مظلوم عورت کی فریاد اللہ تعالیٰ کے حضور

مظلوم عورت کی فریاد  اللہ تعالیٰ کے حضور

تحریر: رانا محمد عاشق

1۔مظلوم عورت

عورت :میرے خاوند نے مجھے ماں کہ دیا ہے۔ لوگ کہتے ہیں تمہارا نکاح ٹوٹ گیا ہے  اب تم اس پر حرام ہو گئی ہو۔اب میں کیا کروں؟

 اللہ تعالیٰ: خاوند کےبیوی کو ماں کہہ دینے سے بیوی ماں نہیں ہوجاتی۔ ماں وہ ہے جس نے اسےجنا ہے۔یہ اس نے ایک غلط بات کہی ہےاگر تمہا را خاوند تمہیں رکھنا چاہتا ہے تو غلط بات کہنے کا کفارہ دے کر رجوع کرلےتمہارا نکاح ختم نہیں ہوا۔ میراکلام پڑھیں بات واضح ہوجائے گی۔

”قَد سَمِعَ اللّٰہُ قَولَ الَّتِی تُجَادِلُکَ فِی زَوجِھَاوَ تَشتَکِی اَلَی اللّٰہِ، وَاللّٰہُ یَسمَعُ تَحَاوُرَ کُمَا، اِنَّ اللّٰہَ سَمِیعٌ بَصِیرٌ “ (المجادلہ:1)۔ ترجمہ: یقینًا اللہ نے سن لی بات اس عورت کی جو جھگڑ رہی تھی تم سے اپنے شوہر کے بارے میں اور فریاد کئے جارہی تھی اللہ سے، اور اللہ سن رہا تھا تم دونوں کی گفتگو، بلا شبہ اللہ ہر بات سننے والا اور ہر بات کا جاننے والا ہے۔

            ”اَلَّذِینَ یُظٰھِرُونَ مِنکُم مِّن نِّسَآئِھِم مَّا ھُنَّ اُمَّھٰتِہِم، اِن اُمَّھٰتُھُم اِ لَّا الّٰئِی وَلَدنَھُم، وَاِنَّھُم لَیَقُولُونَ مُنکَرًامِّنَ القَولِ وَزُورًا “(المجادلہ:2)۔ ترجمہ: جو لوگ ظہار کرتے ہیں تم میں سے اپنی بیویوں کے ساتھ،نہیں ہوجاتیں ان کی بیویاں ان کی مائیں۔نہیں ہیں ان کی مائیں مگر وہی جنہوں نے جنا ہے انہیں۔اور بلا شبہ وہ کہہ رہے ہیں ایک بے تکی اور جھوٹی بات۔

”وَالَّذِینَ یُظٰھِرُونَ مِن نِّسَآئِھِم ثُمَّ یَعُودُونَ لِمَاقَالُوا فَتَحرِیرُ رَقَبَةٍ مِّن قَبلِ اَن یَّتَمَآسَّا ذٰلِکُم تُوعَظُونَ بِہ، وَاللّٰہُ بِمَا تَعمَلُونَ خَبِیر “(المجادلہ:3)۔ ترجمہ: اور جو لوگ ظہار کریں اپنی بیویوں سے ا ور پھر رجوع کریںاپنی اس (بات) سے جو انہوں نے کہی تھی تو اس پر آزاد کرنا ہے ایک غلام کا ہ اس سے پہلے کہ وہ ایک دوسرے کو ہاتھ لگائیں۔ یہ ہے نصیحت جو تمہیں کی جارہی ہے، اور اللہ ان اعمال سے جو تم کرتے  ہو پوری طرح واقف ہے۔

            ”فَمَن لَّم یَجِد فَصِیَامُ شَھرَینِ مُتَتَابِعَینِ مِن قَبلِ اَن یَّتَمَآ سَّا، فَمَن لَّم یَستَطِیع فَاِطعَامُ سِتِّنَ مِسکِینًا، ذٰلِکَ َلِتُو¿مِنُوا بِاللّٰہِ وَرَسُولَہ، وَ تِلکَ حُدُودُاللّٰہِ، وَ لِلکٰفِرِینَ عَذَابٌ اَلِیمٌ”  (المجادلہ:4)۔ ترجمہ:تو پھراگر کوئی نہ پائے (غلام) تو (اس پر ) روزے رکھنا ہے دو مہینے کے لگا تار، اس سے پہلے کہ وہ ایک دوسرے کو ہاتھ لگائیں۔ پھر جو شخص نہ طاقت رکھتا ہو (روزوں کی) تو (اس پر) کھانا کھلانا ہے ساٹھ مسکینوں کو، یہ ہے اس لئے کہ راسخ ہو تمہارا ایمان اللہ پر اور اس کے رسو لوں پر، اور نہ ماننے والوں کے لئے ہے درد ناک عذاب۔تو اللہ تعالیٰ نے ظہار کو طلاق ہی قرار نہیں دیا۔

2۔مظلوم عورت

عورت :میرے خاوند نے مجھے طلاق نہیں دی ہے بلکہ اس نے میرے پاس  نہ آنے کی قسم کھالی ہے۔ اب میں کہاں جاؤں؟

 اللہ تعالیٰ: اپنے خاوند کوبتاؤ کہ  وہ رجوع کرلے اللہ ایسی   لغو قسموں کا مواخذہ نہیں کرتا۔ لیکن اگر وہ رجوع نہیں کرتا اور اس نے طلاق کا ہی ارادہ کرلیا ہے توپھرتم چار مہینے تک انتظار کرو اگر وہ (خاوند)  اس دوران ازدواجی تعلق بحال کرلے تو ٹھیک ورنہ اللہ تجھے اجازت دیتا ہے کہ  تو آزاد ہے جہاں مرضی نکاح کر۔ میرا کلام پڑھو جو بڑا واضح ہے۔

”وَلَا یُؤَاخِذُوکُمُ اللّٰہُ بِا للِّغوِ فِی اَیمَانِکُم وَلٰکِن یُؤَاخِذُو کُم بِمَا کَسَبَت قُلُوبُکُم وَا للّٰہُ غَفُورٌ حَلِیمٌ“ (البقرہ :225) ۔ ترجمہ: نہیں مواخذہ کرتا اللہ تمہاری لغو قسموں پرلیکن مواخذہ کرتا ہے تمہارا ان (قسموں)پر جو تم نے دل سے کھائی ہیں اور اللہ بخشنے والا بردبار ہے۔

”لِلَّذِینَ یُؤلُوْنَ مِن نِّسَآئِھِم تَرَبُّصُ اَربَعَةِ اَشھُرٍفَاِنْ فَآءُوْ فَاِنَّ اللّٰہَ غَفُورٌرَّحِیمٌ“ (البقرہ :226) ۔ ترجمہ:ان لوگوں کے لئے جو قسم کھالیتے ہیں اپنی عورتوں کے پاس نہ جانے کی مہلت ہے چار مہینے کی،پھر اگر رجوع کرلیں تو بےشک اللہ بخشنے والا رحم کرنے والا ہے۔

3۔مظلوم عورت

عورت :میرے خاوند نے مجھے  تین طلاق دے دی ہیں ۔لوگ کہتے ہیں کہ اب تو اس پر ہمیشہ ہمیشہ کے لئے حرام ہوگئی ہے۔حلالے کے بغیر اب تو اس پر حلال نہیں ہوسکتی۔اب میں کہاں جاؤں؟

 اللہ تعالیٰ: اللہ ان چھوٹی چھوٹی باتوں  پر اپنے بندوں کی پکڑ نہیں کرتا۔میرا عدل اس بات کی اجازت کیسے دے سکتاہے کہ غلطی خاوند کرے اور اس کی سزا میں عورت کو دوں۔اپنے خاوندسے کہو کہ اپنی غلطی کی معافی مانگے  اور رجوع کرلے۔ کیونکہ میں  نےتین طلاق کی اجازت ہی نہیں دی تو اس نے ایسا کیوں کیا؟  

عورت:وہ معافی تو مانگ رہا ہے کہ غصے میں غلطی ہوگئی۔

اللہ تعالی:پھر مسئلہ کیا ہے؟

عورت:مولوی صاحب بضد ہیں کہ  تین طلاق سےنکاح ختم ہو گیا اور بغیر حلالے کے  میں اس پر حلال نہیں ہوسکتی۔

اللہ تعالی:پھر وہی تین طلاق  ،میں  نے جب  سورۃ البقرہ  کی آیت نمبر 229 کے آغاز میں کہہ دیا  ہےکہ طلاق دو بار ہے (الطلاق مرّٰتان) پھر یہ تیسری طلاق کہاں سے آگئی؟

عورت:مولوی صاحب فرماتے ہیں کہ سورہ البقرہ کی آیت نمبر 230 میں تیسری طلاق کا ذکر ہے؟

اللہ تعالی:وہاں کہاں تیسری طلاق کا ذکر ہے؟

عورت: مولوی صاحب فرماتے ہیں کہ آیت نمبر 230 کے شروع میں لکھا ہوا ہے کہ  (فَاِنْ طَلَّقَھَا) کا مطلب تیسری طلاق ہی  ہوتاہے۔

اللہ تعالی:کیا  (فَاِنْ طَلَّقَھَا) کا مطلب تیسری طلاق ہوتاہے؟ اگر مجھے تیسری طلاق کہنا ہوتا تو کیا میں (فَاِنْ طَلَّقَھَا) کی بجائے (فَاِنْ طَلَّقَھَا ثِلٰثٰہ مَرّٰت)یعنی  پھر اگر اس نے تیسری بار طلاق دی نہیں کہہ سکتا تھا؟ کیا میرے پاس الفاظ ختم ہوگئے تھے؟

 عورت:پھر(فَاِنْ طَلَّقَھَا) کا کیا مطلب ہوا؟

اللہ تعالی:ذرا اس سے پہلے والی آیت نمبر 229 کا آخری جملہ پڑھیے۔

عورت: "فَاِن خِفتُم اَلَّا یُقِیمَاحُدُودَ َاللّٰہِ، فَلَا جُنَاح عَلَیھِمَافِیمَا افتَدَت بِہ، تِلکَ حُدُودُ اللّٰہِ فَلَا تَعتَدُو ھَا وَمَن یَّتَعَدَّحُدُودَاللّٰہِ فَاُلٰٓئِکَ ھُمُ الظّٰلِمُونَ“۔ ترجمہ: پھر اگر ڈر ہو تم لوگوں کو بھی اس بات کا کہ نہ قائم رکھ سکیں گے وہ دونوں اللہ کی حدوں کو تو نہیں ہے کچھ گناہ ان دونوں پر اس (معاوضہ) میں جو بطور فدیہ دے عورت، یہ ہیں اللہ کی (مقرر کردہ) حدیں سو نہ تجاوز کرنا تم ان سے اور جو کوئی تجاوز کرتا ہے اللہ کی( مقرر کردہ )حدوں سے تو ایسے ہی لوگ ظالم ہیں ۔

 اللہ تعالی:اب ذرا  غور کرو فَاِنْ طَلَّقَھَا کس کے لئے ہے؟

 عورت:ہاں میں سمجھ گئی ہوں کہ یہ اس عورت کے لئے ہے جو فدیہ دے کر طلاق خریدے،ہم پر تو اس کا اطلاق ہی نہیں ہوتا۔ لیکن  مولوی صاحب بضد ہیں کہ فَاِنْ طَلَّقَھَا   کا تعلق  آیت نمبر 229 کے پہلے حصہ ہی سے ہے جہاں دو بار طلاق کا ذکر ہے۔

اللہ تعالی:اچھا تو پھر آیت نمبر 229 کا پہلا  حصہ تلاوت کریں۔

عورت: "الطّلاقُ مرّتٰن، فَاِمساکٌ بَاالمَعرُوفِ اَو تَسرِیحٌ بِاِحسَان، وَلَا یَحِلُّ لَکُم اَن تَاْخُذُوْ مِمَّا اٰتَیتُمُو ھُنَّ شَیئًا اِلَّا اَن یَّخَافَااَلَّا یُقِیمَا حُدُودَ اللّٰہ” ۔ترجمہ: طلاق دو بار ہے، پھر یا تو روک لینا ہے اچھے طریقے سے یا رخصت کرنا ہے احسان کے ساتھ،اور نہیں جائز تمہارے لئے یہ کہ واپس لو تم اس میں سے جو دے چکے ہو انہیں کچھ بھی مگر یہ کہ (میاں بیوی) دونوں ڈریں اس بات سے کہ نہ قائم رکھ سکیں گے اللہ کی (مقرر کردہ) حدیں ۔

اللہ تعالی:اب غور کریں کہ یہاں پر خطاب کس سے ہے ۔

عورت: "وَلَا یَحِلُّ لَکُم اَن تَاْخُذُوْ مِمَّا اٰتَیتُمُو ھُنَّ” ظاہر کررہا ہے کہ خطاب جمع حاضر میں ہے  اور جن کے بارے میں خطاب ہے ان کا صیغہ جمع غائب کا ہے۔

اللہ تعالی: آیت نمبر 230 کا صیغہ کونسا ہے ؟

 عورت: یہاں صیغہ واحد غائب کا ہے۔

اللہ تعالی: تو کیا تیرا رب صیغوں کا صحیح انتخاب  کرنا بھی نہیں جانتا؟

عورت:توبہ !توبہ! یہ میں یہ اپنے رب کے بارے میں کیسے کہہ سکتی ہوں۔لیکن اسی حصہ میں واحد غائب کے صیغے بھی تو ہیں جیسے  "اِلَّا اَنْ یَّخَافَااَلَّا یُقِیمَا حُدُودَ اللّٰہ”

اللہ تعالی: اسی کا تو دوسرے حصہ میں ذکر ہےجہاں فدیہ دیکر طلاق خریدی جارہی ہے۔

عورت:اب  بات مجھے تو سمجھ میں آگئی ہے لیکن لوگ اس بات کو نہیں مانتے اور نہ مولوی صاحب مانتے ہیں۔

اللہ تعالی: ان کو بھی  میری آئتیں پڑھ سناؤ وہ ضرور مان جائیں گے۔جو اس کے باوجود بھی اپنی ہٹ پر قائم رہیں گے ان کا معاملہ مجھ پر چھوڑدیں آپ کا اس بارے میں کوئی ذمہ نہیں ہے۔

عورت: آپ نے میری مشکل حل کردی،میں کس طرح آپ کا شکریہ ادا کروں ؟

اللہ تعالی: میرا ذکر کرتی رہ اور بس میرا ہی حکم مان اور میرے سوا کسی کا حکم نہ مان۔   

 

Dr. Muhammad Hamidullah
Visit Website of Dr. Muhammad Hamidullah
Leave A Reply

Your email address will not be published.