انبیاء اور رسول بھی قتل ہو سکتے تھے۔ تحریر محمد حنیف

ایک تحریر کے رد میں محمد حنیف صاحب کے جوابات۔
تفہیم القرآن کے ضمن میں وہ اُصول ، قواعد و ضوابط جو خود قرآن کریم نے پیش کئے ہیں ، اُن کے دائرے میں رہتے ہوئے تفکر و تدبر کرنا چاہیے ۔
آیات قرآنی کو سمجھنے کا بہترین طریقہ ، تصریف آیات ہے ۔
اس کے ساتھ ساتھ آیات مبارکہ کے سیاق و سباق اور آیات مبارکہ میں استعمال ہونے والے الفاظ کا قرینہ بھی اہمیت کا حامل ہے ۔
اگر ہم کسی مخصوص نظریہ یا عقیدہ کو ذہن میں رکھ کر پھر قرآن کریم پر غور کریں گے تو کبھی بھی درست راہ کو نہ پا سکیں گے۔
اس کے ساتھ ساتھ اس بات کو بھی ذہن نشین کرلینا چاہیے کہ قرآن کریم انسانوں کی ہدایت کی کتاب ہے ۔ کوئی بھی ایسی کتاب جو اپنی معنی ومفہوم میں آسان نہ ہو، عام فہم نہ ہو، ہدایت کی ذمہ داری پُورا ہی نہیں کر سکتی ۔
لُغت کسی بھی زُبان کو سمجھنے کے لئے بُنیاد کی حیثیت رکھتی ہے ۔ اس میں کوئی شک نہیں لیکن تغیرات زمانہ کے نتیجہ میں بعض اوقات کچھ الفاظ کسی ایسے معنی و مفہوم میں عام اور رائج ہو جاتے ہیں جو لُغت کے اُصول پر پورے نہیں اُترتے ۔
چنانچہ قرآن کریم کی آیات مبارکہ پر غور و فکر کرتے ہوئے اس بات کا بھی بہت خیال رکھنا چاہیے کہ دور نزول قرآن میں کوئی خاص لفظ کن معنوں میں مروج تھا ۔ عرب اپنی روزمرہ کی زندگی میں کس لفظ سے کیا مفہوم لیا کرتے تھے ۔
قرآن کریم کے اولین مخاطب ، بہت زیادہ تعلیم یافتہ لوگ نہ تھے ۔قرآن کریم نے اُن لوگوں سے اس ہی زبان میں خطاب کیا ہے جو وہاں کے لوگ بخوبی جانتے تھے ۔ قرآن کریم نے الفاظ کے چُناو میں اس حقیقت کو پیش نظر رکھا ہے کہ اس کا بیان ہر سطح کے انسان کی سمجھ میں آ جائے ۔ عمومی طور پر وہ الفاظ استعمال کئے ہیں جو دور نزول قرآن میں عرب بولا کرتے تھے ۔ جیسا مفہوم لیا کرتے تھے۔
 
یہ بات بہت اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ قرآن کریم نے خود اپنے بیان میں دو طرح کی آیات کا ذکر کیا ہے ۔ محکمات اور متشابہات ۔
انسانی ہدایت جس پر انسانی جنت و جہنم کا مدار ہے ، اللہ کریم نے انہیں محکم آیات میں بیان کیا ہے ۔ تاکہ کوئی ابہام نہ رہے اور نہ ہی کوئی عام انسان اس بنیاد پر اپنی جنت سے محروم رہ جائے کہ وہ پیغام اس کی سمجھ میں نہ آ سکا۔
البتہ زندگی کچھ ایسے بسیط حقائق جن کا تعلق کائنات کی وسعتوں ، حیات بعد الممات ، جنت ، جہنم وغیرہ سے ہیں ، کو محکم آیات میں بیان کیا ہی نہیں جا سکتا تھا ،انہیں متشابہات کی شکل میں بیان کیا گیا ہے ۔ وہاں الفاظ کے مجازی معنی بھی ہیں ، استعارے بھی اور تشبیہات بھی ۔
ہر دور کا انسان اپنے دور کے دیگر علمی ذرائع اور اپنے شعور کی بنیاد پر ان متشابہات کو سمجھنے کی کوشش کرے گا ۔ کوئی دُرست طور پر سمجھ جائے گا اور کوئی کمی بیشی کا شکار ہو جائے گا ۔ لیکن دونوں صورتوں میں ، اس سے انسان کی جنت یا جہنم پر کوئی فرق نہیں پڑے گا ۔
چنانچہ ہمیں اس بات کا بہت خیال رکھنا ہوگا کہ اگر ہم کسی آیت مبارکہ کو سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں توکیا وہ محکم آیت ہے یا متشابہ!!!
 
مزید یہ کہ قرآن کریم کے ہر لفظ کو خواہ مخوا، لغت کے بکھیڑوں میں اُلجھانے سے گریز کرنا چاہیے ۔ دیکھنا یہ چاہیے کہ اس مخصوص آیت میں استعمال ہونے والے الفاظ کے عمومی معنی و مفہوم دور نزول قرآن میں کیا تھے اور آج کیا ہیں ۔
 
قتل انبیاء کے ضمن میں آپ کے پوچھے گئے سوال کا جواب بہت آسان ہے ۔
 
سب سے پہلے اس حقیقت کا ادراک ضروری ہے کہ اللہ کریم انسانوں کی ہدایت کے لئے ہمیشہ ان ہی میں سے ان ہی کے جیسا نبی مبعوث فرماتے تھے ۔ وہ نبی اُن ہی کے جیسا انسان ہوتا تھا ۔ ان ہی کی زبان بولنے اور سمجھنے والا ۔
بحیثیت انسان نبی بھی ان تمام خوبیوں اور کمزوریوں کا مجموعہ ہوتا تھا جو کسی عام انسان میں ہو سکتی ہیں ۔ بس اگر کوئی فرق ہوتا تھا تو صرف یہ کہ اُس پر وحی نازل ہوتی تھی ۔
 
وقت کا نبی سب سے پہلے خود پر نازل ہونے والی وحی پر ایمان لاتا تھا ، اس کے مطابق خود اپنی اصلاح کرتا تھا ، خود کو اس وحی کی اتباع میں چلاتا تھا ۔ پھر اس پیغام کو دوسرے لوگوں تک پہنچاتا تھا ۔ اس کے بعد اس وحی کے مطابق ایک معاشرہ قائم کرنے کی جدوجہد کرتا تھا ۔
اگر ہم قرآن کریم پر غور کریں تو دیکھیں گے کہ وقت کے ہر نبی پر اسے کے مخاطبین نے ایک ہی اعتراض کیا کہ تم تو ہمارے جیسے انسان ہو۔جواب میں اُن سے یہ ہی کہا جاتا تھا کہ ہاں میں تمہارے جیسا انسان ہوں ۔ جب ہی تو میں تمہارے سامنے نہ صرف یہ کہ اپنے نازل کرنے والے کا پیغام پہنچا رہا ہوں بلکہ اس پر عمل کر کے بھی دکھا رہا ہوں تاکہ اتمام حجت ہو جائے کہ جو کچھ وحی کا تقاضا ہے ، وہ ناقابل عمل نہیں ۔ نہ ہی اس کے لئے فوق البشر کسی صلاحیت کی ضرورت ہے ۔
ہر دور کے نبی کے مخاطبین نے ہمیشہ اس نبی سے معجزات کا مطالبہ کیا ۔ ان لوگوں کا یہ گمان تھا کہ نبی چونکہ خدا کا نمائندہ ہوتا ہے اس لئے اسے عام انسانوں کے مقابلے میں خصوصی صلاحیتوں کا مالک ہونا چاہیے ۔
 
اب ذرا عقل و شعور کی کسوٹی پر اس ایک بات پر غور فرمائیں کہ اگر نبی اور عام انسانوں میں صلاحیت کے اعتبار سے کوئی ایسا فرق ہو جو انسانی اعمال کا نتیجہ ہی بدل دے تو پھر وہ نبی کس طرح کسی انسان کے لئے نمونہ ہدایت ہو سکتا ہے ؟؟
 
مخالفین سے تصادمات کی صورت میں اگر نبی کو پتہ ہو کہ اسے تو مارا ہی نہیں جاسکتا اور یہ سہولت تو عام انسان کو دستیاب نہیں تو پھر کس طرح مجھے جیسا عام انسان اس کارکردگی کا مظاہرہ کر سکتا ہے جو نبی کرتا تھا ؟؟؟
 
قرآن کریم تو واضح الفاظ میں بیان کرتا ہے ۔
 
وَلَنَبْلُوَنَّكُم بِشَيْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْأَمْوَالِ وَالْأَنفُسِ وَالثَّمَرَاتِ ۗ وَبَشِّرِ الصَّابِرِينَ [٢:١٥٥]الَّذِينَ إِذَا أَصَابَتْهُم مُّصِيبَةٌ قَالُوا إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ [٢:١٥٦]أُولَٰئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَوَاتٌ مِّن رَّبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ ۖ وَأُولَٰئِكَ هُمُ الْمُهْتَدُونَ [٢:١٥٧]
اور ہم ضرور تمہیں خوف و خطر، فاقہ کشی، جان و مال کے نقصانات اور آمدنیوں کے گھاٹے میں مبتلا کر کے تمہاری آزمائش کریں گے۔ اِن حالات میں جو لوگ صبر کریں اور جب کوئی مصیبت پڑے، تو کہیں کہ: “ہم اللہ ہی کے ہیں اور اللہ ہی کی طرف ہمیں پلٹ کر جانا ہے”
انہیں خوش خبری دے دو ان پر ان کے رب کی طرف سے بڑی عنایات ہوں گی، اُس کی رحمت اُن پر سایہ کرے گی اور ایسے ہی لوگ راست رَو ہیں [ابوالاعلی مودودی]
 
کیا اس آیت مبارکہ کا مخاطب خود اللہ کا پیغمبر نہیں ہے ؟؟
پیغمبر سے زیادہ ہدایت یافتہ کون انسان ہو سکتا ہے ؟؟
 
خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے خصوصی طور پر ارشاد فرمایا گیا ۔
 
وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِهِ الرُّسُلُ ۚ أَفَإِن مَّاتَ أَوْ قُتِلَ انقَلَبْتُمْ عَلَىٰ أَعْقَابِكُمْ ۚ وَمَن يَنقَلِبْ عَلَىٰ عَقِبَيْهِ فَلَن يَضُرَّ اللَّهَ شَيْئًا ۗ وَسَيَجْزِي اللَّهُ الشَّاكِرِينَ [٣:١٤٤]
محمدؐ اس کے سوا کچھ نہیں کہ بس ایک رسول ہیں، اُن سے پہلے اور رسول بھی گزر چکے ہیں، پھر کیا اگر وہ مر جائیں یا قتل کر دیے جائیں تو تم لوگ الٹے پاؤں پھر جاؤ گے؟ یاد رکھو! جو الٹا پھرے گا وہ اللہ کا کچھ نقصان نہ کرے گا، البتہ جو اللہ کے شکر گزار بندے بن کر رہیں گے انہیں وہ اس کی جزا دے گا [ابوالاعلی مودودی]
 
ذرا غور فرمائیں ، کیا کہا جارہا ہے ؟؟
 
اگر اللہ کے پیغامبر قتل کئے ہی نہ جا سکتے تھے تو اللہ کریم نے ایسے امکان کا اظہار بھی کس طرح کر دیا ۔ اس آیت مبارکہ میں یہ لفظ ” قُتِلَ ” سوائے اس مفہوم کے جو اس لفظ کا زبان زد عام مفہوم ہے ، کوئی اور مفہوم لیا ہی کس طرح جا سکتا ہے ؟؟؟
 
ہجرت کی رات جب کفار آپ ﷺ کے تعاقب میں تھے ، آپ ﷺ تین روز تک غار ثور میں چھپے رہے ۔ کیوں ؟؟؟ جب نبی قتل ہی نہیں کیا جا سکتا تھا تو اس کا علم نبی سے زیادہ کسے ہوگا ؟ تو کیوں چُھپ کر تین راتوں کی صعوبت برداشت کی ؟؟؟
 
چنانچہ یہ تصور کہ اللہ کا پیغامبر قتل نہیں کیا جاسکتا تھا اس لئے وہ آیات مبارکہ جہاں قتل انبیاء کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں ، ان کو مفہوم کے نام پر کچھ سے کچھ بنا دیا جائے ، درست عمل نہیں ۔
 
خدا کا پیغامبر ہماری طرح ایک انسان ہی ہوتا تھا ۔
اسے بھی دکھ درد ہوتا تھا ،بھوک لگتی تھی ، گرمی سردی لگتی تھی ، بیمار ہوتا تھا ، شادی بیاہ ، بیوی بچے ، جسمانی خواہشات ، سب کچھ ہوتا تھا ۔
 
وہ ان تمام اوصاف انسانی کے ساتھ ، وحی خداوندی کا اتباع کرتا تھا ۔
 
اس کے پاس کوئی مافوق الفطرت قوتیں نہیں ہو تی تھیں ۔ نہ ہی خرد عادت کوئی کرشمہ یا معجزہ۔یہ ہی وجہ ہے کہ نبی کے اسوہ کا اتباع مومنین پر فرض ہے ۔
 
یہ بات نہ تو اخلاق کے تقاضوں پر پورا اُترتی ہے اور نہ ہی انصاف کے اعلیٰ اصولوں کےمطابق ہے کہ نبی کو تو اس بات کی گارنٹی ہو کہ اگر تمہارا تصادم کفار سے ہو جائے تو تمہیں مارا ہی نہیں جا سکتا ۔اور عام مومنین سے تقاضا کیا جائے کہ تم نبی کی پیروی کرتے ہوئے کفار سے جنگ کرو۔ ان سے لڑو۔
 
کیا اس ہی کو اسوہ رسول کہا جائے گا ؟؟؟
 
اس ضمن میں جو آیات مبارکہ آپ نے بیان کی ہیں ، اگر ان کے سیاق و سباق اور الفاظ کے قرینوں پر غور کریں تو ان آیات میں ” قُتِلَ ” کا لفظ مارے دئیے جانے کے علاوہ کسی اور مفہوم کا حامل ہو ہی نہیں سکتا ۔
میں اسکے لئے صرف ایک مثال ہی پیش کرنے پر اکتفا کروں گا ۔
 
ارشاد باری تعالیٰ ہے ۔
 
فَبِمَا نَقْضِهِم مِّيثَاقَهُمْ وَكُفْرِهِم بِآيَاتِ اللَّهِ وَقَتْلِهِمُ الْأَنبِيَاءَ بِغَيْرِ حَقٍّ وَقَوْلِهِمْ قُلُوبُنَا غُلْفٌ ۚ بَلْ طَبَعَ اللَّهُ عَلَيْهَا بِكُفْرِهِمْ فَلَا يُؤْمِنُونَ إِلَّا قَلِيلًا [٤:١٥٥]
آخر کا ر اِن کی عہد شکنی کی وجہ سے، اور اس وجہ سے کہ انہوں نے اللہ کی آیات کو جھٹلایا، اور متعدد پیغمبروں کو نا حق قتل کیا، اور یہاں تک کہا کہ ہمارے دل غلافوں میں محفوظ ہیں حالانکہ در حقیقت اِن کی باطل پرستی کے سبب سے اللہ نے اِن کے دلوں پر ٹھپہ لگا دیا ہے اور اسی وجہ سے یہ بہت کم ایمان لاتے ہیں [ابوالاعلی مودودی]
 
آیت بالا میں ” وَقَتْلِهِمُ الْأَنبِيَاءَ بِغَيْرِ حَقٍّ ” میں ” بِغَيْرِ حَقٍّ ” کے الفاظ حقیقت کو روز روشن کی طرح واضح کر دیتے ہیں ۔ قتل برحق اور بغیر حق کے فرق کو سمجھنے کے لئے اس آیت مبارکہ پر غور فرمائیں ۔
 
ارشاد فرمایا ۔
 
مِنْ أَجْلِ ذَٰلِكَ كَتَبْنَا عَلَىٰ بَنِي إِسْرَائِيلَ أَنَّهُ مَن قَتَلَ نَفْسًا بِغَيْرِ نَفْسٍ أَوْ فَسَادٍ فِي الْأَرْضِ فَكَأَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِيعًا وَمَنْ أَحْيَاهَا فَكَأَنَّمَا أَحْيَا النَّاسَ جَمِيعًا [٥:٣٢]
اسی وجہ سے بنی اسرائیل پر ہم نے یہ فرمان لکھ دیا تھا کہ “جس نے کسی انسان کو خون کے بدلے یا زمین میں فساد پھیلانے کے سوا کسی اور وجہ سے قتل کیا اس نے گویا تمام انسانوں کو قتل کر دیا اور جس نے کسی کی جان بچائی اُس نے گویا تمام انسانوں کو زندگی بخش دی” [ابوالاعلی مودودی]
 
کسی انسانی جان کے بدلے میں ، یا فساد فی الارض کے علاوہ کسی انسان کی جان لینا ” بغیر حق” ہے ۔ اس کے معنی ایسے ہی ہیں جیسے ساری انسانیت کو قتل کر دیا گیا ۔
 
چنانچہ آیت مبارکہ” [٤:١٥٥]” میں ” وَقَتْلِهِمُ الْأَنبِيَاءَ بِغَيْرِ حَقٍّ ” کے معنی حقیقی معنوں میں قتل انبیاء ہے ۔
 
اس موضوع پر حرف آخر کے طور پر اس آیت مبارکہ پر غور فرمائیں ۔
 
ارشاد فرمایا ۔
 
إِنَّ اللَّهَ اشْتَرَىٰ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ أَنفُسَهُمْ وَأَمْوَالَهُم بِأَنَّ لَهُمُ الْجَنَّةَ ۚ يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَيَقْتُلُونَ وَيُقْتَلُونَ ۖ وَعْدًا عَلَيْهِ حَقًّا فِي التَّوْرَاةِ وَالْإِنجِيلِ وَالْقُرْآنِ ۚ وَمَنْ أَوْفَىٰ بِعَهْدِهِ مِنَ اللَّهِ ۚ فَاسْتَبْشِرُوا بِبَيْعِكُمُ الَّذِي بَايَعْتُم بِهِ ۚ وَذَٰلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ [٩:١١١]
خدا نے مومنوں سے ان کی جانیں اور ان کے مال خرید لیے ہیں (اور اس کے) عوض ان کے لیے بہشت (تیار کی) ہے۔ یہ لوگ خدا کی راہ میں لڑتے ہیں تو مارتے بھی ہیں اور مارے بھی جاتے ہیں بھی ہیں۔ یہ تورات اور انجیل اور قرآن میں سچا وعدہ ہے۔ جس کا پورا کرنا اسے ضرور ہے اور خدا سے زیادہ وعدہ پورا کرنے والا کون ہے تو جو سودا تم نے اس سے کیا ہے اس سے خوش رہو۔ اور یہی بڑی کامیابی ہے [فتح محمد جالندہری]
 
یہ تو مومن کی شان ہے اس کے ایمان کی معراج ہے کہ وہ میدان جنگ میں کفار کو مارتے بھی ہیں اور خود بھی جام شہادت نوش فرماتے ہیں۔
 
اب مجھے نہیں پتہ کہ ایک نبی کس طرح ایمان کی اس منزل سے مستثنیٰ ہو سکتا ہے ؟؟؟
 
جہاں تک اللہ اور اس کے رسول کے غلبہ کا تعلق ہے ، تو خدا اس کے لئے کسی نبی کی زندگی کا محتاج نہیں ۔
اس کا پروگرام جاری و ساری ہے ۔
ارشاد فرمایا ۔
 
وَإِن مَّا نُرِيَنَّكَ بَعْضَ الَّذِي نَعِدُهُمْ أَوْ نَتَوَفَّيَنَّكَ فَإِنَّمَا عَلَيْكَ الْبَلَاغُ وَعَلَيْنَا الْحِسَابُ [١٣:٤٠]
اور اے نبیؐ، جس برے انجام کی دھمکی ہم اِن لوگوں کو دے رہے ہیں اُس کوئی حصہ خواہ ہم تمہارے جیتے جی دکھا دیں یا اس کے ظہور میں آنے سے پہلے ہم تمہیں اٹھا لیں، بہر حال تمہارا کام صرف پیغام پہنچا دینا ہے اور حساب لینا ہمارا کام ہے [ابوالاعلی مودودی]
 
کہا کہ جس نظام کی تم جدوجہد کر رہے ہو، ممکن ہے اس کی تکمیل آپ کی زندگی میں ہو جائے ، اور یہ بھی ممکن ہے کہ اس کی تکمیل سے پہلے آپ اس دُنیا سے رُخصت ہو جائیں ۔ اس کا فیصلہ ہماری صوابدید پر ہے ۔ آپ کا کام تو صرف پیغام پہنچا دینا ہے ۔
 
کسی نبی کے قتل ہوجانے سے غلبہ خداوندی کے وعدے میں کوئی فرق نہیں پڑتا ۔
 
ایک نبی آتا تھا ، اپنے حصے کا کام کرتا تھا ۔ کبھی کامیاب ہو جاتا تھا کبھی ناکام ۔ اللہ کریم پھر کسی اور نبی کو مبعوث فرما دیتے تھے ۔
 
ارشاد فرمایا ۔
 
وَاضْرِبْ لَهُم مَّثَلًا أَصْحَابَ الْقَرْيَةِ إِذْ جَاءَهَا الْمُرْسَلُونَ [٣٦:١٣]إِذْ أَرْسَلْنَا إِلَيْهِمُ اثْنَيْنِ فَكَذَّبُوهُمَا فَعَزَّزْنَا بِثَالِثٍ فَقَالُوا إِنَّا إِلَيْكُم مُّرْسَلُونَ [٣٦:١٤]
اِنہیں مثال کے طور پر اُس بستی والوں کا قصہ سناؤ جبکہ اُس میں رسول آئے تھے [ابوالاعلی مودودی]
ہم نے ان کی طرف دو رسول بھیجے اور انہوں نے دونوں کو جھٹلا دیا پھر ہم نے تیسرا مدد کے لیے بھیجا اور ان سب نے کہا “ہم تمہاری طرف رسول کی حیثیت سے بھیجے گئے ہیں” [ابوالاعلی مودودی]
 
غور فرمائیں ، پہلے دو کو بھیجا، لیکن وہ دونوں کامیاب نہ ہو سکے ۔ پھر تیسرے کو بھیجا ۔
 
سوال یہ ہے کہ اگر غلبہ خداوندی کے معنی یہ ہی لئے جائیں کہ اس کے پیغامبر ناکام نہیں ہوتے تھے تو پھر خدا کو ایک کے بعد دوسرا اور دوسرے کے بعد تیسرے پیغمبر کو بھیجنے کی ضرورت کیوں پڑتی تھی ؟
اس اصول کے مطابق تو پہلے سے بھیجے گئے انبیاء ہی کو کامیاب ہو جانا چاہیے تھا ۔
 
اس مقام پر اس حقیقت کو بھی مدنظر رکھنا چاہیے کہ کیا واقعی لمحہ موجود تک دین کو غلبہ مل گیا ؟؟
کیا کسی ایک بستی یا خطہ میں نبی کی موجودگی یا اس کے بعد چند دہائیوں تک دین کے قائم ہونے کو غلبہ کہا جائے گا؟؟
کیا ہم نہیں جانتے کہ نبی اکرم ﷺ کے جانے کے محض پچیس تیس سالوں کے بعد اسلام کو اس پوری دنیا میں کہیں بھی غلبہ حاصل نہیں رہا ؟؟
دور نبوی ﷺ میں بھی کیا دین کو ساری دنیا پر غلبہ مل گیا تھا ؟؟؟
تو کیا خدا کا وعدہ صرف دس بیس سالوں کے لئے کسی خاص بستی یا مقام پر اس نظام کے قیام تک ہی محدود ہے ؟؟
 
ارشاد باری تعالیٰ ہے ۔
 
هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَىٰ وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ [٩:٣٣]
اس نے اپنے رسول کو ہدایت اور سچا دین دے کر بھیجا ہے تاکہ اسے سب دینوں پر غالب کرے اور اگرچہ مشرک نا پسندکریں [احمد علی]
 
اب نہ تو رسول رہا ، اور نہ ہی اس کا دین دنیا کے تمام ادیان پر غالب آ سکا ۔ تو کیا معاذ اللہ ثم معاذ اللہ ، اللہ کا وعدہ یا دعویٰ غلط ثابت ہو گیا ؟؟؟
 
یقیناً ایسا نہیں ہے ۔
 
یہ اس رب کا وعدہ ہے جو اس ساری کائنات کا مالک ہے ۔جو دین اس نے بھیجا ہے اس نے بہر صورت غالب آنا ہے ۔ وہ رب اپنے دین کے تمکن و غلبہ کے لئے نبیوں کی زندگی کا محتاج نہیں ۔
اس نے اپنے انبیاء علیہ سلام بھیجے تاکہ لوگوں تک پیغام پہنچ جائے ۔ وہ پہنچ گیا ۔ اب یہ دین اپنے نافذ کرنے والے کی مشیت کے مطابق بتدریج غلبہ کے مدارج طے کر رہا ہے ۔اس میں کسی طرح کا شبہ نہیں ہونا چاہیے ۔
 
ایک اور نقطہ نظر نگا ہ سے گزرا ۔
کہا کہ جناب اگر خدا اپنے انبیاء کی زندگی کی حفاظت نہ کر سکا تو وہ خدا کس کام کا ۔ اس پر کیا تبصرہ کیا جائے ؟؟
ایک بار اس ہی طرح کا سوال مجھ سے ایک ملحد نے کیا ۔
 
اس نے مجھے کہا کہ حنیف صاحب کیا آپ جانتے ہیں کہ 2005 کے زلزلہ میں ، بالا کوٹ مکمل طور پر برباد ہوگیا تھا ۔جس وقت زلزلہ آیا ، سیکنڑوں معصوم بچے جن کی عمریں پانچ ، سات ، دس سالوں کے درمیان تھیں ، اسکول کی عمارت کے ملبے تلے دب گئے ۔ ان کے لواحقین اس ملبے پر کھڑے آہ و بکاہ کرتے رہے ۔ دو دنوں تک اس ملبے سے بچوں کی دلدوز چیخیں سنائی دیتی رہیں لیکن وسائل نہ ہونے کے وجہ سے ان کو نکالا نہیں جا سکا۔
 
پھر اس نے اچانک مجھ سے سوال کیا ، حنیف صاحب اگر اس وقت آپ پاس کوئی ایسا طریقہ یا طاقت ہوتی جس سے ان معصوم بے گناہ بچوں کو بچایا جا سکتا ہوتا ، تو آپ کیا کرتے ؟؟
 
میں نے جواب میں کہا کہ اگر مجھے اختیار حاصل ہوتا تو میں لازماً ان بچوں کی مدد کرتا انہیں بچاتا ۔
اس پر اس نے مسکرا کر کہا ۔ تو پھر آپ کے خدا نے انہیں کیوں نہیں بچایا ؟؟
 
آپ کے خدا کو تو بس ” کُن” کہنا تھا ۔
 
اس کے بعد اس نے کہا جناب ، سچ تو یہ ہی ہے کہ اگر کوئی خدا ہوتا تب ہی تو بچاتا نہ ؟؟
 
میں نے اسے جو جواب دیاوہ ایک لمبی بحث ہے جس کا یہ موقعہ نہیں ۔ لیکن اس طرح کی طفلانہ بات کہ جناب اگر خدا کے پیغامبر قتل ہوسکتے ہوتے تو پھر وہ خدا کس بات کا خدا ہے، مجھے تو حیرت ہوئی ۔
 
ایک بچہ معمولی سا زخمی ہوجائے ، تواس کے ماں باپ اسپتال میں ڈاکٹروں سے اس طرح اُلجھ رہے ہوتے ہیں جیسے ساری دُنیا ہی لُٹ گئی ہو۔
 
کیونکہ ان کے لئے ان کے بچے کی چوٹ سے بڑا کوئی صدمہ نہیں ہوتا ۔
 
لیکن ایک ماہر سرجن روزانہ کی بُنیاد پر برین سرجری کر رہا ہوتا ہے ۔
 
ہارٹ سرجری کر رہا ہوتا ہے ۔ گرئینڈر اور کٹر سے کھوپڑی کی ہڈی کاٹ رہا ہوتا ہے ۔ پسلیوں کو کاٹ رہا ہوتا ہے ۔ وہ کبھی کسی صدمہ کا شکار نہیں ہوتا ۔ وہ جانتا ہے کہ یہ ایک پروسیجر ہے ۔اس کے بعد زندگی آسان ہو جائے گی ۔
 
موت و حیات ہم انسانوں کے لئے بہت بڑی بات ہے ۔
 
لیکن خدا کے نزدیک اس کی کیا حیثیت ہے کہ جو ہر لمحہ ، زندگی سے موت اور موت سے زندگی کی تخلیق کئے چلا جا رہا ہے ۔
 
اس کے لئے اس طرح کی جذباتی بات کہ کسی نبی کے مارے جانے پر اس کی خدائی پر سوالیہ نشان بن جاتا ہے ، سوائے ایک لاعلمی کے کچھ نہیں ۔
 
تین خلفاء راشدین ، جو نبی کے مخلص ساتھی ، سچے اور پکے عبد مومن ، جن سے اُن کی زندگی میں ہی جنت کا وعدہ کر لیا گیا ہو، جن کو گارنٹی دے دی گئی ہو کہ تم اللہ سے راضی اور اللہ تم سے راضی ۔ وہ یکے بعد دیگر قتل ہوتے رہے اور خُدا خاموش رہا ، تو پھر معاذ اللہ اس کے خدا ہونے کا کیا فائدہ ؟؟
 
یہ سوچ ہی طفلانہ ہے ۔
 
مومن کی ساری زندگی عملی جدوجہد پر مشتمل ہوتی ہے ۔وہ دین حق کا ایسا سپاہی ہوتا ہے جسے نہ مال کے جانے کا غم ہوتا ہے اور نہ جان سے جانے کی پرواہ۔
 
نبی سب سے پہلا مسلم ہوتا ہے ۔ مومن ہوتا ہے ۔ وہ اپنے مشن کی تکمیل میں یا تو کامیاب ہو تا ہے یا اپنی جان سے جاتا ہے ۔ وہ سمجھوتا کر کے بیٹھ نہیں جاتا ۔
 
ارشاد باری تعالیٰ ہے ۔
 
قِيلَ ادْخُلِ الْجَنَّةَ ۖ قَالَ يَا لَيْتَ قَوْمِي يَعْلَمُونَ [٣٦:٢٦]بِمَا غَفَرَ لِي رَبِّي وَجَعَلَنِي مِنَ الْمُكْرَمِينَ [٣٦:٢٧]
(آخرکار ان لوگوں نے اسے قتل کر دیا اور) اس شخص سے کہہ دیا گیا کہ “داخل ہو جا جنت میں” اُس نے کہا “کاش میری قوم کو معلوم ہوتا ،کہ میرے رب نے کس چیز کی بدولت میری مغفرت فرما دی اور مجھے با عزت لوگوں میں داخل فرمایا” [ابوالاعلی مودودی]
 
جس کا جان و مال ، جنت کے عوض خریدا جا چکا ہو ، وہ تو جنت کے حصول کے لئے دوڑتا چلا جاتا ہے ۔
 
نہ قتل ہونے سے ڈرتا ہے اور نہ قتل کرنے سے ۔اور وہ رب کائنات اس کا منتظر ہوتا ہے یہ کہتے ہوئے ۔۔
 
يَا أَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ [٨٩:٢٧]ارْجِعِي إِلَىٰ رَبِّكِ رَاضِيَةً مَّرْضِيَّةً [٨٩:٢٨]فَادْخُلِي فِي عِبَادِي [٨٩:٢٩]وَادْخُلِي جَنَّتِي [٨٩:٣٠]
(دوسری طرف ارشاد ہوگا) اے نفس مطمئن! چل اپنے رب کی طرف، اِس حال میں کہ تو (اپنے انجام نیک سے) خوش (اور اپنے رب کے نزدیک) پسندیدہ ہے ۔ شامل ہو جا میرے (نیک) بندوں میں، اور داخل ہو جا میری جنت میں [ابوالاعلی مودودی]
 
اللہ کریم سے دست بہ دعا ہوں کہ مجھے آپ کو اور دیگر تمام احباب دین خالص کو سیکھنے ، سمجھنے اور اس پرعمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔
سلامت رہیں
Dr. Muhammad Hamidullah
Visit Website of Dr. Muhammad Hamidullah
Leave A Reply

Your email address will not be published.