صوفیہ کے باطل نظریات قرآن و حدیث کی روشنی میں

صوفیہ کے باطل نظریات قرآن و حدیث کی روشنی میں

1 ،،، ابن عربی 25 جولائی 1165 میں پیدا ہوئے اور 28 ربیع الاخر بدھ 8 نومبر 1240 میں وفات پائی 
ابن عربی اور ابن سراقہ کے نام سے جانے جاتے تھے ،،، زیادہ شہرت الشیخ الکبیر کے نام سے ملی ،، 
وحدت الوجود کے بانی مانے جاتے ہیں ،، شہازقلندر سندھ ، بہاوالدین زکریا ،، جلال الدین سرخ پوش کے ہم عصر ہیں
ابن عربی نے نبوت ولایت کی اصلاح ایجاد کی اور کہتے تھے نبوت اور ولایت کی تعلق ایک ہی معدن سے ہے ابن عربی ولایت کو بنوت سے افضل مانتے تھے ،،، کہتے تھے اللہ اپنے آپ کو ولی کہتا ہے نبی نہیں ،،

ابن عربی نے کہا ،، ولایت محمد ﷺ کا خود کو خاتم قرار دیا ،، خدا نے اعزاز میں تقریب منعقد کی اور میرے کرسی اللہ کی کرسی کے سامنے تھی ،، اردگرد کروبیوں ،قدسیوں اور نبیوں کا جمگھٹا لگا ہوا ہے ،،،،

قارئین ،، آپ بتائیں اللہ کوئی 6،6 فٹ کا آدمی ہے جو کرسی میں سما جائے گا ،،، قرآن و حدیث میں تو یہ ملتا ہے اللہ وجود زمان و مکاں سے پاک ہیں ،،، مجھے نہیں معلوم ابن عربی سچا ہے یا قرآن

افسوس کہاں نبوت اور کہاں ولایت نقدی جواب کے سہارے اپنے اصول بنائیے حیرت ہے ،،

پیر مہر علی شاہ اور مولانا اشرف علی تھانوی نے ان کا دفاع کیا اور کتب لکھیں

2 ،،، ابوبکر دلف بن حجدرشبلی (861 سے 946) 
نے کہا ،، میں اللہ کا رسول ہوں شاگرد نے کہا میں گواہی دیتا ہوں آپ اللہ کے رسول ہیں ،،

یہ بھی اپنے دور کے ولی اور صوفی تھے ،، سبحان اللہ

3 ،،، غالی صوفی تو یہ بھی کہتے ہیں قیامت کے دن اولیا نور کے منبروں پہ جلوہ افروز ہوں گے انبیا رشک کریں گے ،،، اولیا اللہ سے فیض لیتے ہیں انبیا کے محتاج نہیں

دیکھتا جا شرماتا جا

4،،، ابوالغیث بن جمیل صوفی نے کہا تھا ،،، ہم اسیے سمندر میں اترے ہیں جہاں انبیا رک جاتے ہیں

یہ گفتگو ابوبکر شبلی اور بایزبسطامی سے منسوب ہیں ،، بعید نہیں تینوں نے کی ہوں ،، تینوں سبحان اللہ تھے

5،،بایزید بسطامی جو 3ری صدی کےنصف اول کے صوفی ہیں

نے کہا تھا

یقینًا میں خدا ہوں میری عبادت ہوں

ایک اور دعویٰ ،، میرا پرچم محمد ﷺ کے پرچم سے بڑا ہو گا ،، میری پکڑ خدا سے زیادہ سخت ہے ،، میری مثال آسمان میں نہیں موجود ،،، میں صفات کا حامل زمین میں کوئی نہیں 
عبداللہ بن علی سراج کتاب المع فی التصوف میں لکھتے ہیں

بایزید کہتے تھے ،، مجھے خدا نے اتنا بلند کیا اور اپنے سامنے کھڑا کر دیا مجھے فرمایا میری مخلوق مجھے دیکھنا چاہتی ہے

میں نے عرض کیا

مجھے اپنی وحدانیت سے مزین کر اور مجھے اپنی اپانیت کا لباس پہنا مجھے اپنی احدیت تک بلند کر ،، جب تیرے مخلوق مجھے دیکھے تو وہ نگاہوں سے مجھے نہیں تجھے دیکھ لیا
رسالہ قشریہ میں ہے
بایزید محفل میں بیٹھے تھے ،، اصحاب سے کہا او ولی کا استقبال کریں تو دروازے پر ابراہیم بن شیبہ ہروی کھڑے تھے 
بایزید نے کہا ،،، میرے دل میں خیال آیا کہ آپ کا اسقبال کروں اور آپ کی شفاعت کروں ،، ابراہیم نے کہا ،،، آپ مخلوق کی بھی شفاعت کریں تو بھی آپ کیلئے کچھ نہیں ،،،

میں حیران ہوں ،، جب نبی مکرم ﷺ کیلئے بےقید شفاعت نہیں ہے تو صوفی کس کھیت کی مولی ہیں ،، ان کے بقول جس کے دل میں رتی برابر بھی ایمان ہو گا وہ بخشا جائے گا ،، نبی مکرم ﷺ جب تک سب کو جنت میں نہیں لے جاتے تب تک جنت میں نہیں جائیں گے

حالانکہ سچائی کچھ اور ہے

ایک فرمان سے واضح کر دیتا ہوں

جو شخص نیکی کر کے خوش ہو اور برائی کر کے نادم ہو وہ جماعت مومینین سے ہے ،،، جو برائی کر کے نادم نہ ہو اس کا تعلق جماعت مومنین سے نہیں ہے ،، اسکی شفاعت ہمارے ذمہ نہیں ہے

شفاعت کے موضوع پر قرآنی آیات دیکھیں ،، بقرہ 123 مومن 18 ،انبیا28 ، سبا 22

اللہ جب شفاعت کا حکم دے گا تب نبی مکرم ﷺ شفاعت کریں گے

لیکن شبلی ، بسطامی ،حلاج کیلئے کوئی قید نہیں ،، کیا کہنے صوفیو

7،،، منصور بن حلاج جو خط لکھتے ہوئے لکھتا تھا ،،، 
من الھو ھو رب الارباب ( اسکی جانب سے جو رب الارباب ہے)
مخالفین کا موقف
عام مستشرقین کے ہاں یہ بہت مقبول ہے اوروہ اپکو مظلوم سمجھتے ہيں کہ وہ شہید ہے۔
اس وقت کے علمائے کرام نے اپکے قتل پراجماع کرلیا تھا کہ اپکے کافر اور زندیق ہونے کی بنا پر یہ واجب القتل ہے ۔
بعض مبینہ اقوال جن کی بنا وہ مرتدہوکر واجب القتل ٹھہرے:
نبوت کا دعوی
اس نے مبینہ طور پر نبوت کا دعوی کیا حتی کہ وہ اس سے بھی اوپر چلا گیا اور پھر وہ یہ دعوی کرنے لگے یہ وہی اللہ ہے ( نعوذباللہ ) تووہ یہ کہا کرتے کہ میں اللہ ہوں
تو حلاج کہنے لگے ایک الہ آسمان میں ہے اورایک الہ زمین میں۔
عقیدہ حلول
حلاج حلول اوروحدت الوجود کا عقیدہ رکھتے تھے یعنی اللہ تعالٰی اس میں حلول کرگيا ہے تو وہ اوراللہ تعالٰی ایک ہی چیز بن گۓ ہیں ، اللہ تعالٰی اس جیسی خرافات سے پاک اوربلند وبالا ہے ۔
اوریہی وہ عقیدہ اوربات ہے جس نے حلاج کو مستشرقین و نصاری کے ہاں مقبولیت سے نوازا اس لیے کہ اس نے ان کے اس عقیدہ حلول میں ان کی موافقت کی ، وہ بھی تو یہی بات کہتےہیں کہ اللہ تعالٰی عیسی علیہ السلام میں حلول کرگيا ہے ۔
اورحلاج نے بھی اسی لیے لاھوت اورناسوت والی بات کہی ہے جس طرح کہ عیسائی کہتے ہيں۔
جب ابن خفیف رحمہ اللہ تعالٰی نے یہ اشعار سنے توکہنے لگے ان اشعار کے قائل پر اللہ تعالٰی کی لعنت برسے ، توان سے کہا گيا کہ یہ اشعار تو حلاج کے ہیں ، تو ان کا جواب تھا کہ اگر اس کا یہ عقیدہ تھا تووہ کافر ہے ۔
قرآن جیسا کلام بنانے کا دعویٰ
حلاج نے ایک قاری کوقرآن مجید پڑھتے ہوۓ سنا توکہنے لگا اس طرح کی کلام تومیں بھی بنا سکتا ہوں ۔

حلاج نے ایسا کلام کیا جو کہ ارکان اورمبادیات اسلام کوباطل کرکے رکھ دیتی ہے یعنی نماز ، روزہ اورحج اور زکوۃ کوختم کرکے رکھ دے ۔

ابن کثير رحمہ اللہ تعالٰی نے البدایۃ والنھایۃ میں ابو عمر مالکی رحمہ اللہ تعالٰی کی مدح سرائی کرتے ہوۓ کہا ہے کہ ان کے فیصلے بہت ہی زیادہ درست ہوتے اور انہوں نے ہی حسین بن منصور حلاج کوقتل کیا ۔ البدایۃ والنھایۃ ( 11 / 172 ) ۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالٰی کا کہنا ہے کہ :
جس نے بھی حلاج کے ان مقالات جیسا عقیدہ رکھا جن پر وہ قتل ہوا تو وہ شخص بالاتفاق کافراور مرتد ہے اس لئے کہ حلاج کومسلمانوں نےحلول اوراتحاد وغیرہ کا عقیدہ رکھنے کی بنا پرقتل کیا تھا۔
جس طرح کہ زندیق اوراتحادی لوگ یہ کہتے ہیں مثلا حلا ج یہ کہتے تھے کہ: میں اللہ ہوں ، اور یہ بھی قول ہے : ایک الہ آسمان میں ایک زمین میں ہے ۔

اجمالی طور طور پر امت مسلمہ میں اس کے اندر کوئی اختلاف نہيں کہ جس نے بھی یہ کہا کہ اللہ تعالٰی بشرمیں حلول کرجاتا اور اس میں متحد ہوجاتا ہے اوریا یہ کہ انسان الہ ہوسکتا ہے اوریہ معبودوں میں سے ہے تو وہ کافر ہے اوراس کا قتل کرنا مباح ہے اوراسی بات پرحلاج کوبھی قتل کیاگیا تھا ۔ مجموع الفتاوی ( 2 / 480 ) ۔

داتا گنج بخش اسے ولی مانتے ہیں ،، اب بندہ کیا کہے ،،،

8،،ڈاکڑ ابووفا غنیمی ابن سبعین و فلسفہ صوفیہ
میں لکھتے ہیں

ابن سبعین نے کہا محمدﷺ نے لانبی بعدی کہہ کر کے وسیع چیز کو محدود کر دیا ،، ابن کثیر نے کہا ہے کہ غار حرا میں جا کر اعتکاف کرتا تھا شاہد وحی آ جائے اور نبی بن کر باہر آ جائے ،، ان کے نزدیک نبوت ایک اکتیسابی عہدہ ہے ،،، بیت اللہ کے زائرین کو طواف کرتے ہوئے کہا ،، یہ لوگ گدھوں کی طرح مینار کی گردش کرتے ہیں ،،، اگر میرا طواف کرتے تو ان کو کعبے سے زیادہ فائدہ ملتا ،،

جاری ہے ،،، 5،6 صوفیا کے نظریات لکھے ہیں ،، اللہ نے عقل سلیم سے سب کو نوازا ہے ،، خود فیصلہ کریں

حوالہ جات

طبقات صوفیہ
ڈاکڑ شہبی کی کتاب الصلتہ بین التصوف و التشیع
تصوف اور تشیع میں فرق ،، سید معروف حسنی
تلبیس ابلیسں ،، علامہ جوزی
رسالہ قشریہ 
ویکی پیڈیا

Dr. Muhammad Hamidullah
Visit Website of Dr. Muhammad Hamidullah
Leave A Reply

Your email address will not be published.