مسلکی تعصب کی عینک اتار کر آؤ کچھ مثبت سوچیں از سید اسرار احمد بخاری
- بریلوی مشرک نہیں ہوتے۔ بات صرف اتنی ھے کہ نبی علیہ السلام اور بزرگوں سے عقیدت و محبت کےاظہار میں اعتدال سےبڑھ جاتےہیں, یہ بنیادی طور پر ایک قلبی رحجان ھے، فی نفسہ اس میں کوئی خرابی نہیں بلکہ درست سمت اور سلیقے سے ہو تو نہایت ہی پسندیدہ اور درجات کی بلندی کا سبب ھے۔ ہوتا یہ ھے کہ دوسرے مسالک کے احباب شرک و بدعات کے رد میں نیک جذبوں کو بھی روندتےچلےجاتےہیں ، یہ سوچےسمجھے بغیر کہ آپ کا منصب داعی کا ھے داروغہ کا نہیں!
- دیوبندی اکابر پرست نہیں ہوتے۔ بات صرف اتنی ھے کہ دین کےفہم و تشریح میں باقاعدہ سند یافتہ علماء کرام اور صدیوں سے چلتی دینی روایات کو اہمیت دینے کی کوشش میں اکثر اعتدال کی راہ سے ہٹ جاتےہیں۔ یہ بھی ایک قلبی و فکری رحجان ھے اور درست سمت و سلیقے سے ہو تو نہایت پسندیدہ اور درجات کی بلندی کا سبب ھے۔ ہوتا یہ ھے کہ دوسرے مسالک کے احباب اکابر پرستی پر نقد و تبصرہ کرتےہوئے الفاظ و محاورات کےاستعمال میں اس بات کا لحاظ نہیں رکھتےکہ ہمارا منصب داعی کا ھے داروغہ کا نہیں!
- اہلحدیث اور سلفی حضرات بزرگوں اور پیغمبروں کی عظمت کے انکاری نہیں ہوتے, بات صرف اتنی ھے کہ اللہ کے سامنے ہردوسری ہستی کو چھوٹا سمجھتے ہیں اور توحید ہی کو اسلام کی اساس سمجھتےہوئےشرک کے ادنی سے شائبے کو بھی ایمان کےخلاف سمجھتےہیں۔ یہ بھی ایک قلبی و فکری رحجان اور اپنی حقیقت میں نہایت پسندیدہ اور درجات کی بلندی کا سبب ھے,۔ہوتا یہ ھے کہ دوسرے مسالک کے احباب ان کی اس حساسیت کو اپنے مسلک اور قلبی رحجان کےخلاف سمجھتےہوئے ان سے متوحش ہوتےہیں۔ یہ بات سمجھے بغیر کہ ہمارا منصب داعی کا ھے داروغہ کا نہیں۔
ان تینوں مکاتب فکر کے فالوورز اگر اس طرز پر سوچنا شروع کردیں تو بالیقین فاصلےسمٹ جائیں اور غیرضروری اختلاف کا بھی خاتمہ ہوجائے, لیکن معاملہ چونکہ فرقہ پرستی کا ھے اور فرقہ پرستی اپنی حقیقت میں دینداری کےعنوان پر دکانداری چمکانےکا نام ھے۔ اسلیے بےجا طورپر ایک دوسرے کے رحجانات کو بجائے خوش اسلوبی سے قبول کرنے اور وسعت قلبی اپنانےکے ایک دوسرے کےرد میں کتابیں اور رسالے چھاپتےرہتےہیں۔ اور بعض ظالم تو قرآن کی آیات اور احادیث نبوی کو بھی اپنےحق میں توڑ مروڑ کرپیش کرنےسے دریغ نہیں کرتے۔
مجھے اچھی طرح اندازہ ھے کہ احباب فروعی اختلاف کی شدت ثابت کرنےکےلیے ان تینوں مکاتب فکر کی کتابوں سے بہت کچھ خرافات جمع کرکےلاسکتے ہیں, لیکن اپنی حقیقت میں وہ سارا مواد دریا برد کردینےکےقابل ھے۔ اتفاق رائے کےلیے امت کے پاس اتنا وسیع زخیرہ موجود ھے کہ اس قسم کا بےجا اختلاف سوائے اناپرستی کےاور کچھ نہیں,۔
محض ان تین ہی مکاتب فکر کی بات نہیں (چند ایک کو چھوڑ کر) دیگر بہت سے مکاتب فکر کےہاں بھی اختلاف کی نوعیت اکثر ایسی ہی ھے کہ اپنی بنیادوں میں جسے آپ رحجانات اور بعض صورتوں میں زاویہ نگاہ کا فرق کہہ سکتےہیں اور جہاں اختلافات کی وجوہات گہری ہیں تب بھی قرآن جیسی محفوظ کتاب جسے اللہ نے فرقان (حق و باطل میں فرق کرنےوالی کتاب کہا) اور نبی علیہ السلام کی محفوظ سنت کی موجودگی میں رائے کا اختلاف کوئی بڑی اہمیت نہیں رکھتا, اور جو کچھ علمی اختلاف ھے بھی تو وہ ہرحال میں رہےگا اور قیامت تک رہےگا, لوگ جب تک سوچتےرہیں گے مکاتب فکر بنتےرہیں گے۔ اگر یہ اختلاف ایک دوسرے کی تکفیر اور نفرت و شرانگیزی کی حدوں تک نہیں پنہنچتا تو نبی علیہ السلام نے اس اختلاف کو امت کےلیے رحمت کہا ھے, کیونکہ اختلاف رائے سوچنےوالوں کو نئے نئے زاوئیے عطاکرتا ھے,۔
لہذا اتحاد اختلاف رائے کو ختم کرنےسے نہیں بلکہ اختلاف رائے کو گوارا کرنےسےپیدا ہوگا اور اس کی سب سے بڑی بنیاد تقوی اور خدا کےحضور جوابدھی کا سچا احساس ھے۔
ایک جگہ کچھ لوگ بحث و جدال میں مصروف تھے۔ کسی نکتےپر اتفاق ہی نہیں ہورہا تھا کہ اچانک وہاں سانپ نکل آیا, گھبرا کر سارے اس سانپ کو مارنےکےلیے متحد ہوگئے۔ حالت سکون میں جو لوگ کسی بھی نکتےپر متفق نہیں تھے حالت خوف میں سوفیصد متحد اور یک جان ہوگئے۔ یہی معاملہ آخرت کی جوابدھی کےخوف کا بھی ھے اگر حقیقی معنوں میں اللہ کےحضور جوابدھی کا خوف امت کےتمام طبقات میں ذندہ ہوجائے تو اتحاد کا قائم ہونا ویسا ہی یقینی ہوجائے جیسا سورج کےطلوع ہوتےہی دن کے نکلنے کا!!!