محبت اور اس کا اظہار تحریر:سحر شاہ
فروری کا مہینہ آن پہنچا، ویلنٹائنز ڈے جو کہ 15 فروری کو رومی سلطنت میں دیوتاؤں سے محبت کا دن سمجھا جاتا تھا، عیسائیت قائم ہوئی تو 14 فروری کو ویلنٹائن نامی پادری کی پھانسی کی یاد میں محبت کا دن بن گیا، اور اکیسویں صدی میں اب اسے عاشقوں کے عالمی دن کے طور پر منایا جانے لگا ہے۔ کیسے منایا جاتا ہے،یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔
ہمارے ہاں ایک بحث سی شروع ہوجاتی ہے کہ اسلام اس بارے میں کیا کہتا ہے۔ ہم سب بہت اچھے سے جانتے ہیں کہ یہ سب سخت حرام ہے۔ اسلام میں ایسی ناجائز طریقے پر پنپنے والی محبت اور بے حیائی کی قطعاً کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اسلام فطری دین ہے، اللہ ہماری فطرت بنانے والا بخوبی جانتا ہے کہ محبت کا جذبہ دل میں رکھنے والا بھی وہی ہے۔ جو خود “الودود” (محبت کرنے والا) ہے۔ محبت کے اظہار کے لیے اللہ نے ہمارے دین “اسلام” میں (جو کہ مکمل کر دیا گیا ہے) ہمیں کوئی ایک “دن” دیا ہی نہیں ہے جو ہم مناتے پھرتے۔ محبت تو اتنا پاکیزہ جذبہ ہے جس کی نسبت اللہ تعالیٰ خود اپنی طرف کرتے ہیں۔ مثال بھی دیتے ہیں تو ماں سی پاکیزہ ہستی جیسی محبت کی، بلکہ اس کو بھی ستر گنا بڑھا کر۔ اور محبت کا یہ عالم کہ ہم بندے اسے بھلا بیٹھے،پھر بھی رب کی محبت کم ہونے میں نہیں آتی۔ اس نے محبت کے کتنے در ہم پہ کھولے۔ اللہ سے محبت کرو، اس کے محبوب پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم سے کرو، صحابہ کرام سے کرو، اللہ کے نیک بندوں سے کرو،اپنے ماں, باپ، بہن بھائیوں، بیوی بچوں سے محبت کرو۔ ہمیں ان محبتوں کا امین بننا تھا۔ اس میں خیانت کا مرتکب نہ بننا تھا۔ اتنے در کھلے مگر ہم نے کون سا دروازہ چنا، حرام طور سے محبت کا، بلکہ اس کو محبت کہنا بھی سخت ناانصافی ہے،یہ محبت ہوتی ہی نہیں، ہوس ہوتی ہے۔
محبت کو اظہار کے لیے کبھی ایک دن کی ضرورت تب ہی پڑتی ہے جب آپ پورا سال اس سے دور رہے ہوں۔ جبکہ ہماری سچی محبتیں جن کو ہم کوئی اہمیت نہیں دیتے ہمارے اردگرد ایسے بکھری ہوئی ہیں جیسے سورج کی روشنی جو دن میں تو پھیلی ہی ہوتی ہے، رات ہونے پر بھی چاند سے منعکس ہو کر ہم تک پہنچ جاتی ہے۔
دنیاوی رشتوں پر محبت کی کیا بات کی جائے،ہم سب بخوبی جانتے ہیں ماں کا ہر لمحہ اولاد کی محبت میں وقف ہوتا ہے، باپ کا خون پسینہ ایک ہوکر جب ہماری زندگی کی ہر سہولت کی شکل میں سامنے آتا ہے تو ہمیں اس کے پس پردہ محبت کا احساس تک نہیں ہوپاتا۔ بہن بھائیوں کے کھٹے میٹھے رویوں میں بھی محبت کے رنگ نمایاں ہوتے ہیں۔ بیوی بچوں سے محبت کے اظہار کے لیے کوئی ایک دن خاص نہیں کیا جا سکتا، ہر لمحہ اپنے تحفظ و مقام کے لیے جب بھی ان کی نظر آپ پر اٹھتی ہے تو آپ کو سمجھ جانا چاہیے کہ وہ صرف آپ سے محبت کرتے ہیں،آپ ہی ان کے لیے سب کچھ ہیں، انہیں اپنی محبت پر اندھا اعتماد ہوتا ہے کہ آپ انہیں کبھی مایوس نہیں کریں گے۔ان کی تو پوری زندگی ہی آپ سے مکمل ہوتی ہے یہاں تک کہ ان کے نام بھی آپ کے بغیر ادھورے ہیں۔ ان سب پرخلوص رشتوں کی محبتوں سے منہ موڑ کر جب آپ ان سے خیانت کرنا شروع کر دیتے ہیں تو وہ آپ کے کردار کی موت کا عمل ہوتا ہے۔ نقصان کسی اور کا نہیں،آپ کا اپنا ہوتا ہے۔ ہوسکتا ہے آپ کی محبتوں کے بغیر وہ وقتی طور پر مسائل و مشکلات کا شکار ہوجائیں لیکن آخری اور بڑا گھاٹا آپ کی اپنی ذات کو اٹھانا پڑتا ہے۔ رشتوں کی عزت نہ کرنے والے، ان کی پرخلوص محبتوں کو ٹھکرا کر ان سے خیانت کے مرتکب ہونے والے، غیروں کو دیکھ کر اپنی آنکھیں ٹھنڈی کرنے والے آخرکار دلی سکون و پاکیزہ محبتوں سے محروم ہوکر رہ جاتے ہیں۔ان محبتوں کو ہر لمحہ خالص رکھنے والے ہی جانتے ہیں کہ وہ کتنے خوش نصیب ہیں۔
اللہ نے ان سب محبتوں پر مقدم جس ہستی کی محبت دل میں رکھنے کو کہا ہے ، ہم عملاً اس کے خلاف جاتے ہیں۔ ہے کوئی ایسا جو راتوں کو طویل سجدوں میں ہماری دنیا و آخرت کی عافیت طلب کرے, چاہے پیروں پہ ورم ہی کیوں نہ آ جائے۔ ہم شور تو بہت مچاتے ہیں کہ نبی کی توہین کی گئی، ان کی خاطر جان دے دیں گے یا لے لیں گے اور واقعی ان کے نام پہ بہت سے انسانیت سوز جرائم کا ارتکاب بھی کر بیٹھتے ہیں۔ لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ ہم روز قیامت ان کو منہ دکھانے کے قابل بھی نہیں رہے۔ جس دین کو باحفاظت ہم تک پہنچانے میں انہوں نے زندگی میں اتنی دشواریاں ، تکالیف سہیں, ان ہی کے نام پہ ہم اس دین میں ملاوٹ کرنے لگے۔ وہ اگر سچائی جاننے کے بعد حوض کوثر کے پاس سے ہمیں ہٹائیں بھی تو اس میں ان کی محبت میں کمی نہیں بلکہ ہماری اپنی نا محبتی کا قصور ہوگا۔ آج صدیوں بعد وہ درخت بھی تروتازہ ہے جس کے سائے میں بیٹھ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے شاداب رہنے کی دعا دی تھی تو بھلا وہ دل کیوں نہ شاد ہوگا اور پھلے پھولے گا جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت ہوگی اور عملاً اس کا اظہار ان کی پیروی کی صورت ہوگا۔ایسے دل کا مالک دنیا و آخرت کی بھلائیاں کیوں نہ سمیٹے گا۔
اور سب سے پہلی خالص ترین محبت تو ہمارا رب ہی ہم سے کرتا ہے ورنہ وہ ہمیں پیدا ہی نہ کرتا۔ ہر ہر لمحہ ہم پر اپنی نوازشیں کرتا، محبتیں لٹاتا، ہمیں زندگی دینے والا، اس میں خوبصورت رنگ بکھیرنے والا۔ لیکن عملاً کیا ہوتا ہے ہم اس کی محبتوں کا بدلہ محبت کی شکل میں دینے کے بجائے “شرک” سے دیتے ہیں۔ ہم منہ سے تو کہتے ہیں “انا للّٰہ وانا الیہ راجعون” (بے شک ہم اللہ کے لیے ہیں اور اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں) لیکن ہم ان وقتی اور کھوٹی محبتوں میں پھنس کر دو انتہاؤں پر پہنچ کر اس سے شرک کر بیٹھتے ہیں۔ کبھی تو اتنے اندھے ہوجاتے ہیں کہ کوئی ایک شخص نہ ملنے پر اپنی زندگی تک کا خاتمہ کر بیٹھتے ہیں اور یوں اللہ کی طرف سے دی گئی خوبصورت زندگی کا اختتام کسی اور کے نام کر کے شرک کرتے ہیں۔ اور کبھی ویلنٹائنز ڈے منا کر اللہ کے احکامات کی دھجیاں بکھیر کر ظاہر کر دیتے ہیں کہ ہم اللہ کے نہیں بلکہ اپنی گمراہ خواہشات کے پجاری ہیں۔ ایک خالص سجدہ تک نہیں کرپاتے کہ جس میں صرف اس کی محبت دل پہ حاوی ہو۔
*جو میں سر بسجدہ ہوا کبھی تو زمیں سے آنے لگی صدا*
*تیرا دل تو ہے صنم آشنا، تجھے کیا ملے گا نماز میں*
ہم بہت فخریہ وہ کرتے ہیں جو ہمارا دل چاہتا ہے۔ “شرم و حیا” سے کوسوں دور ویلنٹائنز ڈے جیسی خرافات کو اپناتے ہوئے۔ اسی لیے کہا گیا ہے جب تم میں حیا باقی نہ رہے تو جو جی چاہے کرو۔ لیکن وہ کرنا پھر ہم سے ہمارا ایمان چھین لیتا ہے اور ہمیں خبر بھی نہیں ہوتی۔
ہم اپنے رب کی محبت جان کر بھی انجان بنے پوری زندگی گزار دیتے ہیں۔