کعب بن اشرف کو کس جرم پر قتل کیا گیا تھا ؟ از مبین قریشی

کعب بن اشرف کو کس جرم پر قتل کیا گیا تھا ؟
حصہ اوّل
————————-
مستشرقین کی جانب سے لکھی جانے والی کتب میں رسول اللہ ص پر جو اعتراضات کئے جاتے ہیں ان میں سے ایک اعتراض کعب بن اشرف کا باوجود معاہد ہونے کے محض رسول اللہ کی زات پر ہجو کردینے پر دھوکے سے قتل کا بھی ہے۔ جبکہ اسکے قتل کی اصل وجہ رسول اللہ کی زات پر بطور ہجو تنقید و تنقیص نہیں تھی۔ رسول اللہ پر ہجو کہنے والے عرب میں اور بھی لوگ موجود تھے لیکن حسان بن ثابت کے مقابلے میں انھیں اسکا شدید نقصان بھی ہوا۔ حسان رض کے اشعار ہوا کی طرح پھیل کر زبان زد عام ہوجاتے تھے اور مقابلے پر کہی ہوئ ہجو حسان رض کے قصائد کے سامنے دب کر رہ جاتی تھی ۔ اسکا سراسر فائدہ اسلام کو ہوتا تھا۔ اسی لئے رسول اللہ فرمایا کرتے تھے کہ ہمارے تیر و تلوار وہ کام نہیں کرتے جو حسان بن ثابت کے اشعار کرتے ہیں۔ آپکی زات پر تنقید تو آپکے دشمنوں میں سے بہت لوگ تھے جو کرتے تھے اور آپ نے محض اس جرم پر کبھی کسی کے قتل کا حکم نہیں دیا۔ کفار کی تنقید تو بہت دور کی بات قانونی طور پر مسلمانوں کی صفوں میں موجود لوگوں (منافقین) کی جانب سے بھی تنقیص اور بے جا اپوزیشن کے کئ واقعات موجود ہیں ۔ سب سے نمایاں مثال تو عبداللہ بن ابی کی ہے جس نے متعدد مقامات پر رسول اللہ کی گستاخی کی جبکہ اسکے بیٹوں ( تین شادیوں سے اسکے ۹ لڑکے لڑکیاں تھے ، سبھی مسلمان تھے) نے بھی بارہا رسول اللہ سے متعلق اسکی بدزبانی سے تنگ آکر اسکے قتل کردینے کی اجازت چاہی مگر آپ نے اسے کبھی اجازت نہ دی۔ یہ اسوقت تک زندہ رہا جبتک کہ رسول اللہ کا غلبہ پورے جزیرہ عرب پر ہوچکا تھا اور آخری وقت تک رسول اللہ کے خلاف سازشیں کرکے نقصان پہنچانے کی کوششیں بھی کرتا رہا لیکن یہ بالاخر ( رسول اللہ کی وفات مبارک سے محض پندرہ ماہ پہلے) اپنی طبعی موت مرا اور رسول اللہ نے اسکا جنازہ بھی پڑھایا۔ اسکو قتل کردینے یا زہر دے دینے کے راستے میں کوئ رکاوٹ موجود نہ تھی لیکن رسول اللہ نے اسکے گھر اور باہر دونوں جانب سے اس طرح کی تجاویز ملنے کے باوجود انھیں ہمیشہ رد فرمادیا۔

کعب بن اشرف سے متعلق بخاری و مسلم نے چونکہ اسکے قتل کا واقعہ تو بیان کیا ہے لیکن اس قتل کی وجوہات بیان نہیں کیں اسلئے عموما اسی ایک روایت ، جو وجوہات کی بجاے دراصل واقعہ کی تفصیل ہے ، کو بطور اپنے اعتراض کی دلیل کے طور پر مستشرقین کی جانب سے اٹھایا گیا۔ وجوہات کی تفصیل جو مختلف مصادر میں آئ ہے اسکو سمجھنے کے لئے پس منظر کا خلاصہ سمجھنا ضروری ہے؛
۱: مدینہ کا میثاقی / دستوری پس منظر ؛
مدینہ (یثرب) پر صدیوں سے اوس و خزرج (یمنی الاصل قبیلے بنی ازد/جرھم کی شاخیں) کا غلبہ تھا۔ ویسے تو جزیرہ عرب میں کئ یہودی قبائل موجود تھے لیکن مدینہ کے تین یہودی قبائل بنو قینقاع ، بنو نضیر اور بنو قریظہ کو کاھنوں (cohens) کی نسلوں سے ہونے کی وجہ یہود ء عرب کی سیادت حاصل تھی۔ ان میں سے بنو قینقاع قبیلہ خزرج کا حلیف تھا اور بقیہ دو یہودی قبائل بنو اوس کے حلیف تھے۔ اوس و خزرج صدیوں سے باہمی خانہ جنگی اور دشمنی کا شکار تھے ۔ ہجرت سے عین پہلے ان میں آخری جنگ بعاث لڑی گئ تھی۔ اس جنگ سے دونوں قبائل نے شدید نقصان اٹھایا تھا اور انکے مابین کے صلح پسند لوگ صدیوں سے جاری خانہ جنگی کا واحد حل مدینہ کو کسی ایک مرکزی سربراہی میں دے دینے میں ہی دیکھتے تھے۔ اسی کشمکش میں انکا تعارف رسول اللہ سے ہوگیا اور وہ تیزی سے مشرف بالا سلام ہوتے چلے گئے۔ ہجرت کے موقعہ تک اوس و خزرج دونوں قبائل بمعہ اپنے سرداوں کے مسلمان ہوچکے تھے۔ اسطرح ان دونوں قبائل کو ایک مشترکہ غیر جانبدار نظم اجتماعی ایک سردار یا حکمران سے بہت اپر اٹھ کرایک پیغمبر و واجب الاطاعت خدا کے سفیر کی صورت میں حاصل ہوگئ۔
اوس و خزرج کی خانہ جنگیوں میں انکے حلیف یہودی قبائل بھی آپس کی دشمنی میں مبتلا چلے آرہے تھے۔ جنگ بعاث کے دوران یہ چپقلش بہت ذیادہ اسلئے بڑھ گئ تھی کیونکہ بنو نضیر اور بنو قریظہ کے چالیس لوگوں کو جنگی سازشوں کی وجہ سے بنو خزرج نے بنو قینقاع کی مخبری پر قیدی بنالیا تھا۔ خزرج نے تاوان کے طور پر ان دونوں قبائل کی زمینیں مانگی تھیں ۔ بنو اوس نے دونوں قبائل کو زمینیں نہ حوالے کرنے کا مشورہ دے کر انکا بھرپور ساتھ دینے کا وعدہ کیا تھا۔ بنو قینقاع کے مشورے سے خزرج نے دباو بڑھانے کے لئے قیدیوں کو قتل کرنا شروع کردیا تھا جس سے جنگ شدید ہوگئ۔ بالاخر اوس اور اسکے موالیوں کو جنگ میں جزوی برتری ملی تھی لیکن اس جنگ نے جانبین کے سرداروں کے قتل سمیت ایک دوسرے کے لئے انمٹ اثرات چھوڑے۔ اوس و خزرج کی باہمی عداوت کا غیر جانبدار مداوا تو رسول اللہ کی شکل میں میسر آگیا تھا لیکن یہود چونکہ رسول اللہ پر ایمان نہیں لے کر آے اور ناں ہی آپس میں کوئ نظم اجتماعی بنا سکے اسلئے انکی باہمی رنجشوں میں کمی واقع نہ ہوسکی۔

رسول اللہ کے نے مدینہ ہجرت کے بعد اوس و خزرج کی سربراہی اور نتیجتا مدینہ کی حکمرانی سنمبھالی۔ یہود سے آپکا جو تحریری معاہدہ ہوا اسے میثاق مدینہ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ اس تحریری معاہدے کہ کچھ نکات درج ذیل ہیں؛
ان علی الیھود نفقتھم و علی المسلمین نفقتھم۔ وان بینھم النصر علی من حارب اھل ھذہ الصحیفہ، وان بینھم النصح والنصیحہ والبر دون الاثم، وانہ لم یاثم امرو بحلفیہ، وان الجصر للمظلوم، وان الیھود ینفقون مع المومنین ما داموں محاربین، وان یثرب حرام جوفھا لاھل ھذہ الصحیفہ، ۔۔۔۔ وانہ ماکان بین اھل ھذہ الصحیفہ من حدث او اشتجار یخاف فساعہ فان مردہ الی اللہ عزوجل و الی محمد رسولا اللہ۔۔۔۔۔وانہ لاتجار قریش ولا من نصرھا ، وان بینھم النصر علی من دھم یثرب۔ علی کل اناس حصتم من جانبھم الذی قبلھم ( ابن ھشام ج ۲ ص ۱۴۷ تا ۱۵۰)۔
یہ کہ یہودی اپنا اجتماعی خرچ خود اٹھائیں گے اور مسلمان اپنا خود ( یعنی نظم اجتماعی کی ضرورت کے لئے زکواہ و صدقات کا بوجھ یہود پر نہیں ہوگا)، اور یہ کہ اس معاہدے کے شرکاء کسی بھی فریق پر بیرونی حملہ آور کے مقابلے میں ایک دوسرے کی مدد کے پابند ہونگے۔ اور یہ کہ پورے خلوص کیساتھ ایک دوسرے کی خیرخواہی چاہئں گے، اور انکے مابین باہمی خیر خواہی اور بھلائ کا تعلق ہوگا ناکہ باہمی حق تلفی و بدخواہی کا۔ اور یہ کہ کوئ اس معاہدے سے بننے والے حلیف کے ساتھ کبھی زیادتی نہیں کرے گا، اور یہ کہ زیادتی کی صورت میں شرکاء مظلوم کے فیصلے کے ساتھ کھڑے ہونے کے پابند ہونگے۔ جنگ ہوجانے کی صورت میں مسلمان اور یہود مل کر جنگ کے مصارف اٹھائیں گے، اور یہ کہ اس معاہدے کے شرکاء پر یثرب میں کسی نوعیت کا فتنہ و فساد کرنا ممنوع ہے، اور یہ کہ اگر اس معاہدے کے شرکاء کے مابین ہی اگر کوئ قضیہ پیدا ہوجاے جس سے فساد کا خوف ہو تو اسکا فیصلہ اللہ کے قانون ( تورات /قرآن) کے مطابق محمد رسول اللہ کریں گے۔۔۔۔اور یہ کہ قریش اور اسکے حامیوں کو کوئ امان نہیں دے سکتا، اور یہ کہ یثرب پر جو بھی حملہ آور ہو اسکے مقابلے کیلئے شرکاء معاہدہ ایک دوسرے کی مدد کے پابند ہونگے، ہر فریق اپنے جانب کے علاقے کی مدافعت کا زمہ دار ہوگا۔ ( ابن ھشام ج ۲ ص ۱۴۷ تا ۱۵۰)۔

یہ تحریری معاہدہ مدینہ ہجرت کےساتھ ہی طے پاگیا تھا جس پر اوس و خزرج کے مسلمان سرداروں اور انکے پہلے سے حلیف یہودی قبائل ( خزرج کے حلیف بنو قینقاع اور اوس کے حریف بنو نضیر اور بنو قریظہ) نے باہمی بحث و مباحثے کے بعد دستخط کئے تھے اسلئے قریش مکہ کے بار بار کی دھمکیوں ( کہ رسول اللہ کو انکے حوالے کردیا جاے) کے باوجود بھی فریقین ایک دوسرے کو معاہدے کے دوسال تک اپنے معاہدے پر کاربند رہنے کی بظاہر یقین دھانی کرواتے رہے۔

۲: زاتی مفادات کے لئے عمرانی معاہدے کے خلاف سازشیں؛
رسول اللہ کی مدینہ میں آمد سے پہلے خزرج کے سردار عبداللہ بن ابئ کا نام بطور مشترکہ حاکم کے زیر غور تھا۔ اسکا قبیلہ بھی اوس کی نسبت بڑا اور مظبوط تھا اور اسکا حلیف قبیلہ بنو قینقاع بھی بقیہ دو یہودی قبائل کی نسبت مالی طور پر بھی ذیادہ مظبوط تھا اور انکے برعکس مدینہ کے اندر بھی آباد تھا ( باقی دونوں شہر سے باہر آباد تھے)۔ یہ زمیندار کی بجاے سرمایہ دار قبیلہ تھا۔ مدینہ کا بازار انھی کے محلے میں تھا جہاں اس قبیلے کے لوگ سونا، کپڑے، اسلحہ اور روز مرہ کی ضروریات کی تجارت کرتے تھے۔ انکے امراء کا پیشہ سود ( بینکنگ ) تھا جو قریش سمیت مختلف تجارت پیشہ قبائل کو سود پر تجارتی قرضے دیتے تھے۔ عبداللہ بن ابئ نے چونکہ جنگ بعاث میں حصہ نہیں لیا تھا اور اس نے یہودی قیدیوں کے قتل پر خزرج کے سردار سے مخالفت بھی کی تھی اسلئے بطور مشترکہ سردار کے اسکے نام کو بڑی حمایت حاصل تھی۔ اگرچہ جنگ بعاث کے اثرات کی وجہ سے رسول اللہ کی ہجرت تک مدینہ کے یہ قبائل باہمی چپقلش سے باہر نہ آسکنے کی وجہ سے کسی نتیجے پر نہ پہنچ سکے تھے۔ لیکن اسکے باوجود ابن ابئ مدینہ کا سب سے ذیادہ بااثر آدمی ہونے کا اسٹیٹس پاچکا تھا۔ رسول اللہ بھی اسکو خاص اہمیت دیتے تھے لیکن آپکا بطور رسول خدا کی جانب سے آجانے والے فیصلے کے بعد اسکے قبیلے اور اوس کے مسلمانوں کی غیر مشروط فرمانبرداری نے اسمیں حسد پیدا کردیا۔ رسول اللہ اگر مدینہ نہ آتے تو یہ مدینہ کا بادشاہ ہونے کا امکان رکھتا تھا۔ اسکے مدینہ اور اسکے گرد و نواح میں بدکاری کے اڈے بھی تھے جو رسول اللہ کے مدینہ آنے کے بعد خطرے میں آگئے تھے۔ غلاموں اور لونڈیوں کی آذادی کی مہم اور زکواہ و صدقات بھی اسے اپنی معاشی استحکام کے راستے میں خطرہ محسوس ہوتے تھے۔ لیکن اسکا مسئلہ یہ تھا کہ اسکا اپنا قبیلہ بشمول اسکی اولاد کے رسول اللہ کو خدا کا سچا نبی مانتے تھے۔ اسکے ساتھ اسکے قبیلے کے چند ایک لوگ ہی باقی بچے تھے جنکی وفاداریاں اسکے ساتھ تھیں ۔ لہذا اس نے انھی چند لوگوں بشمول اپنے حلیف بنو قینقاع یہودی قبیلے کے قریش مکہ کیساتھ ملکر ایسی خفیہ سازشیں کھیلنے کا منصوبہ بنایا جنکے نتیجے میں یا تو رسول اللہ مدینہ اسکے حوالے کرکے واپس مکہ چلے جائیں یا پھر کسی طرح شہید کردئے جائیں ۔ جنگ بدر اسی سازش کا حصہ تھی ۔ جسکے مطابق مکہ کے تجارتی قافلے کے مدینہ کے قریب رات کی تاریکی میں خزرج و قینقاع کے لوگ خفیہ سازش کے مطابق لوٹ مار کرکے مسلمانوں پر الزام لگا دیتے اور اسی اثناء میں قریش کی فوج مدینہ کے قریب پہنچ چکی ہوتی اور وہ مسلمانوں کو پہلے سے کسی جنگ کے لئے تیار ہونے کی مہلت ملے بغیر ان پر حملہ کرکے انکا خاتمہ کردیتی۔ رسول اللہ کو اس ساری سازش سے ایک خواب میں مطلع کردیا گیا اور آپ نے تجارتی قافلے کے مدینہ کے قریب پہنچنے سے دو دن پہلے مدینہ اپنے ساتھیوں سے خالی کرکے مکہ والے لشکر کی جانب کوچ کیا۔ اسطرح قافلہ لوٹ کر مسلمانوں پر الزام نہ لگ سکنے کی وجہ سے بظاہر یہ سازش ناکام ہوگئ۔ لیکن مکہ سے قریش کے ساتھ آنے والی فوج کے کچھ سردار، جو سازش کے فریق تھے ،خبر کے غلط ثابت ہوجانے کے باوجود باقی سرداروں کو جنگ کے لئے قائل کرنے پر کامیاب ہوگئے۔ بالاخر اس سازشی جنگ کے نتیجے میں قریش کی ساری لیڈرشپ قرآن اور عہد نامہ عتیق کی پیشن گوئیوں کے عین مصداق مسلمانوں کی جنگ کے اسباب میں اخلاقی فتح کیساتھ ماری گئ۔ بنو قینقاع اپنی سازش کی اس شکست کو چھپانے میں بری طرح ناکام رہے اور کھل کر میثاق مدینہ کے متفقہ دستور کے برخلاف مسلمانوں کے خلاف جنگ کا اعلان کردیا۔ ایک مسلمان خاتون کو اپنے بازار میں دیکھ کر اس پر حملہ آور ہوے جسکے نتیجے میں دونوں جانب سے قتل ہوگیا۔ رسول اللہ میثاق کے مطابق حالات پر قابو پانے کے لئے گئے تو انھوں نے تلواریں سونت کر جنگ کا اعلان کردیا۔ جس پر مسلمانوں نے انھیں گھیر لیا اور بالاخر پندرہ دن کے گھیراو کے بعد میثاق مدینہ کے مطابق انکی اپنی خواہش پر فیصلہ تورات کے مطابق ہونا طے پاگیا۔ میثاق مدینہ کے دو فریق دوسرے دو یہودی قبیلے بھی تھے جنکے خلاف بنو قینقاع نے جنگ بعاث میں بہت گھناؤنا کردار ادا کیا تھا اسلئے انکی خواہش یہ تھی کہ تورات کے مطابق فیصلہ کرکے سارے قبیلے کو موت کی سزا دی جاے۔ بنو قینقاع شائد وحی کی وجہ سے انکی سازش کی خبر کا تو انکار کردیتے لیکن بدر کے قیدیوں کی مدینہ میں موجودگی ، رسول اللہ اور صحابہ کی مکہ میں رشتہ داریوں اور اوس و یہود قبائل کی مخبریوں کی بدولت بنو قینقاع اپنی خفیہ سازش سے انکار کی پوزیشن میں بھی نہ تھے اسلئے انھوں نے جنگی صورتحال برپا کرکے اپنی جان چھڑانے کی کوشش کی تھی۔ تورات کے مطابق وہ اسی سزا کے مستحق تھے جو حضرت موسی نے عمالقہ کو دی تھی۔ عمالقہ کا جرم اس لحاظ سے ان سے چھوٹا تھا کہ وہ حضرت موسی کیساتھ کسی معاہدے کے فریق بن کر اور انھیں اپنے متعلق مطمئن کرکے انکی قوم کو ختم کرنے کے درپے نہیں ہوے تھے۔ تاہم رسول اللہ نے سارے فریقین معاہدہ کی تجاویز کے برعکس انکے حلیف عبداللہ بن ابئ کی سفارش پر کسی ہلکی سزا دینے پر اکتفا کیا ۔ لہذا آپ نے حرابہ کی سب سے ہلکی سزا کے تحت تین دن کی تیاری کا موقعہ دے کر مدینہ چھوڑنے کا حکم
دے دیا۔

فیس بک پوسٹ

کعب بن اشرف کو کس جرم پر قتل کیا گیا تھا ؟
حصہ دوم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسکا والد اشرف بھی اوس و خزرج کی طرح یمنی الاصل قحطانی قبیلے بنی طے ( آجکل عربوں کا الشمری قبیلہ) سے تھا۔ اشرف مدینہ میں بنو نضیر کے حلیف کے طور پر آباد ہوا تھا۔ ایک مالدار تاجر ہونے کی وجہ سے اس نے مدینے کے یہودی قبیلے بنو نضیر میں اسقدر مقام حاصل کیا کہ یہود کے مقتدا اور تاجر الحجاز ابو رافع بن ابی الحقیق کا داماد بنا۔ اشرف کی اس یہودی بیوی سے کعب پیدا ہوا۔ اس دو طرفہ رشتہ داری کی وجہ سے کعب بن اشرف یہود اورعرب سے برابری کا تعلق رکھتا تھا۔ ماں کی وجہ سے یہودی مذہب پر ہونے کی وجہ سے بنو نضیر کے یہودی علماء پر اس کا اثر و رسوخ اس لئے بھی کافی ذیادہ تھا کیونکہ ان میں سے اکثر اسی کے وظیفہ خوار تھے۔ اسکا قلعہ مدینہ سے باہر بنو نضیر کی آبادی کے پیچھے واقع تھا۔ میثاق مدینہ کے فریق کے طور پر تینوں یہودی قبائل پر لازم تھا کہ مکہ سے آتے ہوے قریش کے لشکر کا مقابلہ کرنے کے لئے رسول اللہ کا نہ صرف ساتھ دیتے بلکہ جنگ کے مصارف بھی ساتھ برداشت کرتے۔ لیکن جیسا کہ پچھلی پوسٹ میں واضح کیا کہ بنو قینقاع تو قریش کے لشکر کی سازش کے فریق تھے جبکہ بنو نضیر کا یہ موالی آدھا تیتر آدھا بٹیر کعب بن اشرف بنو نضیر کے باقی سرداروں سے مشورہ لئے بغیر اپنے چالیس مجلسی بندے لے کر تعزیت کے بہانے مکہ پہنچا۔

اسے مدینہ میں جونہی قریش کے سرداروں کے قتل کی خبر ملی تو اس نے اطلاع دینے والے سے پوچھا کہ کیا واقعی ایسا ہوا ہے؟ سرداران قریش عرب کے اشراف اور بادشاہ تھے۔ اگر واقعتا محمد ( ص) نے انھیں مار گرایا ہے تو پھر میرے لئے زمین کا پیٹ ( قبر) اسکی پشت سے ذیادہ بہتر ہے۔ خبر دینے والے نے جونہی اسے یقین دلایا کہ یہ یقینی خبر ہے تو یہ فورا اپنی مجلس میں بیٹھے ہوے چالیس متوسلین ( جو ذیادہ تر اس سے قرضہ لینے آتے تھے) کو لیکر تعزیت کے بہانے مکہ پہنچ گیا۔ کیونکہ یہ ایک اچھا شاعر بھی تھا اسلئے اس نے مکہ کی تعزیتی مجلسوں میں قریش کے حق میں اور مسلمانوں کے خلاف خوب مرثیئے پڑھے۔ اپنے مرثیوں میں اس نے انتہا درجہ کی پستی پر اترتے ہوے مسلمان عورتوں کے متعلق فحش اشعار بھی پڑھے۔ ایک اچھے زاکر کی طرح خود بھی خوب رویا اور اہل مجلس کو بھی خوب رلا رلا کر بدلہ لینے کے لئے انکی غیرت کو خوب جنجھوڑتا رہا۔ یہ تاجر ہونے کی وجہ سے ابوسفیان کے مزاج سے خوب واقف تھا۔ اسے اندیشہ تھا کہ کہیں وقت گزرنے کیساتھ ابوسفیان اہل مکہ کو مطمئن نہ کرلے۔ اسلئے یہ مقتولین کے ورثاء کو ساتھ ملا کر ابوسفیان کو حرم میں لے آیا ۔ وہاں اس نے کعبہ کا غلاف پکڑ کر ابوسفیان اور مقتولین کے ورثاء سے بدر کے مقتولین کے بدلے کا عہد لیا۔

اس دوران اسکے بطور یہودی مواحد اور مسلمانوں سے عقائد میں اشتراک ہونے کے ابوسفیان نے اسے ایک سوال کے زریعے پھنسا کر بیچ میں سے نکالنا بھی چاہا۔ سوال یہ تھا کہ خدا کے متعلق عقائد کے لحاظ سے یہودی مذہب کے مطابق مسلمان ٹھیک مقام پر کھڑے ہیں یا کہ مشرکین مکہ، نیز ان دونوں فریقوں میں یہودی مذہب کے مطابق کون ذیادہ ہدایت یافتہ ہے؟ مجمعے کے سامنے اس سوال کا جواب لینے میں غالبا ابوسفیان کے ذھن میں متوقعہ جواب آنے پر قریش مکہ کو اس سے بدظن کرنے کی حکمت تھی۔ لیکن کعب بن اشرف نے جواب دیا کہ تم لوگ ان سے ذیادہ ہدایت یافتہ اور افضل ہو۔ اس نے حرم کا غلاف پکڑ کر اپنی جانب سے مشرکین مکہ کے سامنے یہ عہد بھی کیا کہ وہ قریش مکہ سے بھی پہلے محمد (ص) کو قتل کرنے کے لئے موقعہ کی تلاش میں رہے گا۔ اسکا یہ عمل بلا شک حرابہ کا عمل تھا۔ وہ بنو نضیر کی جانب سے دستخط شدہ دستور مدینہ یا میثاق مدینہ کے مطابق پہلے تو مسلمانوں کے لشکر کا حصہ بن کر قریش مکہ کے لشکر کے خلاف لڑنے کا پابند تھا ۔ اسکے بعد جنگ کے مصارف میں حصہ ڈالنے کا بھی پابند تھا۔ جبکہ یہ اس معاہدے کے برخلاف کعبے کے غلاف پکڑوا پکڑوا کر مشرکین مکہ سے مدینہ پر چڑھائ کے عہد لے رہا تھا اور خود بھی موقعہ ملتے ہی رسول اللہ کو شہید کردینے کے عہد دے رہا تھا۔

اسکے اس سارے عمل کا ذکر کرکے زرقانی جلد دوم صفحہ ۱۰ سے ۱۲ میں رسول اللہ ﷺ کا یہ تبصرہ نقل کیا گیا ہے کہ “ اس کعب نے کھل کر ہمارے خلاف دشمنی کا اعلان کردیا ہے ، اس نے ہمارے خلاف بہت بری باتیں کیں اور موحدین پر محارب مشرکین کو ترجیح دی اور انھیں ہمارے خلاف اکھٹا کر آیا ہے” ۔ زرقانی نے اسی جلد دوم کے صفحہ ۱۲ پر اور فتح الباری نے بھی یہ حوالے دے کر یہ بھی لکھا کہ مدینہ واپس آکر اس نے اپنے قبیلے کے کچھ یہود کی ایک دعوت کی جسمیں اس نے انکے ساتھ یہ سازش تیار کی کہ وہ محمد ( ص) کو ایک کھانے کی دعوت پر بلاے گا اور جونہی وہ کمرے میں داخل ہوں ان پر جھپٹ کر حملہ کرکے شہید کردینا ہے۔ بخاری و مسلم میں کعب بن اشرف کے قتل کے واقعہ کی روایت حضرت جابر بن عبداللہ سے ہے جو قتل کے اسباب کی بجاے ترجمہ الباب کی وجہ سے واقعہ کی متعلقہ تفصیل سے متعلق ہے۔ اس میں صرف یہ کہا گیا ہے کہ وہ اللہ اور رسول (یعنی حکومت الہیہ) کے لئے موذی بن گیا تھا۔ جبکہ ابو داؤد کی روایت جو حضرت کعب بن مالک نے اپنے والد ابئ بن کعب ( قرآن کے عالم ، رسول اللہ کے کاتب اور بیعت عقبہ میں ایمان لانے والے) سے سنی ہے میں یہ اضافہ ہے کہ اس نے رسول اللہ کی شان میں ہجو کرکے قریش مکہ کو آپ سے بدلہ لینے پر اکسایا تھا۔

بخاری و مسلم کی روایت سے اندازہ ہوتا ہے کہ جیسے رسول اللہ نے بھری مجلس میں یہ معاملہ رکھ کر پوچھا تھا کہ اسے کون قتل کرے گا؟ اسکے برعکس ابو داؤد کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ نے اس معاملے کو بنو اوس کے سردار حضرت سعد بن معاذ کے زمے لگادیا تھا۔ امام زرقانی نے بھی مزکورہ بالا حوالے میں تصریح کی ہے معاملہ مکمل طور پر حضرت سعدکے زمے کردیا گیا تھا۔ ابو داؤد کی روایت ذیادہ مفصل اور قرین قیاس ہے کہ کیونکہ بنو نضیر والے بنو اوس کے موالی تھے اسلئے معاملے کی تحقیق اور کعب بن اشرف سے متعلق کوئ فیصلہ کرنے سے پہلے میثاق مدینہ کے بنو نضیر اور بنو قریظہ کے سرداروں کو اعتماد میں لینے کے لئے معاملے کو حضرت سعد کے حوالے کرنا ہی قرین قیاس ہے ۔ ابو داؤد کی روایت میں یہ بھی اضافہ ہے کہ صبح اسکے قبیلے کی عوام کو کانفیڈینس میں لیکر انکے ساتھ میثاق مدینہ سے ہٹ کر خاص طور پر ایک معاہدہ لکھا گیا۔ بنو نضیر اور بنو قریظہ چونکہ مسلمانوں کا رخ بنو قینقاع سے پھیر کر اپنی جانب نہیں کرنا چاہتے تھے اور کعب بن اشرف کے بطور محارب کے اقدامات کو میثاق مدینہ کی روشنی میں جسٹیفائ کرنا بھی ممکن نہ تھا اسلئے غالبا یہود سرداروں اور حضرت سعد کی سطح پر اسکے خفیہ قتل پر اتفاق طے پاگیا تھا۔ اسکی تقتیل کے واقعہ میں یہ بات موجود ہے کہ اسکے قتل کے زمہ دار ( اسکے رضاعی بھائ حضرت ابو نائلہ اور حضرت محمد بن مسلمہ ) اسے اسکے قلعے سے دور شعب عجوز کی جانب لیکر گئے تھے اور حملے کے دوران وہ اتنے زور سے چیخا کہ گردو پیش میں ہلچل مچ گئ تھی اور کوئ ایسا قلعہ نہ بچا تھا کہ جس پر آگ روشن نہ کی گئ ہو لیکن جوابی طور پر کچھ بھی نہ ہوا۔ اور ابو داؤد کی روایت میں ہے کہ اسکے اپنے قبیلے ( باپ کی طرف ) سے لوگ صبح رسول اللہ کے پاس اپنے سردار کی موت کی خبر لے کر آے۔ وہ لوگ بنو نضیر کے موالی تھے اسلئے یقینا پہلے انھی کے پاس گئے ہونگے اور انھوں نے معاملے کی تفصیل خود بتانے کی بجاے رسول اللہ کے پاس بھیج دیا ہوگا۔ رات کو بنو نضیر کے قلعوں میں اسکے قتل کا شور سن کر آگ بھی روشن ہوئ مگر کوئ اسکی مدد کو اسلئے نہیں آیا کہ بنو نضیر کے سرداروں اور حضرت سعد کے مابین پہلے ہی معاملات طے پاچکے تھے۔
ان تفصیلات سے یہ بات سامنے آئ کہ کعب بن اشرف کا اصل جرم معاہدے کا پابند ہونے کی باوجود نقض عہد کرکے مشرکین عرب کو ریاست مدینہ کے خلاف ابھارنا اور اس ضمن میں انکے ساتھ ہر طرح کے تعاون کی یقین دہانی کیساتھ ریاست کے سربراہ یعنی محمد رسول اللہ کے قتل کے اقدامات کرنا تھا۔ اس سب کے دوران اگر وہ رسول اللہ اور اصحاب رسول کی ازواج کے لئے ہجو بھی اگر کررہا تھا تو بطور محارب کے کررہا تھا۔ لیکن اسکا اصل جرم ریاست اور سربراہ ریاست کے خلاف محارب بن کر عملی اقدامات کرنا ہی تھا۔ محدثین نے عموما اس سے متعلق واقعہ کو سناتے ہوے اپنے ترجمہ الباب سے مقصود فقہ مثلا جواز الکذب فی الحرب یا الحرب خدعہ یا باب الرخصہ فی الکذب الحرب یا ما حرم علیہ من خائنہ الاعین من دون المکیدہ فی الحرب( جنگ میں دھوکے یا چال کی اجازت) وغیرہ کے موافق حصوں کو بیان کردیا ، لیکن انکے ترجمہ الباب کے موافق غیر متعلقہ تفصیل کو حذف کرتے ہوے بھی انھوں نے پورے واقعہ کی تفصیل کے تحت اسے قتل کی بجاے “ حرب” یعنی جنگ/ حرابہ کے تحت ہی لیا ہے۔ جس سے واضح ہے کہ اگرچہ انھوں نے پورا واقعہ نہ بھی بیان کیا ہو لیکن انکے نزدیک پورے واقعہ کی تفصیل قتل کے بجاے حرابہ کے تحت ہی تھی۔

مثلا مالکی امام المارزی نے اس واقعہ کی تفصیل دے کر ثابت کیا ہے کہ اسکا قتل اپنی ریاست سے نقض عہد کرکے محارب دشمن سے مل کر نقصان پہنچانے کی وجہ سے تھا ( المعلم فی فوائد مسلم للمازری ۳/۴۱) یہی بات اکثر فقہاء و علماء کے حوالوں سے شافعی امام ابو سلیمان خطابی نے لکھی ہے ( معالم السنن للخطابی۲/۲۳۷ اور اعلام الحدیث للخطابی ۲/۱۲۶۰، شرح السنہ للبغوی ۱۱/۴۵، فتح الباری ۶/۱۶۰)۔ اسی طرح ایک اور شافعی امام ابو الحسن ابن بطال البکری القرطبی نے شرح صحیح البخاری (۷/۲۷) میں بانہ اذی اللہ و رسولہ کی تشریح میں کہا کان الکعب عھد لنقضہ بالاذی ولوجب حربہ۔ اسی طرح اگرچہ امام ابن تیمیہ نے الصارم المسلول میں جابجا دلیل کی بجاے دھاندلی سے کام لیا ہے لیکن انھوں نے کعب بن اشرف کو نقض عہد کے تحت ہی گنوایا ہے ( ثم نقضت بنو قینقاع عھدہ فحاربھم، ثم نقض عھدھ کعب بن الاشرف، ثم نقض عھدھ بنو النضیر ثم بنو قریظہ۔ الصارم المسلول ۲/۱۵۲)۔ اسکو معاند حربی کی لسٹ سے کسی قدیم اہل علم نے کبھی نہیں نکالا۔ یہی اسکا اصلی جرم تھا جو حرابہ کے تحت قتل کی سزا کا مؤجب بنا۔ جبکہ باقی معاہد یہود میں سے لوگ لاکھ رسول اللہ کے متعلق نقد و تنقیص کرتے تھے لیکن ان میں سے کبھی کسی کو اس جرم پر قتل نہیں کیا گیا۔
ختم شد ۔۔

Dr. Muhammad Hamidullah
Visit Website of Dr. Muhammad Hamidullah
Leave A Reply

Your email address will not be published.