میرا مشن ۔۔۔ قاری حنیف ڈار
میرا مشن !!
قاری حنیف ڈار
ھمارے یہاں حس ملکیت اپنی انتہائی Crude شکل میں پائی جاتی ھے ، بیوی شوھر کو اپنی ملکیت سمجھتی ھے لہذا کسی دوسری کا حق اس پر بمشکل تسلیم کرتی ھے الا ما شاء اللہ ، اسی طرح ھم نے اللہ بھی بس اپنا بنا رکھا ھے کوئی غیر اس کا نام لے تو اس پر مقدمہ بن سکتا ھے جیسے ملائیشیا میں دیگر مذاھب والوں کے اللہ کا نام استعمال کرنے پر سخت پابندی ھے ، وہ اللہ کو بھگوان کہہ سکتے ہیں ، گاڈ کہہ سکتے ہیں پرھبو کہہ سکتے ہیں ، ایشور کہہ سکتے ہیں مگر اللہ کو اس کے اسم اعظم سے نہیں پکار سکتے ، اسی طرح نبئ کریم ﷺ بھی بس اب ھمارے نبی ﷺ ہیں ، ھماری ذاتی پراپرٹی ہیں ، جبکہ اللہ پاک نے ان کو رسول اللہ الی کآفۃ الناس فرمایا ھے کہ محمد ساری نوع انسانیت کی طرف اللہ کے رسول ﷺ ہیں ـ
{وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلا كَافَّةً لِلنَّاسِ بَشِيرًا وَنَذِيرًا وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لا يَعْلَمُونَ ـ سبا 28]
[ وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِّلْعَالَمِينَ (الانبیاء ـ 107]
[ قُلْ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا] الاعراف ـ ۱۵۸
یہ رشتہ رسالت ھم نے لے کر دنیا کے پاس جانا ھے ،، کہ یہ اللہ کے رسول محمد بن عبداللہ ﷺ ھاشمی قریشی ہیں ، آپ ان کو اللہ کا رسول مان لیں اور ان کی اطاعت کریں ، وہ اس مقصد کے لئے سب سے پہلے تو ھم رشتہ لے کر جانے والوں کی حالت دیکھیں گے ،، رشتے کرانی والی کی ایک ایکسٹرا سفید چادر تیار رکھی ھوتی ھے ،، جس کو جھٹ اوڑھ کر وہ معزز بن جاتی ھے ،، ان کالے کرتوتوں کے ساتھ منہ اٹھا کر کسی کے پاس نہیں جایا جا سکتا ،، ھم موجودہ قاتلانہ اور انسانیت کش رویوں کے ساتھ کسی کے پاس جا کر یہ بات نہیں کہہ سکتے کہ ھمارے رسول ﷺ جن کو ھم تمہارے رسول ﷺ بنانے آئے ہیں وہ پوری انسانیت کے لئے سراپا رحمت تھے ـ اللہ نے اپنے رسول ﷺ کو دعوت کا سب سے پہلا حکم اس تاکید کے ساتھ دیا تھا کہ وثیابک فطھر ،، اپنا دامن صاف رکھنا ،، ھم نے اس سے نماز کے لئے کپڑوں کو پاک ھونا تو اخذ کر لیا ،مگر دعوت کے لئے دامن کے پاک رھنے کی اھمیت کو نہ سمجھ سکے ـ
ھمارے کردار اور Out Look کے بعد ھمارے رسول ﷺ کا کردار زیر بحث آئے گا ،، کہ جناب آپ کی بات ھم نے سن لی ھے اب آپ تشریف لے جایئے ھم ذرا دائیں بائیں سے تحقیق کریں گے کہ جس ھستی کے رشتہ رسالت میں آپ ھم کو جوڑنے والے ہیں ان کا کردار کیسا تھا ، ان کا عمل کیسا تھا ،، نیز وہ جو کتاب پیغام لائے تھے وہ کیسا تھا ؟؟؟ ـ جب وہ رسول اللہ ﷺ کی سیرت پڑھنا شروع کریں ، گوگل سرچ کریں یا دائیں بائیں سے پوچھیں تو راوی ان کا تراہ نکال دیں ،، اب وہ راویوں کے بیان کردہ واقعات کی روشنی میں ھمارے رسول ﷺ پر اعتراض کریں کہ سرکار ویری سوری ،، آپ کے رسول ﷺ کے بارے میں تو یہ کچھ لکھا ھوا ھے ،ھم ان کے اس جواب کو توھین رسالت سمجھ کر ان کو قتل کرنے کی دھمکیاں دینا شروع کر دیں تو دعوت و تبلیغ اس طرح نہیں ھوتی ،، یقین جانیں جب اللہ پاک ھم سے سوال کرے گا کہ ختم الرسل کے امتی ھونے کے ناتے تمہارے ذمے جو دعوت لگائی گئ تھی اس فریضے کا کیا بنا ؟ تو ھم کہیں گے کہ سرکار یہ ھمارے راوی اور محدثین ھی تول کر ھمیں ثواب عطا فرما دیں کہ ھم انہیں کے تزکیئے بیان کرتے رھے اور انہی کی جے جےکار بولتے رھے ،، انہوں نے جناب رسالتمآب ﷺ کی سیرت کا وہ تیاپانچہ کیا تھا کہ ھم کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں تھے ، دعوت لے کر کیسے جاتے اور کہاں جاتے ؟
کوئی بغیر تحقیق بھلا کیونکر اپنی جان اور مال رسول اللہ ﷺ کے قدموں میں رکھ دے گا ؟ اپنے ماں باپ آپ ﷺ پر قربان کر دے گا ؟ اپنی زندگی میں اپنا دامن صاف رکھنا محمد رسول اللہ ﷺ کا فرض تھا اور رسول اللہ کی رحلت کے بعد ھمارا فرض ھے کہ ھم رسول اللہ ﷺ کا دامن صاف رکھیں اور ھر عیب کی نفی کریں جو آپ ﷺ کی طرف منسوب کی گئ ہے ،، قرآن کے دفاع کی ذمہ داری میرے اللہ کی ھے ،، محمد مصطفی ﷺ کے کردار کا دفاع ھماری ذمہ داری ہے ، اللہ کی قسم اس کے سوا میرا کوئی مشن نہیں ھے ، اس میں جان چلی جائے تو نہایت سستا سودا ھے ،، اور یہ کام کرتے کرتے مر جاؤں تو زندگی کا مقصد حاصل ھو گیا ـ