مسلمان کلیسا اور یہودی معبد میں نماز پڑھ سکتے ہیں: فتوی
اسلام بقائے باہمی اور عدم تشدد کا دین ہے: عبد الله بن سليمان المانع
سعودی عرب کی سینئر علماء کونسل کے رکن رکین عبد الله بن سليمان المانع نے کہا ہے کہ اسلام برداشت اور رحم کا دین ہے۔ اس میں عدم تشدد، عدم برداشت اور دہشت گردی کی چنداں گنجائش نہیں۔ شیخ المانع نے مسلمانوں پر زور دیا ہے کہ وہ حقیقی اسلام کی ترویج کریں اور نبی رحمت کی اس سنت پر عمل کرتے ہوئے زندگی گذاریں جس میں انہوں نے مختلف ادیان کے لوگوں سے معاملہ کرتے ہوئے رواداری کا مظاہرہ کیا۔
کویتی اخبار الانباء میں شائع ہونے والے اپنے ایک فتوی میں شیخ المانع کا کہنا تھا کہ مسلمان شیعہ، صوفی مساجد سمیت کلیساوں اور یہودی معبدوں میں نماز ادا کر سکتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ حدیث مبارک کی روشنی میں ساری زمین اللہ کی ملکیت ہے۔
سعودی عالم دین کا مزید کہنا تھا کہ اسلام بقائے باہمی اور عدم تشدد کا دین ہے۔ انھوں نے کہا مسلمان عقیدے کے معاملے میں اختلافات کا شکار نہیں ہو سکتے، تاہم وہ فروعی امور میں اختلاف کر سکتے ہیں۔
غیر مسلموں سے تعلقات کے حوالے المانع نے ایک تاریخی حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ پیغبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے نجران سے آنے والے عیسائی وفد سے مسجد میں ملاقات کی اور انہیں اس میں یروشلم کی سمت منہ کر کے نماز ادا کرنے کی اجازت دی۔ ایک اور حدیث کا حوالہ دیتے ہوئے المانع نےعبد الله بن سليمان المانع نے یہ بات زور دے کر کہی کہ اسلام ملائشیا اور انڈونیشیا سمیت دنیا بھر کے متعدد ملکوں میں مسلمان تاجروں کے اچھے طور طریقوں کی وجہ سے پھیلا جسے دیکھ کر ان ملکوں کے لوگ مشرف بہ اسلام ہوئے۔
المانع کے بقول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے نیکی کے تمام پہلو واضح کرتے ہوئے برائی کی ہر لحاظ سے وضاحت کی۔ انھوں مسلمانوں پر زور دیا کہ وہ ایمان جیسی نعمت ملنے پر اللہ کا شکر ادا کریں اور فتوی جاری کرنے میں احتیاط سے کام لیا کریں۔
واضح رہے کہ شیخ المانع کے دفتر سے دس برس قبل ایک بیان جاری ہوا تھا جس میں انھوں نے کہا تھا کہ کلیساوں سے متعلق جانکاری کے لئے مسلمان وہاں جا سکتے ہیں۔ مذکورہ بیان میں دراصل ایک واقعے کا حوالہ تھا کہ جب خلیفہ دوئم حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ تعالی عنہ نے یروشلم کے ایک چرچ میں اس لئے نماز ادا کرنے سے انکار کیا تھا کیونکہ وہ نہیں چاہتے تھے کہ مسلمانوں کی وجہ سے عیسائیوں کو کوئی تکلیف پہنچے۔ چرچ کے بجائے انہوں نے قریبی جگہ پر نماز ادا کی جہاں بعد ازاں ان سے موسوم مسجد عمر تعمیر ہوئی۔ حضرت عمر نے یہ نہیں کہا کہ مسلمانوں کو چرچ میں داخل ہونے کی اجازت نہیں۔
المانع نے مسلمانوں پر زور دیا کہ وہ کلیسا سے متعلق جانکاری کے لئے وہاں جا سکتے ہیں اور عیسائی مسجد حرام کے علاوہ دیگر تمام مساجد میں داخل ہو کر وہاں اپنی نماز ادا کر سکتے ہیں۔