مقدمہ قران از محمد ایف علوی

دورہ حدیث کے دوران صحاح ستہ میں شامل حدیث کی کتاب ابن ماجہ شریف میں امام بخاری کے استاد عبدالاعلی بن عبد الا علی جو صحیح بخاری کے بھی راوی ہیں کی روایت پڑھی جو حضرت امُ المؤمنین عائشہ کے حوالے سے نقل کی گئی ہے جو سنن ابن ماجہ کتاب النکاح باب رضاع الکبیر میں ہے ام المؤمنین کہتی ہیں رجم اور رضاعت کبیر کی آیات نازل ہوئی تھیں اور قران کے اُس نُسخے میں موجود تھیں جو میری چارپائی کے نیچے تھا پھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فوت ہوئے تو ہم آنحضرت کی موت کے معاملات میں مشغول ہوگئے اور ایک بکری داخل ہوئی اور قرآن کو کھاگئی ۔ اس روایت کے الفاظ یہ ہیں :
حدثنا أبو سلمة يحيى بن خلف حدثنا عبد الأعلى عن محمد بن إسحق عن عبد الله بن أبي بكر عن عمرة عن عائشة و عن عبد الرحمن بن القاسم عن أبيه عن عائشة قالت ( لقد نزلت آية الرجم ورضاعة الكبير عشرا ولقد كان في صحيفة تحت سريري فلما مات رسول الله صلى الله عليه وسلم وتشاغلنا بموته دخل داجن فأكلها ) .
دو مختصر جملوں میں ام المؤمنین نے بہت کچھ کہہ دیا، فھوھذا:
(۱) قران میں رجم کی آیت نازل ہوئی تھی جبکہ اب قران میں ایسی کوئی آیت موجود نہیں ہے ۔
(۲) قران میں بڑے آدمی کا کسی غیر محرم عورت کا دودھ پینے کے متعلق آیت بھی نازل ہوئی تھی تاکہ کسی بالغ آدمی کو دودھ پلاکر وہ عورت اپنا محرم بنا سکے لیکن موجودہ قران میں یہ آیت بھی موجود نہیں ۔
(۳) یہ دونوں آیتیں اُس نُسخہ میں موجود تھیں جو نُسخہ ام المؤمنین حضرت عائشہ کا تھا ۔
یہ قران کا نُسخہ حضرت عائشہ کی چارپائی کے نیچے رہتا تھا، ظاہر ہے حضرت عائشہ اس چارپائی پر بیٹھتی بھی ہوں گی اور سوتی بھی ہوں گی اور قران ان کے نیچے رکھا رہتا تھا، روایت تو یہی کہہ رہی ہے لیکن ہم یہ تصور بھی نہیں کرسکتے کہ حضرت عائشہ ایسا کرتی ہوں گی، قران کی جو بے حرمتی اور بے ادبی ہم جاہل سے جاہل اور گناہ گار سے گناہ گار مسلمان سے توقع نہیں کر سکتے وہ ہم ام المؤمنین سے کیسے تصور کرسکتے ہیں لیکن یہ روایت آج بھی ہماری صحاح ستہ میں شامل حدیث کی معتبر کتاب میں موجود ہے جو ہمارے مدارس میں داخل نصاب ہے جسے شیوخ حدیث بڑے طمطراق سے پڑھاتے اور طلباء کمال بے نیازی سے پڑھتے آرہے ہیں، نہ کبھی کسی کو حضرت عائشہ کی توہین نظر آئی، نہ قران کی بے حرمتی کا خیال آیا نہ تحریف قران کی کبھی فکر دامن گیر ہوئی اور نہ کبھی کسی دارالافتاء سے امام ابن ماجہ کے خلاف فتوی صادر ہوا، اس طرح کی کوئی بات اگر ہم نے یا آپ نے کہہ دی ہوتی تو اب تک ہماری سات گذشتہ پُشتیں اور آنے والی سات نسلیں نہ صرف شیعہ، دشمن عائشہ، منکر حدیث بلکہ بدترین کافر قرارپاچکے ہوتے جن کی بخشش کا بھی کوئی یارا نہ ہوتا ۔
4- اس بکری نے کتنا قرآن کھایا ؟ قران کا کچھ حصہ کھاگئی یا مکمل نُسخہ کھاگئی ؟ ؛ فاکلھا ؛ کے الفاظ سے بظاہر ایسا لگتا ہے کہ پورا نُسخہ کھا گئی ، بہر حال اس نے پورا کھایا ہو یا کچھ حصہ سوال یہ اُٹھتا ہے کہ آیات رجم اور رضاعت کبیر ہمیشہ کے لیے کیوں غائب ہو گئیں ؟ اگر واقعتا یہ آیات نازل ہوئی تھیں تو انہیں موجودہ نُسخہ میں درج کیوں نہیں کیا گیا؟ کیا حضرت عائشہ کی گواہی کے بعد مزید کسی گواہی کی ضرورت ہے ؟ اور اگر اس طرح کی کوئی آیت نازل نہیں ہوئی تھی تو حضرت عائشہ نے کیوں کہا کہ یہ آیات نازل ہوئی تھیں؟ حضرت عائشہ سے زیادہ اور کونسی ام المؤمنین وحی اور نزول وحی سے واقف ہوگی ؟ ہماری روایات کے مطابق حضرت عائشہ کے بستر یا لحاف میں قران نازل ہوتا رہا تو کیا یہ باور کر لیا جائے کہ حضرت عائشہ نعوذباللہ جھوٹ بول رہی ہیں ؟ اور اگر وہ سچ کہہ رہی ہیں تو پھر یہ آیات کہاں ہیں ؟
یہ حدیث اگر سند کے لحاظ سے صحیح ہو تب بھی متن کے لحاظ سے منکر ھے ، بہت سارے سوالات اس روایت کی وجہ سے پیدا ہوئے ، اساتذہ اشکال دور کرنے کے بجائے جھڑک دیتے، کوئی بھڑک اٹھتے اور کوئی کہتے کہ لگتا ہے تم منکرین حدیث کو پڑھتے ہو حالانکہ منکرین حدیث کو پڑھنا تو کجا ان سے اتنی نفرت تھی کہ ان کا نام سننا بھی گوارہ نہ تھا، ہمارے ایک کلاس میٹ کہیں سے طلوع اسلام کا شمارہ اٹھا لائے تھے اور ہم نے پورے تین ماہ تک ان سے بات نہیں کی تھی، بہر کیف علماء کے اس رویہ نے غیر درسی کتب کے مطالعہ کی طرف راغب کیا اور اب تک قران کے موضوع پر عربی و اردو کی سینکڑوں کتا بیں پڑھ ڈالیں جن میں مسلم فرقوں کی لکھی ہوئی تقریباً اکثر اور قابل ذکر سب کتابیں شامل ہیں، اور مولانا عامر عثمانی مرحوم نے جس مستشرق کا ذکر اپنے مضمون میں کیا تھا اسے بھی پڑھا اور اس نے صحاح ستہ اور دیگر کتب حدیث میں جابجا بکھری ہوئی ان روایات کا بھر پور طریقہ سے ذکر کیا ہے اور ان بکھری روایات کو اس نے جمع کیا ہے جو قران کے محرف ہونے پر دلالت کرتی ہیں، ان روایات سے استدلال کرتے ہوئے اس مستشرق Arther Jeffery نے کہا ہے : یہ ہے اس کتاب کی حقیقت جس کے متعلق مسلمانوں کا دعوی ہے کہ اس کی حفاظت کی ذمہ داری خود اللہ نے لے رکھی ہے ۔
بات صرف ابن ماجہ کی مذکورہ روایت تک محدود نہیں بلکہ اس سلسلہ کی تمام روایات کو اور اس موضوع کی کتابوں کو اگر جمع کیا جائے تو ایک لائبریری تیار ہوسکتی ہے ۔ بطور نمونہ ملاحظہ فرمایے :
(۱) علامہ سید سلیمان ندوی لکھتے ہیں :
؛ ام المومنین حضرت عائشہ نے اپنے غلام ابو یونس سے قرآن لکھوایا اور قرآن کی آیت حافظوا علی الصلوات والصلوة الوسطى كے ساتھ وصلاة العصر کا لفظ بھی لکھوایا، اور کہاکہ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اسی طرح سناہے۔ ( سیرت عائشہ از سید سلیمان ندوی )، سید صاحب مرحوم نے اس روایت کے لیے ترمذی شریف کا حوالہ دیا ہے ، موجود قران میں وصلاة العصر کا لفظ موجود نہیں ہے، اسے آپ تفسیری جملہ اس لیے نہیں کہہ سکتے کہ ایک تو حضرت عائشہ وضاحت کررہی ہیں کہ میں نے نبی علیہ السلام سے ایسا ہی سنا، دوسرے حضرت عائشہ نے اسے قرآن کی آیت میں لکھوایا نہ کہ تفسیری نوٹ کے طور پر حاشیہ میں ۔
(۲) پیر محمد کرم شاہ صاحب ازھری وہ آخری دو سورتوں پر بحث کے دوران لکھتے ہیں:
؛ بعض ایسی روایات موجود ہیں جن میں یہ مذکور ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ انہیں قران کی سورتیں شمار نہیں کیا کرتے تھے اور جو مصحف انہوں نے مرتب کیا تھا اس میں یہ سورتیں موجود نہیں تھیں ۔ ( تفسیر ضیاء القرآن) ۔ اس کے بعد قبلہ پیر صاحب مرحوم مزید فرماتے ہیں:
؛ علامہ سیوطی نے صراحتا لکھا ہے کہ امام احمد بزار ، طبرانی ، ابن مردویہ نے صحیح طریقوں سے حضرت ابن مسعود سے نقل کیا ہے کہ وہ معوذتین کو مصحف سے محو کردیا کرتے تھے اور کہا کرتے قران کے ساتھ ایسی چیزیں خلط ملط نہ کرو جو اس میں سے نہیں ہیں ، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تو ان دو سورتوں کے ساتھ فقط پناہ مانگنے کا حکم دیا تھا، حضرت ابن مسعود ان سورتوں کی نماز میں تلاوت نہیں کیا کرتے تھے ۔ ( ضیاء القرآن بحوالہ الدر المنثور للسیوطی ) –
اس وقت قران ایک سو چودہ سورتوں کے ساتھ مکمل سمجھا جاتا ہے جبکہ ابن مسعود کے نزدیک آخری دونوں سورتیں قرآن کا حصہ نہیں تو پھر ایک سو بارہ سورتیں رہ گئیں اور قران ناقص ہوگیا، ابن مسعود سابقون الاولون میں سے ہیں پُرانے صحابی ہیں، سفرو حضر میں نبی علیہ السلام کے ساتھ رہتے تھے، ہجرت سے قبل مکہ میں لیلہ الجن میں بھی نبی رحمت کے ساتھ تھے، بیت اللہ میں بلند آواز سے قریش کو جاکر انہوں نے ہی قران سنایا تھا، بھلا اس طرح کا جلیل القدر صحابی معوذتین کے قران ہونے نہ ہونے میں کیسے بے خبر ہو سکتے ہیں، اگر وہ سچ کہہ رہے ہیں تو قران میں گڑبڑ ہے ، اگر جھوٹ کہہ رہے ہیں تو ان سے مروی تمام احادیث مشکوک ہیں اور پھر الصحابة كلهم عدول کا قاعدہ کلیہ بھی مسترد ہوجاتا ہے۔
(۳) مشہور اہل حدیث عالم علامہ نواب وحید الزمان خان اپنی کتاب تیسیر الباری شرح بخاری کتاب التفسیر میں غیرالمغضوب کی شرح کرتے ہوئے حاشیہ میں لکھتے ہیں :
؛ حضرت عمر کی قرات یوں تھی ،، غیرالمغضوب علیھم وغیر الضالین ،، ( تیسیر الباری شرح بخاری جلد٦ طبع تاج کمپنی، یہ شرح ۹ جلدوں میں ہے۔
اہل علم جانتے ہیں کہ غیرالمغضوب علیھم ولاالضالین اور غیر المغضوب علیھم و غیر الضالین کے معنی اور مفہوم میں زمین و آسمان کا فرق ہے ، یہ آیت سورہ فاتحہ کی ہے اور سورہ فاتحہ کبھی کبھار تلاوت کی جانے والی سورہ نہیں بلکہ متواتر دس سال تک نبی علیہ السلام اونچی آواز کے ساتھ دن میں تین مرتبہ نمازوں میں اس کی تلاوت کرتے تھے، جسے سب مسلمان بار بار سنتے تھے لیکن اس کے باوجود حضرت عمر ولا الضالین کے بجائے غیر ضالین پڑھتے تھے ، تو دونوں میں سے کونسا جملہ صحیح ہے، ان میں سے جو بھی صحیح ہو دوسرا تحریف بنتا ہے –
(۴) مولانا عمر احمد عثمانی نے کچھ مصاحف قرآنی کا ذکر کیا ہے جو ایک دوسرے سے مختلف ہیں مثلاً ؛ مصحف عثمان، مصحف اہل مدینہ ، مصحف حضرت عبد اللہ بن مسعود ، مصحف علی بن ابی طالب ، مصحف عبداللہ بن عباس ، مصحف ، مصحف ام المؤمنین عائشہ ، وغیرھم ( جمع القرآن )۔
ان تمام مصاحف کا موجودہ قرآن سے جن جن آیات کا اختلاف ہے وہ فہرست کی صورت میں علامہ عثمانی صاحب نے مرتب کیا ہے، موجودہ قران کے ساتھ عبد اللہ بن مسعود کے نُسخہ کے ساتھ اختلاف کی جو فہرست انہوں نے دی ہے اس کے مطابق ایک سو اڑتیس آیات ہیں جو موجودہ قران سے مختلف ہیں ، اسی طرح باقی مصاحف کی موجودہ قران سے مختلف آیات کی انہوں نے فہرستیں تیار کی ہیں ۔
(۵) علامہ عثمانی نے صحابہ کے ان مصحاحف اور موجودہ قران میں اختلافی آیات کی جو فہرستیں تیار کی ہیں ان کا مآخذ دراصل ؛ کتاب المصاحف ؛ ہے ، یہ کتاب ابوبکر عبداللہ بن ابی داؤد کی کتاب ہے ، یہ ابو بکر عبداللہ بن ابی داؤد صحاح ستہ میں شامل مشہور و معروف کتاب سنن ابی داؤ د کے مصنف ابو داؤد سلیمان بن اشعث سجستانی کے بیٹے ہیں ، ان کی پیدائش ٢٣٠ھ اور وفات ٣١٦ ھ ہے ، ان کی یہ ؛ کتاب المصاحف ؛ محدثین کے نزدیک نہایت مستند ہے اور اکثر متقدمین کی کتابوں میں اس کے حوالے موجود ہیں ، اس کتاب میں انہوں نے وہ تمام روایات جمع کی ہیں جو صحاح ستہ اور دیگر کتب احادیث میں پھیلی ہوئی ہیں، مشہور مستشرق Arther Jeffery جس کا ذکر ہم نے پہلے کیا ہے کہ جس نے قران کے متعلق ہماری کتابوں میں پائے جانے والے مواد اور روایات کو اپنی کتاب ؛ Material for the History of the text of the Quran ; میں جمع کیا ہے، لیکن حیرت ناک امر یہ ہے کہ اس مستشرق نے امام ابوبکر عبداللہ بن ابی داؤد محدث کی ؛ کتاب المصاحف ؛ کو اس لیے شائع کردیا کہ کوئی اس پر غیرمسلم ہونے کی وجہ سے متعصب ہونے کا الزام عائد نہ کرسکے اور لوگ یہ نہ کہہ سکیں کہ ایک عیسائی عالم نے مسلم دُشمنی میں جھوٹ جمع کردیا ہے، اس نے یہ کتاب شائع کرکے مسلمانوں پر واضح کیا ہے کہ یہ سارا وہ مواد ہے جو تمہاری اپنی صحاح ستہ اور دیگر مستند کتب احادیث میں موجود ہے جو موجودہ قران کے ناقص اور محرف ہونے پر دلالت کرتا ہے جس کے متعلق تمہارا عقیدہ یہ ہے کہ اس کی حفاظت خدا نے اپنے ذمہ لے رکھی ہے نیز قران خود اپنے متعلق یہ دعوی کرتا ہے کہ ؛ لایاتیہ الباطل من بین یدیہ ولامن خلفہ ؛ تو پھر یہ کیا ہے ؟
(٦) علامہ جلال الدین سیوطی جو بیک وقت نامور مفسر ، مؤرخ اور محدث ہیں ، ان کی تفسیر قران پر مشہور و متداول کتاب ہے جو دینی مدارس میں پڑھائی جاتی ہے اور ؛ الاتقان ؛ کے نام سے مشہور ہے ، اس میں ام المومنین حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ نبی علیہ السلام کے زمانہ میں سورہ احزاب دو سو آیات کی پڑھی جاتی تھی، پھر جس وقت حضرت عثمان نے مصاحف لکھے اس وقت ہم نے اس سورہ میں سوائے مجودہ مقدار کے کچھ نہیں پایا۔ ( تفسیر اتقان جلد۲، ص ٥٤ ، ترجمہ مولانا محمد حلیم انصاری ، طبع ادارہ اسلامیات انار کلی لاہور ) ۔
(۷) یہی علامہ جلال الدین سیوطی حضرت عبد اللہ بن عمر کا بیان نقل فرماتے ہیں ، عبداللہ بن عمر کہتے ہیں :
؛ تم میں سے جو شخص یہ بات کہے گا کہ میں نے تمام
قرآن اخذ کرلیا ہے حالانکہ اسے یہ بات معلوم نہیں کہ تمام قران کتنا تھا کیونکہ قران میں سے بہت سا حصہ جاتا رہا ہے
لیکن اس شخص کو یہ کہنا چاہیے کہ تحقیق میں نے قرآن
میں سے اتنا حصہ اخذ کیا ہے جو کہ ظاہر ہوا ہے؛ ( تفسیر الاتقان ج۲ ص ٦٤ ، مطبوعہ لاہور، ترجمہ مولانا محمد حلیم انصاری ) ۔
سیوطی کی اتقان سے بطور نمونہ ہم نے صرف دو حوالے نقل کیے ہیں مزید ضرورت ہوتو خود اس کتاب کا بالاستیعاب مطالعہ کیجیے آپ کے ہوش یا تو اُڑ جائیں گے یا پھر ٹھکانے جائیں گے۔ لیکن اس سے ایک بات تو واضح ہوگئی کہ ہمارے علماء اسے قراتوں اور لغت کا اختلاف قرار دیکر گونگلوؤں ( شلجم ) سے مٹی جھاڑنے کی کوشش فرماتے ہیں وہ ایک تکلف محض ہے، یہاں پر حضرت عائشہ کی روایت اور حضرت عبد اللہ بن عمر کی روایت نے واضح کردیا کہ معاملہ نہ قرات کا ہے اور نہ لغت کا بلکہ حقیقت یہ ہے کہ حضرت عائشہ کے بیان کے مطابق سورہ احزاب کی نبی علیہ السلام کے زمانہ میں دو سو آیتیں تھیں جبکہ اب موجودہ قران میں کل 73 آیات ہیں ، گویا 127 آیات نکال دی گئیں ، بات بڑی واضح ہے کہ یہ قرات یا لغت کا اختلاف نہیں ہے بلکہ قران میں صریحاً کمی کا معاملہ ہے، پھر حضرت عبداللہ بن عمر والے بیان نے تو معاملہ اور گھمبیر و خطرناک بنا دیا کہ تم یہ کہہ ہی نہیں سکتے کہ تم نے پورا قران حاصل کرلیا ہے کیونکہ تمہیں یہ معلوم ہی نہیں کہ کتنا قران غائب کر دیا گیا ہے بلکہ تمہیں یوں کہنا چاہیے کہ ہمارے پاس اتنا ہی قران ہے جتنا کہ ظاہر ہوا، جس کا واضح مطلب یہ ہے کہ قران کا ایک بہت بڑا حصہ غائب کر دیا گیا ،[ معاذ اللہ ثم معاذاللہ ، نقل کفر کفر نباشد ]
ہمارے نزدیک قران مکمل کتاب ہے اور اس کا ایک ایک حرف اسی طرح محفوظ ہے جس طرح پیغمبر اکرم پر نازل ہوا تھا، دور صحابہ میں جمع قران کے سب قصے جھوٹ کا پلندہ ہیں، پیغمبر پر قران نازل ہوا اور پیغمبر نے مکمل قران لکھوا کر اور جمع کرکے امت کو دیا، اہل یت نبی، اصحاب و ازواج نبی کے پاس قران کے مکمل لکھے ہوئے نُسخے موجود تھے۔
البتہ ان روایات نے قران کے وجود کو مشکوک بنا دیا ہے، یہ سب ہماری اہل سنت کی روایات ہیں، ہمیں دوسروں پر طعنہ زنی اور الزامات کے بجائے پہلے اپنے گھر کی خبر لینی چاہیے، اور اپنے گھر کے آنگن کو اس گندگی سے صاف کرنا چاہیے ۔
روایات نے ھم تک قرآن پہنچایا نہیں ھے بلکہ پہنچے ھوئے متفق علیہ قرآن کو مشکوک بنایا ھے ،، خدا را روایات کو قرآن پر پیش کر کے پرکھیں اور سند سند کے طلسم سے باھر نکلیں ـ
۔
Muhammad F Alwi
Dr. Muhammad Hamidullah
Visit Website of Dr. Muhammad Hamidullah
Leave A Reply

Your email address will not be published.