مرد اور عورت دو الگ الگ وجود نہیں ہیں ۔۔۔ طفیل ہاشمی
قرآن میں آتا ہے
اللہ تعالیٰ نے پہلے نفس واحدۃ پیدا کیا اور اسی سے اس کا جوڑا بنایا. اس کی کیفیت کیا تھی؟ امیبیا دو حصوں میں بٹ گیا اور ایک وجود سے دو ہو گئے یا آگے چل کر آدم میں مردانہ کروموزوم کے ساتھ زنانہ اوصاف بھی تھے اور پہلی خاتون نے انہیں کے پیٹ میں وجود پایا جسے متعارف ڈلیوری کی راہ نہ ہونے کی وجہ سے سیزیرین آپریشن کے ذریعے نکالا گیا، جسے مذہبی لٹریچر میں حوا کے آدم کی پسلی سے پیدا ہونے سے تعبیر کیا گیا. امر واقعہ کچھ بھی ہو یہ حقیقت ہے کہ دونوں مل کر ایک مکمل وجود میں متشکل ہوتے ہیں.
اسی کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا
النساء شقائق الرجال(عورتیں مردوں کا نصف جسم ہیں)
خواتین مردوں کے جسم کا نصف حصہ ہیں. شقیقہ، شق سے ماخوذ ہے جب کسی شے کو دو حصوں میں تقسیم کیا جائے تو ہر حصہ دوسرے کا شقیق یا شقیقہ ہوتا ہے. یعنی مرد عورت کے بغیر اور عورت مرد کے بغیر مکمل انسان نہیں ہوتے. اگر انسان کی ایک آنکھ دوسری سے، ایک بازو دوسرے سے، ایک ہاتھ دوسرے سے، ایک پاؤں دوسرے سے اور ایک پہلو دوسرے سے برسر پیکار ہو کر زندہ رہ سکتا ہے تو مرد اور عورت ایک دوسرے کی مخالفت پر سماج کی تشکیل کر سکتے ہیں لیکن ایسا ممکن نہیں کیونکہ دل و دماغ میں دوئی نہیں ہوتی.
واقعہ یہ ہے کہ ہمارے سماج میں مردوں اور عورتوں کے حقیقی مسائل ہیں
خواتین کے مسائل پر میں ایک روز تفصیل سے لکھ چکا ہوں جسے خاصی پذیرائی ملی جبکہ بہت سے خاندانوں اور علاقوں میں صرف عورتوں کو ہی نہیں مردوں کو بھی اپنی مرضی کا جیون ساتھی منتخب کرنے کا حق نہیں. والدین مالی، مذہبی اور نفسیاتی طور پر بلیک میل کر کے بیٹوں کو بھی مجبور کر دیتے ہیں کہ وہ اپنی زندگی جہنم بنا دیں. کئی علاقوں میں گھر کے چار چھ بھائیوں میں سے ایک کماتا ہے اور باقی سب، کچھ بھی کئیے بغیر اس کی کمائی میں شریک ہوتے ہیں. ایسے خاندانوں میں مرد اپنے بیوی بچوں کے لیے اس وقت تک ٹافی تک نہیں لا سکتا جب تک وہ پورے خاندان کے پچاس بچوں کےلئے بھی لانے کی پوزیشن میں نہ ہو. جن خاندانوں میں تعلیم کا رواج ہے وہاں بھی بچے مضامین کا انتخاب والد صاحب کی مرضی پر کرتے ہیں. مجھے بکثرت طلبہ بتایا کرتے تھے کہ میں والد صاحب کے کہنے پر انجینئرنگ کر رہا ہوں. بعد میں مجھے لٹریچر پڑھنا ہے جو میرا اپنا شوق ہے. بیٹے کو باپ کی مرضی کی جاب کرنا ہوتی ہے.
افسوس ناک امر ہے کہ ایک طرف کچھ لوگ خواتین کے غیر حقیقی مسائل پر بحران پیدا کر رہے ہیں اور دوسری طرف کچھ دوسرے اس پر شدید رد عمل دے رہے ہیں
اور
یہ دونوں مل کر سماج کے حقیقی مسائل کو خواہ ان کا تعلق مردوں سے ہو یا عورتوں سے نگاہوں سے اوجھل کرنے اور ان کے حل کو دور لے جانے کی دانستہ یا نا دانستہ کوشش میں شریک ہیں اور ہر فریق خود کو مجاہد سمجھ رہا ہے.
طفیل ہاشمی