پِل اور پُل از اطہر ہاشمی
پِل اور پُل
اطہر ہاشمی
ہمارے ٹی وی اینکرز ہی نہیں، بظاہر پڑھے لکھے تجزیہ کار بھی اردو کے الفاظ کا تلفظ بگاڑتے ہیں تو اس کا ایک فائدہ بھی ہے۔ کچھ لوگ غلط تلفظ سن کر اسے صحیح کرنے پر تل جاتے ہیں۔ اب کوئی صاحب تُل کو تَل یا تِل نہ پڑھیں کہ یہ لفظ زیر اور زبر کے ساتھ بھی ہے اور مطلب ہر ایک کا جدا۔ یہ احتیاط اس لیے کہ گزشتہ جمعرات کو جب ہماری مقدس و محترم قومی اسمبلی میں دھینگا مشتی ہوئی تو ایک ٹی وی کے نیوز اینکر بتا رہے تھے کہ فریقین ایک دوسرے پر پَل پڑے۔ یہ پَل بالفتح اور بروزن جل یا پاگل، بادل کا ہم قافیہ ہے۔ پَل، پِل اورپُل یہ بھی تین الفاظ ہیں جو ایک ہی طرح لکھے جاتے ہیں مگر مطلب ہر ایک کا مختلف ہے۔ قارئین اس سے خوب واقف ہیں اور اس مصرع سے بھی آگاہ ہوں گے کہ ’’سامان سو برس کا ہے، پَل کی خبر نہیں‘‘۔ جب (سابق) صدر جنرل پرویزمشرف کو ایک پُل پر نشانہ بنانے کی ناکام کوشش کی گئی تو انور مقصود نے یہ مصرع ذرا سی ترمیم یا زبر کو پیش بناکر پڑھا کہ ’’سامان سو برس کا ہے، پُل کی خبر نہیں‘‘۔
بہرحال قومی اسمبلی میں جو ہوا اس میں ہمارے پڑھے لکھے اور منتخب نمائندے ایک دوسرے پر پِل پڑے تھے، پَل پڑے نہیں۔ پَل ہندی کا لفظ اور پلک کا مخفف ہے۔ لحظہ، منٹ کا ساٹھواں حصہ، فوراً، لمحہ بھر میں۔ داغ دہلوی کا شعر ہے:
کوئی پَل ایسا نہیں کٹتا کہ جس میں چین ہو
دل لگاتے ہی یہ ہم پر کیا قیامت آ گئی
پل مارنے میں: لحظہ بھر میں، لمحے بھر میں۔ ناسخؔ کا شعر دیکھیے:
ایسے مرے مژہ کے ہیں بادل بھرے ہوئے
پل مارنے میں دیکھے ہیں جل تھل بھرے ہوئے
اور پُل باندھنے کا مطلب ہے مبالغہ کرنا۔
میرے پیغامبر سے اس نے کہا
جھوٹ کا خوب تُو نے پُل باندھا
(داغؔ )
کچھ عرصہ پہلے حکمرانوں نے قومی احتساب بیورو (نیب) کے پر کترنے کی دھمکی دی تھی۔ اس لفظ کو کچھ چینلز پر کاف پر پیش (بالضم) اور کچھ پر زبر کے ساتھ (بالفتح) کہا گیا۔ کَترنا اور کُترنا دونوں ہی صحیح ہیں لیکن استعمال الگ الگ ہے۔ جیسے توتا امرود کُترتا ہے، چوہا روٹی کترتا ہے۔ دوسری طرف قینچی کپڑے کترتی ہے اور کسی کی زبان کَترنی کی طرح چلتی ہے۔ اس سے ظاہر ہوا کہ کُترنا (بضم اول و فتح دوم) دانتوں سے کاٹنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ بیشتر چوہے کے لیے مستعمل ہے۔
لیکن انسان بھی دانتوں سے روٹی کُتر لیتے ہیں۔
کُترنا کا ایک معنی بیچ میں سے رقم رکھ لینا بھی ہے، جیسے سو روپے میں سے 5 تم نے بھی کُتر لیے۔ آج کل اس کو ’’پلی بارگین‘‘ یا کمیشن کہتے ہیں۔
کَترنا (بفتح اول) کا مطلب ہے کسی تیز دھار چیز مثلاً قینچی سے کاٹنا۔ کپڑے کے تراشنے میں جو چھوٹے چھوٹے ٹکڑے نکلتے ہیں انہیں کتّر کہتے ہیں۔ اس میں ’ت‘ پر تشدید ہے، لیکن لکھنؤ والے بغیر تشدید کے کتر ڈالتے ہیں۔ اس سے ایک لفظ ’’کتر بیونت‘‘ بنا ہے، یعنی تراش خراش، کاٹ چھانٹ وغیرہ۔ سودے سلف یا خرید و فروخت میں سے بچانا، خوردبرد وغیرہ، جیسے ’’جو روز بازار سے سودا آتا ہے، اس میں سے یہ نامراد بڑی کتر بیونت کرتی ہے‘‘۔ خود گھر والی یہ کام کرے تو اسے کفایت شعاری کا نام دے دیا جاتا ہے۔ کترنی چوں کہ قینچی کو کہتے ہیں اسی لیے قینچی کی طرح چلنے والی زبان کو بھی کترنی سے تشبیہ دیتے ہیں۔ اس کا نمونہ کسی بھی ٹی وی چینل پر دیکھا جا سکتا ہے۔ مصحفیؔ کو اس کا تجربہ ہوا تو فرمایا:
جب کترنی سی چلے اس کی زباں ہر بات میں
منہ میں مجھ کمبخت کے بھی پھر زباں کیوں کر رہے
ایک کترواں چال بھی ہوتی ہے یعنی ٹیڑھی چال، جسے خوش فہم خرام ناز بھی کہہ ڈالتے ہیں۔ ان خوش فہموں میں مرزا غالبؔ سرفہرست ہیں جو کہتے ہیں کہ
موجِ خرامِ یار بھی کیا گل کَتر گئی
یہ گل بھی کاف پر زبر سے ہی کترے گئے ہیں۔
روزنامہ جنگ نے بچوں کے لیے ایک اچھا قاعدہ شائع کیا ہے۔ اس میں ’’طوطا‘‘ ط سے ہے، جب کہ یہ ’’توتا‘‘ ہے۔ عزیزم راشد رحمانی نے اس کاوش کو سراہتے ہوئے طوطے پر اعتراض کیا ہے کہ یہ قاعدہ پڑھ کر بچے ’ط‘ سے توتا لکھیں اور پڑھیں گے۔
’ت‘ سے یا ’ط‘ سے توتا کا جھگڑا پرانا ہے۔ بابائے اردو مولوی عبدالحق نے تو طوطے کو توتا کردیا تھا لیکن عام لوگوں تک اس کا ابلاغ نہیں ہوا۔ مرحوم ابن انشا نے اس پر تبصرہ کیا تھا کہ ’’طوطا جب تک ط سے نہ لکھا جائے، اس کی چونچ واضح نہیں ہوتی‘‘۔ یہ تو خیر ایک مزاحیہ جملہ تھا۔ لیکن توتا چونکہ ہندی کا لفظ ہے اور ہندی میں ’ط‘ نہیں ہوتی۔ یہ خالص عربی حرف ہے۔ چنانچہ طوطے کو بھی بغیر ’ط‘ کے ہونا چاہیے۔ لیکن جب ’طوطا‘ اتنا عام ہوگیا ہے تو ہمارے خیال میں اس کو ’توتا‘ کرنے کی خاص ضرورت نہیں ہے۔ مولوی نورالحسن نیّر مرحوم کی لغت نوراللغات میں بھی وضاحت کی گئی ہے کہ توتا کا املا ’طوطا‘ صحیح نہیں ہے۔ توتا پالنا محاورہ بھی ہے۔ یعنی کسی بیماری کا علاج نہ کرکے اسے طول دینا۔ جیسے یہ مصرع
اے قدر یہ خوب تم نے توتا پالا
توتا چشمی مشہور ہے۔ یہ پرندہ بے وفا ہوتا ہے۔ استاد بحرؔ کا شعر ہے:
بحرؔ چشم دوستی سبزان دنیا سے نہ رکھ
بے وفا سب ہیں یہ توتا چشم کس کے یار ہیں
توتے کا رشتہ دار ایک پرندہ ’’توتی‘‘ بھی ہے۔ لغت کے مطابق یہ توت کے موسم میں اکثر دکھائی دیتی ہے اور شہتوت کمال رغبت سے کھاتی ہے، اسی وجہ سے اس کا نام توتی رکھا گیا۔ اہلِ عرب نے اس کا املا طوطی کرلیا ہے۔ اب نقارخانے میں طوطی کی صدا کوئی نہیں سنتا۔ خیال آیا کہ جب عربوں نے توتی کو طُوطی کرلیا تو توتے کو طوطا کرنے میں کیا قباحت ہے۔ لوگ طُوطی کو طوطے کی مونث بھی سمجھتے ہیں جب کہ یہ خود مذکر ہے۔ یہ طوطی صرف نقار خانے ہی میں نہیں بولتا بلکہ دربار، سرکار میں بھی اس کا چرچا رہتا ہے، جیسے یہ جملہ ’’آج کل وزیراعظم کے ہاں وزیرخزانہ کا طوطی بولتا ہے‘‘۔
اب قارئین یہ نہ کہہ بیٹھیں کہ ہم تو پرندوں پر پِل پڑے اور پُل باندھ دیا۔ چنانچہ منہ کا مزہ بدلنے کے لیے ایک ٹی وی اینکر کا جملہ ’’مبلّغ10کروڑ روپے دیے گئے‘‘۔ موصوف کو مبلّغ اور بغیر تشدید کے مبلغ کا فرق نہیں معلوم ہوا۔ یہ ہمارے کچھ ساتھیوں کا مبلغ علم ہے۔