عورتوں کے ناموں میں والد کے نام کا لاحقہ شامل کرنے کا مسئلہ

پوسٹ: ﺟﻮ ﻋﻮﺭﺗﯿﮟ ﺍﭘﻨﮯ ﻭﺍﻟﺪ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ ﮨﭩﺎ ﮐﺮ ﺍس کی ﺟﮕﮧ ﺍﭘﻨﮯ ﺷﻮﮨﺮ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ ﺍﭘﻨﺎﺗﯽ ﮨﯿﮟ ﻭﮦ ﻏﻮﺭ ﮐﺮﯾﮟ ﮐﮧ ﯾﮧ ﺣﺮﺍﻡ ﮨﮯ۔

ﻣﺎﻥ ﻟﻮ ﮐﺴﯽ ﻋﻮﺭﺕ ﮐﺎ ﺷﺎﺩﯼ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﻧﺎﻡ ﻓﺎﻃﻤﮧ ﻣﻘﺼﻮﺩ ﻋﻠﯽ ﺗﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﺷﺎﺩﯼ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺍﭘﻨﮯ ﺷﻮﮨﺮ ﮐﮯ ﻧﺎﻡ کے ساتھ ﺟﻮﮌ ﮐﺮ ﻓﺎﻃﻤﮧ ﺳﺎﺟﺪ ﺭﮐﮫ ﺩﯾﺎ۔ ﯾﮧ ﺣﺮﺍﻡ ﮨﮯ۔ اﺱ ﮐﯽ ﺍﺟﺎﺯﺕ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﮧ ﮐﻮئی ﺍﭘﻨﮯ ﺑﺎﭖ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ ﮨﭩﺎ ﮐﺮ ﺍﭘﻨﮯ ﺷﻮﮨﺮ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ ﺍﭘﻨﮯ ﻧﺎﻡ ﮐﮯ ﺁﮔﮯ ﻟﮕﺎئے۔ ﯾﮧ ﮐﻔﺎﺭ ﮐﺎ ﻃﺮﯾﻘﮧ ﮨﮯ۔ ﮨﻤﯿﮟ ﺍس کو ﺍﭘﻨﺎﻧﮯ ﺳﮯ ﺑﭽﻨﺎ چاہیے۔

ﺣﻀﻮﺭ صلی اللہ علیہ والہ وسلم ﮐﯽ ﺣﺪﯾﺚ ﮐﯽ ﺭﻭﺷﻨﯽ ﻣﯿﮟ ﺩﯾﮑﮭﯿﮟ: "ﺟﺲ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﻧﺎﻡ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﮯ ﻭﺍﻟﺪ ﮐﮯ ﻧﺎﻡ ﮐﮯ ﻋﻼﻭﮦ ﺍﭘﻨﮯ ﻧﺎﻡ ﻣﯿﮟ ﮐﺴﯽ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ ﺟﻮﮌﺍ (ﺟﻮ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺑﺎﭖ ﻧﮩﯿﮟ) ﺍﺱ ﭘﺮ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽ ﺍﻭﺭ ﺍس کے ﻓﺮﺷﺘﻮﮞ ﮐﯽ ﻟﻌﻨﺖ ﮨﮯ۔”
ﺍﺑﻦ ﻣﺎﺟﮧ ﺣﺪﯾﺚ ﻧﻤﺒﺮ 2599

ﺣﻀﺮﺕ ﺍﺑﻮذر ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽ ﻋﻨﮧ ﻧﮯ ﺳﻨﺎ ﮐﮧ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﮧ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽ ﻋﻠﯿﮧ ﻭ ﺳﻠﻢ ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ "ﮐﺴﯽ ﺁﺩﻣﯽ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﻭﺍﻟﺪ ﮐﮯ ﺳﻮﺍ ﺍﭘﻨﯽ ﺷﻨﺎﺧﺖ ﮐﺴﯽ ﺍﻭﺭ کے ساتھ ملائی ﺍﺱ ﻧﮯ ﮐﻔﺮ ﮐﯿﺎ۔ ﺟﺲ ﻧﮯ ﺍﺱ ﺷﺨﺺ ﺳﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﻧﺎﻡ ﮐﻮ ﺟﻮﮌﺍ ﺟﻮ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺑﺎﭖ ﻧﮩﯿﮟ ﻭﮦ ﺍﭘﻨﺎ ﭨﮭﮑﺎنہ ﺟﮩﻨﻢ ﻣﯿﮟ ﺑﻨﺎﻟﮯ.”
ﺑﺨﺎﺭﯼ ﺷﺮﯾﻒ 3508

ﺣﻀﺮﺕ ﺳﻌﺪ ﺑﻦ ﺍﺑﯽ ﻭﻗﺎﺱ ﯾﺎ ﺣﻀﺮﺕ ﺍﺑﻮﺑﮑﺮ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮩﻤﺎ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﮧ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽ ﻋﻠﯿﮧ ﻭ ﺳﻠﻢ ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ: ﺟﻮ ﯾﮧ ﮐﮩﺘﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻭﮦ ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﮐﺴﯽ کے ساﺗﮫ ﺧﻮﺩ ﮐﻮ ﺟﻮﮌﺗﺎ ﮨﮯ ﺟﻮ ﺍس کا ﺑﺎﭖ ﻧﮩﯿﮟ ﯾﮧ ﺟﺎﻥ ﮐﺮ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺍس کا ﺣﻘﯿﻘﯽ ﺑﺎﭖ ﻧﮩﯿﮟ، ﺟﻨﺖ ﺍﺱ ﮐﮯ لیے ﺣﺮﺍﻡ ﮨﮯ۔”
بخاﺭﯼ ﺷﺮﯾﻒ .4072

ﺍﺱ ﺳﮯ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺍﻭﺭ ﮐﯿﺎ ﻭﺍﺭﻧﻨﮓ ﮨﻮﺳﮑﺘﯽ ﮨﮯ ﮐﮧ ﯾﮧ ﮐﻔﺎﺭ ﮐﺎ ﻃﺮﯾﻘﮧ ﮨﮯ۔ ﺣﻀﺮﺍﺕ ﯾﮧ ﮐﻔﺎﺭ ﮐﺎ ﻃﺮﯾﻘﮧ ﺗﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﺁﺝ ﮨﻤﺎﺭﯼ ﺑﮩﻨﯿﮟ ﺑﮍﮮ ﺷﻮﻕ ﺳﮯ ﺍس کو ﺍﭘﻨﺎﺗﯽ ﮨﯿﮟ۔ یاﺩ ﺭﮨﮯ ﺑﺎﭖ ﮐﺎ ﺭﺷﺘﮧ ﮐﺴﯽ ﺑﮭﯽ نئے ﺭﺷﺘﮯ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﻧﮩﯿﮟ ﭨﻮﭨﺘﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﻭﻻﺩ ﮐﯽ ﺷﻨﺎﺧﺖ ﺍﻭﺭ ﭘﮩﭽﺎﻥ ﺍس کے ﻭﺍﻟﺪ ﮐﮯ ﻧﺎﻡ ﺳﮯ ﮨﻮﮔﯽ۔

ﺍﮔﺮ ﺷﻮﮨﺮ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ ﻟﮕﺎﻧﺎ ﺟﺎﺋﺰ ﺍﻭﺭ ﺻﺤﯿﺢ ﮨﻮﺗﺎ ﺗﻮ ﺣﻀﻮﺭ صلی اللہ علیہ والہ وسلم ﮐﯽ ﺑﯿﻮﯾﻮﮞ ﻧﮯ ﺑﮭﯽ ﺍﭘﻨﺎ ﻧﺎﻡ ﺑﺪﻻ ﮨﻮﺗﺎ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﺍﻥ ﮐﮯ ﺷﻮﮨﺮ ﺗﻮ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﮯ ﺍﻓﻀﻞ ﺗﺮﯾﻦ ﺷﺨﺺ ﺗﮭﮯ۔ ﺣﻀﺮﺕ خدیجہ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮩﺎ ﮨﻤﯿﺸﮧ خدیجہ ﺑﻨﺖ ﺧﻮﺍﻟﺪ ﺭﮨﯿﮟ۔ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﺎئشہ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮩﺎ ﮨﻤﯿﺸﮧ ﺗﺎ ﻋﻤﺮ ﻋﺎئشہ ﺻﺪﯾﻘﮧ ﺭﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﺣﻀﺮﺕ ﺍﺑﻮﺑﮑﺮ ﺻﺪﯾﻖ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽ ﻋﻨﮧ ﮐﯽ ﺑﯿﭩﯽ ﺗﮭﯿﮟ۔ ﯾﮩﺎﮞ ﺗﮏ ﺣﻀﻮﺭ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﮐﯽ ﻭﮦ ﺑﯿﻮﯾﺎﮞ ﺟﻦ ﮐﮯ ﻭﺍﻟﺪ ﮐﻔﺎﺭ ﺗﮭﮯ ﺁﭖ صلی اللہ علیہ والہ وسلم ﻧﮯ ﺍﻥ ﮐﮯ ﻧﺎﻡ ﮐﺎ ﻟﻘﺐ ﺑﮭﯽ ﮐﺒﮭﯽ ﺗﺒﺪﯾﻞ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﯿﺎ۔ ﺣﻀﺮﺕ ﺻﻔﯿﮧ ﺑﻨﺖ ﺣﯿﺎﯾﮧ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽ ﻋﻨﮩﺎ ﮐﺎ ﺑﺎﭖ ﯾﮩﻮﺩﯼ ﺗﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﺣﻀﻮﺭ صلی اللہ علیہ والہ وسلم ﮐﺎ ﺟﺎﻧﯽ ﺩﺷﻤﻦ ﺑﮭﯽ ﺗﮭﺎ۔ ﺣﻀﻮﺭ صلی اللہ علیہ والہ وسلم ﻧﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﺑﯿﻮﯼ ﺣﻀﺮﺕ ﺻﻔﯿﮧ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮩﺎ کے ساﺗﮫ ﺍﻥ ﮐﮯ ﻟﻘﺐ ﮐﻮ ﺑﺪﻟﻨﮯ ﮐﮯ ﺑﺠﺎئے ﻭﯾﺴﮯ ﮨﯽ ﺑﺮﻗﺮﺍﺭ ﺭﮐﮭﺎ۔ ﺟﻨﺖ ﻣﯿﮟ ﻋﻮﺭﺗﻮﮞ ﮐﯽ ﺳﺮﺩﺍﺭ ﺣﻀﺮﺕ ﻓﺎﻃﻤﮧ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽ ﻋﻨﮩﺎ ﮨﻤﯿﺸﮧ ﻓﺎﻃﻤﮧ ﺑﻨﺖ ﻣﺤﻤﺪ (ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭ ﺳﻠﻢ) ﺭﮨﯿﮟ۔ انھوں ﻧﮯ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻠﯽ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽ ﻋﻨﮧ ﮐﮯ ﻧﺎﻡ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺍﭘﻨﮯ ﻧﺎﻡ ﮐﻮ ﮐﺒﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺟﻮﮌﺍ۔

ﮔﺰﺍﺭﺵ ہے ﺟﺲ ﺑﮩﻦ ﻧﮯ ﻏﻠﻄﯽ ﺳﮯ ﺍﯾﺴﺎ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ ﯾﺎ ﮐﺴﯽ ﺷﻮﮨﺮ ﻧﮯ ﻻﻋﻠﻤﯽ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﺴﺎ ﮐﯿﺎ ﮨﻮ ﻭﮦ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽ ﮐﮯ ﺣﻀﻮﺭ ﺳﭽﯽ ﺗﻮﺑﮧ ﮐﺮﮮ ﺍﻭﺭ ﺍﭘﻨﮯ ﻭﺍﻟﺪ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ ﻭﺍﭘﺲ ﺍﭘﻨﮯ ﻧﺎﻡ کے ساﺗﮫ ﺟﻮﮌﮮ۔ ﮨﻤﯿﮟ ﺍﭘﻨﮯ ﺍﻋﻤﺎﻝ ﮐﺎ ﺣﺴﺎﺏ ﺍﭘﻨﮯ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﺰ ﻭ ﺟﻞ ﮐﻮ ﺩﯾﻨﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﯾﮧ ﺳﺮﺍﺳﺮ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺭﺳﻮﻝ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽ ﻋﻠﯿﮧ ﻭ ﺳﻠﻢ ﮐﯽ ﻧﺎﻓﺮﻣﺎﻧﯽ ﮨﮯ۔

ﺣﻀﺮﺍﺕ ﺍﺱ ﭘﻮﺳﭧ ﮐﻮ ﭘﮍﮬﻨﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺳﮯ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺷﯿﺌﺮ ﮐﺮﯾﮟ ﺗﺎﮐﮧ ﯾﮧ ﺑﺎﺕ ﮨﺮ ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﺗﮏ ﭘﮩﻨﭽﮯ ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﺍﺱ ﭘﺮ ﻋﻤﻞ ﮐﺮﮮ ﺍﻭﺭ ﺁﭖ ﮐﻮ ﺑﮭﯽ ﻧﯿﺖ ﺧﯿﺮ ﮐﺎ ﺛﻮﺍﺏ ﻣﻠﮯ۔
۔۔۔۔‌۔۔

جواب۔۔۔

اس پوسٹ میں اپنے موقف کو درست ثابت کرنے کے لیے بڑی دیدہ دلیری سے حدیثوں کو غلط ترجمہ کرکے اور نہایت جذباتی سی فضا بناکر باتیں بنائی گئی ہیں۔ غور سے سمجھ لیجیے کہ عورتوں کے ناموں کے ساتھ باپ کا نام لگانا اور خاندانی نام لگانا دو الگ چیزیں ہیں۔ خاندانی نام کو کوئی تبدیل نہیں کرتا (اگرچہ کاروباری ضرورت سے کچھ لوگ مثلًا سید یا قریشی یا چودھری وغیرہ بن جاتے ہیں، جو ظاہر ہے کہ بری بات ہے، اور اسی وجہ سے ہمارے برِ عظیم میں ہر گلی میں چار سید اور دو قریشی مل جاتے ہیں جب کہ اتنے تو سارے عرب میں نہیں ملتے۔ اور اسی وجہ سے صحیح سید قریشی وغیرہ بے چارے منہ چھپاتے پھرتے ہیں۔) عربوں میں باپ کا نام بھی لگاتے ہیں لیکن زیادہ تر قبیلے کا نام لکھنے کا رواج ہے، اور یہ رواج صرف مسلمان عربوں میں نہیں بلکہ عیسائی اور یہودی عربوں میں بھی ہے۔ چنانچہ باپ یا خاندان کا نام لکھنا عرب روایت ہے نہ کہ اسلام کا حکم۔ عرب میں نام کے ساتھ یہ لاحقے لگانا کئی وجوہ سے تھا اور مقصد یہی کہ پہچان ہوسکے۔ مثلًا ایران سے سلمان آئے تو انھیں سلمان فارسی کہنا شروع کر دیا گیا۔ ہر عرب عورت کے ساتھ باپ کا یا خاندان کا نام نہیں لگتا تھا، مثلًا رابعہ اپنے شہر بصرہ کی نسبت سے معروف ہیں۔ ان کے باپ کا نام عام طور پر کوئی نہیں جانتا۔ خنسا‍ء اپنے اکیلے نام سے معروف ہیں، باپ اور خاندان غیر معروف۔ وغیرہ۔ یہ اس لیے بھی تھا کہ قبائل کی جنگوں اور جنگ کے خاتمے پر بھیڑ بکری کی طرح عورتوں بچوں کو غلام بنانے پر شناخت کا بحران پیدا ہوجاتا تھا۔ اسلام نے اس رجحان کی نفی کی اور زید کو جسے لوگ رواج کے مطابق زید بن محمد کہنے لگے تھے، ایسا کہنے سے روکنے کے لیے ان کی بیوی سے نبی کریم علیہ السلام کا نکاح تک کرانا پڑا۔ عرب کا یہ رواج نہ تو سارے عرب میں تھا (رابعہ بصری اور خنساء کی مثال) اور نہ ہی باقی ساری دنيا ميں ہے۔ یاسر عرفات کی بیوہ کا نام آج بھی سوہا عرفات ہے۔ اگر سب عرب عورتوں نے باپ کا یا خاندانی نام نہ بدلنا ہوتا سوہا نے کیوں بدلا؟ نیز یہ بھی نشانِ خاطر رہے کہ بخاری شریف میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو جگہ جگہ زوجۂ رسول اللہ لکھا ہوا ہے۔ پس ثابت ہوا کہ عربوں میں بھی نہ تو سب عورتیں باپ کا نام ساتھ لگاتی ہیں اور نہ باپ کا نام ہٹا کر شوہر کے نام سے بلایا جانا معیوب ہے۔ عربوں میں یہ مسئلہ اب اس لیے بھی کھڑا ہو رہا ہے کہ عرب عورتوں نے مالدار خارجیوں نیز کافروں سے شادیاں شروع کر دی ہیں اور ان کا عائلی نظام خراب ہو رہا ہے۔ لہٰذا وہ اپنے نظام کو بچانے کے لیے اسلام کی آڑ لے رہے ہیں۔

اب آئیے ہمارے برِ عظیم کے ناموں کی طرف۔ ہمارے ہاں مثلًا طاہرہ سید یا ثنا بُچہ ہے تو شادی کے بعد بھی خاندانی شناخت قائم رہتی ہے، اگرچہ بلانے ميں اسے بلاجھجھک مسز بخاری یا مسز چودھری کہہ لیا جائے گا۔ خاتون کو عزت دینا ہمارا عام رواج ہے۔ چھوٹے گھر یا خاندان کی عورت بیاہ کر بڑے حیثیت دار خاندان میں جائے تو اس خاندان کی بہو بن کر اسی کے نام سے پہچانی جاتی ہے، اور یہ ہمارا صدیوں پرانا رواج ہے۔ بیگم چودھری یا مسز خان وغیرہ کہلانے میں شرع شریف کو کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ عربوں میں باپ کا نام چپکائے رکھنے کی وجہ طلاقوں اور دیگر وجوہ سے کئی کئی شادیاں ہونا بھی تھا۔ ایک عورت کی چھے چھے شادیوں کا باقاعدہ ریکارڈ موجود ہے۔ ہمارے ہاں عورت کی اتنی شادیوں کو سماج قبول نہیں کرتا۔ ہمارے ہاں ایک خاتون آج مسز بخاری، دو سال بعد مسز خان، چھہ سال بعد بیگم بشیر اور پھر دو سال بعد بی بی چودھرانی نہیں کہلاتی کیونکہ اتنی شادیوں کا رواج نہیں ہے۔ اس لیے ہمارے مسائل وہ نہیں ہیں جو عربوں کے ہیں۔ چنانچہ عربوں کے سماجی ماڈل کو اسلام کے نام پر یہاں چلانے سے باز رہا جائے۔ ہمارے نام اور ہمارے خاندانی نظام کو اسلام نے جوں کا توں قبولا ہے۔ اسے ایسے ہی چلنا چاہیے۔ اگر ہمارے کسی عالمِ دین کا نام ملا جیون ہے تو اس میں شرمانے کی کیا بات ہے؟ ہمیں لکیر الدین فقیر کیوں بنایا جا رہا ہے؟ ہم جو ہیں ٹھیک ہیں، ہمیں عراقی گدھا یا حجازی خچر بننے کا کوئی احساس کمتری نہیں ہے۔

آخری بات یہ کہ سوال لکھنے والے صاحب نے باپ کا نام ہٹاکر شوہر کا نام لکھنے کو حرام کہا ہے۔ یہ بالکل غلط لکھا ہے اور جذباتی بات کی گئی ہے۔ اگر یہ حرام ہے تو یہ حرامکاری امام بخاری نے بھی کی ہے۔ لگائیے فتویٰ امام بخاری پر۔ حرام جن چیزوں کو ہونا تھا انھیں اللہ نے حرام کر دیا ہے اور اس فہرست میں اضافہ کرنے کا اختیار نبی سمیت کسی کو نہیں ہے۔ دین مکمل ہو چکا ہے۔

ہٰذا ما عندی والعلم عند اللہ۔

Dr. Muhammad Hamidullah
Visit Website of Dr. Muhammad Hamidullah
Leave A Reply

Your email address will not be published.