نمازِ پنجگانہ کا قرآنی ثبوت
وَاَقِمِ الصَّلٰوةَ طَرَفَيِ النَّهَارِ وَزُلَفًا مِّنَ الَّيْلِ ۭ اِنَّ الْحَسَنٰتِ يُذْهِبْنَ السَّـيِّاٰتِ ۭ ذٰلِكَ ذِكْرٰي لِلذّٰكِرِيْنَ
ترجمہ : اور (اے نبی ! ) نماز کو قائم رکھیے دن کے دونوں سروں پر اور رات کی کچھ گھڑیوں میں یقیناً نیکیاں بدیوں کو دور کردیتی ہیں۔ یہ یاد دہانی ہے یاد رکھنے والوں کے لیے (سورہ ہود : 114 )
گزشتہ چند روز سے طبیعت مجبور کر رھی تھی اس موضوع پر قلم اٹھاؤ ۔ در اصل ایک بھائی جن کے ساتھ میرا رابطہ نیٹ پر ہے ان کا کہنا ہے کہ سورہ ہود کی آیت سے صرف تین ہی نمازوں کا ثبوت ملتا ہے ۔ دن کے دونوں سروں میں پہلا تو فجر کی نماز کا اشارہ ہے جبکہ دوسرا مغرب اور رات کے وقت عشاء کی نماز کی طرف اشارہ ہے ۔ ان کا کہنا ہے جب قرآن صرف تین نمازوں کا حکم دیتا ہے تو یہ امت پانچ نمازوں کی بدعت پر کیوں عمل کر رھی ہے ۔ آں جناب نے پہلے پہل اپنی تحریرات میں روح ، اور عذاب قبر کا انکار کیا اور اب نماز پنجگانہ کا انکار کر کے اپنے ہی ھم خیال دوستوں کو پریشان کر دیا ۔ پھر ھم نےغور کیا کوئی بھی دوست کوئی علمی انداز میں جواب نہیں دے پا رھا۔ یہ گروہ ان لوگوں کا ہے جو نبی ﷺ کے فرامین کو غیر اہم سمجھتے ہیں اور صحیح سے صحیح روایت کو بھی شک کی نظر سے دیکھتے ہیں ، ھمارے مخاطب اس مضمون میں یہی لوگ ہیں امت مسلمہ چونکہ سنت نبیﷺ کو حجت سمجھتی ہے ان کے لئے نماز ، زکوۃ ، روزہ اور حج پر کوئی اشکال نہیں الحمداللہ ۔
منکر حدیث کے بہت سے گروہ آپ کو نیٹ پر ہی مل جائیں گے ان میں سے بعض پانچوں نمازوں کے منکر ہے ، بعض پانچ نمازوں کے قائل ہیں اور بعض تین نمازوں کے قائل ہیں ۔ آپ دیکھئے نبی ﷺ کے فرامین کو غیر اھم سمجھنا کیسے پریشان کر دیتا ہے ۔
جو آیت دلیل کے طور پر پیش کی گئی ہے، کیا یہ کوئی قانون ہے کہ ایک ہی آیت سے مکمل احکام لے لیے جائیں قرآن کی آیات تو مختلف وقتوں میں نازل ہوئی ہیں۔ ایک آیت سے دلیل پکڑنے کو کیا سمجھا جائے ؟ مثلاً شراب کی حرمت پر تین آیات نازل ہوئیں، کوئی ایک آیت کو پکڑ کر بیٹھ جائے تو شراب کو بھی حلال کر لے گا ۔ اچھی طرح سمجھ لیجئیے معراج سے قبل دن بھر میں دو نمازیں پڑھی جاتی تھی اور ان کی دو رکعتیں ہوا کرتی تھیں اور رات کی نماز تہجد بھی رائج تھی۔ یہ بات اہل تحقیق کے لئے معروف ہے جو آیت آپ نے پیش کی ممکن ہے یہ معراج سے قبل نازل ہوئی ہو، یوں تطبیق کے دروازے کھلتے ہیں لیکن ھمارے قابل دوست احادیث مبارکہ کا انکار کرنے میں اتنی مگن ہے کہ ان کو کسی عالم سے پوچھنے کی فرصت ہی نہیں افسوس۔
نماز کے اوقات کا ثبوت
اَقِمِ الصَّلٰوةَ لِدُلُوْكِ الشَّمْسِ اِلٰى غَسَقِ الَّيْلِ وَقُرْاٰنَ الْفَجْرِ ۭ اِنَّ قُرْاٰنَ الْفَجْرِ كَانَ مَشْهُوْدً
ترجمہ : نماز قائم رکھیے سورج کے ڈھلنے سے لے کر رات کے تاریک ہونے تک اور قرآن کا پڑھا جانا فجر کے وقت یقیناً فجر کے وقت قرآن کا پڑھا جانا مشہود ہے (سورہ اسراء : 78)
دلوک کے لغوی معنی :
علامہ راغب اصفہانی نے لکھا ہے کہ دلوک کا معنی ہے سورج کا غروب کی طرف مائل ہونا، دلوک کا لفظ دلک سے بنا ہے اس کا معنی ہے ہتھیلیوں کو ملنا، جب سورج نصف النہار پر ہوتا ہے تو لوگ ہتھیلیوں کو ماتھے پر رکھ کر سورج کی طرف دیکھتے ہیں۔ (المفرادت ج ١ ص ٢٢٨، ٢٢٩، مطبوعہ مکتبہ نزار مصطفیٰ مکہ مکرمہ، ١٤١٨ ھ)
ابو عبیدہ نے کہا آفتاب کے نصف النہار سے زوال سے لیکر غروب کی طرف میلا تک کو دلوک کہتے ہیں، ذجاج نے کہا نصف النہار سے میلا بھی دلوک ہے، اور غروب کی طرف میلا بھی دلوک ہے، الازہری نے کہا کلام عرب میں دلوک کا معنی زوال ہے، اسی لیے جب سورج نصف النہار سے زائل ہو اس کو بھی دلوک کہتے ہیں اور جب وہ افق سے زائل ہونے لگے اس کو بھی دلوک کہتے ہیں۔ (زاد المسیر ج ٥ ص ٧١، ٧٢)
لِدُلُوْكِ الشَّمْسِ : قاموس میں ہے : ” دَلَکَتِ الشَّمْسُ اَیْ غَرَبَتْ أَوِ اصْفَرَّتْ أَوْ مَالَتْ أَوْ زَالَتْ عَنْ کَبِدِ السَّمَاءِ “ یعنی ” دَلَکَتِ الشَّمْسُ “ کا معنی ہے کہ سورج غروب ہوگیا، یا زرد ہوگیا، یا مائل ہوگیا، یا آسمان کے وسط سے ڈھل گیا۔ “غسق پہلی رات کے اندھیرے کو کہتے ہیں۔ الغسق ظلمۃ اول اللیل
اس میں تین نمازوں کا ذکر ہے، کیونکہ مشترک لفظ(دلوک) ایک سے زیادہ معنوں میں بھی استعمال ہوسکتا ہے۔ سورج ڈھلنے کے وقت ظہر، زردی کی (غیر محسوس) ابتدا کے وقت عصر کی نماز ہے (پوری طرح زرد ہونے پر نماز مکروہ ہے) اور سورج غروب ہونے کے ساتھ مغرب کی نماز ہے۔ ” غَسَقِ الَّيْلِ “ کا معنی شروع رات کا اندھیرا ہے۔ شفق غائب ہونے کے ساتھ اندھیرا مکمل ہوتے ہی عشاء کا وقت ہوجاتا ہے(مولانا حافظ عبدالسلام بھٹوی تفسیر القرآن)
مولانا امین احسن اصلاحی اپنی تفسیر میں فرماتے ہیں :
‘ دلوک ‘ کے معنی زوال کے ہیں۔ سورج کے زوال کے تین درجے ہیں۔ ایک وہ جب وہ سمت راس سے ڈھلتا ہے۔ دوسرا جب ‘ مرئ العین ‘ سے نیچے کی طرف جھکتا ہے۔ تیسرا جب وہ افق سے غائب ہوتا ہے۔ یہ تینوں اوقات ظہر، عصر اور مغرب کی نمازوں کے ہیں۔ ‘ دلوک ‘ پر ‘ ل ‘ وقت کے مفہوم میں ہے۔ اس معنی کے لیے یہ عربی میں معروف ہے۔ جس مفہوم کو ہم لفظ ‘ پر ‘ سے ادا کرتے ہیں بعض مواقع میں وہی مفہوم ‘ ل ‘ ادا کرتا ہے مثلا الصلوۃ لوقتہا کے معنی ہوں گے نماز اس کے اوقات پر، اقم الصلوۃ لدلوک الشمس، نماز کا اہتمام کرو زوال آفتاب پر۔ غَسَقِ الَّيْلِ ، اول شب کی تاریکی جب کہ وہ گا رھی ہوجائے۔ یہ نماز عشا کا وقت ہے۔ وَقُرْاٰنَ الْفَجْرِ ، اس کو اگرچہ ‘ اقم ‘ کے تحت بھی رکھ سکتے ہیں لیکن میرے نزدیک اس کا نصب تخصیص ذکر کے پہلو سے ہے یعنی ‘ اخص بالذکر قرآن الفر ‘۔ اس تخصیص ذکر سے نماز فجر کی خاص اہمیت واضح ہوتی ہے۔ اِنَّ قُرْاٰنَ الْفَجْرِ كَانَ مَشْهُوْدًا، قرآن سے مراد یہاں نماز فجر میں قرآن کی تلاوت ہے۔ یہ لفظ یہاں فی الجملۃ طول قرآئت کی طرف بھی اشارہ کر ہو رہا ہے جو خاص طور پر نماز فجر میں امام اور مقتدیوں دونوں کو حاصل ہوتا ہے اور ملائکہ کی اس حاضری کی طرف بھی جو اس وقت مبارک کی برکات میں سے ہے اور جس کا ذکر احادیث میں آیا ہے۔
اس سے معلوم ہوا کہ دن رات میں پانچ نمازوں اور ان کے اوقات کا ذکر خود قرآن میں ہے۔ بلکہ آگے والی آیت سے معلوم ہوگا کہ تہجد اور اس کے وقت کا ذکر بھی قرآن میں ہے۔ اتنی واضح آیات کے بعد بھی اگر کوئی شخص یہ کہے کہ قرآن میں پانچ وقت کی نمازوں کا کوئی ذکر نہیں ہے تو ایسے سرپھرے لوگوں کے بارے میں اس کے سوا اور کیا کہا جاسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کو ہدایت دے۔ (تدبر قرآن )
امین احسن اصلاحی صاحب کا شمار بھی ان لوگوں میں سے ہوتا ہے جو احادیث کو زیادہ اہمیت نہیں دیتے لیکن اس کے باوجود اس آیت سے قرآن سے ہی پانچ نمازوں کا عمدہ انداز میں ثبوت پیش کر رھے ہیں ، حیرت کا مقام ہے جب آپ نے اپنے مضمون میں اس آیت پر بحث کی تو ایک ہی نماز ثابت کرنے کی کوشش کی۔ یہی ھم سمجھانا چاھتے ہیں کہ یہ انسان کا ناقص فہم ہے کہ وہ یہ سمجھتا ہے کہ قرآن میں کوئی ایسی بات آگئی جس سے قرآن و حدیث میں تعارض ثابت ہو رھا یہاں صاف دیکھا جا سکتا ہے ایک ہی آیت سے ایک شخص پانچ وقتوں کی نماز کا ثبوت پیش کررھا ھے جبکہ دوسرا انکار یہاں قرآن کا ٹکراؤ احادیث سے ہوگیا یا انسانی فہم کا احادیث سے ؟
میری عاجزانہ رائے :
دراصل دلوک کا لفظ سورج کے آسمان کے وسط ، سورج کا زردی مائل ہونا اور سورج کا غروب ہونے پر دلالت کرتا ہے ، لیکن لفظ دلوک ایت میں سورج کے زوال ہونے کے پہلے دو حصے دوپہر یا سہ پہر پر ہی استعمال ہوا ہے ۔ اور ان دونوں اوقات ظہر و عصر پڑھی جاتی ہے۔ اس میں زوال کا تیسرا درجہ اختیار نہیں کیا گیا یوں اس طرح مغرب کی نماز لفظ دلوک میں شامل نہیں ۔ بلکہ غسق اللیل جس کے معنی ہے رات کا پہلا اندھیرا اس میں نماز مغرب کے وقت کا بیان ہے اور مغرب کی نماز کے فوراً بعد ہی صلاۃ عشاء کا وقت شروع ہوجاتا ہے ۔ یوں دلوک الشمس میں (ظہر و عصر ) اور غسق الیل(مغرب و عشاء) ثابت ہوجاتی ہیں ۔ کیونکہ سورج کے غروب ہونے کے وقت معروف ہے نماز پڑھنا حرام ہے ۔ لیکن اگر کوئی اوپر نقل کی ہوئی آراء پر اعتماد کرتا ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں ۔ اہم نقطہ "الی” زوال سے لے کر اندھیرا تک نماز پڑھنے کا ذکر کیو دراصل اس میں نماز کا مکمل وقت ایک ہی آیت میں بیان کر دیا ہے ۔ مثلاً سورج کے ڈھلنے سے لے کرزردی مائل ہونے تک ظہر اور زردی مائل ہونے سے لے کر غروب ہونے تک عصر کوئی شخص نماز پڑھ سکتا ہے ۔ یہی باتیں احادیث میں بیان ہوئی ہے یوں اس آیت کی عملی شکل نبی ﷺ نے خود کر کے دکھا دی اور قرآن نے اس کا اشارتاً ذکر کر دیا ۔ اس آیت سے نمازوں کو جمع کرنے پر بھی استدلال کیا گیا ہے کیونکہ اس میں مشترک الفاظ میں دو دو نمازوں کے اوقات آگئے ہیں ۔ یعنی ترتیب یوں ہوجائے گی لدلوک الشمس( پڑھئیےظہر و عصر) سے لے کر غسق اللیل (مغرب و عشاء) تک۔ اب بھی اگر اس آیت کے من مانے معنی لیے جائے تو اس کا اللہ ہی حافظ ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ تحقیق کے دوران صرف ایک آیت قرآنی سے مجھ پر حکمت قرآنی کے وہ باب کھلے ہیں جس کا نمونہ آپ کے سامنے ہے مزید کتنے ہی طوالت کے خوف سے چھوڑ رھا ھو۔
ایک اشکال :
آں جناب صلاۃ الجمعہ کے بھی قائل ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ سورہ الجمعہ میں جہاں نماز کا ذکر آیا ہے وہاں صلاۃ الجمعہ کے الفاظ نہیں آئے تو آپ کو کیسے اندازہ ہوا یہ پکار فجر یا مغرب کی نماز نہیں ؟ الفاظ آئے ہیں نودی للصلاۃ جب نماز کے لئے پکارا جائے ۔ کونسی نماز ؟ اور اس نماز کا وقت کیا ہوگا قرآن سے ؟ اگر آپ دلوک الشمس کی لغوی بحث جو اوپر ھم نے پیش کی ہے مان لیتے ہیں تو جمعہ کی نماز بھی دلوک الشمس یعنی زوال کے وقت میں آجاتی ہیں یوں تمام نمازیں جتنی بھی مسلمان پڑھتے ہیں قرآن سے ہی ثابت ہوجاتی ہیں۔
جو شخص بھی کھلے ذہن سے ان دلائل کو پڑھے گے اللہ سے امید ہے کہ اس کے شبھات ختم ہونگے اور موصوف نے جو پرانے کارتوس سنمبھال کے رکھے ہوئے ہیں ھمارے علم میں ہیں ، ھمارا اندازہ ہے کے بعض لوگ قرآن سے ہی رکعات ، اذکار وغیرہ نکالنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں ان کا جواب پیش کرنے کے وقت دے دیا جائے گا۔ امید ہے ایسی نوبت آئے ہی نا نبی ﷺ کے فرامین کے بغیر نماز کو پڑھنا ناممکن ہے کیونکہ یہ عمل کی چیز ہے جوکہ نبی ﷺ نے کر کے دکھا دی نماز کا انکار کھلا کفر ہے۔