نکاح کے وقت حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی عمر از مفتی محمد فاروق علوی
روایات میں یہ بات آئی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نکاح کے وقت حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی عمر 6 برس اور رخصتی کے وقت 9 برس تھی۔ مگر یہ روایات قرآن ، حدیث، تاریخ اور عقل عام سب کے خلاف ہیں۔ بہت سے اہل علم نے اپنی کتابوں مثلاًحکیم نیاز احمد نے کشف الغمہ عن عمر ام الامہ اور علامہ حبیب الرحمن کاندھلوی نے عمر عائشہ میں تفصیل کے ساتھ بحث کر کے ان سارے دلائل کو جمع کر دیا ہے جن سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ نکاح کے وقت سیدہ کی عمر وہ نہیں تھی جو بیان کی جاتی ہے ، بلکہ وہ ایک بالغ اور نوجوان خاتون تھیں۔ نکاح کے وقت ان کی عمر سولہ برس اور رخصتی کے وقت انیس برس تھی۔مگر راوی نے اسے غلطی سے چھ اور نو بنا دیا۔ اس کا سبب یہ ہے کہ عربی زبان میں دس سے اوپر کے اعداد کو ایک مرکب عدد کے طور پر بولا جاتا ہے ۔انگریزی میں یہ بیس کے بعد ہوتا ہے ۔ اس لیے اکیس کے عدد کو Twenty one کہتے ہیں۔ عربی میں دس سے اوپر یہی اصول ہے ۔ چنانچہ سولہ کا ہندسہ الفاظ کی شکل میں ست عشرۃ اور انیس کا ہندسہ تسع عشرۃ کے طور پر بیان کیا گیا ہو گا جسے راوی کی غلطی نے ست(6) اور تسع(9) بنادیا۔ تفصیل کے لیے آپ مذکورہ بالاکتابوں کا مطالعہ کرسکتے ہیں ۔ ہم ذیل میں آپ کی سہولت کے لیے چند اہم نکات قرآن ، حدیث، تاریخ اور عقل عام کے حوالے سے بیان کیے دیتے ہیں۔
قرآن کریم کا بیان
قرآن کریم میں کہیں براہِ راست تو یہ بیان نہیں ہوا کہ نکاح کی عمر کیا ہوتی ہے ، مگر نکاح کی عمر کی دو خصوصیات کی طرف ذیل کی آیت میں واضح اشارہ کر دیا گیا ہے :’’اوران یتیموں کوجانچتے رہویہاں تک کہ جب وہ نکاح کی عمرکوپہنچ جائیں تواگرتم ان کے اندرسوجھ بوجھ پاؤتوان کامال ان کے حوالے کر دو۔اور(اس ڈرسے )کہ وہ بڑ ے ہوجائیں گے اسراف اورجلدبازی کر کے ان کامال ہڑ پ نہ کرو۔‘‘، (نساء4: 6) اس آیت کے مطابق نکاح کی عمر وہ ہوتی ہے جس کے بعد انسان میں ’رشد‘ یعنی سمجھ پیدا ہوجائے ۔ یہاں اس سمجھ سے مراد مالی معاملات کی نگرانی کی سمجھ ہے ۔ کیونکہ یہ آیت یہی بتا رہی ہے کہ یتیموں کے مال نکاح کی عمر میں پہنچنے پر ان کے حوالے کر دو۔دوسری بات یہا ں یہ بیان کی گئی ہے ان کے بڑ ے ہونے کے خوف سے ان کے مال جلدی جلدی نہ کھا بیٹھو۔ یہ ’بڑ ا ہوجانا‘ وہ دوسرا اشارہ ہے جو نکاح کی کم از کم عمر کو بیان کرتا ہے ۔ یعنی اس انسان پر بچے کا اطلاق نہ کیا جا سکے۔ جن لوگوں نے کبھی غور سے کسی نو سال کی بچی یا بچے کو دیکھا ہے وہ جانتے ہیں کہ نو سال کے بچے میں نہ مالی معاملات چلانے کی سمجھ ہوتی ہے اور نہ اس پر کسی بڑ ے کا اطلاق کیا جا سکتا ہے ۔اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کسی نو سالہ بچی سے شادی کریں ، یہ چیز قرآن پاک کے اپنے بیان کی رو سے سمجھ میں آنے والی نہیں ہے ۔
علم وعقل اور مشاہدات کا فیصلہ
قرآن پاک کی درج بالا آیت کو اگر غور سے دیکھا جائے تو معلوم ہو گا کہ قرآن نکاح کی عمر سے متعلق کوئی نیا حکم نہیں دے رہا ، بلکہ انسانوں میں رائج ایک معمول کو بیان کر رہا ہے ۔عرب کے اس زمانے کے جو حالات بھی ہمارے سامنے ہیں ، اس سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ اس دور میں لڑ کیو ں کے نکاح کی عام عمر وہی تھی جس میں انہیں کنواری نوجوان لڑ کی کہہ کر بلایا جا سکتا ہے ۔یعنی وہ عمر جسے انگریزی میں Teen Age کہتے ہیں ۔ آج بھی عرب ہو یا عجم اسی عمر میں لڑ کیو ں کی شادی عام رواج ہے ۔ ایسے میں اگر سیدہ کی شادی چھ برس اور رخصتی نو برس میں ہوئی تھی تو اس کے ساتھ دو واقعات ضرور بیان ہونے چاہیے تھے ۔ایک یہ کہ قریشِ مکہ اور منافقینِ مدینہ دونوں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت میں اندھے ہورہے تھے ، وہ اس واقعے کے خلاف آسمان سر پر اٹھالیتے ۔ اہل عرب میں میاں بیوی کی عمر میں زیادہ فرق ہونا ایک عام بات تھی، لیکن ایک بچی سے شادی کرنا ایسی بات نہ تھی جس پر طوفان نہ اٹھایا جاتا۔ مگر ہم دیکھتے ہیں کہ اس حوالے سے آج کے مستشرقین تو حضور کے خلاف بدگوئی کا کوئی موقعہ ہاتھ سے جانے نہیں دیتے ، مگر اس دور کے کفار و منافقین خاموش رہتے ہیں ۔ دوسری بات جو لازماً ہونی چاہیے تھی وہ یہ کہ سیدہ کی شادی کا واقعہ صرف ایک راوی ہشام بن عروہ بیان نہیں کرتے ، بلکہ کئی لوگ اس بات کو ایک غیر معمولی واقعے کے طور پر بیان کرتے ۔ مگر ہم دیکھتے ہیں کہ ایسی بھی کوئی بات نہیں ، بلکہ یہ پورا واقعہ صرف ایک صاحب ہشام بن عروہ سے مروی ہے ۔ وہ بھی اسے اپنی پوری زندگی میں کبھی بیان نہیں کرتے سوائے عمر کے آخری حصے کے جب وہ مدینہ سے عراق منتقل ہوئے ۔ 131ھ کے بعد کا یہ وہ زمانہ ہے جس کے بارے میں تمام محققین یہ کہتے ہیں اس زمانے میں ان کی یادداشت متاثر ہو چکی تھی۔ ابن حجر نے تہذیب التہذیب اور حافظ ذہبی نے میزان میں ہشام کے اس مسئلے پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے ۔ اسی لیے اہل علم ہشام کی ان روایات کو لینے میں بہت محتاط رہتے ہیں جو انہوں نے عمر کے آخری حصے میں عراق میں بیان کیں ۔سیدہ کے نکاح کی روایت ایک ایسی ہی روایت ہے ، مگر چونکہ اس کا تعلق حلال و حرام سے نہیں ، بلکہ ایک تاریخی بیان سے ہے اس لیے اس پر بہت زیادہ توجہ نہیں دی گئی۔ یہ ہمارے اہل علم کا عام طریقہ ہے کہ زیادہ سختی صرف حلال و حرام اور احکام کی روایات پر کرتے ہیں۔ حالانکہ ہمارے نزدیک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت ہر حلال و حرام سے زیادہ اہم ہے اور اس روایت پر اس پہلو سے غور کیا جانا چاہیے ۔
احادیث کا بیان
صحیح بخاری ہی میں بعض ایسی احادیث ہیں جو بالواسطہ طور پر سیدہ کی صحیح عمر خود بیان کر دیتی ہیں ۔ مثلاًبخاری میں کتاب التفسیر کی ایک روایت ہے جس میں سیدہ سورۂ قمر کی ایک آیت کا حوالہ دے کر کہتی ہیں کہ اس کے نزول کے وقت میں ایک ’جاریۃ‘ یعنی لڑ کی تھی اور کھیلا کودا کرتی تھی۔ سورۂ قمر میں شق قمر کا مشہور واقعہ بیان ہو ا ہے ۔ اس واقعہ کی بنا پر مفسرین اور محدثین اس سورہ کے زمانۂ نزول کے بارے میں متفق ہیں کہ یہ سورت نبوت کے پانچویں برس نازل ہوئی۔ ہشام بن عروہ کی روایت کی رو سے سیدہ کی پیدایش 5نبوی میں ہونی چاہیے ۔ گویا ہشام کے مطابق جس سن میں ان کی پیدائش ہونی چاہیے، بخاری کی اِس روایت کے مطابق ٹھیک اسی سن کا واقعہ سیدہ بیان کرتی ہیں کہ میں اس وقت کھیلنے کودنے کی عمر میں داخل ہوجانے والی ایک لڑ کی تھی۔ اس واقعے کے آٹھ برس بعد ہجرت ہوئی اور ہجرت کے ایک دو برس بعد آپ کی رخصتی ہوئی۔اس حساب سے سورۂ قمر کے نزول کے نو دس برس بعد رخصتی کے وقت آپ لڑ کپن سے نکل کر جوانی کے دور میں داخل ہو چکی تھیں ۔ ہمارے نزدیک یہی بات ٹھیک ہے ۔ اس تفصیل کا صاف مطلب یہ ہے کہ اگر ہم ہشام والی روایت کو ٹھیک مانیں گے تو ہمیں بخاری کی اِس روایت کا انکار کرنا ہو گا۔ جبکہ دوسری طرف بخاری و مسلم کی مستند روایات کے مطابق سیدہ جنگ بدر اور احد میں شریک تھیں ۔ جنگ احد کے موقع پر آپ ام سلیم کے ہمراہ پانی کے مشکیزے اٹھائے مسلمانوں کو پانی پلاتی پھر رہی تھیں (بخار ی کتاب الجہاد و السیر، باب غزوالنساء وقتالھن مع الرجال )۔ جنگ جنگ ہوتی ہے بچوں کا کھیل نہیں ہوتی۔ اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے احد کے موقع پر 15برس سے کم عمر بچوں کو جنگ میں شرکت سے منع کر دیا تھا۔ جبکہ سیدہ کی عمر جنگ احد کے وقت ہشام کی روایت کے مطابق گیارہ برس کی تھی۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ اتنی کم سنی میں انہیں جنگ میں شریک ہونے کی اجازت دے دی جائے ۔اس سے بھی یہ ظاہر ہوتا ہے کہ سیدہ کی عمر سے متعلق ہشام کی روایت درست نہیں ، بلکہ سیدہ کی عمر نکاح کے وقت زیادہ تھی۔
متعدد تاریخی حوالے بھی یہ بات واضح کرتے ہیں کہ سیدہ کی عمراس سے زیادہ ہے جتنی ہشام کی روایت میں بیان ہوئی ہے۔ مثلاًمورخ طبری اپنی کتاب تاریخ طبری میں حضرت ابو بکر کے حالات کے ضمن میں بیان کرتے ہیں کہ ان کی چار اولادیں تھیں اور سب کی سب زمانۂ جاہلیت یعنی اعلان نبوت سے قبل پیدا ہوئیں ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ سیدہ 5نبوی کو نہیں ، بلکہ اس سے ۔کہیں پہلے پیدا ہوئی تھیں ۔ ہم نے یہاں چند ہی دلائل بیان کیے ہیں اس لیے کہ سوال کے جواب میں اتنی ہی تفصیل کی جا سکتی ہے تفصیلی دلائل کے لیےآپ حکیم صاحب کی کشف الغمہ اور علامہ کاندھلوی صاحب کی عمر عائشہ اور دیگر کتابیں دیکھ سکتے ہیں۔