قرآ ن مجید میں رحم مادر کے اندر انسانی وجود کی تشکیل اور اس کے ارتقاء کے مختلف مرحلوں کا بیان
قرآ ن مجید میں رحم مادر کے اندر انسانی وجود کی تشکیل اور اس کے ارتقاء کے مختلف مرحلے بیان کیے گئے ہیں جن سے پتہ چلتاہے کہ رب کائنات کا نظام ِربوبیت اپنی پوری آب وتاب کے ساتھ بطنِ مادر کے اندر بھی جلوہ فرماہے ۔واقعہ یہ ہے کہ ماں کے پیٹ میں بچے کی زندگی کے نقطہء آغاز سے لے کر اس کی تکمیل اور تولد کے وقت تک پرورش کا ربانی نظام انسان کو مختلف تدریجی اورارتقائی مرحلوں میں سے گزار کر یہ ثابت کردیتا ہے کہ انسانی وجود کی داخلی کائنات ہو یا عالم ِ ہست وبود کی خارجی کائنات ،ہرجگہ ایک ہی نظام ربوبیت یکساں شان اورنظم واصول کے ساتھ کارفرماہے ۔قرآن مجید کے بیان کردہ ارتقاء کے مراحل کی تصدیق بھی آج جدید سائنسی تحقیق کے ذریعے ہوچکی ہے ۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں انسان کی تخلیق اور پیدائش کے ان مراحل کو سورة المٔومنون میں اس طرح بیان فرمایا ہے:
(وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ سُلٰلَةٍ مِّنْ طِیْنٍ ۔ ثُمَّ جَعَلْنٰہُ نُطْفَةً فِیْ قَرَارٍ مَّکِیْنٍ ۔ ثُمَّ خَلَقْنَا النُّطْفَةَ عَلَقَةً فَخَلَقْنَا الْعَلَقَةَ مُضْغَةً فَخَلَقْنَاالْمُضْغَةَ عِظٰمًا فَکَسَوْنَا الْعِظٰمَ لَحْمًا ق ثُمَّ اَنْشَاْنٰہُ خَلْقًا اٰخَرَ ط فَتَبٰرَکَ اللّٰہُ اَحْسَنُ الْخٰلِقِیْنَ)
” اور ہم نے انسان کو مٹی کے سَت سے پیداکیا۔پھر ہم نے اسے ایک محفوظ مقام (رحم مادر)میں نطفہ بنا کر رکھا۔پھر نطفہ کو لوتھڑا بنایا پھر لوتھڑے کو بوٹی بنایا پھر بوٹی کو ہڈیاں بنایا پھر ہڈیوں پر گوشت چڑھایا،پھر ہم نے اسے ایک اور ہی مخلوق بنا کر پیدا کر دیا۔ پس بڑا بابرکت ہے ،اللہ جو سب بنانے والوں سے بہتر بنانے والا ہے” (1)
ان آیات میں انسانی تشکیل وارتقاء کے سات مراحل کا ذکر ہے جن میں سے پہلے کا تعلق اس کی کیمیائی تشکیل سے ہے اور بقیہ چھ کا اس کے بطن مادر کے تشکیلی مراحل سے ۔مذکورہ بالا آیات میں بیان کردہ انسانی ارتقاء کے مراحل کی ترتیب اس طرح بنتی ہے ۔ سلٰلة من طین ،نطفہ ،علقہ ،مضغہ ،عظام ،لحم اور خلقِ آخر ۔آیئے اب ہم ان مراحل کا اسی ترتیب کے ساتھ تفصیلاً مطالعہ کرتے ہیں
مولانا مودودی لکھتے ہیں کہ مٹی سے پیدا کرنے کا مطلب یا تو یہ ہے کہ ہر انسان ان مادّوں سے پیداکیا جاتاہے جو سب کے سب زمین سے حاصل ہوتے ہیں اور اس تخلیق کی ابتدا نطفے سے ہوتی ہے یا یہ کہ نوعِ انسانی کا آغاز آدم علیہ السلام سے کیا گیا جو براہ ِراست مٹی سے بنائے گئے تھے اور پھر آگے نسل ِ انسانی کا سلسلہ نطفے سے چلا جیساکہ سورة سجدہ میں فرمایا ”انسان کی تخلیق مٹی سے شروع کی اورپھر اس کی نسل ایک سَت سے چلائی جو حقیر پانی کی شکل میں نکلتاہے ”۔(2)
عربی کے لفظ سُلٰلَہ کامعنی ہے جوہر ،ست ،خلاصہ یا کسی چیز کا بہترین حصہ۔ اس بات کا بھی علم ہمیں حال ہی میں ہواہے کہ کسی انڈے کے اندر داخل ہونے والا منی کا ایک معمولی ساقطرہ یا جرثومہ ہی اسے بارآور بنانے کے لیے کافی ہے۔حالانکہ ایک مرد کئی کروڑ جرثومے پیدا کرتاہے۔ قرآن مجید نے اس بات کی کہ ” کروڑوں جرثوموں میں سے ایک جرثومہ ” کی نشاندہی لفظ سُلٰلَہ سے کی ہے۔ اسی طرح اس بات کو بھی ہم نے حال ہی میں معلوم کیا ہے کہ عورت کے رحم کے اندر بننے والے لاکھوں انڈوںمیں سے صرف ایک انڈہ ہی بارآور ہوتاہے (ہر بالغ عورت کے مخصوص حصے میں 4 لاکھ ناپختہ انڈے موجود رہتے ہیں مگر ان میں سے صرف ایک انڈہ پختہ ہوکر اپنے مقرر ہ وقت پر نمودار ہوتاہے )۔چنانچہ اس بات کو بھی لفظ سُلٰلَہ ہی سے تعبیر کیا گیاہے یعنی لاکھوں انڈوں میں سے ایک ہی انڈے کا بارآور ہونا۔(3)
ہارون یحییٰ اپنی مایۂ نازکتاب میں لکھتے ہیں کہ ”عربی زبان میں ”سُلٰلَة”کا ترجمہ ست یا جوہر کیا گیا ہے، جس کا مطلب ہے کسی شے کا نہایت ضروری اوربہترین حصہ۔ اس کا جو بھی مفہوم لیا جائے اس کے معنی ہیں ”کسی کل کا ایک جزو” ……مباشرت کے دوران ایک نر بیک وقت کئی کروڑکرم منوی یا جرثومے خارج کرتا ہے۔ یہ تولیدی مادہ پانچ منٹ کا مشکل سفر ماں کے جسم میں طے کرکے بیضہ تک پہنچتا ہے۔ ان کروڑوں جرثوموں میں سے صرف 1000 جرثومے بیضے تک پہنچنے میں کامیاب ہو تے ہیں۔اس بیضے کا سائز نصف نمک کے دانے کے برابر ہو تا ہے جس میں صرف ایک جرثومے کو اندر آنے دیا جاتا ہے۔ گویا انسان کا جوہر پورا مادہ منویہ نہیں ہو تا بلکہ اس کا صرف ایک چھوٹا سا حصہ اس کا جو ہر بنتا ہے ”۔(4)
قرآن مجید میں کم از کم 11مرتبہ اس بات کا تذکرہ کیا گیاہے کہ انسان کو نطفہ یعنی منی کے پانی سے پیدا کیا ہے جس کا مطلب ہے پانی کا ایک معمولی سا قطرہ یا جیسے کپ خالی ہونے کے بعد پانی کے بالکل معمولی سے قطرے تہہ میں بیٹھ جاتے ہیں۔سورہ واقعہ میں اللہ تعالیٰ انسان کو خبردار کرتے ہوئے ہوئے فرماتاہے ۔
”ہم نے تمہیں پیداکیاہے پھر کیوں تصدیق نہیںکرتے ؟کبھی تم نے غورکیا یہ نطفہ جو تم ڈالتے ہو ،اس سے بچہ تم بناتے ہو یا اس کے بنانے والے ہم ہیں ” (5)
اللہ تعالیٰ ایک دوسرے مقام پر ماںباپ کے مخلوط نطفے کا ذکر بھی فرماتاہے ۔
(اِنّاخَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ نُّطْفَةٍ اَمْشَاجٍ ق نَّبْتَلِیْہِ فَجَعَلْنٰہُ سَمِیْعًا م بَصِیْرًا)
” ہم نے انسان کو (مرد اور عورت کے ) ایک مخلوط نطفے سے پید اکیا تاکہ اس کا امتحان لیں اور اس غرض کے لیے ہم نے اسے سننے اور دیکھنے والا بنایا ” (6)
مولانا عبدالرحمان کیلانی اس آیت کے تحت لکھتے ہیں کہ ” یعنی باپ کا نطفہ الگ تھا ،ماں کا الگ ،ان دونوں نطفوں کے ملاپ سے ماں کے رحم میں حمل قرار پایا۔ پھر ہم نے اس مخلوط نطفہ کو ایک ہی حالت میں پڑا نہیں رہنے دیا۔ ورنہ وہ وہیں گل سڑ جاتا ، بلکہ ہم اس کو الٹتے پلٹتے رہے اور رحم مادر میں اس نطفہ کو کئی اطوار سے گزار کر اسے ایک جیتا جاگتا انسان بنادیا(7)۔نطفہ اَمشاج کی اصطلا ح سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ مادہ کئی رطوبات کا مرکب اور مجوعہ ہے ،اس لیے قرآن مجید نے اُسے مخلوط کہا ہے ۔ ا س امر کی تائید بھی عصرِحاضر کی سائنسی تحقیق نے کردی ہے ۔ جدید سائنسی تحقیق کے مطابق نطفہ یا Spermatic Liquid بعض رطوبات (Secretions)سے بنتاہے ،جو ان غدودوں Testicals, Seminal Vesicles,Prostate Glands, Glands of Urinary Tract سے آتی ہیں۔(
آئیے اب یہ معلوم کرتے ہیںکہ یہ نطفہ کہاں تیا رہوتاہے ۔ اس بات کی نشاندہی اللہ تعالیٰ نے سورة طارق میں کی ہے ۔ ارشاد ہوتا ہے ۔
(فَلْیَنْظُرِ الْاِنْسَانُ مِمَّ خُلِقَ ۔خُلِقَ مِنْ مَّآئٍ دَافِقٍ ۔ یَّخْرُجُ مِنْ م بَیْنِ الصُّلْبِ وَالتَّرَآئِب)
” لہٰذا انسان کو یہ دیکھنا چاہیے کہ وہ کس چیز سے پیداکیا گیا ہے؟وہ اُچھل کر نکلنے والے پانی سے پیداکیا گیا ہے جو پشت اور سینہ کی ہڈیوں کے درمیان سے نکلتاہے” ) الطارق, 5-7(
ان آیات کے تحت مولانا مودودی لکھتے ہیں کہ ” علم الجنین (Embryology)کی رو سے یہ ثابت شدہ حقیقت ہے کہ جنین (Foetus)کے اندر اُنثَیَین(خصیے) (Testes)یعنی وہ غدود جن سے مادہ منویہ پیدا ہوتاہے،ریڑھ کی ہڈی اورپسلیوں کے درمیان گردوں کے قریب ہوتے ہیں جہاں سے بعد میں یہ آہستہ آہستہ فوطوں میں اترجاتے ہیں۔یہ عمل ولادت سے پہلے اور بعض اوقات اس کے کچھ بعد ہوتاہے۔لیکن پھر بھی ان کے اعصاب اور رگوں کامنبع ہمیشہ وہی مقام (بین الصلب والترائب)ہی رہتاہے۔ بلکہ ان کی شریان (Artery)پیٹھ کے قریب شہ رگ (Aorta)سے نکلتی ہے اور پورے پیٹ کا سفر طے کرتی ہوئی ان کو خون مہیا کرتی ہے۔ اس طرح حقیقت میں انثیین پیٹھ ہی کا جز ہیں جو جسم کا زیادہ درجہ حرارت برداشت نہ کرنے کی وجہ سے فوطوں میں منتقل کر دیے گئے ہیں۔علاوہ ازیں مادہ منویہ اگرچہ انثیین پیداکرتے ہیں اور وہ کیسہء منویہ (Seminal Vesicles) میں جمع ہو جاتاہے ،مگر اس کے اخراج کا مرکزِ تحریک (بین الصلب والترائب)ہی ہوتا ہے اور دماغ سے اعصابی رو ،جب اس مرکز کو پہنچتی ہے تب اس مرکز کی تحریک (Triger Action)سے کیسہء منویہ سکڑتاہے اور اس سے ماء دافق پچکاری کی طرح نکلتاہے۔ اس لیے قرآن کابیان ٹھیک ٹھیک علم طب کی جدید تحقیقا ت کے مطابق ہے۔ (9)
مولاناحافظ ڈاکٹر حقانی میاں قادری بھی اسی سلسلے میں لکھتے ہیں کہ ” اس آیت میں دوچیزوں کا ذکر ہے۔ دورجدیدکی سائنسی اصطلاح میں صلب کو (Sacrum)اور ترائب کو (Symphysis Pubis)کہا جاتاہے۔ عصر حاضر کے علم تشریح الاعضا (Anatomy)نے اس امر کو ثابت کردیا ہے کہ مرد کا پانی جو (Semens)پر مشتمل ہو تاہے اس صلب اورترائب میں سے گزرکر رحمِ عورت کو سیراب کرتاہے۔
اس آیت میں لفظ ” علقہ ” استعمال ہوا ہے جس کے معنی ہیں ،جمے ہوئے خون کا لوتھڑا ،خون چوسنے والی چیز یعنی جونک۔ اس آیت کو اور اسی کے متعلقہ دوسری آیات کو پروفیسر کیتھ مور (جوکینیڈا میں یونیورسٹی آف ٹورنٹو کے شعبہ علم الا عضا کے سربراہ ہیں اور ایمبریالوجی(علم الجنین) کے پروفیسر ہیں ) نے اکٹھا کیا او ر تحقیق کی اور کہا کہ قرآن اور احادیث کی بیان کردہ معلومات کا زیادہ تر حصہ جدید سائنسی معلومات کے عین مطابق ہے اور اس میں بالکل کوئی تضاد نہیں پایا جاتا۔ تاہم کچھ آیات ایسی ہیں کہ جن کے بارے میںمیں کچھ نہیں کہہ سکتا کہ آیا وہ صحیح ہیں یا نہیں کیونکہ جن چیزوں کے بارے میں قرآن نے بتایا ہے وہ تاحال جدید سائنس نے بھی دریافت نہیں کی ہیں اور نہ ہی ان کے بارے میں جدید سائنس کوئی معلومات رکھتی ہے۔ ان آیات میں سے ایک آیت درج ذیل ہے۔
( اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ ۔ خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ )
” اپنے پروردگار کے نام سے پڑھیے جس نے (ہر چیز کو)پیدا کیا (اور) انسان کو (جمے ہوئے) خون کے لوتھڑے سے پیداکیا ”(العلق :1-2 )
پروفیسر کیتھ مور کو اس بات کا کوئی علم نہیں تھا کہ جنین اپنی ابتدائی حالت میں ایک جونک کی طرح ہوتاہے چنانچہ انہوں نے ابتدائی مرحلے کے جنین کا ایک طاقتور مائیکروسکوپ سے جائزہ لیا اور پھر اس کا ایک جونک کے نقشے اور تصویر کے ساتھ موازنہ کیا ،تو ان کو اس وقت شدید حیرت ہوئی جب انہوں نے ان دونوں میں زبردست مماثلت پائی۔اسی طرح انہوں نے اپنی تحقیق جاری رکھی اور قرآن میں بیان کردہ تمام معلومات کا جائزہ لیا اور پھر ان 80سوالوں کے جوابات دیے جو علم ایمبریالوجی کے متعلق قرآن وحدیث میں بیان کردہ معلومات کے حوالے سے کیے گئے تھے۔
پروفیسر کیتھ مور اوردیگر ماہرین کے مطابق ”علقہ ” کے مرحلے کے دوران انسانی جنین جونک کے مشابہہ ہوتاہے،کیونکہ اس مرحلہ میں انسانی جنین اپنی خوراک ماں کے خون سے حاصل کرتاہے جس طرح جونک دوسروں کا خون چوستی ہے۔ چنانچہ اس مرحلہ کے دوران خون کی ایک بڑ ی مقدار جنین کے اندر موجود رہتی ہے اور جنین میں موجود خون تیسرے ہفتہ کے اختتام تک گردش نہیں کرتا۔ یہی وجہ ہے کہ اس مرحلہ کے دوران جنین کی ظاہری شکل جمے ہوئے خون کے لوتھڑے سے مماثل ہوتی ہے (15دن کے جنین کا سائز تقریباً0.6 ملی میڑ ہوتاہے )۔ پروفیسر کیتھ مور نے اعتراف حقیقت کرتے ہوئے کہا کہ ایمبریالوجی کے حوالے سے قرآن وحدیث میں جو معلومات دی گئی ہیں وہ جدید سائنسی معلومات کے ساتھ مطابقت رکھتی ہیں اور اگر یہ سوالات مجھ سے 30 سال پہلے پوچھے جاتے تو شاید میں آدھے سوالوں کا جواب دینے ہی کے قابل ہوتا کیونکہ اس وقت تک جدید سائنسی معلومات کی کمی تھی۔ 1981 ء میں سعودی عرب کے شہردمام میں منعقد ہونے والی ساتویں میڈیکل کانفرنس میں ڈاکٹر کیتھ مور نے کہا کہ:
” میر ے لیے یہ بات باعث مسر ت ہے کہ مَیں انسان کی پیدائش کے متعلق قرآن کے بیانات کو واضح کرنے میں مد د کروں ،اور یہ بات مجھ پر عیاں ہو چکی ہے کہ یہ بیانات محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہی نازل ہوئے ہیں۔کیونکہ یہ تمام معلومات چند صدیاں پہلے تک منکشف ہی نہیں ہوئی تھیں، اس سے یہ بات مجھ پر ثابت ہو جاتی ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے پیغمبر ہیں ۔”
آخرمیں پروفیسر مو ر سے سوالات بھی پوچھے گئے جن میں سے ایک سوال یہ تھا:
” کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ یقین رکھتے ہیں کہ قرآن مجید اللہ تعالیٰ کا کلام ہے ؟”
ان کا جواب تھا :
”میں اس کو قبول کرنے میں کوئی دشواری محسوس نہیں کرتا ”
ایک کانفرنس کے موقع پر ڈاکٹر صاحب نے کہا:
”چونکہ انسانی جنین کے مراحل بہت پیچیدہ ہوتے ہیں اور نشوونما کے دوران مسلسل جاری مراحل کی وجہ سے یہ تجویز کیاگیا ہے کہ درجہ بندی کا ایک ایسا طریقہ مرتب کیا جائے جس میں قرآن مجید اورسنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں درج اصطلاحات استعمال کی جائیں۔مجوزہ طریقہ کار نہایت سادہ، جامع اورموجودہ جنینیاتی علوم سے مطابقت رکھتاہے۔ چارسال پر مشتمل قرآن وحدیث کے محدود مگر پر زور مطالعہ نے مجھ پرانسا نی جنین کی ترتیب ودرجہ بندی کے طریقہ کار کو منکشف کر دیا ہے جو واقعی تعجب خیز ہے۔ حالانکہ یہ ساتویں صدی عیسوی میں نازل ہواہے۔
تاہم ارسطو نے جس کو جنینیات کی سائنس کا موجد کہا جاتا ہے چوتھی صدی قبل مسیح میں مرغی کے انڈے کے مطالعہ کے بعد یہ نتیجہ نکالا کہ چوزہ کاجنین کئی مراحل میں نشوونما پاتاہے لیکن اس نے ان مراحل کی تفصیلات نہیں بتائیں تھیں۔ جہاں تک جنینیات کی تاریخ کا تعلق ہے انسانی جنین کے مراحل اور اس کی درجہ بندی کے بارے میں بیسویں صدی تک معلومات بہت محدود تھیں،چنانچہ انسانی جنین کے بارے میں قرآن مجیدکی بیان کردہ تفصیلات ساتویں صدی کی سائنسی معلومات پر منحصر نہیں ہیں۔
حاصل کلام یہ کہ یہ تفصیلات محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر اللہ کی طرف سے نازل ہوئی ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ تما م تفصیلات خود نہیں جانتے تھے کیوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اُمی تھے اورآپ نے کوئی سائنسی تربیت بھی حاصل نہیں کی تھی”۔ (11)
ڈاکٹر کیتھ مور نے ان جدید تحقیقا ت سے پہلے ایک کتاب Human) (The Developing لکھی تھی۔ قرآن سے تازہ معلومات حاصل ہونے کے بعد 1982ء میں انہوں نے تمام معلومات کو اپنی کتاب (The Developing Human)کے تیسرے ایڈیشن میں درج کیا اور لکھا کہ قرآن نے علم ایمبریالوجی کے متعلق جو کچھ کہا ہے وہ بالکل ٹھیک ہے۔ جبکہ ہم نے ان چیزوں کو حال ہی میں دریافت کیاہے۔ یہ کتاب سائنسی تحقیقات کا شہرہ آفاق شہ پارہ ہے۔ اس کتاب کو امریکہ میں قائم ایک خصوصی کمیٹی نے اس سال کسی ایک مصنف کی لکھی ہوئی بہترین طبی کتاب کا ایوارڈ بھی دیا تھا،ابھی تک اس کتاب کا دنیا کی آٹھ بڑی زبانوں میں ترجمہ ہو چکا ہے۔
984ء میں ڈاکٹر صاحب کوکینیڈا میں علم تشریح الاعضا کی تحقیقات کے صلہ میں خصوصی امتیازی ایوارڈدیا گیا ، یہ (J.C.B)ایوارڈ کینیڈا کی تشریح الاعضا کی تنظیم (Canadian Association Of Anatomists) کی جانب سے دیا گیا۔ جنینیات(Embryology) طب کی بالکل ایک نئی شاخ ہے جس کے متعلق اس کتاب سے پہلے کسی نے کچھ نہیں لکھاتھا ،تو پھر مقام غور ہے کہ 1400سال پہلے کس ہستی نے اپنے زبردست علم سے اس کو قرآن میں لکھا ؟اسی لیے قرآن مجید باربار غوروفکر کی دعوت دیتا ہے کہ شاید کوئی ان زبردست نشانیوں کو دیکھ اور سمجھ کر خداکی ذات پر ایمان لے آئے۔
چوتھا مرحلہ جو کہ اس آیت میں بتایا گیا ہے ”مضغة ”کا مرحلہ ہے۔
عربی زبان کے لفظ ”مضغة”کا معنی دانتوںسے چبایا ہوامادہ ( Substance Chewed ) ہے۔ اگر کوئی چیونگم لے کر اپنے منہ میں رکھے اوراس کو چبائے اورپھر جنین کے ”مضغة”کے مرحلہ سے اس کا موازنہ کرے تووہ اس نتیجہ پر پہنچے گا کہ جنین نے مضغہ کے مرحلہ کی استعداد حاصل کرلی ہے اور اس کی ظاہر ی شکل وصورت دانتوںسے چبائے ہوئے مادہ Chewed Substanceکی طرح ہے ،یہ اس وجہ سے ہے کہ جنین کی پشت پر نشانات دانتوں سے چبائے ہو ئے مادہ کی طرح ہوتے ہیں اوروہ دانتوں کے نشانات سے کافی حد تک مشابہت رکھتے ہیں ۔(12)
مضغہ مرحلے کے دوران اگر جنین کو چاک کیا جائے اور اس کے اندرونی اعضا کو چیرکر دیکھا جائے تو معلوم ہو گا کہ اس کے زیادہ تر حصے مکمل ہو چکے ہیں جبکہ کچھ حصے مکمل تیار نہیں ہوئے ہیں۔پروفیسر مارشل جانسن کے مطابق اگر ہم جنین کی بطور ”ایک مکمل تخلیق یا پیدائش ” کے وضاحت کریں تو تب صرف اس حصے کی وضاحت کریں گے کہ جو مکمل ہو چکاہے۔
اوراگر جنین کی بطور ”ایک نامکمل تخلیق یا پیدائش ” کے وضاحت کریں تو ہم صرف اس حصّے کی وضاحت کریں گے کہ جو ابھی پیدا نہیںہوا۔تو کیا یہ ایک مکمل پیدائش ہے یا ایک نامکمل پیدائش ؟جنین کے اس مرحلے کی وضاحت جس طرح قرآن نے کی ہے کہ ” کچھ حصّہ مکمل اور کچھ حصّہ نامکمل(الحج: 5)”اس سے بہتر وضاحت نہیں کی جاسکتی۔
پانچواں اور چھٹا مرحلہ یعنی ہڈیوں اور گوشت کا بننا۔
آج علم الجنین کی جدید تحقیقات سے پتہ چلتاہے کہ ہڈیوں اورپھٹوں کی ابتدائی تشکیل پچیسویں سے چالیسویں دن کے درمیان ہوتی ہے اور بظاہر ایک ڈھانچے کی صورت نظر آنا شروع ہو جاتی ہے لیکن پٹھوں یعنی گوشت کی تشکیل مکمل نہیں ہوئی ہوتی ۔یہ ساتویں اور آٹھویں ہفتے میں مکمل ہوتی ہے ۔جب کہ ہڈیاں بیالیسویں دن تک مکمل ہوچکی ہوتی ہیں،ڈھانچہ بن چکا ہوتا ہے ۔لہٰذا ثابت ہو اکہ قرآنی ترتیب بالکل درست ہے ۔یعنی سب سے پہلے علقہ پھر مضغہ پھر عظاماً اور پھر لحماً۔
پروفیسر مارشل جانسن کا شمار امریکہ کے نمایاں ترین سائنس دانوں میں ہوتاہے۔ ان سے جب قرآن مجید کی ان آیات پر تبصرہ کرنے کے لیے کہا گیا جو جنینیات کے مراحل سے متعلق ہیںتو شروع میں تو انہوں نے کہا کہ قرآن کے بیان کردہ ایمبریالوجی کے مراحل (سائنس کے ساتھ) مطابقت نہیں رکھ سکتے ،ہوسکتاہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کوئی طاقتور قسم کی مائیکروسکوپ موجود تھی۔ جب ا نہیں بتایا گیا کہ قرآن تو 1400 سال پہلے نازل ہوا تھا اور مائیکروسکوپ تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے سے کئی صدیوں بعد ایجا دہوئی تھی ،تو وہ مسکرائے اور اس بات کو تسلیم کرتے ہوئے کہا کہ پہلی مائیکروسکوپ جو ایجاد ہوئی تھی وہ کسی بھی چیز کو 10 گنا سے زیادہ بڑ ا کرکے نہیں دکھا سکتی تھی اور پھر اس کی تصویر بھی واضح نہیں تھی۔ (13)
بعد میں انہوں نے کہا کہ” بحیثیت ایک سائنس دان ‘ میںصرف انہی چیزوںکے متعلق اپنی رائے دیتاہوں جن کو میںخصوصیت سے دیکھ سکتا ہوں۔ میںقرآن مجید کے ان الفاظ کو سمجھ سکتا ہوں جن کا ترجمہ میں نے پڑھا۔ جیسا کہ میں نے پہلے مثال دی اگر میں خود کو اس خاص زمانہ میں لے جاؤں ان چیزوں کی تشریحا ت و توضیحات کے ساتھ، جو آج میں جانتا ہوں تومیںان چیزوں کی وضاحت نہیں کر سکوںگا جن کے متعلق(آج)ہمیںمعلومات حاصل ہو چکی ہیں۔محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے جس جگہ سے یہ تمام اطلاعات بہم پہنچائی ہیںمیں اس کے غلط یا جھوٹا ہونے کی کوئی شہادت نہیں پاتا۔ اس عقیدے کو قبول کرنے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے کہ انہوں نے جو کچھ لکھا وہ وحی الٰہی تھا”۔ (14)
ڈاکٹر جوئی لی سمپسن جو امریکہ کے شہر ہوسٹن میں واقع بلیر کالج آف میڈیسن کے شعبہ علم وضع حمل اور علم امراض نسواں (Gynecology)کے سربراہ ہیں ،اعتراف کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ”یہ احادیث اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ کہنا اس سائنسی علم کی بنیاد پر نہیں ہوسکتا جو ان کے زمانے میں ( ساتویں صدی عیسوی کی طرف اشارہ ہے )موجود تھا اور یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ علم توالدوتناسل اور مذہب (یعنی اسلام )میں کوئی تضاد نہیں ہے بلکہ مذہب سائنس کی مدد کرسکتا ہے۔ ۔۔قرآن میں موجود باتیں صدیوں کے بعد بھی صحیح قرار پائی ہیں جو اس بات کو تقویت دیتی ہیں کہ قرا ن مجید کا مأخذاللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔” (15) احادیث مبارکہ میں بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ماں کے پیٹ کے اندر جنین کے ان مختلف مراحل کا ذکر کیاہے۔ آئیے ان کا بھی جائزہ لیتے ہیں:
‘‘حذیفہ بن اسید غفاری سے روایت ہے کہ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمارہے تھے جب نطفے پر بیالیس راتیںگزر جاتی ہیںتو اللہ تعالیٰ اس کے پاس ایک فرشتے کو بھیجتاہے ‘ جو اس کی صورت ‘کان ‘آنکھ ‘کھال’ گوشت اور ہڈیاںبناتاہے ‘پھر عرض کر تاہے اے پروردگار، یہ مرد ہے یا عورت ‘پھر جو مرضی الٰہی ہوتی ہے وہ فرماتاہے ‘فرشتہ لکھ دیتاہے ‘پھر عرض کرتاہے ‘ اے پروردگار اس کی عمر کیاہے ‘چنانچہ اللہ تعالیٰ جو چاہتاہے حکم فرماتا ہے اورفرشتہ وہ لکھ دیتا ہے پھر عرض کرتاہے کہ اے پروردگار اس کی روزی کیا ہے ‘چنانچہ پروردگار جو چاہتاہے وہ حکم فرمادیتاہے اورفرشتہ لکھ دیتاہے اور پھر وہ فرشتہ وہ کتاب اپنے ہا تھ میں لے کر باہر نکلتاہے جس میںکسی بات کی کمی ہوتی ہے اورنہ زیادتی ”(صحیح مسلم باب القدر)
امام بخاری بھی حضرت ابن مسعود سے ایک روایت لائے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”تم میں سے ہر ایک کی پیدائش اس کی ماں کے پیٹ میںمکمل کی جاتی ہے۔ چالیس دن تک نطفہ رہتاہے پھراتنے ہی وقت تک منجمد خون کا لوتھڑارہتا ہے پھر اتنے ہی روز تک گوشت کا لوتھڑا رہتاہے اس کے بعد اللہ ایک فرشتہ بھیجتا ہے اور اسے چار باتوںکا حکم دیا جاتا ہے کہ اس کا عمل ‘اس کا رزق اوراس کی عمر لکھ دے اوریہ بھی لکھ دے کہ بدبخت ہے یا نیک بخت ،اس کے بعدا س میں روح پھونک دی جاتی ہے ….”(صحیح بخاری باب بدء الخلق ۔صحیح مسلم باب القدر)
حضرت انس بن مالک سے بھی ایک حدیث مروی ہے کہ سرورِدوجہاں صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
” اللہ تعالیٰ نے رحم پر ایک فرشتہ مقرر فرمارکھا ہے’وہ عرض کر تاہے کہ اے میرے رب،نطفہ تیارہوگیاہے ‘اے میرے رب خون بستہ ہو گیا’اے میرے رب گوشت کالوتھڑا تیار ہوگیا ‘اس کے بعد جب اللہ تعالیٰ اس کی تخلیق کرنا چاہتے ہیںتووہ فرشتہ دریافت کرتاہے کہ اے میرے رب !نر ہے یا مادہ ‘بدبخت ہے نیک بخت ‘اس کی روزی کتنی ہے ‘عمرکتنی ہے؟اس طرح رحم مادر میںہی ان چیزوں کے بارے میں اس کی تقدیر لکھ دی جاتی ہے۔ ”(صحیح بخاری۔ باب القدر)
اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نطفہ، علقہ اورمضغہ کے مراحل کا تذکرہ فرمایا ہے جبکہ اس سے پہلے والی حدیث میں بیان ہو اہے کہ نطفہ بننے کے بعد بیالیس راتیں گزرنے پر اللہ تعالیٰ کے حکم سے فرشتہ آتاہے اور وہ اس کی صورت سازی اورتخلیق کا کام انجام دیتاہے ‘یہ بات بالکل وہی ہے جس کے بارے میں علم جنین سے متعلق جدید تحقیقات بتاتی ہیںکہ اس مدت میںگوشت کے ٹکڑے میں موجود جسمانی حصے ہڈیوںاو رپٹھوں میںتبدیل ہو جاتے ہیں، پھر ہڈیوں پر گوشت اورپٹھے چڑھتے ہیں، اس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ جنین کی نشوونما کے مراحل میںحضرت حذیفہ والی حدیث میں مذکور مراحل اورعلم جنین کے سلسلے کی جدید تحقیقات کے نتائج بالکل یکساں ہیں۔
لیکن فرشتے کے حاضر ہونے کے زمانے کے بارے میں حضرت حذیفہ اورحضرت ابن مسعودکے روایت کردہ الفاظ میں کچھ اختلاف پایا جاتاہے کیونکہ حضرت حذیفہ کی روایت میںتو یہ ہے کہ فرشتہ بیالیس راتوںکے بعد حاضر ہوتا ہے جبکہ ابن مسعود کی روایت سے یہ معلوم ہوتاہے کہ فرشتہ ایک سو بیس دن کے بعد حاضر ہو تاہے۔ علماء نے ان دونوں احادیث کو تطبیق دی ہے چنانچہ اس ضمن میں حافظ ابن قیم فرماتے ہیں!
”حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالی عنہ کی حدیث پہلے چالیس دن کے بعد تخلیق کی ابتدا پر دلالت کرتی ہے ‘ اور حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ کی حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ تیسرے چلے کے بعد جنین میں روح پھونکی جاتی ہے۔ حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالی عنہ کی حدیث تخلیق کا آغاز چالیس روز کے بعد شروع ہو جانے کے سلسلے میں صریح ہے اور حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ کی حدیث میں صورت سازی اورتخلیق کے وقت سے تعارض نہیں کیا گیا ہے ‘بلکہ اس میں نطفے کے مختلف ادوار کا بیان ہے اوراس بات کا تذکرہ ہے کہ ہر چالیس دن کے بعد نیا مرحلہ شروع ہو تا ہے اورتیسرے چلے کے بعداس میں روح پھونکی جاتی ہے ‘ اس چیز کا حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالی عنہ کی حدیث میں ذکر نہیں ہے بلکہ خاص طریقہ پر یہ چیز حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ کی حدیث میں مذکور ہے۔
لہٰذا یہ دونوں حدیثیں پہلے چلے کے بعد ایک خاص چیز کے پیدا ہونے پر متفق ہیں اور حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالی عنہ کی حدیث میں مخصوص طورپر یہ بات ہے کہ اس نطفے کی صورت سازی اور تخلیق کا عمل پہلے چلے کے بعد شروع ہوتا ہے اورحضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ کی حدیث میں خاص بات یہ مذکور ہے کہ جنین میں روح کا پھونکا جانا تیسرے چلے کے بعد ہوتاہے، اب یہ دونوں حدیثیں اس بات پر متفق ہیں کہ اس دوران پیدا ہونے والے بچے کی تقدیر کے بارے میں فرشتہ اللہ تعالیٰ سے دریافت کرکے لکھتاہے۔ اس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام باتیں سچی ہوگئیں اورایک حدیث دوسری حدیث کی تصدیق کرنے والی بن گئی ‘‘(16)
حافظ ابن قیم رحمتہ اللہ علیہ کی اس تشریح سے وہ اختلاف ختم ہوجاتا ہے ‘جو حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالی عنہ اورابن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ کی حدیث کے درمیان محسوس ہوتا ہے کیونکہ حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالی عنہ کی حدیث میں بیالیس راتوں کے بعد صورت سازی اورتخلیق کے آغاز کی طرف اشارہ ہے اور حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ کی حدیث میں اس بات کا ذکر ہے کہ جب جنین تخلیق کے مراحل پورے کر چکتا ہے تب اس میں روح پھونکی جاتی ہے اور تخلیق کی تکمیل رحم مادر میں نطفہ قرار پانے کے بعد ایک سو بیس دن میں مکمل ہوتی ہے ‘ جنین میں روح پھونکے جانے سے وہ ایک دوسری مخلوق ہو جاتا ہے کیونکہ وہ حرکت کرنے اورآوازوںکو سننے پر قادر ہوجاتاہے اور اس کا دل برابر دھڑکنے لگتاہے ‘اسی جانب قرآن مجید میں اشارہ کیاگیاہےاور یہ ساتواں اور آخری مرحلہ ہے ۔
ساتواں اور آخری مرحلہ
( ثُمَّ اَنْشَاْ نَاہُ خَلْقًا اٰخَرَ ط فَتَبٰرَکَ اللّٰہُ اَحْسَنُ الْخَالِقِیْنَ)
”پھر ہم نے اس کو دوسری مخلوق بنایا ‘لہٰذا اللہ تعالیٰ ہی سب سے اچھا پیدا کرنے والا ہے بابرکت ہے” )المومنون۔ 23:14(
حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ کی حدیث میںتخلیق مکمل ہونے اورروح پھونکے جانے کا جو زمانہ بتایا گیا ہے وہ بالکل وہی ہے جو جدید علم جنین میںجنین کے اندر حرکت پیدا ہونے کے لیے بتایا گیا ہے یعنی نطفہ ٹھہرنے کے بعد تیسرے مہینے کے آخر یا چوتھے مہینے کے شروع میں۔ جنین کی نشوونما کے مراحل کے بارے میں اس حدیث میںمذکور مراحل اورعلم جنین کے سلسلہ کی جدید تحقیقات کے نتائج بالکل یکسا ں ہیں۔ (17)
قارئین کرام جیساکہ آپ جان چکے ہیں کہ قرآن مجید نے حیات انسانی کے ارتقاء کے جملہ مرحلوں پر بھر پور روشنی ڈالی ہے اور یہ معلومات اس وقت بیان کیں جب سائنسی تحقیق اور Embryology جیسے سائنسی مضامین کا نام ونشان بھی نہ تھا ۔کیا یہ سب کچھ قرآن اور اسلام کی صداقت وحقانیت کو تسلیم کرنے کے لیے کافی نہیں؟آخر ایسا کیوں نہ ہوتا کیونکہ قرآن اُس رب کی نازل کردہ کتاب ہے جس کے نظام ِ ربوبیت کے یہ سب پرتَو ہیں ۔ا س لیے اُ س سے بہتر ان حقائق کو اور کون بیان کرسکتا تھا !بات صرف یہ ہے کہ سائنس جوں جوں چشم ِانسانی کے حجابات اُٹھاتی جا رہی ہے قرآنی حقیقتیں توںتوں بے نقاب ہوکر سامنے آتی جارہی ہیں۔