مرتد کی سزا۔ تحریر محمد نعیم خان
مرتد کی سزا
تحریر محمد نعیم خان
اللہ نے دنیا میں انسانوں کو ارادہ اور اختیار دے کر بھیجا اور پھر اس کے سامنے دو راستے واضع کردیے۔ اس کے بعد یہ کہہ دیا کہ جو کچھ بھی اختیار کرنا ہے وہ اپنے ارادہ اور اختیار سے دل کی رضامندی سے کرنا ہے۔ جتنے بھی انبیا اورسول اس دنیا میں آیے ان سب نے اپنی اپنی قوم کو اللہ کا پیغام پہنچایا اور ان کو یہی تعلیم دی کہ ان کے سامنے دو راستے ہیں۔ ایک راستہ وہ جو برائ کی طرف جاتا ہے اور دوسرا وہ جو سیدھا راستہ ہے۔ ان تمام رسولوں نے بشارت اور انذار کا فریضہ انجام دیا۔ ان کو غلظ راستے پر چلنے کی تباہ کاریوں سے ڈرایا اور درست راستے پر چلنے والوں کو اللہ کی بشارت دی۔
قران نے اس واضع بات کو کہ اچھائ اور برائ چھانٹ کر الگ کر دی گئ ہے اور دین میں کوئ زبردستی نہیں اس کو یوں بیان کیا ہے:
لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ ۖ قَد تَّبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ ۚ فَمَن يَكْفُرْ بِالطَّاغُوتِ وَيُؤْمِن بِاللَّهِ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقَىٰ لَا انفِصَامَ لَهَا ۗ وَاللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ [٢:٢٥٦]
دین کے معاملے میں کوئی زور زبردستی نہیں ہے صحیح بات غلط خیالات سے ا لگ چھانٹ کر رکھ دی گئی ہے اب جو کوئی طاغوت کا انکار کر کے اللہ پر ایمان لے آیا، اُس نے ایک ایسا مضبوط سہارا تھام لیا، جو کبھی ٹوٹنے والا نہیں، اور اللہ (جس کا سہارا اس نے لیا ہے) سب کچھ سننے اور جاننے والا ہے [ابوالاعلی مودودی]
اتنی واضع ہدایت کہ انسان کے سامنے دو راستے ہیں۔ اس کو ان سیدھے رستے پر چلنے کی کامیابیون اور غلط رستے پر چلنے کی تباہ کاریوں کو بتادیا گیا اور پھر ساتھ ہی ساتھ یہ بھی بتادیا گیا ہے کہ کوئ جبر نہیں ، کوئ زبردستی نہیں ۔ جو بھی ماننا ہے انسان کو اپنے ارادہ اور اختیار سے ماننا ہے۔ یہ فیصلہ خود کرنا ہے کہ اس کو کس راستے پر چلنا ہے۔ اس ہی کو ایک اور آیت میں ہوں بیان کیا گیا ہے:
وَقُلِ الْحَقُّ مِن رَّبِّكُمْ ۖ فَمَن شَاءَ فَلْيُؤْمِن وَمَن شَاءَ فَلْيَكْفُرْ [١٨:٢٩]
اور کہہ دو کہ (لوگو) یہ قرآن تمہارے پروردگار کی طرف سے برحق ہے تو جو چاہے ایمان لائے اور جو چاہے کافر رہے۔
[فتح محمد جالندہری]
اب بھی کسی کے بات سمجھ نہیں آی تو قران سے ایک اور آیت پیش خدمت ہے۔
قُلْ يَا أَيُّهَا النَّاسُ قَدْ جَاءَكُمُ الْحَقُّ مِن رَّبِّكُمْ ۖ فَمَنِ اهْتَدَىٰ فَإِنَّمَا يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ ۖ وَمَن ضَلَّ فَإِنَّمَا يَضِلُّ عَلَيْهَا ۖ وَمَا أَنَا عَلَيْكُم بِوَكِيلٍ [١٠:١٠٨]
فرما دیجئے: اے لوگو! بیشک تمہارے پاس تمہارے رب کی جانب سے حق آگیا ہے، سو جس نے راہِ ہدایت اختیار کی بس وہ اپنے ہی فائدے کے لئے ہدایت اختیار کرتا ہے اور جو گمراہ ہوگیا بس وہ اپنی ہی ہلاکت کے لئے گمراہ ہوتا ہے اور میں تمہارے اوپر داروغہ نہیں ہوں (کہ تمہیں سختی سے راہِ ہدایت پر لے آؤں)، [طاہر القادری]
اللہ کے لئے یہ کیا مشکل کام تھا کہ انسان کو پیدا ہی ایسا کرتا کہ وہ اس کی نافرمانی کر ہی نہ سکتا۔ کیا اس کے لئے یہ کوئ مشکل کام تھا کہ انسانوں سے زبردستی کوئ بات منوالیتا؟۔ کیا اس کے لئے یہ ناممکن تھا کہ آسمان سے کوئ ایسی چیز اتاردیتا جس سے ان کی گردنیں جھک چاتیں ؟۔ اس ہی کو قران اس طرح بیان کرتا ہے:
لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَّفْسَكَ أَلَّا يَكُونُوا مُؤْمِنِينَ [٢٦:٣] إِن نَّشَأْ نُنَزِّلْ عَلَيْهِم مِّنَ السَّمَاءِ آيَةً فَظَلَّتْ أَعْنَاقُهُمْ لَهَا خَاضِعِينَ [٢٦:٤]
(اے حبیبِ مکرّم!) شاید آپ (اس غم میں) اپنی جانِ (عزیز) ہی دے بیٹھیں گے کہ وہ ایمان نہیں لاتے،اگر ہم چاہیں تو ان پر آسمان سے (ایسی) نشانی اتار دیں کہ ان کی گردنیں اس کے آگے جھکی رہ جائیں، [طاہر القادری]
قُلْ يَا أَيُّهَا النَّاسُ قَدْ جَاءَكُمُ الْحَقُّ مِن رَّبِّكُمْ ۖ فَمَنِ اهْتَدَىٰ فَإِنَّمَا يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ ۖ وَمَن ضَلَّ فَإِنَّمَا يَضِلُّ عَلَيْهَا ۖ وَمَا أَنَا عَلَيْكُم بِوَكِيلٍ [١٠:١٠٨]
فرما دیجئے: اے لوگو! بیشک تمہارے پاس تمہارے رب کی جانب سے حق آگیا ہے، سو جس نے راہِ ہدایت اختیار کی بس وہ اپنے ہی فائدے کے لئے ہدایت اختیار کرتا ہے اور جو گمراہ ہوگیا بس وہ اپنی ہی ہلاکت کے لئے گمراہ ہوتا ہے اور میں تمہارے اوپر داروغہ نہیں ہوں (کہ تمہیں سختی سے راہِ ہدایت پر لے آؤں)، [طاہر القادری]
اس سے زیادہ واضع بیان اور کیا ہو گا۔ قران میں یہ بکھری آیات بار بار اس بات کو بیان کر رہی ہیں کہ اللہ نے انسانوں کو مکمل ارادہ اور اختیار کے ساتھ مکمل آزادی دی ہے۔ کہیں کسی جبر اور زبردستی کا کوئ ادنی سا بھی نشان نہیں ملتا۔
سورہ آل عمران کی آیت 90 کو سورہ النسا کی آیت 137 کے ساتھ ملا کر پڑھیں جہاں بار بار ایمان لانے اور کفر کرنے کا متعدد بار زکر ہے۔ اگر ایک بار ایمان لانے کے بعد کفر کرنے کی سزا قتل ہوتی اور اس کی اتنی بڑی سزا ہوتی تو قران اس کو بیان کرتا لیکن بار بار ایمان کے بعد کفر کا زکر نہیں کرتا۔ اللہ کا ارشاد ہے:
إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا ثُمَّ كَفَرُوا ثُمَّ آمَنُوا ثُمَّ كَفَرُوا ثُمَّ ازْدَادُوا كُفْرًا لَّمْ يَكُنِ اللَّـهُ لِيَغْفِرَ لَهُمْ وَلَا لِيَهْدِيَهُمْ سَبِيلًا
بے شک وہ لوگ جو ایمان لائے پھر کفر کیا پھر ایمان لائے پھر کفر کیا پھر کفر میں بڑھتے رہے تو الله ان کو ہرگز نہیں بخشے گا اور نہ انہیں راہ دکھائے گا [احمد علی]
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر توبہ کن لوگوں کی قبول نہیں کی جائے گی جبکہ قران بار بار اس بات کو بیان کرتا ہے کہ جو لوگ توبہ کریں اور اپنی اصلاح کرلیں وہ لوگ بچ جاییں گے۔ پھر یہ کون سے لوگ ہیں جن کی توبہ قبول نہیں ہوگی؟
اس کو بھی قران نے بیان کردیا ہے۔ اللہ نے قران میں بار بار اس بات کو بیان کیا ہے کہ جو لوگ توبہ کے بعد اپنی طرز عمل کی اصلاح کرلیں ان کی توبہ قبول ہوتی ہے۔ اس ہی لئے جو لوگ موت کو دیکھنے کے بعد توبہ کرتے ہیں ان کی توبہ قبول نہیں کی جاتی کیوں کہ اب اصلاح کا وقت نہیں ہوتا۔ اس ہی لئے فرعون جب ڈوب رہا تھا تو اس کا ایمان قبول نہیں کیا گیا کیوں کی اب اس کے پاس اپنے طرز عمل کے اصلاح کا وقت ختم ہوچکا تھا۔ دیکھیں اللہ اس کو اپنی کتاب میں کیسے بیان کرتا ہے:
سورہ انسا آیت 18:
وَلَيْسَتِ التَّوْبَةُ لِلَّذِينَ يَعْمَلُونَ السَّيِّئَاتِ حَتَّىٰ إِذَا حَضَرَ أَحَدَهُمُ الْمَوْتُ قَالَ إِنِّي تُبْتُ الْآنَ وَلَا الَّذِينَ يَمُوتُونَ وَهُمْ كُفَّارٌ ۚ أُولَـٰئِكَ أَعْتَدْنَا لَهُمْ عَذَابًا أَلِيمًا ﴿١٨﴾
مگر توبہ اُن لوگوں کے لیے نہیں ہے جو برے کام کیے چلے جاتے ہیں یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی کی موت وقت آ جاتا ہے اُس وقت وہ کہتا ہے کہ اب میں نے توبہ کی، اور اسی طرح توبہ اُن کے لیے بھی نہیں ہے جو مرتے دم تک کافر رہیں ا یسے لوگوں کے لیے تو ہم نے درد ناک سزا تیار کر رکھی ہے (18)
یہ ان آیات کا مفہوم ہے جو میں نے سمجھا ہے اس خیال سے کہ اس میں غلطی کی گنجائش ہے۔ یہ بھی بہت ہی عجیب سی بات ہے کہ اللہ انسانوں کو ارادہ و اختیار دینے کے بعد خود ہی ان سے زبردستی کروائے۔