ابوجندل اور ابوبصیر کی لوٹ مار آپ ﷺ کا رد عمل جواب قاری حنیف حنیف ڈار
سوال !
عبدالحق عین الحق !
ابوجندل اور ابوبصیر کی لوٹ مار پراگر آپ ﷺ کی رضامندی نہیں تهی تو کیا آپ ﷺ نے انہیں اس "فساد” سے منع فرمایا ؟ یا قریش مکہ کو ان کے مالی یا جانی نقصان کا هرجانہ دلوایا؟ یا پهر مان لیں کہ ان لوگوں کا یہ عمل خلاف شریعت اور فساد فی الارض تها اور معاذ اللہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ٹهنڈے پیٹوں برداشت کر لیا اور عملی تو کیا کوئی زبانی نکیر بھی نہ کی !
الجواب !
سرکار کیا پاکستان کی حکومت انڈیا یا سعودیہ میں ھونے والے جرم میں کسی تیسرے ملک کو ھرجانہ دلوا سکتی ھے ؟ اگر ابوجندلؓ نےمدینہ آ کرایسی کوئی حرکت کی ھے اور رسول اللہ ﷺ نے نہیں روکا تو پھر تقریری سنت بنتی ھے ، چلیں اب آپ کی پچ پھر کھیل لیتے ہیں ، بخاری و مسلم کی روایت کے مطابق حج کے موقعے پر ایک عورت نے رسول اللہﷺ سے مسئلہ پوچھا ، عورت کا منہ ننگا تھا جبکہ فضل بن عباس اس کو ٹکٹکی باندھ کر دیکھ رھے تھے ،اور وہ بھی ان کو ٹکٹکی باندھ کر دیکھنے لگ گئ ـ رسول اللہ ﷺ نے ابن عباس کا چہرہ ہاتھ کے زور سے پھیر دیا جبکہ اس عورت کو پردہ کرنے کا نہ کہا ، گویا چہرہ ننگا رکھنا تقریری سنت قرار پایا ، جب رسول اللہ ﷺ نے اس عورت کو چہرہ ڈھانپنے کا حکم نہیں دیا اور نہ ہی اس عورت کو ڈانٹ ڈپٹ کی تو آج کا مولوی کیوں ماما بنا ھوا ھے اسلام کا ؟ یہ واقعہ قربانی کے بعد احرام اتارنے کے بعد پیش آیا ھے اس لئے احرام کا بہانہ بھی نہیں چلے گا ،، اسی کو بنیاد بنا کر الالبانی نے عورت کا چہرہ ننگا رکھنے کا جواز ثابت کیا ھے ،، فتنے کا بہانہ بھی نہیں چلے گا کیونکہ ابن عباس فتنے میں مبتلا ھو چکے تھے اس کا علاج ابن عباس کا چہرہ پھیر کر کیا گیا عورت کا چہرہ چھپا کر نہیں کیا گیا ، جب حضرت عباس نے پوچھا کہ یا رسول اللہﷺ آپ نے اپنے چچا کے بیٹے کا چہرہ کیوں پھیرا ؟ تو آپ نے فرمایا کہ ایک جوانمرد اور جوان عورت ایک دوسرے میں اس طرح کھو گئے تھے کہ شیطان امن سے بیٹھنے والا نہیں تھا لہذا میں نے اس سلسلے کو منقطع کر دیا ـ