قسمت اور سکون
جن لوگوں کو ہم بہت خوش قسمت، مطمئن، بے مثال زندگی کے حامل گردانتے ہیں انہیں قریب سے دیکھنے سے یہی نتیجہ سامنے آتا ہے کہ ان سا بے نصیب، منتشر، اور بکھرا ہوا شاید ہی کوئی ہو.
الہامی ہدایت کے مطابق انسان کو سکون و اطمینان صرف دو چیزوں سے حاصل ہوتا ہے
ذکر اللہ
اور
جیون ساتھی
ذکر اللہ کا مفہوم نہ سمجھنے کے باعث لوگ تسبیح گردانی پر لگ گئے اور بے سکونی کے ساتھ ساتھ اعصابی امراض میں بھی مبتلا ہو گے.ذکر اللہ کا مطلب ہے اپنے آپ کو قانون فطرت سے ہم آہنگ کر لینا. ہم کبھی اور کسی حالت میں اللہ کے بنائے ہوئے قانون کو جسے اس نے قرآن میں "الأمر” کے لفظ سے تعبیر کیا ہے تبدیل نہیں کر سکتے. اس لیے پر سکون زندگی کے حصول کا طریقہ یہ ہے کہ اپنے آپ کو قانون فطرت سے ہم آہنگ کر دیا جائے اور اگر ہم کوئی تبدیلی چاہتے ہیں تو فطرت کا قانون ہے کہ تبدیلی خود بخود نہیں آتی
ان اللہ لا یغیر ما بقوم حتی یغیروا ما بأنفسهم
ہر تبدیلی کے لئے فطرت نے فارمولے رکھے ہوئے ہیں اور ان سے ہٹ کر کوئی نتیجہ حاصل نہیں کیا جا سکتا. عام فہم بات ہے کہ شادی کئے بغیر اور فطری طریقہ اختیار کئے بغیر عمر بھر کی اور ساری خلق خدا کی دعائیں کسی کو اولاد نہیں دے سکتیں.
خوشی کا دوسرا منبع جیون ساتھی ہے.
اگر کسی مرد یا عورت کو اپنے جیون ساتھی سے سکون میسر نہیں تو وہ کہیں نہ کہیں اس رشتے کے فطری تقاضوں سے انحراف کا شکار ہے. ورنہ اگر اس رشتے کے لازمی تقاضے پورے کئے جائیں تو یہ رشتہ صرف اور صرف سکون بخش ہوتا ہے.
اس رشتے کو خراب کرنے میں انسان کی جدت پسندی رخنہ ڈالتی ہے اور کسی بھی دوسرے مرد یا خاتون کو دیکھ کر کم فہم اور احمق افراد یہ سوچنے لگتے ہیں کہ اگر مجھے یہ ملی /ملا ہوتا تو میری قسمت کھل جاتی لیکن
ہر شے اسی وقت تک خوبصورت ہوتی ہے جب تک دسترس سے باہر ہو.