ٰاستاد بننا پیشہ نہیں ہے از ابویحیی

کہتے ہیں کہ کسی شخص نے ایک بادشاہ کے خلاف بغاوت کر دی اور اس سے اقتدار چھین کر اسے قید میں ڈال دیا۔ قید کے دوران اس بادشاہ نے نئے حکمران سے درخواست کی کہ اسے اور کوئی سہولت نہ ملے مگر بچوں کو پڑھانے کی اجازت مل جائے۔ نئے حکمران نے اس کی درخواست یہ کہہ کر مسترد کر دی کہ میں نے بڑی مشکل سے تم سے ایک سلطنت چھینی ہے۔ میں اب ایک دوسری سلطنت تمہارے حوالے کیسے کر دوں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ایک استاد کو اپنے شاگردوں پر ایک بادشاہ جیسے اختیارات حاصل ہوتے ہیں ۔ بلکہ یہ کہنا صحیح ہو گا کہ استاد کا اختیار بادشاہ سے بڑھ کر ہوتا ہے۔ کیوں کہ ایک بادشاہ کا دائرۂ اقتدار صرف جسم تک ہوتا ہے مگر استاد کی پہنچ دل، دماغ اور روح تک ہوتی ہے۔

ایک بچے کی دنیا بہت محدود ہوتی ہے ۔ اِس دنیا میں گھر کے بعد درس گاہ کو سب سے زیادہ اہمیت حاصل ہوتی ہے ۔ اسی طرح والدین کے بعد وہ جن لوگوں کا اثر سب سے زیادہ قبول کرتا ہے وہ اس کے اساتذہ ہی ہوتے ہیں ۔ جس طرح والدین بننا ایک پیشہ وارانہ کام نہیں اسی طرح تعلیم دینا بھی کوئی پیشہ نہیں ہے ۔ تعلیم دینا اصل میں قوم کی تعمیر میں حصہ لینا ہے ۔ تعلیم دینا تو کارِ نبوت میں سے ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
اِنَّمَابُعِثْتُ مُعَلِّمًا (مشکوۃ)

یعنی مجھے استاد بنا کر بھیجا گیا ہے ۔ یہ حدیث بتاتی ہے کہ پڑھانا اور تعلیم دینا تو نبوت کے خصائل میں سے ہے ۔ جو لوگ دوسروں کو تعلیم دیتے ہیں وہ اصل میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مشن کی تکمیل کرتے ہیں ۔ کسی شخص کی اس سے بڑ ی خوش قسمتی نہیں ہو سکتی کہ وہ آپ کے کام کو آگے بڑھائے ۔ اور بلاشبہ ایک استاد اس عظیم منصب پر فائز ہوتا ہے ۔
ایک استاد کا کردار فرد اور قوم دونوں کی زندگی میں بڑا غیر معمولی ہوتا ہے۔ ہر فرد اپنی زندگی کا ایک بڑ ا حصہ اساتذہ کی زیرِ نگرانی گزارتا ہے۔ بچپن اور جوانی کا یہ حصہ بلاشبہ اس کی زندگی کا بہترین حصہ ہوتا ہے جس میں اس کی شخصیت پایہء تکمیل تک پہنچتی ہے۔ اس کا ذہن ایک سادہ تختی کی مانند ہوتا ہے۔ اساتذہ کے پاس دس پندرہ سال کا موقع ہوتا ہے کہ وہ جو چاہیں اس تختی پر لکھ ڈالیں۔ وہ چاہیں تو اس شخص کو ایک بہترین انسان بنا سکتے ہیں۔ وہ چاہیں تو معاشرے کو ایک دیانت دار، محنتی، با اخلاق اور با کردار شخص دے سکتے ہیں۔ تاہم ان کے لیے یہ بھی ممکن ہوتا ہے کہ وہ اس خالی ذہن پر بدکرداری کی سیاہی مل دیں۔ کوئی بھی استاد ایسا جان بوجھ کر نہیں کرتا۔ ایک استاد کسی طالب علم کو صرف اس وقت برا بناتا ہے جب وہ اس کے سامنے ایک برا کردار پیش کرے۔ جب طلبا کے سامنے ایک غیر ذمہ دار، مفاد پرست اور بے کردارانسان استاد کے روپ میں آتا ہے تو اسے بچوں کو بگاڑنے کے لیے کچھ کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اسے دیکھ کر اس کے طلبا خود بخود ویسے ہی ہوجاتے ہیں۔فرد کے ساتھ ساتھ قومی زندگی میں بھی اساتذہ کی غیرمعمولی اہمیت ہوتی ہے۔ آج کل قوموں کا عروج و زوال اس بات سے وابستہ ہے کہ وہ علم و ہنر میں کتنا آگے ہیں۔ یہ اساتذہ کی محنت اور توجہ ہوتی ہے جو کسی قوم میں اعلیٰ اذہان پیدا کرتی ہے ۔ ہر بڑا سائنسدان، عالم، قائد اور عبقری (Genius) کبھی نہ کبھی ایک طالبِ علم رہا ہوتا ہے جہاں اس کا استاد وہ بنیاد رکھ دیتا ہے جس کی بنا پر ملک و قوم کو ایک مفید اور کارآمد شخص میسر آ جاتا ہے۔استاد بننا ایک بہت بڑی ذمہ داری ہے ۔ ایک استاد اگر اپنی ذمہ داری پوری نہیں کرتا اور دوسرے پیشوں کی طرح اسے صرف ایک پیشہ سمجھتا ہے تو گویا وہ سوسائٹی کی بنیادیں کھوکھلی کرتا ہے۔ ایسا کرنے والے لوگ ایک روز خود بھی شدید نقصان اٹھاتے ہیں کیونکہ بہرحال انہیں اسی معاشرے میں رہنا ہوتا ہے اور معاشرے کا نقصان آخرکار ان کا نقصان ثابت ہوتا ہے۔مختصر یہ کہ اچھے اساتذہ حقیقی معنوں میں ملک و قوم اور مستقبل کے معمار ہوتے ہیں ۔ یہ وہ خاموش مجاہد ہیں جن کی خدمات کا بدلہ اس دنیا میں دیا جانا ممکن نہیں۔ قیامت کے دن جب سب کچھ جاننے والا علیم و خبیر انصاف کے تخت پر بیٹھے گا تو جن لوگوں کو اس کی بارگاہ سے سب سے زیادہ رحمتیں اور درجات نصیب ہوں گے، ان میں سے ایک گروہ اچھے اساتذہ کا بھی ہو گا۔ اس لیے کہ ہر کسی کا عمل اس کی ذات کے ساتھ ختم ہو گیا تھا، مگر استاد کا عمل نسل در نسل اور انسان در انسان بڑھتا چلا گیا۔استاد بننا پیشہ نہیں ہے ۔ استاد بننا بڑی ذمہ داری کی بات ہے۔ استاد بننا ایک بڑی خوش نصیبی کی بات ہے۔

Dr. Muhammad Hamidullah
Visit Website of Dr. Muhammad Hamidullah
Leave A Reply

Your email address will not be published.