نظریہ اضافیت اور درد سر از عذیر خان
آئن اسٹائن کی Law of Relativity ( نظریہ اضافیت ) کے بارے میں یہ بات مشہور رهی هے کہ مذکورہ تهیوری کو دنیا میں گنتی کے صرف چند گنے چنے لوگ هی سمجهه پائے ہیں……….. بہت سے لوگوں نے اس تهیوری کو آسان فہم بناکر بیان کرنے کی کوشش کی……. لیکن جب بات برٹرینڈرسل تک آئی تو اس نے اس تهیوری کی روح کو نہایت خوبصورتی کے ساتھ اتنی آسان فہم الفاظ میں بیان کی کہ جسکے بعد شاید اس تهیوری کی اصل روح کو سمجهنا اک سات سال کے بچے کیلئے بهی مشکل نہیں رهی……..
رسل نے اپنی کتاب "” اے. بی. سی آف ریلٹیوٹی "” میں اسکا خاکہ پیش کیا اور لوگوں کو مشورہ دیا کہ فرض کریں کہ………….
ایک 100 گز لمبی ریل گاڑی روشنی کے 60 فیصدی رفتار سے حرکت کررهی هے اور کوئی شخص پلیٹ فارم پر کهڑا اسے دیکهه رها هے تو اسے یہ گاڑی 80 گز لمبی دکهائی دے گی اور اس لحاظ سے هر چیز اصلی حجم سے چهوٹی دکهائی دے گی……. اب اگر هم مسافروں کی آواز سن سکتے تو مدغم اور سست رو هوتیں… جس طرح ایک گراموفون کے ریکارڈ کو هلکی سپیڈ سے چلایا جائے تو اس میں سے آوازیں نکلتی ہیں……. اس طرح گاڑی کے مسافروں کی حرکات بوجهل هوتیں……. گاڑی کے کلاک بهی نارمل رفتار کے 4/5 پر چل رهے هوتے……. تاهم گاڑی کے مسافر اپنی تبدیلیوں سے باالکل بےخبر هوتے اور انهیں ریل گاڑی میں هرچیز ویسی هی دکهائی دیتی اور انهیں هم لوگوں میں جو پلیٹ فارم پر کهڑے هوتے ویسی هی تبدیلیاں نظر آتیں……. وہ همیں سکڑا هوا پاتے اور انهیں هماری حرکات بوجهل لگتیں……. آپ دیکهه رهے ہیں کہ ان سب تبدیلیوں کا دارومدار اس بات پر هے کہ متحرک جسم سے آپ کے محل وقوع کا کیا تناسب هے؟؟؟؟؟
هر دفعہ آپ حرکت کرتے ہیں تو یہ اثر واقع هوتا هے…….. اگر آپ انڈیا کے اوپر پرواز کریں اور جب آپ جہاز سے نیچے اتریں گے تو سیکنڈ کے کهربویں حصے کے برابر وقت کیلئے آپ ان سے کم عمر هونگے جنہیں آپ پیچهے چهوڑ آئے تهے……… اپنے کمرے میں چہل قدمی کے دوران بهی اپنے وقت اور خلا کے تجربے میں تهوڑی تبدیلی فرمالیں گے……….. پیمائش کی گئی هے کہ اگر بیس بال کو 100 میل فی گهنٹہ کی رفتار سے پهینکا جائے تو گرنے سے پہلے اس کے وزن میں 0.000000000002 گرام کا اضافہ هوجائے گا… چنانچہ اضافت کے اثرات حقیقی ہیں اور انکی پیمائش هوسکتی ہیں……. حقیقت یہ هے کہ تبدیلیاں جو رونما هوتی ہیں وہ اتنی چهوٹی هوتی ہیں کہ همیں ان سے کوئی فرق نہیں پڑتا لیکن کائینات کی دوسری توانائیوں میں یعنی روشنی اور کشش ثقل بلکہ خود کائینات میں اثرات مرتب هوتے ہیں……..
چنانچہ اگر اضافیت کا خیال انتہائی انوکها یا پراسرار هے تو اسکی وجہ صرف اور صرف یہ هے کہ عام فہم زندگی میں همیں چهوٹی چهوٹی تبدیلیاں محسوس نہیں هوتی……. هم انسان ابهی تک وقت کے باریک ترین لمحوں سے اپنے تصور اور خیال کو ڈهانپ لینے کے عادی نہیں هے اور هماری فہم ، ادراک اور حسیات کو کهل جانے کے بعد پهر واپس اپنے آپ کو سمیٹنے کیلئے وقت کے بهاری بهر لمحے درکار هونے کی لاکهوں سال سے عادت هوچکی هے…… البتہ نظریہ اضافیت اور کوانٹم میکینکس کے منظر عام پر آنے کے بعد انسانی فہم و ادراک اب آهستہ آهستہ وقت کے عام معمول سے هٹ کر وقت کے کم بهاری لمحوں میں اپنی منتشر اجزاء کو سمیٹهنے پر راضی هورها هے…….
وقت کے باریک ترین لمحوں کی تحلیل کی عادت آج هر طرف اپنائی جارهی هے جو انتہائی خوش آئند بات هے…….
وقت کے باریک ترین لمحے کیا هے؟؟؟؟ یعنی اگر وقت کو اتنا باریک پیس لے کہ جس سے اک سیکنڈ برابر دس کهرب، پچاس کهرب یا ممکن هے 100 کهرب ٹکڑوں یا حصوں میں بٹ جائے…….. اب اس حساب کو ذہن میں رکھ کر جب آپ اپنے 6 فٹ جسم کی لمبائی کو دیکهوگے تو آپ کو اپنا یہ چهوٹا سا جسم بهی زماں و مکاں میں کروڑوں اور اربوں میل پر پهیلا هوا اور محسوس هوتا هوا دکهائی دے گی…….. اب اسی حساب کو ذہین میں رکھ کر آپ تصور کرو کہ اک نوالا آپکے منہ سے سرک کر زمیں پر گررها هے تو اس گرنے والے نوالے کو زمین پر پہنچنے کیلئے بهی همارے عام فہم اور ادراک کے برعکس کئی سو سال درکار هونگے……. اب مثال کے طور پر کسی ایسی ننهی منی مخلوق کے بارے میں سوچے کہ جنکی فہم و ادراک پهیلنے کے بعد اک سیکنڈ کے بیس یا تیس کهربویں حصے میں واپس سمٹ بهی سکتی هے…….. اب فرض کریں وہ همیں دیکهه رهے ہیں اور هم انکے سامنے جمائی لیتے ہیں…….. اب وہ اپنے آپس کی مجلس میں جب انسانوں کا ذکر کریں گے تو وہ کچهه اس طرح بولے گے کہ انسان اک ایسی عظیم الخلقت مخلوق ہیں کہ جب وہ صرف جمائی کیلئے اپنا منہ کهولتے اور پهر بند کرلیتے ہیں تو اس عمل میں بهی همارے وقت کے مطابق 50 هزار سال لگتے ہیں……… لیکن ان ننهے منهے مخلوق کی بات جب هم تک پہنچے گی تو یقینا هم هنس هنس کر پاگل هوجائے گے…… باالکل اسی طرح سے کہ جب هماری ملکی وے کہکشاں جب اپنے بارے میں هم انسانوں کی حیرانگی دیکهه کر هنسنے لگتی هے….هے نا عجیب سی بات؟؟؟؟
اچها اب سمجهه لو کہ آئین اسٹائین کا تعلق بهی اسی ننهے منهے اجسام والی مخلوق کے قبیلے سے ہیں اور وہ بهی زماں و مکاں کی فہم و ادراک کچهه اس ادا سے کرنے کے بعد همیں سمجهانے کی کوشش کرتے ہیں اور پهر وہ چاهتے بهی یہی هے کہ انسان میری پیش کی گئی تهیوری کی تشریح کو فہم اور ادراک کے اس اینگل سے کریں…….
نظریہ اضافیت اسی لیئے درد سر بن جاتا هے کیونکہ همارا اک سیکنڈ اس تهیوری کے دس ارب یا دس کهرب سیکنڈ کے برابر هے….