کیا دیور موت ہے؟ تحریر مبین قریشی

اس ضمن میں جو روایت بیان کی جاتی ہے وہ یوں ہے۔

عقبہ بن عامر رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

"عورتوں کے پاس علیحدگی میں جانے سے بچو ، ایک انصاری شخص کہنے لگا ، اے اللہ تعالی کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم آپ ذرا خاوند کے عزيز واقارب کے بارے میں تو بتائيں ؟

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : خاوند کے عزيز واقارب ہی تو ( اس ضمن میں ) موت ہیں”

صحیح بخاری حدیث نمبر( 4934 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 2172 ) ۔

اس روایت میں ایک لفظ ہے "الحمو” جسکا ترجمہ "دیور” کیا جاتا ہے۔ ” دیور” کی قید کے ساتھ یہ ترجمہ درست نہیں ہے۔ ایک عورت کے کسی مرد سے شادی ہونے کے بعد مرد کے سارے رشتہ دار اس عورت کے بھی رشتہ دار بن جاتے ہیں ۔ اسی طرح اس عورت کے سارے رشتہ دار اس مرد کے بھی رشتہ دار بن جاتے ہیں ۔ مرد کے رشتہ دار اور اقارب جو اس نکاح کے بعد عورت کے رشتہ دار بنتے ہیں انھیں "الاحماء” کہا جاتا ہے۔ اسی طرح عورت کے رشتہ دار جو اس نکاح کے بعد مرد کے رشتے دار بنتے ہیں انھیں ” اختان” کہا جاتا ہے۔ اس طرح اس نکاح کے بعد دونوں فریقوں کے مابین جو رشتے وجود میں آتے ہیں انھیں مجموعی طور پر "اصھار” کہا جاتا ہے۔

پبلک میں تو اسکا ترجمہ صرف "دیور” کی قید کے طور پر زبان زد عام ہے۔ تاہم کچھ اہل علم نے بھی الحمو کے لفظ کی شرح و وضاحت کرکے پابندیوں کو بہت طول دے دیا ہے۔ ایک رائے یہ بنی کہ اگرچہ دائمی محرم ( مثلاً سسر) بھی الحمو میں شامل ہوجاتے ہیں ۔ تاہم ان سے پردہ انکے دائمی محرم ہونے کی وجہ سے اس روایت سے خارج ہے۔ دوسری رائے یہ بنی کہ دائمی محرم بھی اگر جوان ہوں تو پھر ان سے بھی ممکنہ احتیاط اس روایت کے تحت آجاتی ہے۔ تاہم دیور، شوہر کے چچاذاد ، ماموں ذاد، پھوپھی ذاد، اسکے سالے اور بقیہ رشتہ دار وغیرہ کیونکہ الحمو میں شامل ہیں اسلئے ان سب میں سے دیور کو لیکر اس روایت کے ترجمے میں رکھ دینے سے حکم میں جو سختی پیدا کرنا مقصود ہوتی ہے وہ کی جاتی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ روایت شوہر کے لئے "اختان” یعنی اسکی بیوی کی بہنیں ( سالیاں) ، بیوی کی ماموں ذاد، چچا ذاد، پھوپھی ذاد اور بقیہ عزیز اور اقارب کی خواتین کے لئے خاموش ہے؟ کیا وہ سب شوہر کے لئے موت نہیں ؟

غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اسمیں الاحماء اور اختان دونوں ہی شامل ہیں ۔ لیکن یہ روایت شریعت کا کوئی اضافی حکم بیان ہی نہیں کررہی۔ بلکہ یہ بتارہی ہے کہ شریعت میں "حیا” کی قدر کو محفوظ کرنے پر جو قانون سازی اللہ نے کی ہے اسکے پامال ہونے کا احتمال اپنی برادری میں ہی زیادہ ہوتا ہے۔ بھلا بنو تمیم کی ایک لڑکی کیونکر بنو کلاب کے قبیلے میں جاکر کسی مرد سے خلوت میں بیٹھ کر آزادانہ گپ شپ کرسکے گی؟ تاہم اگر وہ بیاہ کر وہاں چلی جاتی ہے تو پھر اسکے اسباب پیدا ہوجاتے ہیں۔ رشتوں میں بندھی لڑکی ایک ایسے قبیلہ میں جہاں اسکا تایا ، چچا، ماموں ، دادا، نانا اور باقی رشتہ دار رہتے ہوں انکے حصان میں ہوتی ہے۔ جب وہ بیاہ کر کسی اور خاندان یا قبیلے میں چلی جاتی ہے تو وہاں ایسے رشتے بھی وجود میں آتے ہیں جو خونی رشتہ نہ ہونے کی وجہ سے تقدس سے عاری ہوسکتے ہیں ۔ شوہر یا بیوی کے قریبی رشتہ دار ہونے کی وجہ سے انکا گھروں میں آنا جانا اور شادی یا موت کے مواقع پر ایک دوسرے کے گھروں میں رک جانا ممکن ہوتا ہے۔ اسطرح کا اختلاط ایک دوسرے لئے کشش کا سبب بھی بن جاتا ہے۔ اسلئے اگر ایسی معاشرت کو وجود دے دیا جائے جس میں اس لڑکی کا اپنے الاحماء کے ساتھ تنہائی کی گپ شپ اور گھروں سے باہر کا میل ملاقات اور اسی طرح شوہر کا اپنے اختان کی لڑکیوں کے ساتھ تنہائی میں گپ شپ اور گھروں سے باہر کا بلا عذر میل ملاپ عام ہونے دیا جائے تو اس معاشرت کی موت ہوجاتی ہے جو معاشرت اسلام دینا چاہتا ہے۔ اس روایت سے ہرگز ایسی بات سمجھ نہیں آتی کہ مشترکہ خاندان میں رہنے والے دیور اور بھابھی ایک دوسرے کو دیکھ ہی نہیں سکتے اور جونہی دیور گھر میں آئے تو اسکی بھابھی کے لئے لازم ہے کہ وہ اس سے حجاب میں چلی جائے۔ ہمارے معاشرے میں بھابھی اور دیور کا رشتہ بہن اور بھائی کے تقدس کا رشتہ سمجھا جاتا ہے۔ تاہم اگر کسی معاشرے میں یہ تقدس مفقود ہو اور بھائیوں کو بھی ایک دوسرے کا پتہ ہو تو وہاں یقیناً دونوں اس معاملے میں خود سے بھی احتیاط کریں گے اور انھیں احتیاط کرنے کا مشورہ بھی ضرور دیا جائے گا۔ اس سے بڑھکر اگر خدا کے بنائے ہوئے محرمات کے رشتوں کا تقدس کسی خاندان یا معاشرے میں مفقود ہوجائے تو اس معاشرے میں تو محرمات کے آپس میں آزادانہ میل ملاپ کو بھی پابند کیا جاسکتا ہے۔ لیکن یہ سب پابندیاں صرف اسی معاشرے تک محدود ہونگی نہ کہ شریعت کا ابدی قانون بن جائیں گی۔

 
 
 
Dr. Muhammad Hamidullah
Visit Website of Dr. Muhammad Hamidullah
Leave A Reply

Your email address will not be published.