ڈھیلا ڈھالا تعلق ۔۔۔ از قاری حنیف ڈار

تیل میں جب تک پانی رھتا ھے وہ پٹاخے چھوڑتا رھتا ھے ، تیل میں ڈالی جانے والی چیز میں جب تک نمی رھتی ھے تیل بھی شُر شُر کرتا رھتا ھے – جب پانی اور نمی ختم ھو جاتے ھیں تو تیل پہ بھی سکون چھا جاتا ھے اور اس میں ڈالی جانے والی چیز بھی جل جاتی ھے مگر آواز نہیں نکالتی –

گرمئ حسرتِ ناکام سے جل جاتے ھیں،،
ھم چراغوں کی طرح شام سے جل جاتے ھیں ،،

شمع جس آگ میں جلتی ھے نمائش کے لیے –
ہم اُسی آگ میں گمنام سے جل جاتے ہیں –

خود نمائی تو نہیں شیوہءِ اربابِ وفا ،،،
جن کو جلنا ہو وہ آرام سے جل جاتے ہیں –

جب تک بندے میں انا باقی رھتی ھے گلے شکوے بھی رھتے ھیں –

جب انا مر مٹ جاتی ھے تو گلے شکوے بھی ختم ھو جاتے ھیں- اور مصائب و آلام مزہ دینے لگ جاتے ھیں – انا صرف ایک ھی چیز سے مرتی ھے اس کے علاوہ اس پر کوئی چیز اثر نہیں کرتی ، اور وہ ھے محبت اور صرف محبت ، محبت جتنی زیادہ ھو گی انا اتنی گہری دفن ھو گی انا جتنی گہری دفن ھو گی محبت اُتنی زیادہ سے زیادہ ھوتی چلی جائے گی،،انا دفن ھو کر کھاد کا کام کرتی ھے ، پھر ایک ایسا وقت آتا ھے کہ آفت اور بلا اس محبت کی محبوب خوارک بن جاتی ھے ، جس قدر آفات برستی ھیں اسی قدر دل سکون محسوس کرتا ھے کہ میرا محبوب میرے ساتھ انوالو ھے ،، اسے میرا خیال ھے ، بے شک مصیبت بھیجے مگر مجھے سوچتا ضرور ھے ،، علامہ عامر عثمانی اس کیفیت کو یوں بیان کرتے ھیں ؔ

عشق کے مراحل میں وہ بھی مقام آتا ھے –
آفتیں برستی ھیں ، دل سکون پاتا ھے –

مشکلیں اے دل ، سخت ھی سہی لیکن –
یہ نصیب کیا کم ھے کہ کوئی آزماتا ھے –

جبکہ صوفی شاعر اسے یوں بیان کرتے ھیں ؎

تن میرا جے کنگھی ھووے ، میں یار دی زلفاں واہواں –
پوش میری دی جُتی بن جائے، میں یار دے قدمیں جانواں –

جے سوھنڑاں میرے دُکھ وچ راضی –
تے میں سُکھ نوں چُلہے لانواں –

میاں محمد بخش فرماتے ھیں کہ ؎

جنہاں دکھاں تے دلبر راضی، سکھ انہاں توں وارے –
دکھ قبول محمد بخشا، راضی رھن پیارے –

یہی وہ وقت ھوتا ھے کہ امتحان اٹھا لئے جاتے ھیں اور پھر خالقِ حقیقی اس بندے کے کام خود بنانے لگ جاتا ھے ،، مگر وہ بندہ دُکھ اور آزمائش کے لئے یوں ھی تڑپتا ھے جیسے ھیروئین کا نشئ نشہ ٹوٹنے پہ تڑپتا ھے – اللہ اس کو بہلانے کو کئ انعامات سے نوازتا ھے مگر وہ نفس کو بھانے والی ان چیزوں کی بجائے رب سے کچھ اور ھی مانگتا ھے اور ان کو نظر بھر کر بھی نہیں دیکھتا وہ رب کی معیت چاھتا ھے – جس طرح بچہ آپ کے ساتھ شہر جانے کی ضد کرے اور تو آپ اسے بہلانے کے لئے بن مانگے قسم قسم کے کھلونوں اور وعدے وعید کے ذریعے بہلانے کی کوشش کرتے ھیں کہ وہ ان میں بہل کر آپ کے ساتھ جانے کی ضد چھوڑ دے –

مگر یہاں تو کوئی اور ھی منظر ھے ؎

آنکس که ترا شناخت جان را چه کند؟
فرزند و عیال و خانمان را چه کند؟

دیوانه کنی هردو جهانش بخشی
دیوانۀ تو هر دو جهان را چه کند ؟

اے اللہ جس بندے نے تجھ (جانیں پیدا کرنے والی ھستی ) کو پہچان لیا ھے وہ بھلا تیری طلب کے مقابلے میں اپنی جان کی پسند ناپسند کو اھمیت کیوں دے گا ؟
وہ اپنی اولاد، رشتے داروں اور خاندان کیا کیا کرے گا ؟
اپنا دیوانہ بنا کر دو جہان ھاتھ میں پکڑا دیتے ھو ،،
تمہی بتاؤ تیرے جیسی ھستی کا طالب بھلا دو جہاں کا کیا کرے گا ؟

غالباً مفتی شفیع صاحب کے بارے میں مولانا تقی عثمانی صاحب نے لکھا ھے کہ ان کے ایک دوست ڈاکٹر نے ان سے کہا کہ میں آپ کے بدن میں بجلی داخل کرتا ھوں ،، ان کو کرسی پہ بٹھا دیا گیا اور مختلف تاریں ان کے بدن کو جوڑ کر ڈاکٹر نے ان کو چارج کرنا شروع کیا اور ساتھ بتاتا گیا کہ مفتی صاحب اتنی بجلی آپ کے بدن میں داخل ھو گئ ھے ،،مفتی صاحب فرماتے ھیں کہ مجھے بھی اپنے بدن میں کسی خارجی چیز کا وجود محسوس ھوا اور بدن نے بےچینی محسوس کی ،، اس کے بعد ڈاکٹر نے ایک بندے سے کہا کہ ان کو چھو کر دیکھو ، جونہی اس بندے نے مفتی صاحب کو ٹچ کیا ایک شعلہ سا نکلا اور پٹاخے کی سی آواز آئی ،مفتی صاحب فرماتے ھیں کہ مجھے بھی تکلیف محسوس ھوئی اور چھونے والے نے بھی جھٹکا محسوس کیا ،،پھر ڈاکٹر نے اس سے کہا کہ اب مضبوطی کے ساتھ ان کے ھاتھ پکڑ لو ، اس بندے نے مضبوطی کے ساتھ میرے ھاتھ پکڑ لئے نہ مجھے تکلیف ھوئی اور نہ اس بندے کو ،، پھر ایک تیسرے بندے سے کہا کہ تم اس دوسرے آدمی کو ٹچ کرو ،، اس نے جونہی دوسرے آدمی کو ٹچ کیا پھر وھی ھلکا سا پٹاخہ چھوٹا اور تیسرے آدمی کے ساتھ ساتھ مفتی صاحب اور دوسرے آمی کو بھی تکلیف محسوس ھوئی – اسے کہا کہ اب مضبوطی سے پکڑ لو ، مضبوطی سے پکڑنے پر نہ کوئی اسپارک ھوا اور نہ ھی کوئی تکلیف ھوئی ،،

کونیکشن لوز ھو تو گرم تار نہیں ٹھنڈی تار یعنی نیگیٹو والی بھی اسپارک کرتی اور پؤائنٹ کو جلا دیتی ھے ،، دین اور ایمان کے ساتھ کونیکشن لوز ھو تو چھوٹی چھوٹی مشکلوں پہ ھی لوگ ایمان چھوڑ کر فارغ ھو جاتے ھیں کجا یہ کہ کسی بڑی مصیبت پر استقامت کا ثبوت دیں ،،

بھوک نہ ھو تو روٹی بھی وبال بن جاتی ھے ،
محبت نہ ھو تو ایمان بھی بوجھ بن جاتا ھے،

مگر جب تعلق صرف چھونے تک محدود نہ ھو بلکہ آگے بڑھ کر بدن اور روح والا تعلق بن جائے تو پھر فرشتے دنیا میں ھی نازل ھو کر خوشخبریاں دینا شروع ھو جاتے ھیں ،
بے شک جن لوگوں نے کہا کہ ھمارا رب اللہ ھے ، پھر اس پر ڈٹ گئے نازل ھوتے ھیں ان پر فرشتے کہ مت غم کھاؤ اور نہ ھی ڈرو اور بشارت لو ھم سے اس جنت کی جس کا وعدہ تم سے کیا گیا ھے ،ھم دنیا میں بھی تمہارے دوست ھیں اور آخرت میں بھی ھونگے ، اور اس جنت میں ھر وہ چیز ھو گی جس کی چاھت تمہاری جانوں کو ھو گی اس کے باوجود اور بھی جو تم مانگو گے تمہیں ملے گا ، یہ مہمانی ھو گی بخشنے والے رب رحیم کی طرف سے ،، ( فصلت- 30-31-32 )

بس یہی دین اور ایمان کا پراسیس ھے ،جب تک انسان ایمان کے ساتھ بس ٹچ کرنے کا تعلق رکھتا ھے ،، مضبوطی کے ساتھ اس کو اپناتا نہیں ،، جب تک ایمان کے ساتھ کنکشن لوز رھتا ھے ،ھر آزمائش پہ پٹاخے چھوٹتے رھتے ھیں اور بندہ تکلیف محسوس کرتا رھتا ھے ،، مصیبتوں نے تو ھمیں رات دن چھو چھو کر دیکھنا ھی ھے کیونکہ ان کو حکم ھے کہ اس بندے کا کنکشن چیک کرتی جاؤ ،،، لوز ھے یا ٹائٹ ھے ،،

 
 
Dr. Muhammad Hamidullah
Visit Website of Dr. Muhammad Hamidullah
Leave A Reply

Your email address will not be published.