عورت قرآن کی نظر میں ! از قاری حنیف ڈار

جب ھم سنتے یا پڑھتے ھیں کہ یورپ کا پڑھا لکھا طبقہ خاص طور پر خواتین دھڑا دھڑ مسلمان ھو رھے ھیں تو تجسس جاگ اٹھتا ھے کہ آخر قرآن میں استدلال کی وہ کونسی قوت پوشیدہ ھے ،جس نے ان صاحب عقل و فہم لوگوں کو اپنا گرویدہ بنا لیا ھے ، اور عملی زندگی میں اسلام اور مسلمانوں کی زبوں حالی اور مارکیٹ میں دستیاب ھم جیسے نام نہاد مسلمانوں کو دیکھ لینے کے باوجود وہ دائرہ اسلام میں آنے اور اپنے مفادات کی قربانی دینے پر آمادہ ھو گئے ھیں ، نیز ایک اسلام دشمن معاشرے میں نکو بن کر رھنا اور مسلمانوں کے روزمرہ کارناموں کے طعنے سننا بھی ایک اذیت ناک صورتحال ھے ، اس بین الاقوامی اسلام دشمن پروپگنڈے کے باوجود کہ اسلام عورتوں کے حقوق کا دشمن ھے اور اسلام میں عورتوں کو عملاً قید کی زندگی گزارنی پڑتی ھے ،، آخر وہ کونسا طاقتور پیغام چھپا بیٹھا ھے قرآن میں کہ جو یورپ کے مذھب دشمن معاشرے میں گلے گلے تک دھنسے اور پھنسے لوگوں کو نکال کر لے آتا اور اپنے سینے سے لگا لیتا ھے ؟

ھم نے تو جو سنا اور مسلسل سنتے چلے آ رھے ھیں اور پڑھا اور پڑھتے چلے آ رھے ھیں ،کہ عورت ایک گھریلو جانور ھے ،جو عقل و فہم اور دین میں ناقص ھے، یہ مسجد نہیں جا سکتی لوگوں کا دین خراب کر دیتی اور فتنے پیدا کرتی ھے ،مرد کے برابر کھڑی ھو جائے تو مرد کی نماز ٹوٹ جاتی ھے،چاھے وہ مرد اسکا باپ،بھائی ،بیٹا یا شوھر ھی کیوں نہ ھو ! کتا ،گدھا اور عورت نماز توڑنے میں برابر ھیں ،تینوں مرد یا عورت کے آگے سے گزر جائیں تو نماز ٹوٹ جاتی ھے ، اس کی گواھی آدھی ھے، وغیرہ وغیرہ ،، ھم یہ چاھتے تھے کہ کسی نو مسلم خاتون سے انٹرویو ھی کر لیں کہ بی بی "چوں بگویم مسلمانم بلرزم ،کہ دانم مشکلاتِ لا الہ را ” اسلام کو سمجھا ھے یا بس شوقیہ ھی مسلمان ھو گئی ھو ؟ پھر ھم نے سوچا کہ وھاں تو ٹائم ملے یا نہ ملے ،، خود ھی قرآن کو خالی الذھن ھو کر ایک نو مسلم کی حیثیت سے پڑھ لیا جائے ،،، بس صاحب پھر تو آج تک جو پڑھا تھا اور جو کچھ کہ سنا تھا وہ افسانہ ھو گیا ، اور عورت کا وہ مقام واضح ھو گیا جس سے قرآن اس کو نوازتا ھے اور جس کو پڑھ کر یورپ کی عورتیں جوق در جوق اسلام کو سینے سے لگا رھی ھیں ،،،
قرآن حکیم میں ایک سورت ھے ،” سورہ القصص ” 20 ویں پارے میں ھے ،اس سورت میں اللہ پاک نے عورت کی چاروں حیثیتوں ،ماں ،بہن ،بیوی اور بیٹی کو اپنا موضوع بنایا ھے ،جس طرح اسکی تعریف کی ھے ،شاید ھم مردوں کو وہ مقام ملتا تو ھم اس سورت کو نماز میں پڑھنا واجب قرار دے دیتے ،، قرآن نے بتایا ھے کہ بولڈ فیصلے لینے میں عورت کا ثانی نہیں ھے،، یہ بہترین جاسوس، بہترین مشیر ھے اور گھریلو معاملات میں اس کی رائے فیصلہ کن حیثیت رکھتی ھے، اپنے رشتے میں رائے دینا اس کا بنیادی حق ھے اور نبی سمیت تمام مسلمانوں کو اسکی رائے کو وقعت دینا چاھئے ،

عورت اور گھر !

عورت گھریلو معاملات میں کس طرح بولڈ فیصلے کرتی ھے ،اس کا پہلا مظھر تو سورۃ آل عمران میں حضرت مریم کی والدہ کا فیصلہ تھا کہ جو بچہ میرے پیٹ میں ھے ، یہ اللہ کی نذر ھے اور معبد کے حوالے کیا جائے گا ، اتنا بڑا فیصلہ ایک صائب الرائے عورت ھی کر سکتی ھے ،پھر اسی سورت میں اللہ پاک نے وہ جملہ ارشاد فرمایا کہ ،،مرد عورت جیسا یا لڑکا لڑکی جیسا نہیں ھو سکتا تھا،، پھر یہ بات حضرت مریم پر ڈالے جانے والے بوجھ سے واضح بھی ھو گئی کہ ایک سید خاندان کی بچی کا بلا شوھر حاملہ ھو جانا اس معاشرےمیں جس قدر ھولناک تھا اور جسطرح لوگوں نے ردعمل دیا فی الواقع یہ حضرت مریم علیہا السلام کا ھی دل گردہ تھا اس کا سامنا کرنا

عورت اور حکومت !

سورہ النمل پارہ 19 میں اللہ پاک نے جسطرح ملکہ بلقیس کا ذکر فرمایا ھے اور جس تفصیل سے اس کے حکومت کرنے کے طریقے کو بیان کیا ھے ،کاش وہ طریقہ ھمارے حکمران اختیار کر لیتے تو ملک میں امن و امان کا دور دورہ ھوتا اور بھوک افلاس اور اس سے متعلق جن عذابوں سے ھم گزر رھے ھیں وہ آج ناپید ھوتے اور ملک میں عملاً دودھ کی نہریں بہہ رھی ھوتیں ،، جب ھدھد نے حضرت سلیمانؑ کو ملکہ سبا کی حکومت اور وھاں آسودگی اور مال و اسباب کی فراوانی کا ذکر کیا ،نیز ان کے سورج پرستی کا تذکرہ کیا تو ،آپ نے نبیوں کے اسوئے کے مطابق اسے ایک تادیبی خط لکھوایا،،، ملک سبا کے بت پرستی کی آلائش کے باوجود آسودہ حال ھونا یہ بتاتا ھے کہ اگر قوم بت پرست اور لادین بھی ھو مگر حکومت عدل و انصاف کے ساتھ کی جائے تو زمین اپنے خزانے اس کے لئے کھول دیتی ھے، جسطرح صحیح کوڈ مسلمان مارے یا کافر مشین اس کی کمانڈ کو مانتی ھے ،،ھم مسلمان ھونے کے باوجود حکومت کے طریق سے واقف ھیں،

وہ طریق جس میں برطانیہ کے وزیرِ اعظم کی اولاد بھی اسی سرکاری سکول میں پڑھے گی جہاں عوام کے بچے پڑھتے ھیں ،،اور جب ٹریفک کی خلاف ورزی پر جارج بش جونیئر کے بھائی کی بیٹی پکڑ کر جیل بھیج دی گئی تو اس کا باپ جو ریاست کا گورنر تھا ،اور لڑکی کا تایا سٹنگ صدرِ امریکہ تھا اور دادا سابقہ صدرِ امریکہ تھا ،،مگر وہ گورنر لائن میں لگ کر اپنی باری پر اپنی بیٹی سے ملاقات کرتا تھا،،یہ عدل و مساوات درکار ھے حکومت کے لئے اور ملک و ملت کے وقار کے لئے ،، ھمارا سب کچھ بس کتابوں میں لکھا ھوا ھے ،،مگر کتابوں میں لکھی پیناڈول شفا نہیں دیتی تو حدیث کیسے نتائج دے گی ، جب تک اس کے مطابق فیصلے نہ کئے جائیں، الغرض حضرت سلیمان علیہ السلام کے نرالے انداز میں خط پہنچانے کے باوجود وہ عورت بت پرست ھوتے ھوئےبھی تعویز والوں کے پاس نہیں دوڑی کہ میرے کمرے میں ایک خط عجیب انداز میں غیب سے پھینکا گیا ھے ،، بلکہ اس نے اپنی شوری کا اجلاس بلایا اور اس میں اسکی تقریر اتنی اھمیت کی حامل ھے کہ اللہ پاک نے اس کے منٹس ریکارڈ کروا کر مسلمانوں سے شیئر کئے ھیں کہ حکومت اس طرح کی جاتی ھے ـ
یہ حکومت کا خالص اسلامی تصور ھے جو سورہ شوری میں بیان کیا گیا ھے ،، شوری میں اس نے کہا کہ مجھے ایک خط بہترین انداز میں لکھا گیا ھے اور لکھنے والا سلیمان نام کا کوئی بندہ ھے ،جس نے اللہ کے نام سے شروع کیا ھے،جو بڑا مہربان نہایت رحم ککرنے والا ھے، سلیمان نے مجھے لکھا ھے کہ میں سرنڈر کر کے اس کۓ حضور پیش ھو جاؤں ، میں نے تم لوگوں کو اس لئے بلایا ھے کہ تم مجھے مشورہ دو کہ میں اس خط کے جواب میں کیسا رویہ اختیار کروں ،کیونکہ میں نے آج تک کوئی فیصلہ تم سے مشورہ کیئے بغیر نہیں کیا،، انہوں نے جوان دیا کہ ھم جنگجو لوگ ھیں اور جنگ کرنا اچھی طرح جانتے ھیں، اور ساماں جنگ بھی ھمارے پاس وافر مقدار میں موجود ھے ،اور فیصلہ آپ کا ھے ،، آپ غور کر کے حکم دیں ،بجا لانا ھماری ذمہ داری ھے ،، فوج کے جنگ کا عندیہ دینے کے باوجود اس ملکہ نے جنگ کا فیصلہ نہیں کیا بلکہ اپنے سالاروں کو سمجھایا کہ جنگ کوئی کھیل نہیں ،،
جنگ کے نتیجے میں فاتح قوم مفتوح قوم کے ملک میں فساد مچا دیتی ھے، بہتریں لوگوں کو ذلیل کر دیتی ھے اور ذلیلوں کو اٹھا کر اوپر لے آتی ھے ،جو اپنی قوم کا ستیا ناس کر کے رکھ دیتے ھیں،،پتہ چلتا ھے ملکہ بلقیس انگریزوں کے بعد پاکستان کی حکومت کا ذکر کر رھی ھے ،یا انگریزوں کے ھندوستان کا ذکر کر رھی ھے ،جہاں بہترین لوگ کالا پانی اور مالٹا کے قید خانوں میں ذلیل کئے جا رھے تھے اور انگریزوں کے کتے نہلانے والوں کو جاگیرین بانٹی جا رھی تھیں،،یہ اس عورت کا ویژن تھا کہ جس نے قرآن کے اتنے رکوع لے لئے، یہ ویژن آج بھی اتنا ھی ویلڈ ھے جتنا صدیوں پہلے تھا ،،اس نے تحفے دے کر ایک وفد صورتحال کا جائزہ لینے اور حضرت سلیمانؑ کے ائندہ کے عزائم کا ادراک کرنے کے لئے بھیجا ، اور مزید کارروائی وفد کی واپسی تک ملتوی کر دی ـ

عورت قرآن کی نظر میں ،2

وفد کی واپسی اور رپورٹ پر بھی ملکہ بلقیس کی تسلی نہیں ھوئی اور اس نے خود صورتحال کا جائزہ لینے کا فیصلہ کیا ، اور چل پڑی ،حضرت سلیمان نے اس کا تخت منگوا کر جو سرپرائز اس کے لئے تیار کر رکھا تھا اس کو بھی اسنے بڑے ھی ڈپلومیٹک انداز میں لیا اور اپنا وقار بچا لیا، اصل بات یہ ھے کہ اللہ پاک کو اس کے ڈائلاگ اور انداز اتنا پسند آیا ھے کہ خاص طور پر ان مکالموں کو کوٹ کیا گیا ھے ،،، خیر تمام صورتحال کا اندازہ کر کے وہ خاتوں مسلمان ھوئیں ، اپنا ملک بھی بچا لیا ، عوام بھی بچا لئے دینِ توحید اختیار کیا اور رسول کی بیوی بننے کا اعزاز حاصل کیا اور اللہ کے حکم سے سلیمان علیہ السلام نے ان کو ان کی حکومت واپس کردی جس پر وہ مرتے دم تک حکمرانی کرتی رھیں ،،یہ ھے عورت کی حکمرانی پر اللہ کا فیصلہ اور عورت کی حکمت اور تدبر پر قرآن کا تبصرہ ،

مگر ھمارے یہاں عموماً ایک حدیث پیش کر کے اس سارے قضئے اور سورہ النمل کی جان نکال دی جاتی ھے، کہ نبی کریمﷺ کا ارشاد پاک ھے کہ جس قوم کی حکمران عورت ھو وہ کبھی فلاح نہیں پا سکتی ،، مگر سوال یہ ھے کہاآشیاء اپنے ضد سے پہچانی جاتی ھیں ،،اگر یہ اصول ھے تو پھر اس کا ضد یہ ھے کہ جس قوم کا حکمران مرد ھے وہ کبھی تباہ و برباد نہیں ھو سکتی ھے ، جب کہ ھم دیکھتے ھیں کہ قوموں کی بربادی ھوتی ھی مرد حکمرانوں کے ھاتھوں ھے ، گویا یہ کوئی اصول نہیں ھے بلکہ سٹیٹمنٹ آف فیکٹ ھے ،،مثلا ایک جہاز میں بہت سارے مسافر ھیں جن میں 20 عورتیں اور 10 بچے بھی ھیں ،جہاز میں کوئی فالٹ پیدا ھو گیا ھے اور فیول ختم ھو گیا ھے ، اور ائرپورٹ دستیاب نہیں ھے ،اس وقت ایک انا ؤنسر کہتا ھے کہ جناب جس جہاز میں 20 عورتیں اور 10 بچے ھیں وہ کریش کر جائے گا اور سب ھلاک ھو جائیں گے ،،سٹیٹمنٹ آف فیکٹ یہ ھے کہ جو سیچوئیشن پیدا ھو گئی ھے اس کا نتیجہ بیان کیا جا رھا ھے،، اور اصول یہ ھے کہ آئندہ جس جہاز میں 20 عورتیں اور 10 بچے ھونگے وہ کریش کر جائے گا ،،امید ھے آپ کو سمجھ لگ گئی ھو گی کہ ایرانی حکمران کے نبی کریمﷺ کا خط پھاڑنے پھر بیٹے کے بغاوت کرنے اور پھر بیٹے کے مارے جانے اور بیٹی کے حکمران بننے پرحضور تبصرہ فرما رھے تھے کہ میری بد دعا کے بعد کہ اے اللہ اس کے ملک کو بھی اسی طرح ٹکڑے ٹکڑے کر دے جسطرح اس نے میرا خط پھاڑا ھے ،پھر بغاوت اور جوابی بغاوت کے بعد بیٹی کی حکمرانی پر آپ نے فرمایا کہ وہ قوم جس نے ابھی ابھی عورت کو حکران بنایا ھے اس قسم کے اقدامات سے تباھی سے بچ نہیں سکتی وہ تباہ ھو کر رھے گی ! اگر کوئی مونچھوں والا بیٹھتا تو حضورﷺ فرماتے کہ جس قوم نے مچھل کو حکمران بنا لیا ھے تباھی سے نہیں بچ سکتی ،، یہ ھے وہ بات جو نہ تو قرآن سے ٹکراتی ھے نہ اللہ کی سنت سے ،، مگر یہ اصول بنا لینے کے بعد کے ھر حدیث کو قرآن پر پیش کیا جائے گا اور جو اس کے خلاف ھو گی اس کو رد کر دیا جائے گا ،،شاید کم ھی احادیث کو اس چھلنی سے گزارا گیا ھے ،، اپ جب سورہ القصص کو پڑھیں گے تو خواتین کے جوھر کھلیں گے ،جن کا اعتراف ھم بہت کم ھی کرتے ھیں ،

Dr. Muhammad Hamidullah
Visit Website of Dr. Muhammad Hamidullah
ماخذ فیس بک فیس بک
Leave A Reply

Your email address will not be published.