نکاح کے وقت حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا کی عمرمبارک

"حضرت ابوبکرؓ نے اپنی بیٹی عائشہؓ کو آپؐ کے نکاح میں دے دیا۔ یہ نکاح بقولے سنہ 10؍ نبوی یا سنہ 11؍ نبوی میں ہوا۔ اس وقت حضرت عائشہؓ کی عمر 6 سال تھی۔ نکاح کے بعد آپؐ کا قیام مکہ معظمہ میں تین سال رہا۔ 13 ؁ نبوی میں آپؐ نے حضرت ابوبکرؓ کے ساتھ ہجرت کی۔ حضرت ابوبکرؓ کے اہل و عیال مکہ ہی میں تھے۔

اشکال:۔
بلوغ کی یہ حد صرف اُمّ المومنین حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا تک مخصوص یا محدود تھی یا تمام اہل عرب کی بچیاں 9 سال میں بالغ ہوجایا کرتی تھیں؟ تاریخ ایسی تمثیلات پیش کرنے سے قاصر ہے۔ آج بھی مکہ اور مدینہ علی حالہٖ اپنی جگہ قائم ہے۔ آب و ہوا وہی ہے، گرمی کی حرارت ویسے ہی گراں بار ہے۔ نو سالہ نوخیز گڑیا کی رخصتی دشوار ہے۔
تمام محدثین ہماری نگاہ میں قابلِ احترام ہیں، لائقِ اتباع نہیں۔ دنیائے اسلام کا ہر فرد و بشر اس بات کو اچھی طرح جانتا ہے اور اس پر ایمان رکھتا ہے کہ انبیائے کرام علیہم السلام کے علاوہ کوئی بھی معصوم نہیں۔ سہو و نسیان اور خطائے اجتہادی سے پاک نہیں …. یہی وجہ ہے کہ علامہ ابنِ حزم نے بخاری کی معراج والی روایت کو منکر قرار دیا ہے اور اُمّ المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا نے صحابہؓ کی مرویات پر تنقید فرمائی ہے اور فرمایا کہ میں یہ تو نہیں کہتی کہ یہ لوگ جھوٹ بولتے ہیں لیکن کان سننے میں غلطی کر جاتے ہیں۔
اسی طرح ہم بھی بقول اُمّ المومنینؓ یہ کہتے ہیں کہ راوی سے سننے میں سہو ہوا ہے۔ تسع عشر (19) سننے کے بجائے صرف تسع (9) کا لفظ سنا۔ حدیث کا انکار اور شے ہے اور غلطی کی نشان دہی اور شے ہے۔ ہمارے وہ علماء جو اتباعِ رسولؐ کی رٹ لگاتے ہیں اور ہمارے وہ علماء جو محبانِ رسولؐ ہونے کے دعویدار ہیں اپنی نو سالہ گڑیا کی رخصتی فرماتے، تاکہ سنتِ نبویؐ پر عمل ہوتا اور احیائے سنت کا سہرا ان کے سر بندھتا اور ان حضرات کی ہم بھی تقلید کرتے۔ اب ہم حدیث، اصولِ حدیث، رجال اور علل کی باتیں تحریر کرتے ہیں اور روایتِ ہشام کی سندات بخاری، مسلم، ابو داؤد، ترمذی، ابنِ ماجہ، دارمی اور مسند حمیدی میں جو موجود ہیں جمع کرنے کے بعد ایک نئے ُ عقدے کا انکشاف کرتے ہیں۔
کچھ راوی اُمّ المومنین حضرت عائشہؓ کا قول بیان کرتے ہیں اور کچھ حضرات عروہ کا قول کہتے ہیں۔ حدیثِ رسول تو ہرگز نہیں! قولِ عائشہ ہے یا قولِ عروہ ہے جو تابعی ہیں اور اُمّ المومنین کے بھانجے ہیں۔ اگر یہ قولِ عروہ ہے تو اس کی دینی حیثیت نہیں! یہ بھی ہمیں معلوم ہے کہ جب کسی روایت کے متصل اور موقوف ہونے میں راویوں کا اختلاف ہوتا ہے تو عام طور پر محدثین اسے موقوف قرار دیتے ہیں۔ اس اصول کے پیش نظر یہ عروہ کا ایک تاریخی قول ہے اور عروہ کے قول کو رد کرنا گناہ نہیں! ہمارے علماءِ محدثین پہلے اس کا متصل ہونا ثابت کریں۔

عروہ سے روایت نقل کرنے والا ان کا بیٹا ہشام ہے جو بخاری و مسلم کا راوی ہے۔ یہیں سے اشکال وارد ہوتا ہے۔ ہشام کی زندگی کے دو دور ہیں؛ مدنی دور، عراقی دور۔ مدنی دور ۱۳۱ھ تک ہے۔ اس دور کے اہم شاگرد امام مالک ہیں۔ امام مالکؒ نے اپنی مؤطا میں ہشام بن عروہ کی متعدد روایات لی ہیں لیکن یہ نکاح والی روایت امام مالک نے اپنی کتاب مؤطا میں نہیں لی ہے جو قابلِ غور ہے۔

ہشام کا دوسرا دور 131ھ ؁ سے شروع ہوتا ہے۔ 131ھ ؁ تک ہشام سب کے نزدیک بلاشبہ ثقہ ہیں۔ 131ھ کے بعد ہشام ہمیشہ کے لیے بغداد میں مقیم ہوگئے اور بغداد میں ہی 146ھ ؁ میں انتقال فرمایا۔ یعقوب بن ابی شیبہ کا بیان ہے کہ ان کی کسی روایت کا انکار نہیں کیا گیا تھا مگر جب یہ عراق گئے تو انھوں نے اپنے والد عروہ کے واسطے سے بہت سی ایسی روایات بیان کیں جنھیں اہلِ مدینہ نے ُ برا تصوّر کیا۔ کیونکہ اپنے باپ سے منسوب کرکے وہ روایات بھی مرسلاً بیان کرنا شروع کردیں جو انھوں نے اوروں سے سنی تھیں۔ لہٰذا ہشام کی وہ روایات جو اہلِ عراق ان سے نقل کریں ان کا کوئی بھروسہ نہیں۔ (تہذیب التہذیب، حافظ ابن حجر عسقلانی

حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا کی رخصتی نو سالہ اور نکاح چھ سال ہشام سے اہلِ عراق نے نقل کیا ہے۔ نبی کریم پر جادو والی حدیث ہشام سے اہلِ عراق نے نقل کیا ہے۔ حضرت عائشہؓ کی گڑیا کھیلنے کی احادیث ہشام سے اہلِ عراق نے نقل کیا ہے۔ اﷲ تعالیٰ حافظ ابنِ حجر عسقلانی اور یعقوب بن شیبہ کی مغفرت فرمائے کہ انھوں نے سوچ کی راہیں کھول دی ہیں۔

امام مالکؒ جو ہشام کے شاگردوں میں ہیں، اپنی کتاب مؤطا میں ہشام کی متعدد روایات نقل کی ہیں۔ ان کا ایک دور وہ تھا کہ وہ ہر معاملے میں ہشام کے قول کو حرفِ آخر سمجھتے تھے۔ لیکن عراق پہنچنے کے بعد ہشام نے وہ کارہائے نمایاں انجام دیے کہ امام مالکؒ ان سے خوش نہ رہے۔ حتیٰ کہ عبد الرحمن بن خراش کا بیان ہے، ’وَ کَانَ مَالِکٌ لَا یَرْضَاہُ وَ نَقَمَ عَلَیْہِ حَدِیْثَہُ لِاَھْلِ الْعِرَاقِ‘ (امام مالکؒ ان سے ناخوش تھے، انھوں نے ان اہلِ عراق کی احادیث کے باعث اعتراض کیے ہیں۔

اب ہم بخاری کی دوسری حدیث جو امام بخاری نے کتاب التفسیر میں ان الفاظ میں نقل کی ہے، اُمّ المومنین حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں کہ جب مکہ میں یہ آیت نازل ہوئی، (بَلِ السَّاعَۃُ مَوْعِدُھُمْ وَ السَّاعَۃُ اَدْھٰی وَ اَمَرُّ) (القمر:46) تو میں اس وقت چھوٹی سی لڑکی تھی۔ اپنی ہمجولیوں میں کھیلا کرتی تھی۔ یہ سورۃ القمر کی آیت ہے۔ شق القمر کے سلسلے میں نازل ہوئی ہے۔ محدثین و مفسرین کا اس پر اتفاق ہے کہ یہ واقعہ ہجرت سے تقریباً پانچ سال قبل مکہ معظمہ میں منیٰ کے مقام پر پیش آیا۔ بلکہ مفسرین کا بیان ہے کہ یہ سورت 4 نبوی ؁ میں نازل ہوئی۔ اس لیے روایتِ ہشام کی رو سے یہ تسلیم کیے بنا کوئی چارہ نہیں کہ اُمّ المومنین حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا 5 نبوی ؁ میں پیدا ہوئیں جیسا کہ ہمارے تمام محدثین علماء اسی کے قائل ہیں۔ لیکن بخاری کی یہ روایت ثابت کررہی ہے کہ اُمّ المومنینؓ نے اپنی پیدائش سے قبل یہ آیت یاد کرلی تھی اور اپنی پیدائش سے پہلے ہی وہ مکہ میں کھیلتی پھرا کرتی تھیں۔ فیا للعجب
روایتِ ہذا یہ ثابت کررہی ہے کہ اُمّ المومنینؓ سنہ 4؍ نبوی میں اتنی عمر کی ضرور تھیں کہ ہمجولیوں کے ساتھ کھیلتی پھرتی تھیں اور اتنی یادداشت رکھتی تھیں کہ یہ قرآن کی آیت ہے اور اس وقت سے ان کے ذہن میں محفوظ تھی۔ اگر 4؍ نبوی میں ان کی عمر چھ سال مان لیں تو یہ خود بخود ثابت ہوجائے گا کہ اُمّ المومنین حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا بعثتِ رسول سے کم از کم دو سال قبل پیدا ہوئیں۔ اس حساب سے ان کی عمر سترہ سال بنتی ہے۔ اور مسلم شریف کے مطابق اُمّ المومنینؓ کی رخصتی شوال 1 ھ ؁ میں ہوئی۔ چونکہ غزوۂ بدر 2؍ ھ ؁ میں شریک تھیں۔ وہ تنہا ہستی ہیں جو بدریہ ہیں اور جنگِ اُحد میں حضرت سمرہ بن جندب، حضرت براء بن عازب، انس بن مالک، زید بن ثابت، عبد اﷲ بن عمر ث یہ تمام پندرہ سال سے کم عمر کے بچے تھے۔ اس لیے جنگِ اُحد میں شریک ہونے سے روک دیے گئے۔

تاریخی شہادت
تمام محدثین، مؤرّخینِ اسلام کا اتفاق ہے کہ اُمّ المومنین حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا اپنی بڑی بہن اسماء سے دس سال چھوٹی تھیں۔ حضرت اسماء کا سو (100) سال کی عمر میں 73 ھ ؁ میں انتقال ہوا۔ ہجرتِ مدینہ کے وقت حضرت اسماء کی عمر ستائیس (27) یا اٹھائیس (28) برس تھی۔ اس حساب سے دس سال خارج کرتے ہیں تو اُمّ المومنین حضرت عائشہ کی عمر ہجرت کے وقت سترہ اٹھارہ سال بنتی ہے اور رخصتی کے وقت اُنیس (19) سال۔ ھٰذَا مَا عِنْدِیْ۔

نکاح فاطمہ بنت محمدؐ
حضرت فاطمہ کا نکاح بقول بعض مؤرّخین ۲؍ شوال اور بعض مؤرّخین محرم ۳ ھ میں ہوا۔ تمام محدثین و مؤرّخین اس بات پر متفق ہیں کہ حضرت فاطمہ کی پیدائش تعمیر کعبہ کے وقت ہوئی۔ اس وقت آپؐ کی عمر پینتیس سال تھی۔ پانچ سال کے بعد یعنی ۴۰؍ سال کی عمر میں آپؐ کو نبوت ملی۔ اس طرح ہجرتِ مدینہ کے وقت حضرت فاطمہؓ کی عمر اٹھارہ سال اور شادی کے وقت اکیس سال بنتی ہے۔ یہ اظہر من الشمس ہے۔

حافظ ابن حجرؒ لکھتے ہیں کہ حضرت فاطمہؓ حضرت عائشہؓ سے پانچ سال بڑی تھیں (الاصابہ، ج: ۴)۔ دوسری جانب حافظ عسقلانیؒ اس کے زبردست حامی ہیں کہ اُمّ المومنین کی رخصتی نو (۹) سال کی عمر میں ہوئی، لیکن اگر ان کی اس بات کو مان لیں کہ حضرت عائشہؓ حضرت فاطمہؓ سے پانچ سال چھوٹی تھیں اور حضرت فاطمہ نبوت سے پانچ سال قبل پیدا ہوئیں تو اُمّ المومنین حضرت عائشہؓ کی پیدائش اس سال ہوگی جس سال آپؐ مبعوث ہوئے۔ اس طرح اُمّ المومنین کی رخصت کے وقت پندرہ سال بنتی ہے نہ کہ نو سال ! اصل یہ ہے کہ اُمّ المومنین عداوتِ ملتِ سبائیت کی شکار ہوئیں۔ چونکہ جناب غائب کی آمد کا مقصد اوّلین صرف تین اشخاص کی ذات ہے ؛ ابوبکر ، عمر اور اُمّ المومنین عائشہ

اس کے علاوہ ڈھیر ساری شہادتیں ہیں لیکن طوالت کے خوف سے اسی پر اکتفا کرتے ہیں او ریہ تحریر کرتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں کہ اُمّ المومنین کی عمر رخصتی کے وقت 9 سال نہیں 19 سال تھی۔ جب ابوبکر ہجرت کرکے مدینہ منورہ پہنچے تو بیمار پڑ گئے تو اُمّ المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا نے اپنے اباجان کی تیمارداری میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ (بخاری

کتاب سیرت بدرالدجیٰ : مولف – مولانا سید شہاب الدین سلفی فردوسی سے ماخوذ ایک اقتباس

Dr. Muhammad Hamidullah
Visit Website of Dr. Muhammad Hamidullah
Leave A Reply

Your email address will not be published.