قرآن میں توفی کا مطلب از مبین قریشی

جیسے زبان کے عام اسلوب میں” ہر زندہ مخلوق "اور "ہر ذی روح مخلوق” جیسی تراکیب ایک ہی مفہوم میں  بولی اور سمجھی جاتی ہیں ویسے ہی ” موت ” اور ” وفات ” کو بھی ہم معنی بولا اور سمجھا جاتا ہے۔ لیکن قرآن جس نے امیوں کو نفخ روح کے تصور سے روشناس کرایا وہ قرآن نہ تو روح اور زندگی کو ایک معنی میں لیتا ہے اور نہ ہی موت اور وفات کو مترادفات کے طور پر استعمال کرتا ہے۔ زمانہ جاہلیت کا جو کچھ مواد بھی بعد ازاں میسر ہوا اس سے بھی اور قرآن کے جملوں کے انداز سے بھی یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوجاتی ہے کہ قرآن سے پہلے کے ادب میں لفظ ” وفی ” کا کوئی بھی اطلاق کبھی موت کے معنوں میں ہوا ہی نہیں ۔  قرآن نے پہلی مرتبہ موت و حیات کے ساتھ ساتھ نفخ روح اور توفی النفس کے الفاظ کو ایک خاص معنوں میں استعمال کیا ہے۔ چونکہ موت کے وقت بھی قرآن نے توفی کا ہونا بتایا تھا، بلکہ اسکے دوسرے اطلاق کی نسبت  بہت ہی کثرت سے بتایا تھا ،اسلئے اس مماثلت کی وجہ سے بعد ازاں یہ لفظ موت کے مفہوم کو ادا کرنے لئے بھی عام استعمال ہونے لگا۔ اسی بعد ازاں مستعمل ہوجانے والے استعمال کو بار بار دکھا کر نتیجہ نکال لیا جاتا ہے کہ دیکھئے صاحب عربی لغت میں اس کا استعمال کس کس طرح ہوتا ہے۔ لیکن  نزول قرآن سے قبل ( یعنی چھ سو دس عیسوی سے قبل) کے کسی ادبی مواد میں لفظ توفی کا اطلاق موت کے مفہوم میں نظر ہی نہیں آتا ۔ بلکہ موت کے مفہوم کو قبل از قرآن کے عرب معاشرے میں لفظ موت ، ہلاک ، فنا ، حتف ، شحوب ، حمام ، منون ، سام ، قاضیہ ، ہمیغ ، نبط ، فود ، مقدار ، جباز ، قتم ، حلاق ، طلاطل ، عول ، ذام ، کفت ، جداع ، حزرہ ، خالج اور طلاطلہ جیسے الفاظ سے ادا کیا جاتا تھا۔ الفاظ یا تو مشاہدے سے وجود میں آتے ہیں یا پھر مانے جانے والے فلسفے کے دلائل سے ۔ درج بالا سارے الفاظ انھی دونوں اسباب سے وجود میں آئے ۔ مشاہدہ تھا کہ موت انسانی اجزا کو فنا کردیتی ہے اور انسان کو اپنوں سے جدائی کا فیصلہ سنا دیتی ہے  اور اسی طرح  فلسفے میں یا تو معاد اور حساب کتاب کا تصور سرے سے موجود ہی نہیں تھا یا اگر چند ایک لوگوں کے ہاں کسی اگلی زندگی کا تصور تھا بھی تو وہ بطور علم و عمل کے امتحان کے نظریاتی مقدمے کے طور پر نہیں تھا۔ اس لئے امیوں نے موت کے لئے جتنے الفاظ دریافت کئے وہ سب مشاہدے پر مبنی تھے ۔ قرآن نے معاد کے تصور کو اپنے بنیادی مقدمے اور حتمی سچائی کے طور پر پیش کیا تو اپنے ادب میں ایک ایسے لفظ کا بھی اضافہ کیا جس سے موت کی وہ حقیقت بھی واضح ہو کہ موت مر کر فنا ہوجانے کا نام نہیں بلکہ پورا پورا وصول کرلینے کا نام ہے۔ وہ ایک خالی سوفٹ وئیر یعنی روح کا نفخ کرتا ہے جس سے جانوروں کی طرح جبلتوں کی پابند حیات کی بجائے ارادہ و اختیار کے ساتھ ایک اعجازی سمع بصر اور فواد والا انسان وجود میں آتا ہے۔ اور پھر اس ارادہ و اختیار کے مقصود امتحان کے خاتمے پر نہ صرف موت آتی ہے بلکہ  علم و عمل سے بھری ہوی روح ( نفس ) کو بھی اس طرح  پورے کا پورا وصول کرلیا جاتا ہے جیسے کوئی آئی ٹی کا ماہر ہارڈ وئیر اسکریپ کرنے سے پہلے سوفٹ وئیر کو اس مہارت سے پورا کا پورا وصول کرلیتا ہے کہ اسکا کوئی شوشہ تک ضائع نہیں ہونے دیتا۔ لفظ وفی کا یہ وہ اطلاق تھا جو قرآن سے پہلے اُمی ادب میں موجود ہی نہیں تھا۔ اس لئے قرآن نے جب بھی اس لفظ کا اطلاق کیا تو اس طرح کے قرائن سے کیا کہ اس کے مخاطب کو سمجھ آسکے کہ وہ اس لفظ کو کس مفہوم میں استعمال کررہا ہے۔ اس مفہوم سے ہٹ کر بھی قرآن نے لفظ وفی کے ان اطلاقات کو لیا ہے جن اطلاقات کو قرآن کے پہلے مخاطبین اپنی بول چال میں استعمال کرتے تھے ۔ اس لئے وہاں قرآن جملے کی بناوٹ اس طرح کی نہیں بناتا کہ جس کے زریعے وہ مخاطبین کو کوئی قرینہ  دے کر اس لفظ کا مفہوم سمجھانا چاہتا ہو۔ قرآن نے کہیں پر بھی لفظ وفات کو حیات کی ضد کے مفہوم میں استعمال نہیں کیا۔ بلکہ واضح کرکے بتا دیا کہ نفس پر گزری جس واردات کو وہ وفات کہتا ہے وہ زندہ انسان پر بھی عامہ الورد مثال کے طور پر نیند کی حالت میں روز طاری ہوتی ہے۔ نیند کے علاوہ بھی کیفیات ہیں جن میں زندہ انسان کے نفس کی توفی ہوجاتی ہے اور وہ زندہ ہوتے ہوے بھی علم و عمل کے امتحان سے خارج ہوجاتا ہے مگر وہ کیفیات عامہ الورد نہیں ہیں ۔ مثلاً قرآن اپنے ایجاد کردہ اس لفظی اطلاق کو سمجھاتا ہے کہ اللہ یتوفی الانفس حین موتھا ، یعنی جب موت آتی ہے تو اللہ نفس کو وفات دے دیتا ہے ۔ دیکھیں بات واضح ہے کہ وفات خود موت نہیں ہے بلکہ انسانی نفس پر گزری وہ واردات ہے جو موت کے وقت ( حین موتھا) انسان پر وارد کی جارہی ہوتی ہے۔ پھر بات کو پلٹ کر توفی کی ایک دوسری عامہ الورود واردات کے متعلق بتایا کہ وفات صرف موت کے وقت نہیں آتی  بلکہ والتی لم تمت ، یعنی جن پر موت نہیں آئی ہوتی بلکہ وہ زندہ ہوتے ہیں ان پر بھی زندہ رہتے ہوئے وفات آتی ہے ۔ پھر اس کی مثال دی کہ فی منامھا، یعنی جب انسان نیند میں داخل ہوجاتا ہے تو اس وقت زندہ ہونے کے باوجود اس پر وفات آئی ہوئی ہوتی ہے۔ ان دونوں طرح کی وفات ( مردے کی وفات اور زندے کی وفات) میں فرق یہ ہوتا ہے کہ مردے کے نفس پر طاری کی گئی وفات کی حالت کو اسی حالت وفات میں روک کر رکھا جاتا ہے جبکہ زندہ سوئے ہوئے انسان پر آئی وفات کی حالت کو جاگ جانے پر نفس کا ارسال کردیا جاتا ہے۔ نیند کی کیفیت پر قیاس کرکے سمجھا جاسکتا ہے کہ ارادے اور شعور کی جس کیفیت کو قرآن وفات کہہ رہا ہے وہ زندہ انسان پر نیند کے علاوہ بے ہوشی، مرگی اور شدید نشے اور نفسیاتی عارضے وغیرہ کی حالت میں بھی طاری ہوتی ہے۔

Dr. Muhammad Hamidullah
Visit Website of Dr. Muhammad Hamidullah
ماخذ فیس بک
Leave A Reply

Your email address will not be published.