طلاق” نکاح کا خاتمہ ھے؛ از جناب ڈاکٹر خضر یاسین”
"تین طلاق” کے لیے تین نکاح ضروری ھیں۔ تین بار نکاح نہیں کیا—-تین بار عورت کو بیوی نہیں بنایا، تین بار طلاق کیونکر ھو جائے گی؟
جس عورت کو پہلی بار بیوی بنایا ھے، اسے پہلی بار طلاق دیں گے۔ طلاق کے ساتھ عورت بیوی نہیں رھتی—- نکاح ختم ھو جاتا ھے۔ عورت عدت میں چلی جاتی ھے۔ جو عورت "عدت” میں ھوتی ھے وہ نکاح میں نہیں ھوتی، جو نکاح میں ھوتی ھے وہ "عدت” میں نہیں ھوتی۔
پہلی طلاق کے بعد دوران عدت طلاق دینے والا پہلا نکاح بحال کر لے یا عدت کے بعد "تجدید نکاح” کر لے تو عورت دوبارہ عقد میں آ جائے گی۔ یہ اس عورت دوسری بار نکاح established ھوا ھے۔ دوسری بار کیے جانے والے نکاح کے خاتمے کے لیے "دوسری طلاق” دی جاتی ھے۔ جس عورت کو دوسری بار بیوی نہیں بنایا، دوسری طلاق اسے نہیں ھو سکتی۔
دوسری طلاق کے بعد دوران عدت میں طلاق دینے والا تیسری نکاح بحال کر لے یا عدت گزرنے کے تیسری بار "تجدید نکاح” کر سکتا ھے یہ عورت کو تیسری بار بیوی بنانا لینا ھے۔ یہ تیسری بار نکاح ھے—– تیسری بار عورت کو بیوی بنایا گیا ھے۔ جس عورت کو تیسری بار بیوی نہیں بنایا اسے تیسری طلاق نہیں دے سکتے۔ اسے تیسری طلاق نہیں ھو سکتی۔
تیسری طلاق کے بعد اس عورت کو آپ چوتھی بار بیوی نہیں بنا سکتے۔ چوتھا نکاح نہیں کیا جا سکتا۔ ایک عورت کو آپ چار مرتبہ اپنی بیوی نہیں بنا سکتے۔ الا یہ کہ وہ کسی دوسرے مرد سے طلاق یافتہ ھو۔
تین طلاق میں تین نکاح شامل ھیں یعنی preconceived ھیں۔ تین نکاح نہیں تو تین طلاق نہیں ھے۔ نکاح بحال کریں یا تجدید نکاح کریں۔ تین بار طلاق تین بار نکاح کے بغیر ناممکن ھیں۔
دوبار طلاق میں ہر طلاق کے بعد طلاق دینے والے کے پاس دو اختیار ھیں؛
١ – امساک بالمعروف۔ ٢ – تسریح بالاحسان۔
پہلی طلاق کے بعد امساک بالمعروف نہیں کیا تو دوسری طلاق کی نوبت کہاں سے آ جائے گی؟
"نبوت کماھی” پر قناعت سے اعراض نے واضح ترین احکام کو بھی محل نزاع بنا دیا ھے۔
از جناب ڈاکٹر خضر یاسین
تبصرہ از رھنما: اللہ کی رحمت ہو ڈاکٹر صاحب پر کہ کتنے سادہ طریقے سے سمجھا دیا، تین طلاق تین نکاح کے بغیر ممکن ہی نہیں، مجھے سمجھ نہیں آرہی کہ یہ منطق کیسے ہمارے مفتیان کرام سے اوجھل رہی۔