ اس معاملے میں جو روایات ملتی ہیں، وہ تمام ہی نمازوں سے متعلق ہیں، اگرچہ اکثریت عصر کی طرف گئی ہے، لیکن یہ استدلال بھی تو پھر ظنی رہ جاتا ہے جبکہ روایات فجر، ظہر، مغرب سبھی کے لیے موجود ہیں۔ درحقیقت یہ بات روایت پرست لوگوں کے لیے سوچنے کے لائق ہے کہ روایات نے صلوۃ الوسطی کا معاملہ واضح نہیں کیا ہے بلکہ الجھادیا ہے۔ پانچ نمازیں اس امت میں تواتر عملی کے ساتھ منتقل ہوئی ہیں، اس لیے قرآن سے رجوع کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی، لیکن یہ ماننا کہ قرآن کریم نمازوں کی تعداد کے متعلق خاموش ہے، ایک غلط استدلال ہے۔ قرآن کریم درحقیقت ۵ نمازوں ہی کی تائید کرتا ہے، لیکن اس کے لیے تھوڑے غور کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگرچہ قرآن کریم میں نماز کی اہمیت کے بارے میں تو لاتعداد آیات موجود ہیں، تاہم مخصوص اوقات کے تعین کے ساتھ نمازپڑھنے کا حکم ۲ آیات میں ہوتا ہے سورہ بنی اسرائیل آیت ۷۸ اور سورہ ہود آیت ۱۱۴ جبکہ دوسری جانب صلوۃ الوسطی کا ذکر سورہ البقرہ آیت ۲۳۸ میں ہے۔ لہذا تعداد نماز اور درمیانی نماز کے تعین کے لیے صرف انہی تین آیات پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے بعد ازروئے قرآن صلوۃ الوسطی کا بھی تعین ہوجاتا ہے، بلکہ سنت متواترہ سے ثابت پانچ نمازوں کا قرانی ثبوت بھی مہیا ہوجاتا ہے- سورہ بقرہ کی آیت ۲۳۸ میں ارشاد ہوتا ہے: حَافِظُوۡا عَلَى الصَّلَوٰتِ وَالصَّلٰوةِ الۡوُسۡطٰى… ﴿۲۳۸﴾ سب نمازوں کی حفاظت کیا کرو اور (خاص کر) درمیانی نماز کی … ﴿۲۳۸﴾ سورہ بقرہ کی اس آیت سے جہاں ایک جانب یہ معلوم ہوتا ہے کہ نمازوں کی حفاظت میں ایک نماز کے التزام کا خصوصی حکم ہے، وہیں اس نماز کو درمیانی نماز بیان کرکے یہ بھی واضح ہوا کہ سنت محمدی کے طریقے میں پڑھی جانے والی نمازوں کی تعداد ایک سے زائد ہے اور اس کا عدد طاق ہے، ورنہ جفت تعداد میں کسی نماز کو بھی درمیانی نماز نہیں قرار دیا جاسکتا- گویا سورہ بقرہ کی اس آیت کی رو سے یہ معلوم ہوا کہ نمازوں کی کل تعدار ۳، ۵ ،۷، ۴۹ یا ۵۱ تو ہو سکتی ہے، مگر ۱، ۲، ۴یا ۵۰ نہیں ہوسکتی-
اب آتے ہیں سورہ بنی اسرائیل کی طرف؛ اگرچہ روایات سے بھی ہمیں یہ بات معلوم ہے کہ سورہ بنی اسرائیل کے نزول کے زمانے ہی میں پانچ نمازیں فرض ہوئی ہیں، تاہم سورہ بنی اسرائیل خود کیا بیان کرتی ہے، وہ بھی دیکھ لیا جائے- آیت ۷۸ میں ارشاد ہوتا ہے: اَقِمِ الصَّلٰوةَ لِدُلُوۡكِ الشَّمۡسِ اِلٰى غَسَقِ الَّيۡلِ وَقُرۡاٰنَ الۡـفَجۡرِؕ اِنَّ قُرۡاٰنَ الۡـفَجۡرِ كَانَ مَشۡهُوۡدًا ﴿۷۸﴾ نماز قائم کرو باعث سورج ڈھلنے کے رات کا اندھیرا چھا جانے تک؛ اور فجر کے اجتماع میں؛ بیشک فجر کا اجتماع مشہود ہے ﴿۷۸﴾ اس آیت سے تین باتوں کا علم ہوا، ایک یہ کہ فجر کے وقت بھی نماز فرض ہے۔ دوسرا یہ کہ اس آیت کے نزول سے پہلے ہی مسلمان فجر کی باجماعت نماز پڑھ رہے تھے، اور تیسرا یہ کہ فجر کے علاوہ بقیہ نمازیں ان اوقات کی ہیں، جن میں سورج ڈھل رہا ہوتا ہے۔ زمین ۲۴ گھنٹے مسلسل محوری گردش میں مصروف ہے، جس کے باعث ہمیں سورج طلوع یا غروب ہوتا نظر آتا ہے۔ یعنی زمین کے کسی ایک مخصوص مقام کی مناسبت سے سورج دن کے بعض حصوں میں چڑھ رہا ہوتا ہے، اور بعض حصوں میں ڈھل رہا ہوتا ہے۔ اس کی مثال یوں سمجھی جاسکتی ہے کہ سال کے کسی مخصوص دن میں کراچی کے آسمان پر زوال آفتاب دن ۱۲ بجے ہوتا ہے۔ اسکے بعد سورج ڈھلنا شروع ہوجاتا ہے۔ یہاں تک کہ غروب آفتاب کے وقت وہ ہمیں ڈوبتا ہوا نظر آتا ہے، تاہم زمین کی محوری گردش کے باعث اس کا ڈھلنا ڈوبنے کے ساتھ ختم نہیں ہوتا، یہاں تک کہ آدھی رات آجائے، اور یوں رات تقریباً ۱۲ بجے کراچی کے لیے اس دن کی مناسبت سے سورج کا ڈھلنا ختم ہوجائے گا اور پھر چڑھنا شروع ہوجائے گا، تاہم اس کا مشاہدہ اہلیان کراچی طلوع آفتاب کے بعد ہی کر سکیں گے۔ قصہ مختصر یہ کہ زوال آفتاب سے لیکر نصف شب تک پڑھی جانے والی نمازیں دلوک الشمس یا سورج ڈھلنے ہی کے اوقات کی نمازیں کہلائیں گی- ان نمازوں کی ابتدا سورج ڈھلنے سے شروع ہوجائے گی (عرف میں اس پہلی نماز کو ظہر کہا جاتا ہے)، اور آخری نماز رات کی تاریکی چھاجانے کے وقت پڑھی جائے گی (عرف میں اس نماز کو عشاء کہا جاتا ہے؛ گویا عشاء کا درست وقت رات کی تاریکی چھانے سے لیکر نصف شب تک ہے، کیونکہ اس کے بعد دلوک کا خاتمہ ہوجاتا ہے۔ موطا امام مالک میں اسکی تائید کی روایت بھی موجود ہے)۔ تاہم دلوک الشمس کے ابتداء اور انتہاء کے درمیان نمازوں کی تعداد جفت ہونی چاہیے، کیونکہ فجر کو ملاکر تعداد کا طاق ہونا لازمی ہے- سورہ بقرہ ۲۳۸ کے حوالے سے یہ بات معلوم ہوگئی ہے کہ نمازوں کی کل تعداد طاق ہے۔
اب آتے ہیں تیسری آیت کی طرف جو کہ سورہ ہود کی آیت ۱۱۴ہے۔ ارشاد ہوتا ہے: وَاَقِمِ الصَّلٰوةَ طَرَفَىِ النَّهَارِ وَزُلَـفًا مِّنَ الَّيۡلِ ؕ ا—–﴿۱۱۴﴾ اور نماز قائم کرو دن کے دونوں سروں پر اور کچھ رات گزرنے پر —- ﴿۱۱۴﴾ سورہ ہود کی اس آیت میں ۳ نمازوں کا اوقات کے ساتھ ذکر ہے، جس میں عشاء کے وقت کا تعین کردیا گیا ہے، تاہم عشاء پڑھنے سے پہلے دن کےدو کناروں پر مزید دو نمازیں پڑھنے کا حکم ہے۔ دن کے اگر اندرونی کنارے گنے جائیں تو یہ اشراق اور عصر کے اوقات بنیں گے۔ اور اگر بیرونی کنارے گنے جائیں تو فجر اور مغرب کے اوقات بنیں گے۔ گویا نمازوں کی سکیم اندرونی کناروں کے حساب سے اشراق، عصر اور عشاء بنتی ہے، اور بیرونی کناروں کے حساب سے فجر، مغرب اور عشاء بنتی ہے۔ سورہ بنی اسرائیل میں فجر کا نام لیکر ذکر کیا گیا ہے کہ فجر کا اجتماع سورہ بنی اسرائیل کے نزول کے وقت مسمانوں کے لیے پہلے ہی سے معلوم ہے، گویا سورہ ہود میں دن کے جن کناروں کا ذکر ہوا، وہ اسکے بیرونی کنارے ہیں، اور یوں ثابت ہوا کہ سورہ ہود میں جن فرض نمازوں کا ذکر ہوا ہے، وہ فجر، مغرب اور عشاء ہیں۔ نمازوں کی اس ترتیب نے درمیانی یا وسطی نماز کا بھی تعین کردیا کہ وہ نماز مغرب ہے۔ صلوۃ الوسطی کے لیے مغرب کی نماز کے تعیین کے بعد اب دوبارہ رخ کرتے ہیں سورہ بنی اسرائیل کا۔ ارشاد ہوتا ہے: نماز قائم کرو باعث سورج ڈھلنے کے رات کا اندھیرا چھا جانے تک؛ اور فجر کے اجتماع میں؛ بیشک فجر کا اجتماع مشہود ہے ﴿۷۸﴾ یہاں ڈھلنے کےسلسلے کی آخری نماز رات چھا جانے کے وقت کی ہے یعنی کہ عشاء بیان ہوئی ہے، جبکہ تمام نمازوں میں آخری فجر بیان ہوئی، اور سورہ ہود سے ایک تیسری نماز جو کہ ‘وسطی نماز’ بھی ہے اس کا تعین مغرب کے لیے ہوچکا ہے۔ گویا سورہ بنی اسرائیل میں ترتیب کے لحاظ سے آخری نمازیں مغرب، عشاء اور فجر بیان ہوئیں، گویا مغرب کے بعد دو نمازوں کا بیان ہوا ہے۔ قران کریم میں اختلاف نہیں ہے، اگر سورہ ہود سے درمیانی نماز مغرب ثابت ہوتی ہے، تو سورہ بنی اسرائیل کی اس آیت سے بھی مغرب ہی کو ثابت ہونا چاہیے، اب کیونکہ مغرب کے بعد عشاء اور فجر کی صورت میں دو نمازوں کا ذکر آگیا ہے، تو دلوک کے اوقات میں ہی مغرب سے پہلے بھی دو نمازوں کا ہونا لازم ہوا، اور وہ دلوک کے ابتدء میں ظہر بنی اور تپش گزرجانے کے بعد عصر ہوئی- کیونکہ قران میں نمازیں اوقات کے تعین کے ساتھ ہیں، لہذا دلوک کی یہ چار نمازیں، دلوک کے اعتبار سے اس طرح بنتی ہیں، زوال کے بعد سورج ڈھلنا شروع ہوتا ہے۔
ڈھلنا برقرار، روشنی قائم، سورج سامنے، تپش موجود: نماز ظہر
ڈھلنا برقرار، روشنی قائم، سورج سامنے، تپش ختم: نماز عصر
ڈھلنا برقرار، روشنی قائم ، سورج غائب، تپش ختم: نماز مغرب
ڈھلنا برقرار، روشنی غائب ، سورج غائب، تپش ختم: نماز عشاء
نماز عشاء کا افضل وقت تب تک ہے جب تک سورج کا ڈھلنا جاری ہے۔ نصف شب کے بعد سورج چڑھنا شروع ہوجاتا ہے، اور اسکے بعد پانچویں بیان کردہ نماز فجر کے وقت پڑھی جاتی ہے۔ حاصل کلام: سورہ ہود کی روشنی میں صلوۃ الوسطی کا تعین مغرب کی نماز کے لیے ہوتا ہے۔ اور پھر اس تعین کے ساتھ جب سورہ بنی اسرائیل دیکھی جائے تو مغرب سے پہلے اور بعد دو دو نمازیں بنتی ہیں۔ گویا قرآن کریم پانچ ہی فرض نمازوں کی نشاندہی کر رہا ہے۔