کیا فاطمہ جناحؒ کو قتل کیا گیاتھا؟

ہم اگر مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح ؒ کی برسی ’ عقیدت و احترام‘ کے ساتھ منا چکے ہوں تو آئیے ایک سلگتے ہوئے سوال پر غور کر لیں۔سوال یہ ہے کہ مادرِ ملت کا انتقال کیسے ہوا؟ وہ طبعی موت مریں یا ان کا قتل کیا گیا؟
برسوں پہلے مجھے ملک معراج خالد مرحوم نے دو چیزیں پڑھنے کا حکم دیا ۔ایک ذوالفقار علی بھٹو کی کتاب ’’ متھ آف انڈی پنڈنس‘‘ تھی اور دوسرا محترمہ فاطمہ جناح کی جمہوریت کے بارے میں تقاریر ، بیانات اور خیالات تھے۔بھٹو مرحوم کی کتاب تو مجھے بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کی لائبریری سے مل گئی لیکن محترمہ فاطمہ جناح کی تقاریر کسی کتابی شکل میں نہ مل سکیں۔کسی نے بتایا کہ یہ تقاریر پاکستان آرکائیوز سے مل سکتی ہیں کیونکہ وہاں اس زمانے کے اخبارات موجود ہیں اور ان کے مطالعے سے محترمہ فاطمہ جناح کے خیالات سے آگہی ہو سکتی ہے۔چنانچہ میں وہاں پہنچ گیا۔
آرکائیوز کی انتظامیہ نے بتایا کہ اخبارات تو بہت بوسیدہ ہو چکے ہیں اس لیے ہم نے انکی فلمیں بنا لی ہیں۔آپ آرام سے سکرین پر اب تمام اخبارات کا مطالعہ کر سکتے ہیں۔دو روز تو خیریت سے گزر گئے اور میں مزے سے اپنی تاریخ کا مطالعہ کرتا رہا لیکن تیسرا دن میرے جیسے طالب علم کے لیے قیامت کا دن تھا۔اخبار میرے سامنے کھلا پڑا تھا اور محترمہ فاطمہ جناح کو غسل دینے والی دو خواتین کا بیان سامنے تھا۔ان دونوں کا کہنا تھا کہ محترمہ فاطمہ جناح کو قتل کیا گیا تھا۔دونوں خواتین کا نام بھی فاطمہ تھا، سیدہ فاطمہ قاسم اور فاطمہ بائی بچو۔میں کتنی ہی دیر سکتے کے عالم میں بیٹھا رہا۔مادر ملت کی تقاریر اب میرا موضوع نہیں تھا، بلکہ اب میرا موضوع یہ تھا کہ مادر ملت کیا واقعی قتل کی گئی تھیں۔
آرکائیوز انتظامیہ نے یہ سہولت دی ہوئی تھی کہ جو اخبار مجھے چاہیے ہوتا، اس کی فوٹو بنا کر دے دیتے تھے۔چنانچہ مجھے مادر ملت کے انتقال کے حوالے سے جو مواد مل سکا اس کی فوٹو بنواکر اپنے پاس رکھ لی۔قریبا پندرہ سال تک یہ فائل میرے پاس پڑی رہی۔آج یہ کالم لکھنے بیٹھا ہوں تو اس کا سراغ نہیں مل رہا۔کچھ باتیں البتہ یاد ہیں۔انہیں شاید کبھی بھول نہ پاؤں۔مثلاغسل دینے والی ایک خاتون کا بیان کہ مادر ملت کی گردن پر نیلا نشان تھا اور جسم پرزخموں کے گہرے نشان اور دو سوراخ تھے جن میں سے ایک میں سے خون رس رہا تھا۔ہدایت کلو کا کہنا تھا کہ مادر ملت کے پیٹ میں سوراخ تھا جہاں سے خون اور پیپ بہہ رہی تھی۔دوسری خاتون کا کہنا تھا کہ مادر ملت کے کپڑے بھی خون آلود تھے اور اس نے وہ کپڑے سنبھال کر رکھ لیے تھے کہ کبھی ایوب خان کا راج ختم ہو اور آزادانہ تحقیقات ہوں تو وہ یہ کپڑے پیش کر دے گی۔
یہ تحقیقات لیکن کبھی نہ ہو سکیں۔ایوب خان کے اقتدار سے الگ ہونے کے بعد 1972میں عدالت میں باقاعدہ ایک درخواست دائر کی گئی اور کہا گیا کہ مادر ملت کو قتل کیا گیا ہے اس لیے اس پر تحقیقات کی جائیں۔یہ درخواست غلام سرور نے دائر کی تھی اورممتاز بیگ نامی ایک مجسٹریٹ نے اس کی ابتدائی سماعت کی تھی۔17جنوری کو اس کی دوسری سماعت ہونا تھی۔معلوم نہیں وہ سماعت ہو سکی یا نہیں۔ہمیں آج یہ بھی معلوم نہیں کہ اس درخواست پر عدالت نے کوئی فیصلہ کیا تھا یا نہیں۔اس معاملے میں بس ایک خاموشی ہے۔
ایک زمانے میں مادر ملت کے قتل پر اخبارات میں اداریے لکھ کر تحقیقات کا مطالبہ ہوتا رہا پھر خاموشی چھا گئی۔ایک زمانے میں سوالات اٹھتے رہے کہ مادر ملت کا آخری دیدار لوگوں کو کیوں نہیں کرنے دیا گیا ،جنازے پر لاٹھی چارج اور بلوہ کیوں کیوں کروایا گیا؟پھر یہ سوالات وقت کی دھول میں گم ہو گئے۔
سائرہ ہاشمی نے اپنی کتاب ’ایک تاثر دو شخصیات‘ میں لکھا ہے کہ محترمہ فاطمہ جناح کا قتل کیا گیا ۔ان کے گلے پر بھی نشانات تھے اور ان کے بستر پر خون کے چھینٹے بھی پائے گئے۔بی بی سی کے مطابق معروف قانون دان شریف الدین پیرزادہ نے مشرف دور میں کہا تھا کہ ’’ چودہ اگست تک وہ محترمہ فاطمہ جناح کے قتل کے حوالے سے اہم انکشافات کریں گے‘‘ لیکن وہ بھی بعد میں خاموش ہی رہے۔’ڈان‘میں شائع ہونے والے ایک انٹر ویو میں شریف الدین پیر زادہ نے انکشاف کیا کہ قائد اعظم ؒ کے بھانجے اکبر پیر بھائی نے ایوب خان کو ایک درخواست دی تھی کہ چونکہ مادر ملت کو قتل کیا گیا اس لیے اس قتل کی تحقیقات کی جائیں لیکن ایوب خان نے قائد اعظم کے بھانجے کی یہ درخواست رد کر دی۔سندھ کے ایک تاجر حاجی گل احمد نے بھی سندھ ہائی کورٹ میں ایک پیٹیشن دائر کی تھی کہ مادر ملت کے قتل کی تحقیقات کی جائیں۔معلوم نہیں اس کا انجام کیا ہوا۔
ممتاز قانون دان اور کونسل مسلم لیگ کے رہنما حسن اے شیخ محترمہ فاطمہ جناح کے صدارتی انتخابات میں ان کے الیکشن ایجنٹ تھے ان کا کہنا تھا کہ فاطمہ جناح کا قتل ہوا ہے ۔وہ جلسوں میں قتل کی تحقیق کا مطالبہ بھی کرتے رہے۔میاں منظور بشیر جسٹس پارٹی کے کنوینیر تھے ان کا بھی یہی موقف تھا اور انہوں نے بھی متعدد بار حکومت سے تحقیقات کا مطالبہ کیا۔روزنامہ جسارت نے توایک اداریہ بھی لکھا تھا جس کا عنوان تھا ’’ مادر ملت کا قتل‘‘۔ایک اداریہ غالبا نوائے وقت نے بھی لکھا تھا۔اخبارات میں عمر رسیدہ حاجی کلو کاجو خواتین پر مشتمل غسال ٹیم کا انتظامی امور کا سربراہ تھا یہ بیان بھی شائع ہو چکا ہے کہ غسل کے دوران معلوم ہوا کہ مادر ملت کے جسم پر جگہ جگہ چوٹ اورزخموں کے نشانات ہیں،یہ دیکھ کر غسالوں نے احتجاج کرنا چاہا لیکن انہیں خاموش کرا دیا گیا۔سیدہ فاطمہ کا کہنا تھا کہ کہ فاطمہ جناح کی بھانجی بیگم رضا چانڈیو کی موجودگی میں جب میں نے میت کا جائزہ لیا تو میری روح لرز گئی۔مادر ملت کی گردن پر چار انچ لمبا زخم تھا، دایاں رخسار سوجا ہوا تھا، ان کے گھٹنے پربھی زخم تھا۔ان کی چادر خون میں لت پت تھی۔لباس پر بھی خون تھا۔خون سے چادر اور لباس اکڑ چکے تھے۔میں نے منہ کھولنا چاہا تو مجھے سختی سے منع کر دیا گیا۔خون آلود کپڑے میں نے سنبھال کر رکھ لیے کہ کبھی تحقیق ہوئی تو پیش کر دوں گی۔نواب زادہ نصر اللہ خان مرحوم کا کہنا تھا کہ انہیں مادر ملت کے قتل کا اسی وقت علم ہو گیا تھا لیکن پولیس نے معاملہ دبا دیا۔مغربی پاکستان کے وزیر داخلہ قاضی فضل اللہ کی رپورٹ میں بھی یہی کہا گیا ہے کہ مادر ملت کا قتل کیا گیا۔
دوسری غسال فاطمہ بائی بچو کا بیان 16اگست1971کے نوائے وقت میں یوں شائع ہوا کہ:’’ مادرملت کے پیٹ میں سوراخ تھا جس مین متعفن پانی بہہ رہا تھا۔ایسا لگتا تھا کسی نے انہیں بہت زدوکوب کیا ہے‘‘۔
جولائی 1986کے کراچی کے ہفت روزہ ’’ اخبار خواتین‘‘ کے مطابق قتل سے ایک روز قبل مادر ملت میر لائق علی خان کے بیٹے کی شادی کی تقریب میں تھیں اور ہشاش بشاش تھیں لیکن اچانک تقریب ادھوری چھوڑ کر روانہ ہو گئیں۔روایت ہے کہ آخری دنوں میں فاطمہ جناح قصرفاطمہ کے تمام دروازے بند کروا کر چابی اپنے پاس منگوا لیا کرتی تھیں اور اگلی صبح کھڑکی سے نیچے چابی پھینکا کرتی تھیں ۔سوال یہ ہے کہ انہیںکوئی خوف تو تھا۔یہ خوف کیوں تھا؟
بستر مرگ پر پڑے قائد اعظمؒ کی ایمبولنس کا پٹرول ختم ہو جاتا ہے اور وہ سڑک کنارے گرمی اور حبس میں کھڑی رہتی ہے۔سوال یہ ہے کیوں؟ قائد اعظم کی ایمبولینس کا پٹرول ختم ہو جانا کیا محض اتفاق ہے یا اس بات کا انتظام کیا گیا تھا کہ نحیف و نزار بوڑھا قائدحبس اور گرمی میں انتقال کر جائے؟لیاقت علی خان کا قاتل گرفتار ہو جاتا ہے لیکن موقع پر قتل کر دیا جاتا ہے اور ثبوت مٹا دیے جاتے ہیں اور پھر قتل کی فائلیں بھی ضائع ہو جاتی ہیں ۔
آدمی کس کس دکھ کو روئے؟
_______________
تحریر : صحافی آصف محمود

Dr. Muhammad Hamidullah
Visit Website of Dr. Muhammad Hamidullah
Leave A Reply

Your email address will not be published.