نکتہ یا نقطہ؟ درست کیا ہے؟
ہمارے ساتھی اکثر ہم سے پوچھتے ہیں کہ ’نکتہ نظر‘ یا ’نقطہ نظر‘ میں کیا فرق ہے اور ان کا استعمال کہاں کرنا چاہیے۔ ہمارے پاس کوئی علمی دلیل تو ہوتی نہیں تھی، ہم انہیں ابوالاثر حفیظ جالندھری کی مشہور نظم ’’ابھی تو میں جوان ہوں‘‘ جو انہوں نے بڑھاپے میں لکھی، اس کا یہ بند بطور دلیل سنا دیتے تھے کہ
چلو جی قصہ مختصر، تمہارا نقطہ نظر
درست ہو تو ہو مگر، ابھی تو میں جوان ہوں
حضرت ابوالاثر جالندھر، پنجاب کے تھے مگر اردو ان کی مستند ہے۔ وہ بہت ٹھوک بجا کر اور احتیاط سے الفاظ کا استعمال کرتے تھے کیونکہ انہیں یہ اندیشہ رہتا تھاکہ کہیں ’’اہلِ زبان‘‘ اعتراض نہ کربیٹھیں۔ اس کا اظہار انہوں نے اس شعر میں کیا ہے:
حفیظ اہلِ زباں کب مانتے تھے
بڑے زوروں سے منوایا گیا ہوں
اس پر اُن کے رفیقِ کار حضرت ضمیر جعفری نے کہا تھا: ’’استاد، آپ نے زور دکھا کر ہی منوایا ہے‘‘۔ یعنی ڈولے، شولے دکھا کر۔ بہرحال یہ مذاق کی بات تھی۔ نکتہ کے بارے میں ہم کسی شاعر کا مصنوعی تل کے بارے میں مصرع پیش کردیتے تھے
نکتہ بڑھا رہے ہو خدا کی کتاب میں
چہرے کو مصحف بھی کہتے ہیں۔ بہرحال اندازِ فکر Point of view کے لیے نقطہ نظر استعمال ہونا چاہیے، نکتہ نظر نہیں۔ کسی بات پر اعتراض کے معنیٰ میں نکتہ چینی لکھا جائے گا۔ طالب الہاشمی کے مطابق نکتہ کے معنیٰ ہیں: گہری بات، پتے کی بات، باریک بات، لطیفہ، حاصلِ کلام۔ اس کی جمع نِکات ہے (ن کے نیچے زیر) نکتہ بیں، نکتہ چیں، نکتہ بردار مشہور ترکیبیں ہیں۔ غالب کا مصرع ہے
نکتہ چیں ہے غمِ دل، جس کو سنائے نہ بنے
نقطہ صفر کے نشان یا دو خطوط کے ملنے کی جگہ کو کہتے ہیں۔ نقطہ نظر، نقطہ اتصال مشہور ترکیبیں ہیں۔ جمع اس کی ’’نقاط‘‘ ہے اور یہاں ’ن‘ پر پیش ہے۔
فی الوقت اتنی ہی نکتہ چینی کافی ہے۔ اسے مشکل پسند حضرات سقط چینی بھی کہتے ہیں، یعنی گری پڑی چیز اٹھانا۔ چینی اتنی مہنگی ہوتی جارہی ہے کہ اس کا گرنا ناقابلِ برداشت ہے۔
(اطہر ہاشمی)