کلچر اور دین۔۔۔ قاری حنیف ڈار

کلچر اور دین

قاری حنیف ڈار

کلچر ایک مکسچر ھے جس میں مذھب بھی ایک مسالے کے طور پر موجود ھوتا ھے ، شادی بیاہ ، موت جنازہ اور اپنی مذھبی شخصیات سے محبت کے اظہار کے طریقے ، مگر کلچر مذھب سے وسیع تر چیز ھے ، کلچر کئ منزلہ عمارت ھے جس میں مذھب ایک کمرہ ھے جو پوری بلڈنگ کبھی بھی نہیں بن سکتا ،، کھانے پینے میں مرچ مسالے کلچر ھے ،حیدرآباد کے ھندو بھی ویسے ہی چٹ پٹے کھانے پکاتے اور کھاتے ہیں جیسے مسلمان ، راجھستان کی ھندو عورتیں بھی ویسا ھی پردہ کرتی ہیں جیسے مسلم عورت ، وہ چادر میں سے ایک آنکھ نکال کر چلتی ہیں ،

انصار کے شادی بیاہ مہاجرین سے الگ طریقے سے ھوا کرتے تھے ، انصار شادی میں گانے بجانے کو پسند کرتے تھے ، ایک انصاری یتیم بچی کو حضرت عائشہؓ نے پالا تھا ، جب اس کی شادی ھونے لگی تو رسول اللہ ﷺ نے حضرت عائشہؓ سے پوچھا کہ کسی گانے والی کو بھیجا ھے ؟ انصار کے لوگ شادی پر گانے کو پسند کرتے ہیں ،، دین عقیدے کا اور عبادات کے طریقے کا نام ھے ، جب ھم اسلام کو کلچر بنا کر پیش کرتے ہیں تو اصلاً ایک چھوٹی چیز کو بڑی چیز پر چڑھانے کی کوشش کرتے ہیں جیسے ۳ سال کے بچے کی شلوار ۳۰ سال کے جوان کو پہنانے کی کوشش ،، حضرت عمر فاروقؓ نے جو فرمایا تھا کہ میرے بس میں ھوتا تو میں عرب اور ایرانیوں کے درمیان آگ کی دیوار کھڑی کر دیتا ،، اس کی وجہ یہی تھی کہ آپؓ کو ادراک تھا کہ عرب کلچر محدود ھے جب کہ ایرانی جو کہ سوپر پاور اور ترقی یافتہ قوم تھے ان کا کلچر زیادہ Rich تھا ،، وہ جانتے تھے کہ جب مذھب پر اضمحلال آتا ھے تو اس کے ظواھر پہ زیادہ زور دیا جاتا ھے اور اس کا اخلاقی پہلو کمزور سے کمزور ھوتا چلا جاتا ھے ،، یہ وہ وقت ھوتا ھے جب وہ موج جو چڑھی چلی آتی تھی وہ رکتی اور پسپا ھوتی ھے اور پیچھے ہٹنے والی موج پلٹ کر بڑھتی چلی آتی ھے ،، اگر کلچر کو مذھب کے ساتھ گڈ مڈ نہ کیا جائے اور اسے کسی قوم کی عادات و اطوار تک محدود سمجھا جائے تو بقائے باھمی کے زیادہ امکانات پیدا ھوتے ہیں آپس میں تعامل بڑھتا ، نفرت کم ھوتی اور ایک دوسرے کے دین کو سمجھنے کے مواقع زیادہ سے زیادہ پیدا ھوتے چلے جاتے ہیں ،،

پنجاب کے کھانے پکانے کا اپنا کلچر ھے پاکستانی پنجاب کی بطور مسلم پنجاب تقسیم سے اس پر کوئی فرق نہیں پڑا ، یورپ میں جہاں مسلم ھوٹل دستیاب نہ ھو لوگ چٹخارے کے لئے کسی سیکھ ریستوران کا رخ کرتے ہیں ،، ھریس عربوں میں بہترین ڈش ھے اس کا مذھب کے ساتھ کوئی تعلق نہیں بہترین ھریس اسرائیلی بناتے ہیں جن میں فلسطینی مسلمان ، فسلطینی عیسائی اور فلسطینی یہود یکساں کمال دکھاتے ہیں ، پھر لبنانی اور مصری پھر خلیج والے ،، اسی طرح حمص بھی اسرائیلی ،فلسطینی اور لبنانی کمال کا بناتے ہیں ، مصری اور خلیجی اس کے بعد ہیں ،،

کلچر علاقائی ھوتا ھے ، وہ کبھی عالمی ھو ھی نہیں سکتا ، عید ایک مذھبی تہوار ھے مگر پنجاب ، کے پی کے ، بلوچستان اور سندھ ، کشمیر میں اپنے اپنے طریقے سے منایا جاتا ھے ، اس کو یکساں طریقے پر منانا اسلام کا تقاضا ھے ھی نہیں ، شلوار ھمارے علاقے کا پہناوا ھے نہ کہ اسلام کا ، لہذا پٹھان ، بلوچ اور پنجابی کی شلوار اپنے اپنے کلچر کی تمائندگی کرتی ھے ،یہانتک کہ داڑھی بتا دیتی ھے ، پگڑی بتا دیتی ھے کہ بندہ پختون ھے یا بلوچ ، حافظ حسین احمد اور مولانا فضل الرحمان کی قومیت ان کی پگڑی بتا دیتی ھے ، ایک مسلمان مکی اور کافر مکی کے لباس میں کوئی فرق نہیں تھا ، پگڑی اور داڑھی میں کوئی فرق نہیں تھا ،یہ چیزیں مذھب نہیں بلکہ کلچر بن چکی تھیں ، ان کی بنیاد پر کسی کو نیک اور متقی جب سمجھا جائے گا تو سمجھیں آپ نے ھیرے کو گدھے کے گلے میں لٹکا دیا ھے اور اسلام جیسے آفاقی دین کو کلچر جیسی معمولی چیز کے تابع کر دیا ھے جو ھر پندرہ بیس کلومیٹر کے فاصلے پر تبدیل ھو جاتی ھے ،،

سورس

Dr. Muhammad Hamidullah
Visit Website of Dr. Muhammad Hamidullah
Leave A Reply

Your email address will not be published.