ھم اور ھمارا اللہ ،،،،،، از قاری حنیف ڈار
بچپن میں جب ھم نماز چھوڑ چھوڑ کر پڑھا کرتے تھے تو بڑا مزہ آیا کرتا تھا نماز میں ،،
جب کوئی چیز عادت بن جاتی ھے تو آٹو پر لگ جاتی ھے ، اور اس پر توجہ کم درکار ھوتی ھے جبکہ مزہ ختم ھو جاتا ھے ،،
اب ھم نماز کو مزے کی خاطر وقفہ دے دے کر تو نہیں پڑھ سکتے ،،مگر ایک طریقہ اب بھی موجود ھے جس کے ذریعے آپ یہ مزہ اب بھی لے سکتے ھیں ،،
ایک ھے سجدہ شکر ،،
اس سجدے کے لئے نہ تو وضو میں ھونا شرط ھے اور نہ ھی کپڑے پاک ھونے کی شرط ھے ،، بس دل میں رب کا پیار محبت شرط ھے ،،
کبھی اکیلے میں کسی پہر سر اللہ پاک کے سامنے رکھ دیجئے ، ھاتھ نیچے کی طرف نہیں بلکہ دعا کے سے انداز میں کھول کر ان کی پشت زمین سے لگا لیجئے اور اللہ پاک سے اپنی مادری زبان میں نہایت ھی بے تکلف انداز میں اپنے راز و نیاز شیئر کیجئے ، اپنی کوتاہیاں اور اس کے کرم ، ذرا تقابل کیجئے ،، اس کی نظر اندازیاں بیان کیجئے ،، کہاں پکڑنا چاھئے تھا مگر نہیں پکڑا ، کہاں لٹکانا چاھئے تھا مگر نہیں لٹکایا ، کہاں کس بات پر رول دینا چاھئے تھا مگر نہیں رولا ، کہاں اندھا کر دینا چاھئے تھا مگر نہیں کیا ، کہاں مفلوج کر دینا چاھئے تھا مگر نہیں کیا ،، اپنے دکھ پڑوسیوں سے بیان کرنے کی بجائے اللہ سے بیان کر لیجئے ، شکوے لوگوں سے کرنے کی بجائے اللہ کے سامنے رکھئے ، ایک بات پلے باندھ لیجئے انسان لوگوں سے اپنے مسائل ڈسکس کر کے ان کی نظروں سے گر جاتا ھے اور وہ اس کے دکھوں کا مداوہ بھی نہیں کر سکتے ،،جبکہ اللہ پاک سے دکھ بیان کرنے والا اللہ کی نظروں میں عزیز ھو جاتا ھے اور اللہ اس کے دکھوں کا مداوہ بھی کر سکتا ھے اور زخموں پر مرھم بھی رکھ سکتا ھے ،، کسی سے پناہ لینے والا ، پناہ دینے والوں کی نظروں سے گر جاتا ھے ،مگر اللہ وہ واحد ھستی ھے کہ جس کے بارے میں نبئ کریم ﷺ کا ارشاد ھے کہ ” عز جارک ” اے اللہ جس نے تیری پناہ پکڑی وہ عزت پا گیا ،،
اللہ پاک سے اپنے دکھ درد اور راز شیئر کرنے سے دوستی کا جذبہ پروان چڑھتا ھے ، اللہ پاک سے اپنائیت پیدا ھوتی ھے ، اپنی زبان میں ماں کی طرح چھوٹی چھوٹی باتیں اس سے ڈسکس کرو تو وہ اپنا اپنا لگتا ھے ،، اللہ کے احسانات گنوا کر Billions Thanks بولو تو دل ھلکا اور پلڑا بھاری ھوتا ھے ،، اللہ پاک سے مانگ کر لینے میں جو لذت ھے وہ خود اس چیز میں قطعاً نہیں ،، مانگ کر لینے سے وہ چیز ذاتی نہیں محبوب کا تحفہ لگتی ھے اور اس کو دیکھ کر وہ یاد آتا ھے ،، نماز سے پہلے Appetizer کے طور پر صرف پانچ منٹ لگا لئے جائیں تو نہ صرف نماز میں جان پڑ جاتی ھے بلکہ اگلے پچاس منٹ کوئی اور ھی کیفیت رھتی ھے ،،،
صحابہؓ کی زندگیاں بدلنے میں ان کی مادری زبان کا بڑا عمل دخل تھا ، ان کی نماز اپنی زبان میں اللہ پاک سے مکالمہ تھی ،ھماری جنتر منتر بن گئی ھے ،، انہین رب مکی مدنی لگتا تھا ، اپنا گرائیں لگتا تھا ، وہ ان کی زبان میں ،، ان کے استعاروں میں ، ان کی ضرب الامثال میں باتیں کرتا تھا ، وہ ان کے غلاموں کی مثال دیتا تو لگتا وہ گھر میں ھی تھا ،، وہ ان کے کھیت کھلیان کی مثال دیتا تو لگتا وہ وھاں ھی تھا ، وہ اونٹوں کی مثال دیتا ، جانوروں کی اون اور کھالوں ، خیموں اور بستروں کی مثال دیتا تو لگتا قافلے میں ھی تھا ،، اور جب وہ فرماتا کہ ” ھو معکم اینما کنتم ” وہ تمہارے ساتھ ھی تو ھوتا ھے جہاں کہیں تم ھوتے ھو ، تم تین سرگوشی کرنے والے نہیں ھوتے کہ چوتھا وہ ھوتا ھے ، اور پانچ نہیں ھوتے کہ چھٹا وہ ھوتا ھے ،، تو انہیں یقینِ کامل ھوتا تھا کہ واقعی ایسا ھے ، اللہ کی اس معیت نے ان کو بدل کر رکھ دیا ،، بد قسمتی سے نفسیاتی طور پر ھمارا خدا پتہ نہیں کتنے Light Years دور ھوتا ھے نتیجہ یہ ھے کہ ھم خدا سے دن بدن دور ھوتے جا رھے ھیں ،، ھمارا خدا عربی ھے چند جملے دھراتے ھوئے 55 سال ھو گئے ھیں اور انہی چند جملوں کا تعلق رب کے ساتھ رہ گیا ،، یہی چند جملے نیکی ھیں ، یہی میری آخرت ھیں ،، کبھی رب سے دکھ سکھ پھولنے کا موقع ھی نہیں ملا ، کسی نے راہ ھی نہیں سجھائی ، 99۔99 فیصد لوگ رب سے عرب سمجھ کر ھی چند جملوں کا تبادلہ کر لیتے ھیں جن کا مطلب تک وہ نہیں جانتے ،، اس لئے ان کو جو مزہ داتا صاحب سے اپنی مادری زبان میں بات کر کے آتا ھے وہ کبھی اللہ سے مانگ کر نہیں آتا اور نہ تسلی ھوتی ھے ،، مریض آدھا ٹھیک اپنی تکلیف بیان کر کےھوتا ھے اور آدھا ڈاکٹر کی دوا سے ،،
رب سے مکالمے کی راہ کھولئے ، رب سے مکالمے کی عادت ڈالئے اور یہ سب کچھ اس کے ساتھ اپنے گھر کی زبان میں کیجئے ،، پوسٹ شیئر کرنے سے پہلے یہ ادا ذرا کر کے آزما لیجئے – مزہ نہ آئے تو پوسٹ شیئر نہ کیجئے ،،