عافیہ کیس؛ دستاویزی حقائق کیا ہیں۔۔ انعام رانا
پاکستان میں جن معاملات میں شدید کنفیوژن موجود ہے ان میں ایک ڈاکٹر عافیہ صدیقی کا کیس بھی ہے۔ عافیہ کی گمشدگی، پھر گرفتاری اور سزا نے اس کیس کو ہمیشہ ہی بحث طلب رکھا۔ ایک طبقہ کے لیے عافیہ پاکستان کی بیٹی ہے اور اس پہ ہر الزام غلط تو دوسری جانب ایک طبقے کیلئے وہ فقط اک دہشت گرد اور سزا بالکل درست۔ عافیہ کیس میں اک بڑی رکاوٹ اس کے کیس ڈاکیومنٹس تک دسترس نہ ہونا اور محض افواہوں اور اخباری رپورٹوں پہ بھروسہ ہے۔ محترم اعجاز اعوان کی تحریک پر میں نے کچھ کوشش کی ہے۔ یہ مضمون میرے لکھنے کے سٹائل سے مختلف ہے اور طویل بھی، مگر مجھے یقین ہے کہ اس سے کئی مفروضات درست یا غلط ثابت ہوں گے اور معاملات کی کافی حد تک وضاحت ہو گی۔ میں اپنی کولیگ اٹارٹی سیمون وائٹ کا بھی شکر گزار ہوں جنہوں نے کچھ ڈاکیومنٹس تک رسائی اور امریکی لیگل سسٹم کو سمجھنے میں میری مدد کی۔ آخر میں لنکس موجود ہیں۔ میری گزارش ہے کہ مضمون اگر کہیں ری پرڈیوس کیا جایے تو مکمل حوالے کے ساتھ کیا جائے۔
عافیہ کون ہے؟
ڈاکٹر عافیہ صدیقی کا تعلق کراچی سے تھا۔ والدین اسلامی ذہن کے تھے اور سابق صدر ضیا الحق کے حلقے میں گنے جاتے تھے۔ عافیہ ایک ذہین طالبہ تھی اور سن نوے میں امریکہ چلی گئیں جہاں ان کا بھائی پہلے ہی موجود تھا۔ ڈاکٹر عافیہ صدیقی نے امریکہ میں نیورو سائنسز میں اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ سن پچانوے میں ڈاکٹر امجد خان سے عافیہ کی شادی ہوئی۔ عافیہ دوران قیام اسلامی موومنٹس اور فلسطین، بوسنیا اور کشمیر کاز کے ساتھ منسلک تھیں اور بہت ایکٹیو سپورٹر تھیں۔ سن چھیانوے میں عافیہ کا پہلا بیٹا احمد پیدا ہوا۔
ڈاکٹر امجد کے بیان کے مطابق عافیہ کے خیالات میں شدت پسندی بڑھتی چلی جا رہی تھی۔ شادی کے فقط چھ ماہ بعد ہی انہوں نے اپنے خاوند کو مجبور کیا کہ فیملی بوسنیا شفٹ ہو جسے امجد نے سختی سے رد کر دیا۔ عافیہ اس دوران کب القاعدہ سے منسلک ہوئیں؟ یہ ابھی تک دھند میں ہے۔ البتہ نو گیارہ کے حملوں کے بعد عافیہ نے اپنے خاوند پہ شدید دباؤ ڈالنا شروع کر دیا کہ افغانستان منتقل ہوا جائے جسے امجد نے پھر رد کیا۔ امجد کے بقول اس پہ عافیہ نے اسے بزدلی کے طعنے دئیے، جہاد کا بھگوڑا قرار دیا اور طلاق کا مطالبہ کیا۔
سن دو ہزار دو میں عافیہ اور اسکے شوہر نے دس ہزار ڈالر مالیت کا ایسا سامان خریدا جو مشکوک تھا۔ اسکے علاوہ عافیہ افریقی ممالک کی فریکوینٹ ٹریولر تھیں۔ اس سامان میں دوربینز اور دیگر ملٹری سٹائل سامان شامل تھا۔ ایف بی آئی نے مئی دو ہزار دو میں دونوں میاں بیوی کو ہولڈ کر کے انٹرویو کیا مگر امجد نے بیان دیا کہ یہ سامان اس نے شکار کیلئے خریدا ہے۔ شاید اس نے ایسا عافیہ کو بچانے کیلیے کیا ہو کیونکہ کچھ ہی ماہ بعد اگست میں کراچی میں دونوں کی طلاق ہو گئی جب کہ عافیہ تیسرے بچے سلیمان سے حاملہ تھی جو طلاق کے دو ہفتے بعد پیدا ہوا۔
پچیس دسمبر دو ہزار دو کو عافیہ اپنے تینوں بچے ماں کے پاس چھوڑ کر امریکہ چلی گئی۔ عافیہ اور اسکے خاندان کا کہنا ہے کہ عافیہ نوکری ڈھونڈنے گئی تھی (ایک چار ماہ کا بچہ چھوڑ کر۔ایڈیٹر)۔ ایف بی آئی کے پیش کردہ ریکارڈ کے مطابق عافیہ دس دن امریکہ رہی اور اس نے ماجد خان نامی شخص کے نام سے پوسٹ باکس کھولا جو کہ القاعدہ کا رکن تھا۔ اسی نے عافیہ کو ایف بی آئی ریڈار پہ الرٹ کر دیا۔ ایسا کوئی ریکارڈ دونوں جانب سے موجود نہیں جو ثابت کرے کہ ان دس دنوں میں عافیہ نے کوئی جاب انٹرویو دیا۔
عافیہ کی دوسری شادی:
طلاق کے فقط چھ ماہ بعد، امریکہ سے واپسی پر عافیہ نے عمار البلوچی یا البلاچی سے شادی کی۔ یہ عمار نو گیارہ کے حملوں کے ماسٹر مائنڈ خالد شیخ محمد کا بھانجا تھا۔ اگرچہ عافیہ کی فیملی اسکی تردید کرتی ہے لیکن خالد شیخ کے فیملی ذرائع، پاکستانی اور امریکی ایجنسیاں اس شادی کی تصدیق کرتی ہیں۔ حیران کن موڑ تھا جب امریکی عدالت میں کیس کے دوران ایف بھی آئی نے جو انٹرویو رکارڈز پیش کیے، اس میں عافیہ نے خود بھی اس شادی کو تسلیم کیا۔ رپورٹس کے مطابق عمار مارا جا چکا ہے۔
عافیہ کی گمشدگی:
مارچ دو ہزار تین میں ایف بی آئی نے عافیہ اور انکے سابق شوہر امجد خان کے خلاف گلوبل الرٹ جاری کر دیا۔ اس موقع پہ عافیہ غائب ہو گئیں۔ امجد کو ایف بی آئی نے انٹرویو کیا مگر بعد ازاں رہا کر دیا۔
عافیہ کی گمشدگی انتہائی پراسرار ہے۔ عافیہ کی فیملی کے مطابق وہ تینوں بچوں سمیت ایئرپورٹ گئی تھی اور پھر گمشدہ ہو گئی۔ ایک شبہ یہ بھی ظاہر کیا گیا کہ پاکستانی ایجینسیوں نے اسے گرفتار کیا اور پھر ایف بھی آئی کے حوالے کر دیا۔
عافیہ کے سابقہ شوہر امجد خان کی گواہی البتہ بالکل مختلف ہے۔ ان کے مطابق وہ مسلسل،اپنے بچوں کی وجہ سے، عافیہ کے گھر پہ نظر رکھتے رہے تھے اور عافیہ کئی بار باہر نکلتی دیکھی گئی۔ اسکے علاوہ عافیہ کے ایک ماموں، شمس الحسن فاروقی بھی گمشدگی کے عرصہ میں اس سے اسلام آباد میں ملاقات کی گواہی دے چکے۔ ان کے مطابق وہ دو ہزار آٹھ میں ان سے ملی اور بتایا کہ وہ کئی بار گرفتار ہوئی اور اب اس شرط پہ آزاد ہے کہ پاکستان میں القاعدہ گروپس میں ایجنسیوں کی رسائی یقینی بنائے۔ صدیقی کے بقول وہ ان پہ زور دیتی رہی کہ اسے کسی طور افغانستان سمگل کروا دیں تاکہ وہ طالبان تک پہنچ جائے۔ تیسرے دن عافیہ پھر غائب ہو گئی۔
عافیہ نے افغانستان میں مبینہ گرفتاری کے بعد جو بیان دئیے اس میں بھی اپنی روپوشی کو بیان کیا۔
اس دوران برطانوی نومسلمہ صحافی ایوان رڈلی نے اس ایشو کو اٹھایا اور کہا کہ بگرام ایئر بیس پہ موجود ایک قیدی خاتون دراصل عافیہ ہے۔
عافیہ اس دوران کہاں رہی؟ یہ ایک راز ہے جسکی حقیقت سے اب تک پردہ نہیں اٹھ سکا۔ عافیہ کے دو بچے کہاں گئے؟ یہ بھی دھند کے پردے کے پیچھے ہے۔ اس راز سے پردہ شاید ایک بچہ اٹھا سکتا ہے، عافیہ کا بڑا بیٹا احمد۔ لیکن عافیہ کی فیملی اسے کسی صورت میڈیا کے سامنے نہیں آنے دیتی اور نہ ہی یہ بتانے دیتی ہے کہ گمشدگی کے یہ سال وہ کہاں تھے۔
عافیہ کی مبینہ گرفتاری
کورٹ میں جمع کرائے گئے ڈاکیومنٹس کے مطابق سترہ جولائی دو ہزار آٹھ کو عافیہ کو غزنی میں گرفتار کیا گیا۔ پولیس نے اس کے پاس سے کچھ کاغذات برآمد کیے جن پہ امریکی ٹارگٹس پر حملوں کے متعلق نوٹس تھیں۔ اسکے ساتھ ایک بچہ بھی موجود تھا۔ افغان اتھارٹیز نے اس صورتحال میں امریکی اتھارٹیز کو آگاہ کیا جو افغان نیشنل پولیس کے کمپاونڈ میں اس کا انٹرویو کرنے آئے۔ ریکارڈ کے مطابق تب تک امریکنوں کو یہ معلوم نہیں تھا کہ گرفتار شدہ عورت عافیہ ہے۔
عافیہ کا مبینہ حملہ اور الزامات:
کورٹ ڈاکیومنٹس کے مطابق اٹھارہ جولائی کی سویر امریکی آرمی کی ایک تین ممبر ٹیم عافیہ کو انٹیروگیٹ کرنے پہنچی۔ ایک افغان گواہ کے مطابق عافیہ اس سے قبل مسلسل افغان ٹیم کی منت کرتی رہی کہ اسے امریکہ کے حوالے نہ کیا جائے۔ امریکی ٹیم ایک نیم روشن کمرے میں پہنچی جہاں کافی افغان پولیس والے بھی موجود تھے اور انھیں معلوم نہیں تھا کہ عافیہ کو وہاں باندھے بنا رکھا گیا ہے۔ امریکی ٹیم کے بیان کے مطابق ان کو لگا کہ انھیں اس کمرے میں گرفتار ملزمہ کے متعلق معلومات دی جائیں گی سو وہ اسلحہ رکھ کر بیٹھ گئے۔ چیف وارنٹ آفیسر نے اپنی بندوق زمین پہ رکھی اور کمرے میں لگے پہلے پردے کے ساتھ کرسی رکھ کر بیٹھ گیا۔ اسی اثنا میں عافیہ نے پردے کی نیچے سے وہ بندوق کھسکا لی اور کمرے میں موجود لوگوں پر تان لی۔ عافیہ نے “اللہ اکبر” کہہ کر فائر کیا جو کسی کو نہیں لگا۔ ایک افغان ترجمان نے عافیہ کو دبوچنے کی کوشش کی اور اسی دوران امریکی فوجی نے اپنے پسٹل سے فائر کیا جو عافیہ کے معدے میں لگا۔ عافیہ اس کے بعد میں قابو میں نہیں آ رہی تھی اور “امریکہ مردہ باد” اور “میں تم سب مادر چودوں کو مار دوں گی” کے نعرے لگائے۔
ٹیم نے عافیہ کو فورا میڈیکل سنٹر منتقل کیا جہاں ان کی سرجری کر کے جان بچائی گئی، خون لگایا گیا۔ انیس جولائی کو عافیہ کو بگرام ایئربیس اسپتال منتقل کر دیا گیا۔
بگرام ایئر بیس انٹرویو:
بگرام ایئربیس پہ عافیہ ایف بی آئی ٹیم کی زیرنگرانی تھیں۔ ان کو ایک بیڈ سے باندھ کر رکھا گیا۔ اس دوران ٹیم نے ان کا انٹرویو کیا اور جمع کرائے گئے ڈاکیومنٹس کے مطابق عافیہ نے کہا کہ اس نے بندوق فقط خوفزدہ کر کے بھاگنے کیلئے اٹھائی تھی اور فائر کرنا ان کی غلطی تھی۔ چار اگست دو ہزار آٹھ کو عافیہ کو امریکہ منتقل کر دیا گیا جہاں ان کے خلاف نیویارک میں کرمنل کیس دائر کیا گیا تھا۔
پاکستان سرکار کا رویہ:
پاکستان سرکار کا رویہ اس پورے کیس میں بہت مثبت رہا۔ عافیہ کو ایک انتہائی اچھی وکلا کی ٹیم فراہم کی گئی، ایکسپرٹ سائکالوجسٹ رپورٹس اور فرانزک رپورٹس ملزمہ کی جانب سے پیش کیے گئے۔ عافیہ کی فیملی کی رسائی اس تک ممکن بنائی گئی۔ پاکستان سرکار نے اس مقدمہ میں قریب دو ملین ڈالر خرچ کیے۔
نفسیاتی مریضہ اور ٹرائل:
ٹرائل سے قبل دفاعی ٹیم نے یہ اعتراض داخل کیا کہ عافیہ کی ذہنی حالت اس قابل نہیں ہے کہ وہ ٹرائل سٹینڈ کر سکے۔ عافیہ کے بھائی محمد، اسکے وکیل اور پاکستانی سفارتخانے کے آفیشل کے سامنے عافیہ کی نفسیاتی حالت کا تجزیہ کیا گیا۔ ایک سے زائد سائکولوجسٹ نے رپورٹ پیش کی جس میں سوائے ڈاکٹر لزلی پاورز کے سب نے عافیہ کی نفسیاتی حرکتوں یا علامات کو خود ساختہ قرار دیا۔ بعد ازاں ڈاکٹر لزلی نے بھی اپنی رپورٹ کو ری وزٹ کر کے عافیہ کی علامات کو “میلنگرنگ” قرار دے دیا۔
چنانچہ جج برمن نے چھ جولائی دو ہزار نو کو فیصلہ دیا کہ عافیہ ٹرائل چلانے کیلیے بالکل فٹ ہے۔
ٹرائل:
ٹرائل شروع ہوا تو کورٹ میں فرانزک رپورٹس جمع کروائی گئیں جن کے مطابق عافیہ کے پاس ملنے والے ڈاکیومنٹس اور نقشوں پہ اسکے فنگر پرنٹ موجود تھے اور نوٹس اسی کی ہینڈ رائیٹنگ میں تھے۔ اسی دوران مختلف گواہان نے اٹھارہ جولائی کے وقوعہ پر اپنے بیانات ریکارڈ کرائے۔ ڈیفینس کا ایک اہم نکتہ تھا کہ عافیہ جیسی ایک عام عورت ایم فور رائفل فائر نہیں کر سکتی۔ پروسیکیوشن نے ثبوت جمع کروایا کہ دوران امریکہ قیام عافیہ نے اسلحہ چلانے کی ٹریننگ لی تھی۔ پروسیکوشن کے ایکسپرٹ نے بیان دیا کہ یہ ممکن ہے کہ رائفل فائر ہوئی اور اسکا نشان کہیں نہیں ہے۔ جبکہ ڈیفنس کے ایکسپرٹ نے اس کو لغو قرار دیا کہ رائفل فائر ہوئی اور کسی جگہ گولی کا نشان نہیں ملا۔
عافیہ کا رویہ:
عافیہ کی گواہی سے قبل میں عافیہ کے رویہ پر توجہ دلانا چاہوں گا۔ عافیہ کے روئیے نے یقیناً ان کے کیس پہ برا اثر ڈالا۔ عافیہ کا رویہ مسلسل غیر تعاون پہ تھا۔ عافیہ نے گائناکالوجسٹ کو معائنہ کی اجازت سے انکار کر دیا۔ عافیہ نے پری ٹرائل کیس مینیجمنٹ ہییرنگ میں جج کو مخاطب کرتے ہوئے کہا “جیوری میں سے تمام یہودی نکالو، وہ میرے خلاف ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ یہ سب یہودی ہیں، انکی جینیٹک ٹیسٹنگ کرو اور اسکی بنیاد پہ جیوری سے نکالو”۔ عدالتی رپورٹر کے مطابق اس موقع پر جیوری کمرہ عدالت میں نہیں تھی۔ جج رچرڈ برمن نے اس موقع پر پراسیکیوشن سے کہا کہ عافیہ پر موجود سابقہ دہشت گردی یا القاعدہ سے تعلق کے متعلق کسی قسم کی بات جیوری کے سامنے نہ کی جائے تاکہ جیوری متعصب نا ہو سکے۔
اگرچہ یہ بات موجود ریکارڈ پہ نہیں ہے لیکن نیو یارک میں موجود میرے ایک ذریعے کے مطابق جج برمن بھی یہودی ہیں۔ گو وہ ایک قابل جج کے طور پر جانے جاتے ہیں لیکن عافیہ کی نسلی نفرت آمیز گفتگو نے جج پر کوئی اثر ڈالا یا نہیں، یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہو گا۔
اسکے علاوہ عدالت میں ہی عافیہ نے کئی بار اپنے ہی وکلا کو ڈسمس کر دیا۔ عدالت آنے سے انکار کیا۔ کئی بار ان کو چیخ و پکار کرنے پر عدالت سے ریموو بھی کیا گیا۔
عافیہ کی گواہی:
عافیہ نے عدالت سے کہا کہ وہ بطور گواہ بیان دینا چاہتی ہیں۔ عافیہ کی ڈیفنس ٹیم نے اس کی شدید مخالفت کی اور کہا کہ انکی نفسیاتی حالت کے پیش نظر ان کو گواہی کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ پراسیکیوشن نے فورًا عافیہ کی تجویز سے اتفاق کیا۔ عافیہ کو گواہی سے روکنے کیلئیے پاکستانی سفیر حسین حقانی خود جیل اسپتال پہنچ گئے اور عافیہ کو منانے کی کوشش کی۔ وکلا، حقانی اور فیملی کی کوششوں کے باوجود عافیہ نے بات ماننے سے انکار کر دیا اور گواہی دینے کے فیصلے پر قائم رہیں۔ جج نے فیصلہ دیا کہ عافیہ گواہی کیلیے فٹ ہیں۔
عافیہ نے اپنی گواہی میں کہا کہ “اٹھارہ جولائی کو وہ پردے کے پیچھے بیٹھی تھیں کہ انھوں نے امریکی آوازیں سنیں۔ ان کو خوف محسوس ہوا کہ ان کو امریکیوں کے حوالے کیا جا رہا ہے۔ انھوں نے بھاگنے کی نیت سے جائزہ لینا چاہا اور پردے سے جھانکا تو اتنے میں ایک امریکی کی نظر ان پہ پڑی اور وہ چلایا کہ ملزمہ بھاگ رہی ہے اور ان پہ فائر کھول دیا گیا۔”
عافیہ نے اپنی گواہی میں کہا کہ “وہ قطعًا دہشت گرد نہیں ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کو خفیہ جیلوں میں رکھا گیا اور ٹارچر کیا گیا۔ انھوں نے کہا کہ وہ امن کیلیے کردار ادا کر سکتی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ گرفتاری کے وقت برآمد شدہ بیگ انکا نہیں تھا بلکہ انکو دیا گیا۔ جب عافیہ کو بتایا گیا کہ بیگ میں موجود نوٹس جو حملوں کے ہیں انکی ہینڈ رائیٹنگ میں ہیں تو عافیہ نے کہا “یہ ممکن ہے کہ وہ میری ہینڈ رائیٹنگ میں ہوں”۔
افغانستان میں دی اپنی اعترافی اسٹیٹمنٹ کے متعلق عافیہ کا کہنا تھا کہ سرجری کے بعد وہ دواؤں کے اثر میں تھیں اور انھوں نے ایسا کچھ نہیں کہا بلکہ ان سے ایسا کہلوایا گیا۔
عدالتی فیصلہ:
تین فروری دو ہزار دس کو جیوری، جسکی اکثریت خواتین پہ مشتمل تھی، نے عافیہ کو تمام سات الزامات کیلئیے گلٹی قرار دیا۔
تئیس ستمبر دو ہزار دس کو جج برمن نے عافیہ کو سزا سنائی۔ جج برمن نے اس موقع پر سزا میں دہشت گردی کی دفعات کا بھی اضافہ کر دیا۔ عافیہ کی سزا میں اس بات پہ زور دیا گیا کہ ملزمہ کے بیانات کی روشنی میں اس کا ایسا جرم دوبارہ کرنے کا امکان زیادہ ہے۔
یہاں یہ پوائنٹ یاد رہے کہ عافیہ کی لیگل ٹیم نے جج سے استدعا کی کہ اسے بارہ برس تک کی سزا سنائی جائے۔
جج برمن نے کل سات الزامات پر عافیہ کو چھیاسی سال پرنسپل قید اور پانچ برس سپروائزڈ رہائی کی سزا سنائی۔
عافیہ کی نصیحت:
عافیہ نے اس موقع پر لوگوں سے کہا کہ وہ پرامن رہیں اور خون خرابہ نہ کریں۔ انھوں نے اپنا فیصلہ خدا پہ چھوڑ دیا ہے۔
اپیل:
عافیہ کی لیگل ٹیم نے فیصلے کے خلاف اپیل کی۔ نومبر دو ہزار بارہ کو سمری ججمنٹ کے بعد اسکا تفصیلی فیصلہ سیکنڈ سرکٹ کورٹ نے جاری کیا اور عافیہ کی اپیل خارج کر دی۔
دوسری اپیل:
مئی دو ہزار چودہ میں نئے وکیل نے عافیہ کی اپیل دائر کی۔ مگر جولائی دو ہزار چودہ میں عافیہ نے جج کو خط لکھا کہ مجھے امریکی لیگل سسٹم پہ کوئی اعتماد نہیں اور میں کسی قسم کے ٹرائل میں حصہ نہیں لوں گی۔ نو اکتوبر دو ہزار چودہ کو جج نے عافیہ کے خط کو قبول کرتے ہوے اپیل بند کر دی۔
بطور وکیل میرے خیالات:
میں نے اس مضمون میں یہ تفصیلات اور تمام لنکس اس لئیے فراہم کئیے ہیں کہ قارئین خود اس کیس کو جانچ سکیں۔ البتہ بطور وکیل اور ایک عام قاری میں اپنے تاثرات پیش کرنے کی جسارت کروں گا جن کا مستند ہونا ضروری نہیں ہے۔
عافیہ کا بیک گراونڈ، انکے سابقہ شوہر کی گواہی، ان کی ایک دہشت گرد سے شادی یہ شدید تاثر چھوڑتی ہے کہ اسلامی ذہن رکھنے والی عافیہ رفتہ رفتہ شدت پسند ہوتی چلی گئی۔ اسلامک ایکٹوسٹ کے طور پر وہ کسی ایسے گروہ کے ہتھے چڑھیں جس نے انکے خیالات کو شدت پسندانہ بنا دیا اور ان کے القاعدہ سے لنکس بھی بنے اور جیسا کہا جاتا ہے کہ وہ افریقی ممالک کی فریکوئنٹ ٹریولر تھیں، امریکہ میں ایک دہشت گرد کیلیے پوسٹ باکس کھولا وغیرہ تو شاید وہ بطور مددگار القاعدہ سے وابستہ رہیں۔ اسکے علاوہ القاعدہ کا انکے بدلے لینے کا اعلان بھی انکے تعلق کا تاثر دیتا ہے۔
میں قارئین کی توجہ اس اہم نکتے کی طرف دلانا چاہتا ہوں کہ امریکی حکام نے کئی لوگوں کو گرفتار کیا اور بعد ازاں رہا بھی کیا اور غلط گرفتاریوں پہ جرمانے بھی ادا کیے۔ اگر عافیہ بالکل ہی معصوم ہوتیں تو ایف بی آئی ان کو ٹاپ دہشت گردوں میں شامل نہ کرتی۔
جہاں تک عافیہ کی گمشدگی کا تعلق ہے تو لگتا یہی ہے کہ انکو ایجنسیوں نے گرفتار کیا اور شاید وہ بیچ میں رہا بھی ہوئی ہوں مگر دوبارہ شاید اپنے طرزعمل کی وجہ سے گرفتار کر لی گئی ہوں۔ البتہ انکی گمشدگی، انکے دو بچوں کا لاپتہ ہونا، اور بگرام کی خفیہ قیدی والا پہلو دھند کی ایک دبیز تہہ کے پیچھے ہے۔
عافیہ کی گرفتاری اور انکے اوپر الزامات کے حوالے سے میں شدید غیر مطمئن ہوں۔ میں معروف کالم نگار آصف محمود سے اتفاق کرتا ہوں کہ گرفتاری کی کہانی اور حملے کا ڈرامہ انتہائی مضحکہ خیز ہے۔ یہ ممکن ہے کہ عافیہ کو کہیں پکڑا گیا ہو، ان سے مشتبہ کاغذ بھی برآمد ہوئے ہوں۔ امریکی ٹیم سے بھاگنے کی کوشش پر ان کو گولی ماری گئی ہو اور پھر بندوق اٹھانے وغیرہ کی کہانی بنا لی گئی ہو۔ پچھلے پندرہ سال کی دہشت گردی کی جنگ کے تجربے نے ہمیں اتنا تو سمجھا ہی دیا ہے کہ ایجنسیوں کا لگایا ہر الزام اور بتایا ہر واقعہ سچ نہیں ہوتا۔ میرے لیے البتہ یہ بات حیرت کا باعث ہے کہ آخر ایجنسیز کو یہ سب ڈرامہ کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ عافیہ کو گوانتانامہ بے جیل رکھا جا سکتا تھا، مار کر پھینکا جا سکتا تھا لیکن اس کے بجائے ایک ایسا مقدمہ کیا گیا جو ہمیشہ سوال بنا رہے گا۔ شاید ابھی بھی بہت کچھ پردے کے پیچھے ہے جو وقت آنے پر لیک شدہ ڈاکیومنٹس سے سامنے آئے گا۔
عافیہ کے دوران سماعت روئیے نے بطور وکیل مجھے شدید مایوس کیا۔ اسے قطعا گواہی نہیں دینی چاہیے تھی۔ ایک ایسی جیوری جہاں خواتین کی اکثریت تھی،اسے فقط ایک خاموش مظلوم صورت ملزمہ بن کر بیٹھنا تھا۔ اسکے پاس پانچ قابل وکلا کی ٹیم تھی جو اسے کم سے کم سزا دلوانے کی کوشش کرتی۔ جج کے سامنے یہودی مخالف جملے کہنا، امریکی عدالتی نظام کے بارے میں توہین آمیز جملے، اپنی گواہی میں بہکی باتیں کرنا، امن کیلئیے خود کو بطور کردار پیش کرنا کہ میں امن کروا سکتی ہوں، یہ کہنا کہ دہشت گردی کے بارے میں لکھے نوٹس میری ہینڈ رائیٹنگ میں ہو سکتے ہیں، جیوری پر یہ تاثر چھوڑنے کیلئیے کافی تھے کہ ملزمہ کوئی ٹرینڈ دہشت گرد ہے اور ہم امریکیوں کو اس سے خطرہ ہے۔ اسی لیے جیوری نے متفقہ طور پہ اسے ملزمہ قرار دیا۔
میں البتہ اس بات سے شدید اختلاف کرتا ہوں کہ یہ ایک فیئر سزا ہے۔ ایک ایسا جرم جسے اگر عافیہ کی گواہی کے ساتھ اور کراس ایگزامینیشن کے ساتھ ملائے بنا دیکھا جائے تو مبالغہ آمیز لگتا ہے، جج کو نرمی برتنا چاہیے تھی۔ میں عافیہ کی لیگل ٹیم سے متفق ہوں کہ اسے بارہ برس یا چلیے کچھ زیادہ سزا دے دی جاتی۔ افسوس جج شاید حب وطن میں تعصب کا شکار ہوئے۔
مجھے البتہ پھر حیرت ہے کہ بجائے اپیل کو اعلی ترین عدالتوں تک لیجانے کے جہاں سزا میں کمتری ہونے کے امکانات زیادہ ہو جاتے، عافیہ نے ایک بار پھر بیوقوفی کرتے ہوئے خود اپنی اپیل ختم کر دی۔ ہمارے اپنے ملک میں ہم دیکھتے ہیں کہ سیشن کورٹ یا ہائی کورٹ تک سزا شدید ہے لیکن سپریم کورٹ تک جاتے ہوئے، جذبات معتدل ہو جاتے ہیں اور سزائیں معاف یا کم کر دی جاتی ہیں۔ مجھے یقین ہے اگر یہ کیس مزید اعلیٰ عدالتوں تک جاتا تو سزا میں کمی ضرور ہوتی۔
ڈاکٹر عافیہ صدیقی اب جیل اسپتال میں ہیں جہاں وہ اپنی سزا پوری کریں گی۔ مجھے امید ہے کہ شاید سیاسی طور پر کبھی دونوں حکومتیں کوئی ایسی ڈیل کر پائیں گی جہاں ہم کوئی امریکہ کو مطلوب شخص دیتے ہوئے بطور بار گین عافیہ کو لے سکیں۔ البتہ یہ افسوس ہے کہ ایک قابل پی ایچ ڈی ڈاکٹر شدت پسندانہ خیالات کا شکار ہو کر اپنے، اپنے خاندان خاص طور پہ اولاد اور ملک کیلیے فائدے کا باعث نہ بن سکی۔
اہم لنکس:
عافیہ کے خلاف کمپلینٹ: لنک
فرد جرم: لنک
عدالت میں رویہ: لنک
عافیہ کی سایکالوجی رپورٹ: لنک
کمپیٹنسی ججمنٹ: لنک
عافیہ کی گواہی کی ایک مزید کورٹ رپورٹ: لنک
سزا کی پریس ریلیز: لنک
اپیل کا تفصیلی فیصلہ: لنک
گارڈین رپورٹ: لنک
کیس کلوز نیوز: لنک
ماخذ
ویب سائٹ