علماء کے 22 نکات کا تجزیہ ،،، از قاری حنیف ڈار

اصل مسئلہ کتاب و سنت کی تعبیر کا ہی تو ھے جس کی بنیاد پر امت پارہ پارہ ھو چکی ہے ، ھر فرقے کی اپنی سنت اور اپنی مسجد ھے ، آپ صرف یہ نکات ھی پڑھ کر دیکھ لیجئے کہ علماء نے موجودہ نظام کو خلافت تسلیم کر لیا ھے ،، صدر کوعوامی نمائندوں کے ذریعے منتخب کرنے کے بعد وہ اچھا ھے یا برا ،،مگر خلیفۃ المسلمین ھے ،، عوامی نمائندے ھی اس کو مسترد یا معزول کر سکیں گے ،،

جلسے جلوسوں اور دھرنوں کے ذریعے خلیفہ کو معزول کرنا ابن سبا کی سازش ھے ، یا پھر جمہوریت کا عطیہ ھے ،، بہرحال اسلام اس کی اجازت نہیں دیتا وہ ” سمع و طاعت ” کا حکم دیتا ھے ، یہ بُرا ھے تو اگلی بار اچھا چن لیجئے گا ،، مگر چننے والوں کی تربیت کون کرے گا ؟ عوام میں تو جو اخلاقی گراوٹ آئی ھے سو آئی ھے ،، خود علماء بھی اپنے سابقہ معیار سے گر گئے ھیں ،،

ایلکٹورل کالج عوام ھونگے ، اس بات کو ان نکات میں تسلیم کیا گیا ھے ،، عوام کی اکثریت جس کو بھی چن لے گی وھی اکثریت ھی اس کو معزول کر سکتی ھے ،کوئی شخص دس بارہ ھزار کا مجمع لے کر توڑ پھوڑ کر کے اکثریت کے حق پر شب خون نہیں مار سکتا ، یہ تسلیم کرنے کے بعد علماء ھی ان نکات کی خلاف ورزی کے مرتکب ھو رھے ھیں اور اس خلاف ورزی کو اسی کافر جمہوریت سے کشید کرتے ھیں جو ان کو جلسے جلوس کا حق دیتی ھے ۔،اور جس کے خلاف یہ ٹی ٹی پی اور داعش کو چڑھا لائے ھیں ،،

ان کے اپنے نکات کے مطابق یہ آئین مکمل اسلامی ھے اور اس آئین پر مبنی ریاست بھی اسلامی ھے ، پھر مولوی عبدالعزیز جو کہتا ھے کہ وہ اس آئین کو نہیں مانتا ، اور اس کا آئین قرآن ھے وہ کیا موقف ھے ؟ کیا قرآن میں پاکستان اور کسی خاص مولوی کا نام لکھا ھے ؟ کیا صدر کے انتخاب کا طریقہ لکھا ھے ؟ کیا اس کی مدتِ اقتدار لکھی ھے ؟ کیا مشورہ لینے کا کوئی میکنزم لکھا ھوا ھے – جب یہ سب آیتِ شوری کے تحت تسلیم کر لیا گیا کہ ،اچھا چنیں یا برا چنیں اکثریت جو چنے کی اس کی سمع و طاعت کرنی ھے ،، ایک خلیفہ کے خلاف باغی اٹھیں تو ابن سبا کی اولاد ھوں اور اس سے زیادہ اکثریت سے ووٹ لے کر چنے گئے خلیفہ کے خلاف آپ توپیں لا کر کھڑے ھو جائیں تو مجاھدین بن جائیں ، کام تو آپ بھی ابن سبا والا ھی کر رھے ھیں کہ کبھی طالبان کو ائیر بیسز پر حملوں کی دعوت دیتے ھیں ، ریاستی نقصانات پر مٹھائیاں بانٹتے ھیں اور ان کے مرداروں کو شھید کہتے ھیں ،، اور کبھی داعش سے بیعت کرتے ھیں ،، ابن سبا کی اولاد آج بھی اسلامی ریاست کی جڑیں کھوکھلی کر رھی ھے ،،

بین الانسانی معاملات اور مواثیق میں کسی کا مذھب بھی لاگو نہیں ھو گا بلکہ بین الاقوامی اخلاق ھی لاگو ھوں گے ،،

دو صحابیؓ مکے سے ھجرت کرتے وقت پکڑ لئے گئے اور اس شرط پر چھوڑے گئے کہ وہ وعدہ کریں کہ جنگ میں شریک نہیں ھونگے ،دونوں صحابہؓ نے وعدہ کر لیا ،، ان کا خیال یہ تھا کہ یہ وعدہ چونکہ تلوار کی نوک پر لیا گیا ھے لہذا مسلمانوں میں پہنچ کر اس سے مکر جائیں گے ،،مگر کافر اتنے کچے اور بچے نہیں تھے ، وہ انسانِ کامل محمد مصطفیﷺ کی سیرت سے بخوبی واقف تھے ،انہیں معلوم تھا کہ ایک دفعہ یہ وعدہ کر لیں ،پھر یہ مکرنا چاھئیں گے تو بھی محمد ﷺ ان کو مکرنے نہیں دیں گے کیونکہ آپ اصول کے آدمی ھیں ،، بظاھر مشرکین مکہ نے اس وعدے پر کوئی ضامن نہیں مانگا اور نہ ھی کوئی گارنٹی رکھی ،مگر رسول اللہ ﷺ کا کردار و سیرت سب سے بڑی گارنٹی کے طور پر ان کے پاس موجود تھی ،، خیر یہ دونوں صحابیؓ سیدھے میدانِ جنگ میں پہنچے ،، اور نبئ کریم ﷺ کو ساری صورتحال بتا کر جہاد میں شرکت کی خواھش کا اظہار فرمایا ،،،

اللہ کے رسول ﷺ نے تاریخی الفاظ کے ساتھ اس خواھش کو رد فرما دیا ” مومن جب کسی سے وعدہ کر لیتا ھے تو اپنا ھاتھ اس کے ھاتھ میں دے دیتا ھے ” تم جنگ میں شرکت نہیں کر سکتے مدینہ چلے جاؤ میرا رب مجھے فتح دے گا ، گویا نبی کریم ﷺ کے نزدیک وہ صحابہؓ ابھی مکے میں ھی اپنا ھاتھ مشرکین کے ھاتھ میں دیئے کھڑے تھے اور پابند تھے ، ان پر قاتلوا فی سبیل اللہ اور جاھدوا فی سبیل اللہ کا حکم لاگو نہیں فرمایا بلکہ ” یا ایہا الذین آمنوا اوفوا بالعقود ” کا حکم لاگو کیا کہ اے ایمان والو اپنے عقد پورے کرو ،، 
اسی طرح ریاست دوسرے ممالک سے کیئے گئے معاہدوں کی پابند ھے ، اس کو اسلام کے نام پر ان کی خلاف ورزی پر مجبور نہیں کیا جا سکتا ،،

آخری نکتے کو دیکھ لیجئے کہ ،

” ۲۲۔ دستور کی کوئی ایسی تعبیر معتبر نہ ہوگی جو کتاب و سنت کے خلاف ہو۔ "”

میرے بھائیو،، یہ 72 فرقے کتاب و سنت کی تعبیر پر ھی تو آپ بنا کر بیٹھے ھو، مساجد سنت کی تعبیر کے اختلاف پر ھی تو الگ کر کے بیٹھے ھو ، ایک دوسرے کی مسجد کی اذان پر دعا نہیں پڑھتے ،،جس آیت سے ایک فریق پاؤں کا مسح برآمد کرتا ھے آپ اس سے دھونا برآمد کرتے ھو ،، جس آیت سے ایک فریق ایک طلاق برآمد کرتا ھے آپ تین برآمد کرتے ھو،، جس حدیث سے ایک فریق توحید برآمد کرتا ھے دوسرا اسی میں سے شرک برآمد کر لیتا ھے ، وضو کے ھاتھ دھونے سے لے کر نماز کے سلام تک سارا اختلاف سنت کی تعبیر پر ھی تو ھے ،، حکومت تو کتاب و سنت کی تعبیر کو مان لے گی ۔۔ مگر کس فرقے کی تعبیر کو ؟ آپ خود ھی قیامت تک ایک دوسرے کی تعبیر پر متفق نہیں ھو گئے ،، حکومت کو ٹرک کی بتی کے پیچھے کیوں لگاتے ھو ،، حکومت عدالت ھی کی تعبیر کو مانے گی ،، اور اسے ایسا ھی کرنا چاھئے اور وہ ایسا ھی کر رھی ھے ،،

لہذا ان 22 نکات کی روشنی میں پاکستان کا آئین اسلامی ھے ،، دنیا کا واحد آئین ھے جس نے لا الہ الا اللہ ، محمد رسول اللہ ﷺ پڑھ رکھا ھے،،

( No legislation will be Done repugnant to The Quran and The Sunnah) 
یہ سعودیہ کے آئین میں بھی نہیں لکھا ،،

اور پاکستان ایک اسلامی ریاست ھے اور اس کے ساتھ غداری اور اس کے ساتھ جنگ ،اسلام کے خلاف بغاوت اور خروج ھے ،، اور جو اس ریاست کے خلاف لڑتا مارا گیا ،، مردار کی موت مرا ،،

اب وہ نکات بھی پڑھ لیجئے ،،

1973 کے آئین کے شہرہ آفاق 22 نکات ،،
"” ایک مدتِ دراز سے اسلامی دستورِ مملکت کے بارے میں طرح طرح کی غلط فہمیاں لوگوں میں پھیلی ہوئی ہیں۔ اسلام کا کوئی دستورِ مملکت ہے بھی یا نہیں؟ اگر ہے تو اس کے اصول کیا ہیں اور اس کی عملی شکل کیا ہوسکتی ہے؟ اور کیا اصول اور عملی تفصیلات میں کوئی چیز بھی ایسی ہے جس پر مختلف اسلامی فرقوں کے علما متفق ہوسکیں؟ یہ ایسے سوالات ہیں جن کے متعلق عام طور پر ایک ذہنی پریشانی پائی جاتی ہے اور اس ذہنی پریشانی میں ان مختلف دستوری تجویزوں نے اور بھی اضافہ کر دیا ہے جو مختلف حلقوں کی طرف سے اسلام کے نام پر وقتاً فوقتاً پیش کی گئیں۔ اس کیفیت کو دیکھ کر یہ ضرورت محسوس کی گئی کہ تمام اسلامی فرقوں کے چیدہ اور معتمد علما کی ایک مجلس منعقد کی جائے اور وہ بالاتفاق صرف اسلامی دستور کے بنیادی اصول ہی بیان کرنے پر اکتفا نہ کرے بلکہ ان اصولوں کے مطابق ایک ایسا دستوری خاکہ بھی مرتب کردے جو تمام اسلامی فرقوں کے لیے قابل قبول ہو۔
اس غرض کے لیے ایک اجتماع بتاریخ ۱۲، ۱۳، ۱۴؍اور ۱۵ ربیع الثانی ۱۳۷۰ھ مطابق ۲۱،۲۲،۲۳ اور ۲۴ جنوری ۱۹۵۱ء بصدارت مولانا سید سلیمان ندوی، کراچی میں منعقد ہوا۔ اس اجتماع میں اسلامی دستور کے جو بنیادی اصول بالاتفاق طے ہوئے، انہیں افائدۂ عام کے لیے شائع کیا جارہا ہے۔

اسلامی مملکت کے بنیادی اصول۔۔

اسلامی مملکت کے دستور میں حسبِ ذیل اصول کی تصریح لازمی ہے:

۱۔ اصل حاکم تشریعی و تکوینی حیثیت سے اللہ رب العالمین ہے۔

۲۔ ملک کا قانون کتاب و سنت پر مبنی ہوگا اور کوئی ایسا قانون نہ بنایا جاسکے گا، نہ کوئی ایسا انتظامی حکم دیا جاسکے گا، جو کتاب و سنت کے خلاف ہو
۔
(تشریحی نوٹ) اگر ملک میں پہلے سے کچھ ایسے قوانین جاری ہوں، جو کتاب و سنت کے خلاف ہوں تو اس کی تصریح بھی ضروری ہے کہ وہ بتدریج ایک معینہ مدت کے اندر منسوخ یا شریعت کے مطابق تبدیل کر دیے جائیں گے۔
۳۔ مملکت کسی جغرافیائی، نسلی، لسانی یا کسی اور تصور پر نہیں بلکہ ان اصولوں و مقاصد پر مبنی ہوگی جن کی اساس اسلام کا پیش کیا ہوا ضابطۂ حیات ہے۔
4۔ اسلامی مملکت کا یہ فرض ہوگا کہ قرآن و سنت کے بتائے ہوئے معروفات کو قائم کرے، منکرات کو مٹائے اور شعائر اسلامی کے احیا و اعلا اور مسلمہ اسلامی فرقوں کے لیے ان کے اپنے مذہب کے مطابق ضروری اسلامی تعلیم کا انتظام کرے۔
۵۔ اسلامی مملکت کا یہ فرض ہوگا کہ وہ مسلمانانِ عالم کے رشتہ و اتحاد و اخوت کو قوی سے قوی تر کرنے اور ریاست کے مسلم باشندوں کے درمیان عصبیت جاہلیہ کی بنیادوں پر نسلی، لسانی، علاقائی یا دیگر مادی امتیازات کے ابھرنے کی راہیں مسدود کر کے ملتِ اسلامیہ کی وحدت کے تحفظ و استحکام کا انتظام کرے۔
6۔ مملکت بِلاامتیاز مذہب و نسل وغیرہ تمام ایسے لوگوں کی لابدی انسانی ضروریات یعنی غذا، لباس، مسکن، معالجہ اور تعلیم کی کفیل ہوگی جو اکتساب رزق کے قابل نہ ہوں، یا نہ رہے ہوں یا عارضی طور پر بے روزگاری، بیماری یا دوسری وجوہ سے فی الحال سعیٔ اکتساب پر قادر نہ ہوں۔
۷۔ باشندگانِ ملک کو وہ تمام حقوق حاصل ہوں گے جو شریعت اسلامیہ نے ان کو عطا کیے ہیں۔ یعنی حدودِ قانون کے اندر تحفظ جان و مال و آبرو، آزادیٔ مذہب و مسلک، آزادیٔ عبادت، آزادیٔ اظہارِ رائے، آزادیٔ نقل و حرکت، آزادیٔ اکتسابِ رزق، ترقی کے مواقع میں یکسانی اور رفاہی ادارات سے استفادہ کا حق۔
۸۔ مذکورہ بالا حقوق میں سے کسی شہری کا کوئی حق اسلامی قانون کی سندِ جواز کے بغیر کسی وقت سلب نہ کیا جائے گا اور کسی جرم کے الزام میں کسی کو بغیر فراہمی موقعۂ صفائی و فیصلۂ عدالت کوئی سزا نہ دی جائے گی۔
۹۔ مسلمہ اسلامی فرقوں کو حدودِ قانون کے اندر پوری مذہبی آزادی حاصل ہوگی۔ انہیں اپنے پیروئوں کو اپنے مذہب کی تعلیم دینے کا حق حاصل ہوگا۔ وہ اپنے خیالات کی آزادی کے ساتھ اشاعت کرسکیں گے۔ ان کے شخصی معاملات کے فیصلے ان کے اپنے فقہی مذہب کے مطابق ہوں گے اور ایسا انتظام کرنا مناسب ہوگا کہ انہی کے قاضی یہ فیصلہ کریں۔
۱۰۔ غیرمسلم باشندگانِ مملکت کو حدودِ قانون کے اندر مذہب و عبادت، تہذیب و ثقافت اور مذہبی تعلیم کی پوری آزادی حاصل ہوگی اور انہیں اپنے شخصی معاملات کا فیصلہ اپنے مذہبی قانون یا رسم و رواج کے مطابق کرانے کا حق حاصل ہوگا۔
۱۱۔ غیر مسلم باشندگانِ مملکت سے حدودِ شریعہ کے اندر جو معاہدات کیے گئے ہوں، ان کی پابندی لازمی ہوگی اور جن حقوق شہری کا ذکر دفعہ نمبر ۷ میں کیا گیا ہے ان میں غیر مسلم باشندگانِ ملک اور مسلم باشندگانِ ملک، سب برابر کے شریک ہوں گے۔
۱۲۔ رئیس مملکت کا مسلمان مرد ہونا ضروری ہے، جس کے تدین، صلاحیت اور اصابتِ رائے پر جمہور کے منتخب نمائندوں کو اعتماد ہو۔
۱۳۔ رئیس مملکت ہی نظمِ مملکت کا اصل ذمہ دار ہوگا۔ البتہ وہ اپنے خیالات کا کوئی جزو کسی فرد یا جماعت کو تفویض کرسکتا ہے۔
14۔ رئیس مملکت کی حکومت مستبدانہ نہیں بلکہ شورائی ہوگی۔ یعنی وہ ارکانِ حکومت اور منتخب نمائندگانِ جمہور سے مشورہ لے کر اپنے فرائض انجام دے گا۔
۱۵۔ رئیس مملکت کو یہ حق حاصل نہ ہوگا کہ وہ دستور کو کلاً یا جزواً معطل کرکے شوریٰ کے بغیر حکومت کرنے لگے۔
16۔ جو جماعت رئیس مملکت کے انتخاب کی مجاز ہوگی وہی کثرتِ آرا سے اسے معزول کرنے کی بھی مجاز ہوگی۔
۱۷۔ رئیس مملکت شہری حقوق میں عامۃ المسلمین کے برابر ہوگا اور قانونی مواخذہ سے بالاتر نہ ہوگا۔
۱۸۔ ارکان و عمالِ حکومت اور عام شہریوں کے لیے ایک ہی قانون و ضابطہ ہوگا اور دونوں پر عام عدالتیں ہی اس کو نافذ کریں گی۔
۱۹۔ محکمۂ عدلیہ، محکمۂ انتظامیہ سے علیحدہ اور آزاد ہوگا، تاکہ عدلیہ اپنے فرائض کی انجام دہی میں ہیئت انتظامیہ سے اثر پذیر نہ ہو۔
۲۰۔ ایسے افکار و نظریات کی تبلیغ و اشاعت ممنوع ہوگی جو مملکتِ اسلامیہ کے اساسی اصول و مبادی کے انہدام کا باعث ہوں۔
۲۱۔ ملک کے مختلف ولایات و اقطاع مملکت واحدہ کے اجزا انتظامی متصور ہوں گے۔ ان کی حیثیت نسلی، لسانی، یا قبائلی واحدہ جات کی نہیں محض انتظامی علاقوں کی ہوگی، جنہیں انتظامی سہولتوں کے پیش نظر مرکز کی سیادت کے تابع انتظامی اختیارات سپرد کرنا جائز ہوگا، مگر انہیں مرکز سے علیحدگی کا حق حاصل نہ ہوگا۔
۲۲۔ دستور کی کوئی ایسی تعبیر معتبر نہ ہوگی جو کتاب و سنت کے خلاف ہو۔ "”

سورس

 
 
Dr. Muhammad Hamidullah
Visit Website of Dr. Muhammad Hamidullah
Leave A Reply

Your email address will not be published.