یاایھاالنبی لم تحرم— نبی کریمﷺ نے اپنے اوپر کیا حرام کیا تھا؟ تحریر ابن آدم

یاایھاالنبی لم تحرم— نبی کریمﷺ نے اپنے اوپر کیا حرام کیا تھا؟ قسط نمبر ۱

سورہ تحریم، مدنی سورت ہے۔ اس کے ۲ رکوع اور ۱۲ آیتیں ہیں۔ بظاہر اس سورت میں نبی اکرمﷺ کی ازدواجی زندگی کو لے کر بحث ہوئی ہے، لیکن یہ سورت اس وقت کے عرب معاشرے کی ایک غلط رسم کے خاتمہ کے سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ عام طور پر اس کا زمانہ نزول ۸ ہجری بتایا جاتا ہے جس کا کلی دار و مدار سورت کی پہلی آیت میں وارد لفظ ‘تُحَرِّمُ’ کو لے کر باہم متضاد شان نزول کی روایتوں پر ہے۔ یہ روایتیں ایک طرف جہاں آپس میں متصادم ہیں، وہیں دوسری طرف خبرِ واحد کے درجہ میں بھی ہیں۔ مزید یہ کہ ان میں سے کوئی ایک شان نزول بھی سورت کے الفاظ سے مطابقت نہیں رکھتی۔ ایسی صورت میں، متعارض روایتوں کی بنیاد پر کی گئی تفسیر، سورت کے صحیح مضمون کی نشاندہی اور وضاحت سے قاصر رہ جاتی ہے۔ تاہم نظم قرآن کی بنیاد پر اس سورت کے زمانہ نزول کا تعین اور پھر اس کی روشنی میں سورت کی تفسیر باآسانی ہو جاتی ہے۔

سورہ تحریم کی آیت نمبر ۵ اس بات میں بالکل واضح ہے کہ یہ سورت، سورہ احزاب سے پہلے نازل ہوئی ہے (حوالہ: سورہ احزاب آیت نمبر ۵۲)۔ سورہ احزاب کا نزول ذوالقعدہ ۵ ہجری جنگ خندق سے متصل ہے۔ سورہ تحریم کی آیت نمبر ۲ میں سورہ مائدہ کی آیت نمبر ۸۹ کا حوالہ۲ دیا گیا ہے۔ سورہ مائدہ درحقیقت سورہ نساء کے مباحث کا تتمہ ہے اور سورہ نساء غزوہ احد کے بعد ذوالقعدہ ۳ ہجری اور سورہ مائدہ ذوالقعدہ ۴ ہجری میں نازل ہوئی ہے۔ اس بنیاد پر سورہ تحریم کا زمانہ نزول ۵ ہجری کا وسط بنتا ہے۔

سورہ تحریم کا محور اسی سورت کی پہلی آیت ہے، جس میں بتایا گیا ہے کہ نبی پاکﷺ نے اپنی ازواج کی خوشی کے لئے اپنے اوپر کوئی ایسی چیز حرام کر لی تھی جو کہ الله تعالیٰ نے خاص آپﷺ کے لئے حلال کی تھی۔ اگرچہ قرآن کے نزول کا بنیادی مقصد ہدایت انسانی ہے نہ کہ واقعہ بیانی، لہٰذا اس آیت پر مجملاً ایمان بھی کافی تھا، مگر جب ایسی روایات اس آیت کی شان نزول کے طور پر بیان کی گئیں جو کہ نہ صرف سورت کے الفاظ سے میل نہیں کھاتیں بلکہ نبی پاکﷺ اور ازواج مطہراتؓ کی منفی تصویر کشی بھی کرتی ہیں، تو واقعہ کی وضاحت ضروری ہو جاتی ہے۔ اصل واقعے کو جاننا چنداں مشکل کام نہیں ہے۔ مدنی سورتوں کا دور نزول اور اس زمانہ کے مدینہ کے حالات خود ہی اصل واقعہ کی نشاندہی کر دیتے ہیں۔ اصل واقعہ کی نشاندہی سے پہلے مروجہ قصوں کی بیخ کنی بھی ضروری ہے۔ اور یہ بیخ کنی اگر کتابُ اللہ کے پیمانہ پر کی جائے تو زیادہ مناسب ہے کیونکہ روایات بہرحال دلیلِ ظنی ہیں اور کتابُ اللہ دلیلِ قطعی۔ مزید یہ کہ قرآن کریم کو اللہ تعالیٰ نہ صرف مبین یعنی روشن کتاب بتایا ہے بلکہ اس کو فرقان بھی کہا ہے، یعنی سچ اور جھوٹ کو پرکھنے والی کتاب۔ لفظ ‘ تُحَرِّمُ ‘ کو لے کر مروجہ شان نزولوں کا کوئی ایک واقعہ بھی قرآن کی کسوٹی پر پورا نہیں اترتا۔

آیات نمبر۱اور۲ کا بیان

یٰاَیهَا النَّبِىُّ۔۔۔۔ الۡعَلِیۡمُ الۡحَكِیۡمُ‏ ﴿۲﴾
"اے نبیؐ، تم کیوں اُس چیز کو حرام کرتے ہو جو اللہ نے تمہارے لیے حلال کی ہے؟ (کیا اس لیے کہ) تم اپنی بیویوں کی خوشی چاہتے ہو؟ اللہ معاف کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے ﴿۱﴾ اللہ نے تم لوگوں کے لیے اپنی قسموں کی پابندی سے نکلنے کا طریقہ مقرر کر دیا ہے اللہ تمہارا مولیٰ ہے، اور وہی علیم و حکیم ہے ﴿۲﴾

اس سلسلے میں مختلف واقعات بیاں کیے جاتے ہیں جن کو مختلف تفاسیر میں ان آیات کے شان نزول کے طور پر نقل کیا گیا ہے۔ ان واقعات کا احوال یہاں مختصراً ذکر کیا جائے گا۔ تفصیلات مختلف تفاسیر یا روایات کی کتابوں میں دیکھی جا سکتی ہیں۔

پہلا واقعہ حضرت ماریہؓ سے متعلق ہے۔ قصہ یوں بیان کیا جاتا ہے کہ نبی اکرمﷺ کا معمول تھا کہ روزانہ عصر سے مغرب کے درمیان اپنی بیویوں کی طرف باری باری جاتے تھے۔ تو ایک روز معمول کے مطابق جب حضرت حفصہؓ کی طرف پہنچے تو حضرت حفصہؓ موجود نہیں تھیں اور اتنے میں حضرت ماریہؓ وہاں آ گئیں۔ اسی دوران میں حضرت حفصہؓ بھی واپس آ گئیں تو انہوں نے آپﷺ کو حضرت ماریہؓ کے ساتھ اپنے بستر پر دیکھ کر خفگی کا اظہار کیا۔ نبی اکرمﷺ نے حضرت حفصہؓ کی دل جوئی کے لئے حضرت ماریہؓ کو خود پر حرام کر لیا اور حضرت حفصہؓ کو اس بات کا کسی سے ذکر نہ کرنے کی تاکید کر دی۔ یاد رہے کہ حضرت ماریہؓ نبی اکرمﷺ لونڈی تھیں نہ کہ حضرت حفصہؓ کی۔ لہٰذا حضرت حفصہؓ کی غیر موجودگی میں ان کے گھر میں حضرت ماریہؓ کے آنے کی کچھ وجہ نہیں بنتی۔ کہا جاتا ہے کہ جس وقت حضرت حفصہؓ نے حضرت ماریہؓ کو نبی پاکﷺ کے ساتھ اپنے بستر پر پایا تھا اس وقت وہ اپنے والد حضرت عمرؓ کے گھر سے واپس تشریف لائی تھیں۔ یہ بات اپنے اندر خود ایک سوال ہے کہ جب نبیﷺ کے آنے کا وقت متعین تھا تو حضرت حفصہؓ اپنے والد کے گھر کیوں گئی ہوئی تھیں اور ان کے والد حضرت عمرؓ نے بھی ان کو اس وقت کیوں بیٹھے رہنے دیا۔

اس قصہ میں صرف یہی سوالات نہیں بلکہ شدید نوعیت کے بھی کئی سقم موجود ہیں جو کہ براہ راست قرآن سے ٹکرا رہے ہیں۔ پہلی بات یہ کہ آیت میں اَزۡوَاج کا لفظ آیا ہے۔ جو کہ عربی زبان کے قاعدے کے مطابق تین یا تین سے زائد بیویوں کے لئے آ سکتا ہے۔ جبکہ یہاں صرف ایک بیوی کا ذکر ہے۔ روایت کو کچھ بہتر کرنے کے لئے بعض لوگوں نے اس کا ایک پس منظر بتایا کہ حضرت حفصہؓ اور حضرت عائشہؓ نبی اکرمﷺ سے حضرت ماریہؓ کو علیحدہ کرنے کے لئے زور ڈالتی رہتی تھیں۔ لیکن اگر بالفرض اس پس منظر کو مان بھی لیا جائے تو بھی بیویوں کی تعداد دو ہی بنتی ہے جو کہ تین سے کم ہے اور آیت میں بیان کی گئی کم از کم تعداد سے مطابقت نہیں رکھتی۔

دوسری بات یہ ہے کہ واقعہ میں آتا ہے کہ نبی اکرمﷺ نے حضرت ماریہؓ کو حرام قرار تو دیا لیکن حضرت حفصہؓ کو کہا کہ وہ یہ بات کسی کو نہ بتائیں۔ تو اس کو چھپانے میں آخر کونسی حکمت پوشیدہ تھی؟ کیا یہ کہ حضرت ماریہؓ سن کر ملول نہ ہوں۔ اس حکمت کو اس صورت میں ہی تسلیم کیا جا سکتا تھا اگر آیاتِ قرآنی خود اس کی تردید نہ کر رہی ہوتیں۔ اگر حضرت ماریہؓ کو حرام کرنے میں صرف حضرت حفصہؓ کی خوشنودی مقصود تھی تو یہ بات خود آیت کے متن سے ٹکرا جاتی ہے کیونکہ آیت میں ازواج کی خوشنودی کا ذکر آیا ہے نہ کہ زوجہ کی۔ اور اگر تمام (یا متعدد) ازواج کی خوشنودی درکار تھی تو چھپانے کا کہنے سے تو اس کا مقصد ہی فوت ہو جاتا ہے، کیونکہ جن بیویوں کی خاطر حضرت ماریہؓ کو حرام کیا گیا ہو اور ان بیویوں کو اس کا علم ہی نہ ہو سکے، تو ان بیویوں کو کیا خوشنودی حاصل ہو گی۔

تیسری بات یہ کہ سورہ احزاب کی آیت نمبر ۵۲ میں الله تعالیٰ نے نبی پاکﷺ کو جہاں اپنی بیویوں کو طلاق دینے سے روک دیا ہے وہیں لونڈیوں کے سلسلے میں وہی قانون برقرار رکھا ہے جو عامۃ المسلمین کے لئے ہے۔ جس کے تحت ایک مسلمان مرد کو اپنی لونڈی کو حرام کرنے کا اختیار حاصل ہے۔ واضح رہے سورہ احزاب ۵ ہجری میں نازل ہوئی ہے اور حضرت ماریہؓ ۷ ہجری میں حرم نبویؐ میں داخل ہوئیں۔ لہٰذا ایک ایسی معاملے میں، جس کا اختیار دو سال پہلے خود الله ہی نے نبیﷺ کو تفویض کر دیا ہو، اس کے استعمال پر الله کی طرف سے سرزنش ناقابل فہم ہے۔

یہ روایت قرآن کے ایک اور واضح حکم سے بھی متصادم ہے۔ الله تعالیٰ نے سورہ نور آیت ۵۸ میں خلوت کے اوقات بیان کیے ہیں اور وہ ہیں عشاء کے بعد، فجر سے پہلے اور دوپہر کے وقت۔ جب کہ قصوں کے بیان کے مطابق یہ وقوعہ عصر کی نماز کے بعد پیش آیا۔ واضح رہے کہ حضرت ماریہؓ حرم نبویؐ میں ۷ ہجری میں داخل ہوئی ہیں۔ اور سورہ نور ٦ ہجری میں نازل ہوئی ہے۔ کیا یہ ممکن ہے کہ نبی پاکﷺ قرآن کریم کے ایک نازل شدہ حکم کی خلاف ورزی کا سوچیں بھی۔

اور ان سب باتوں سے بڑھ کر یہ کہ سورہ تحریم ۵ ہجری میں نازل ہوئی ہے۔ حرم نبویﷺ تو درکنار، حضرت ماریہؓ کا تو اس وقت مدینہ منورہ میں بھی وجود نہ تھا۔ حضرت ماریہؓ ۷ ہجری میں مصر کے فرماں روا مقوقس کی طرف سے دربار نبویؐ میں آئی تھیں۔ لہذا وہ تو ان آیات کی شانِ نزول کی وجہ بالکل نہیں ہو سکتیں۔

یاایھاالنبی لم تحرم— نبی کریمﷺ نے اپنے اوپر کیا حرام کیا تھا؟

قسط نمبر ۲

دوسرا بیان جو عام طور پر بطور شانِ نزول پیش کیا جاتا ہے وہ شہد کا قصہ ہے۔ اصل میں یہ ایک نہیں بلکہ دو مختلف روایتیں ہیں جو کتابوں میں درج ہیں۔ دونوں ہی روایتیں حضرت عائشہؓ کی ‘چلتر بازیوں’ میں متفق ہیں، مگر ایک میں حضرت حفصہؓ متاثرہ فریق ہیں تو دوسری میں وہ حضرت عائشہؓ کے ساتھ سازش میں شریک ہیں۔ ظاہر ہے، حضرت حفصہؓ ایک ہی واقعہ میں بیک وقت دونوں کردار تو ادا نہیں کر سکتیں۔ ہشام بن عروہ کی روایت بیان کرتی ہے:

"—-(حضرت عائشہؓ) بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میٹھی چیز اور شہد کو پسند فرماتے تھے ، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم عصر کی نماز پڑھتے تو اپنی تمام ازواج کے ہاں چکر لگاتے اور ان کے قریب ہوتے، ( ایسا ہوا کہ ) آپ حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کے ہاں گئے تو ان کے ہاں آپ اس سے زیادہ ( دیر کے لیے ) رکے جتنا آپ ( کسی بیوی کے پاس ) رکا کرتے تھے ۔ ان ( حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا ) کو ان کے خاندان کی کسی عورت نے شہد کا ( بھرا ہوا ) ایک برتن ہدیہ کیا تھا تو انہوں نے اس میں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو شہد پلایا ۔ میں نے ( دل میں ) کہا : اللہ کی قسم! ہم آپ ( کو زیادہ دیر قیام سے روکنے ) کے لیے ضرور کوئی حیلہ کریں گی ، چنانچہ میں نے اس بات کا ذکر حضرت سودہ رضی اللہ عنہا سے کیا ، اور کہا:”جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم تمہارے ہاں تشریف لائیں گے تو تمہارے قریب ہوں گے، ( اس وقت ) تم ان سے کہنا : اللہ کے رسول! کیا آپ نے مغافیر کھائی ہے؟ وہ تمہیں جواب دیں گے ، نہیں! تو تم ان سے کہنا : یہ بو کیسی ہے؟ ۔ ۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ بات انتہائی گراں گزرتی تھی کہ آپ سے بو محسوس کی جائے ۔ ۔ اس پر وہ تمہیں جواب دیں گے : مجھے حفصہ نے شہد پلایا تھا ، تو تم ان سے کہنا ( پھر ) اس کی مکھی نے عرفط ( بوٹی ) کا رس چوسا ہو گا ۔ میں بھی آپ سے یہی بات کہوں گی اور صفیہ تم بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہی کہنا! جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم حضرت سودہ رضی اللہ عنہا کے ہاں تشریف لے گئے ، ( عائشہ رضی اللہ عنہا نے ) کہا : سودہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں : اس ذات کی قسم جس کے سوا کوئی حقیقی معبود نہیں! آپ ابھی دروازے پر ہی تھے کہ میں تمہاری ملامت کے ڈر سے آپ کو بلند آواز سے وہ بات کہنے ہی لگی تھی جو تم نے مجھ سے کہی تھی ، پھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم قریب ہوئے تو حضرت سودہ رضی اللہ عنہا نے کہا : اللہ کے رسول! کیا آپ نے مغافیر کھائی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : "” نہیں ۔ "” انہوں نے کہا : تو یہ بو کیسی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : "” مجھے حفصہ نے شہد پلایا تھا ۔ "” انہوں نے کہا : پھر اس کی مکھی نے عرفط کا رس چوسا ہو گا ۔ اس کے بعد جب آپ میرے ہاں تشریف لائے ، تو میں نے بھی آپ سے یہی بات کہی ، پھر آپ حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کے ہاں گئے ، تو انہوں نے بھی یہی بات کہی ، اس کے بعد آپ حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کے ہاں ( دوبارہ ) تشریف لائے تو انہوں نے عرض کی : کیا آپ کو شہد پیش نہ کروں ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : "” نہیں ، مجھے اس کی ضرورت نہیں ۔ ” (عائشہ رضی اللہ عنہا نے ) کہا : سودہ رضی اللہ عنہا کہنے لگیں ، سبحان اللہ! اللہ کی قسم! ہم نے آپ کو اس سے محروم کر دیا ہے ۔ تو میں نے ان سے کہا : خاموش رہیں ۔ ——-(صحیح مسلم، کتاب الطلاق)”

روایت کے چیدہ نکات یہ ہیں:
۱) شہد حضرت حفصہؓ کے گھر آیا تھا جس کی وجہ سے نبی کریمؐ وہاں زیادہ وقت گزارتے تھے
۲)حضرت عائشہؓ نبی کریمؐ کو وہاں زیادہ دیر بیٹھنے سے روکنا چاہتی تھیں
۳) ‘سازش’ حضرت عائشہؓ نے حضرت سودہؓ اور حضرت صفیہؓ کے ساتھ مل کر تیار کی
۴) نبی پاکؓ نے نتیجتاً حضرت حفصہؓ کے گھر کا شہد مسترد کردیا

دوسری جانب ابن جریج کا بیان ہے کہ: 
"—(حضرت عائشہؓ) بیان کرتی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم زینب بنت حجش رضی اللہ عنہا کے ہاں ٹھہرتے اور ان کے پاس سے شہد نوش فرماتے تھے : کہا : میں اور حفصہ رضی اللہ عنہا نے اتفاق کیا کہ ہم میں سے جس کے پاس بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم ( پہلے ) تشریف لائیں ، وہ کہے : مجھے آپ سے مغافیر کی بو محسوس ہو رہی ہے ۔ کیا آپ نے مغافیر کھائی ہے؟آپ ان میں سے ایک کے پاس تشریف لے گئے تو انہوں نے آپ کے سامنے یہی بات کی ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” بلکہ میں نے زینب بنت حجش کے ہاں سے شہد پیا ہے ۔ اور آئندہ ہرگز نہیں پیوں گا ۔ ” اس پر ( قرآن ) نازل ہوا : ” آپ کیوں حرام ٹھہراتے ہیں جو اللہ نے آپ کے لیے حلال کیا ہے ” اس فرمان تک : ” اگر تم دونوں توبہ کرو ۔ ” ۔ ۔ یہ عائشہ اور حفصہ رضی اللہ عنہا کے لیے کہا گیا ۔ ۔ ” اور جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی کسی بیوی سے راز کی بات کہی ” اس سے مراد ( آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان ) ہے : ” بلکہ میں نے شہد پیا ہے (صحیح مسلم، کتاب الطلاق)”

روایت کے چیدہ نکات یہ ہیں:
۱) شہد حضرت زینبؓ کے گھر آیا تھا جس کی وجہ سے نبی کریمؐ وہاں نوش فرماتے تھے
۲)حضرت عائشہؓ نبی کریمؐ کو روکنا چاہتی تھیں
۳) ‘سازش’ حضرت عائشہؓ نے حضرت حفصہؓ کے ساتھ مل کر تیار کی
۴) نبی پاکؓ نے نتیجتاً شہد مسترد کردیا

یہ دونوں روایات صحیح مسلم سے لی گئی ہیں۔ اگرچہ دونوں ہی روایتیں ایک دوسرے سے ٹکرانے کے ساتھ ساتھ سورت کے مضمون سے بھی ٹکرا رہی ہیں مگر محدثین نے ہشام بن عروہ کو ابن جریج کے مقابلے میں زیادہ ثقہ راوی قرار دیا ہے، لہٰذا اگر شہد ہی کی روایت پر مضمون کھڑا کرنا تھا تو ہشام کی روایت کو فوقیت دی جانی چاہیے تھی۔ لیکن بیشتر تفاسیر نے ابن جریج کی روایت کو ہشام کی روایت پر ترجیح دی ہے، شاید اس لئے کہ ہشام کی روایت صرف حضرت عائشہؓ کو منصوبہ ساز بتا رہی ہے اور ابن جریج کی روایت حضرت عائشہؓ کے ساتھ ساتھ حضرت حفصہؓ (دختر حضرت عمرؓ فاروق، فاتح ایران) کو بھی مورد الزام ٹھہرا رہی ہے۔ ابن جریج ابو خالد المکی کے متعلق امام ذھبی میزان میں لکھتے ہیں کہ یہ متعہ کرنے میں کوئی حرج نہیں سمجھتا تھا اور یہ کہ اس نے ستر عورتوں سے متعہ کیا تھا، امام احمد بن حنبل کے صاحبزادے عبداللہ ابن احمد بن حنبل کہتے ہیں کہ میرے ابا جان کہا کرتے تھے کہ ابن جریج کی مرسل حدیثیں موضوع ہوتی ہیں ابن جریج کو اس بات سے کوئی لینا دینا نہیں تھا کہ اس کو حدیث کس نے دی ہے وہ جب کہتا ہے کہ مجھے خبر پہنچی ہے یا مجھے فلاں نے حدیث بیان کی ہے تو کوئی اعتبار نہیں ہوتا کہ وہ فلاں کیسا ہے۔ ابن جریج کے اس تعارف کے بعد یہ سمجھنے میں کوئی تردد نہیں رہنا چاہیے کہ اس نے ھشام والی روایت میں ترمیم کرکے حجرت حفصہؓ بنت عمر فاروقؓ کو بھی کیوں کٹہرے میں لاکر کھڑا کیا۔

دونوں روایات کے بیان سے تو صاف ظاہر ہے کہ بیویوں کی خواہش شہد کو تو حرام قرار دلوانے کی ہرگز نہیں تھی، بلکہ وہ تو چاہتی تھیں کہ آپ حضرت حفصہؓ (یا ابن جریج کے مطابق حضرت زینبؓ) کی طرف زیادہ وقت نہ گزاریں۔ بالفرض اگر شہد حرام قرار دینے کے بعد حضرت زینبؓ (یا ہشام کے مطابق حضرت حفصہؓ) کوئی اور مرغوب شے نبی اکرمﷺ کو پیش کرتیں تو کیا باقی بیویوں کا مقصد حاصل ہو جاتا؟ قرآن کی آیت تو واضح کر رہی کہ آپﷺ نے جو چیز حرام کی تھی وہ بیویوں کی خوشنودی کے لئے کی تھی، گویا نبی اکرمﷺ کو بیویوں کی خوشنودی معلوم تھی اور روایات یہ بتا رہی ہیں کہ شہد حرام قرار دلوانا بیویوں کا مطمع نظر تھا ہی نہیں۔ اس قصہ میں تیسرا جھول یہ ہے کہ آیت کے مطابق کوئی چیز نبیﷺ کے لئے خاص حلال کی گئی تھی جو انہوں نے حرام کر لی، جبکہ روایات یہ بتا رہی ہیں کہ ایک مطلق حلال شے (شہد) نبیﷺ نے اپنے اوپر حرام کر لی۔ اگر یہی قصہ اس آیت کا پس منظر ہوتا تو آیت کا متن یوں ہونا چاہیے تھا:

یٰاَیهَا النَّبِىُّ لِمَ تُحَرِّمُ لَـكَ مَا اَحَلَّ اللّٰهُ
یعنی (اے نبی) تم اس شے کو اپنے اوپر کیوں حرام کر رہے ہو جو الله نے حلال کی ہے۔

جب کہ اصل آیت میں زور اس بات پر ہے کہ وہ شے کیوں حرام کی گئی ہے جو الله نے خاص (اے نبی) تمہارے لیے حلال کی ہے۔ دوسری بات سورہ تحریم ہی کی آیت ۲ کہہ رہی ہے کہ "خدا نے تم لوگوں کے لئے تمہاری قسموں کا کفارہ مقرر کر دیا ہے”، یعنی سورہ تحریم کے نزول سے پہلے ہی الله قسموں کے کفارے کے متعلق احکامات نازل کر چکا ہے اور یہ احکامات سورہ مائدہ میں وارد ہوئے ہیں۔ سورہ مائدۃ کی آیت نمبر ۸۹ میں الله تعالیٰ فرماتا ہے:

"خدا تمہاری بلارادہ قسموں پر تم سے مواخذہ نہیں کرے گا لیکن پختہ قسموں پر (جن کے خلاف کرو گے) مواخذہ کرے گا تو اس کا کفارہ دس محتاجوں کو اوسط درجے کا کھانا کھلانا ہے جو تم اپنے اہل و عیال کو کھلاتے ہو یا ان کو کپڑے دینا یا ایک غلام آزاد کرنا اور جس کو میسر نہ ہو وہ تین روزے رکھے یہ تمہاری قسموں کا کفارہ ہے جب تم قسم کھا لو (اور اسے توڑ دو) اور (تم کو) چاہئے کہ اپنی قسموں کی حفاظت کرو اس طرح خدا تمہارے (سمجھانے کے) لیے اپنی آیتیں کھول کھول کر بیان فرماتا ہے تاکہ تم شکر کرو (۸۹)”

یہ آیت مختلف النواع قسموں کے کفارے کے بارے میں بنیادی حکم رکھتی ہے، لیکن غور طلب بات یہ ہے کہ اس آیت سے بالکل پہلے سورہ مائدہ میں جو مضمون چل رہا ہے وہ یہاں بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ آیت ۸۷ اور ۸۸ میں ارشاد ہوتا ہے:

"مومنو! جو پاکیزہ چیزیں خدا نے تمہارے لیے حلال کی ہیں ان کو حرام نہ کرو اور حد سے نہ بڑھو کہ خدا حد سے بڑھنے والوں کو دوست نہیں رکھتا(۸۷) اور جو حلال طیّب روزی خدا نے تم کو دی ہے اسے کھاؤ اور خدا سے جس پر ایمان رکھتے ہو ڈرتے رہو (۸۸)”

آیت نمبر۸۷ مومنین سے کہہ رہی ہے کہ وہ پاکیزہ حلال چیزوں کو اپنے اوپر حرام نہ کریں۔ اور آیت نمبر ۸۸ میں کھانے کی حلال پاکیزہ چیزوں کو خصوصی وضاحت کے ساتھ بیان کیا جا رہا ہے کہ انہیں حرام نہ کیا جائے اور آیت نمبر ۸۹ میں (جس کا حوالہ سورہ تحریم کی آیت نمبر ۲ میں بھی دیا گیا ہے) کہا گیا ہے کہ اگر قَسماً کوئی حلال شے اپنے اوپر حرام کر لی گئی ہے تو قسم کا کفارہ دے کر اس کو واپس حلال کر لیا جائے۔ اگرچہ سورہ مائدہ کی آیت نمبر ۸۹ کا حکم تو عمومی ہے مگر آیت نمبر ۸۸ کا زور حلال پاکیزہ خوردنی اشیاء پر ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ صاحب قرآن، مجسم قرآن، سورہ مائدہ کے نزول کے بعد بھی کیسے ایک حلال اور پاکیزہ خوردنی چیز کو صرف اپنی بیویوں کی خوشنودی کے لیے حرام قرار دے سکتے تھے؟ جبکہ روایات خود بھی اس بات میں واضح ہیں کہ بیویوں کی منشا اس خوردنی چیز کو حرام قرار دلوانے میں تھی بھی نہیں۔ کیا نبی اکرمﷺ سے یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ قرآن کے نازل شدہ احکام کی خلاف ورزی کریں اور وہ بھی شہد جیسی چیز کے لئے، جس کو الله نے سورہ مائدہ اور تحریم دونوں کے نزول سے برسوں قبل، ہجرت سے پہلے نازل ہونے والی سورت، سورہ نحل کی آیت نمبر ۸۹ میں لوگوں کے لئے شفا قرار دے دیا تھا۔

فِیۡهِ شِفَآءٌ لِّلنَّاسِ‌
اس (شہد) میں لوگوں کے لئے شفا ہے

شہد کے متعلق ان دونوں روایات کو اگر دور نزول کے مطابق پرکھا جائے تو بھی یہ صحیح ثابت نہیں ہوتیں۔ ہشام کی روایت میں حضرت صفیہؓ کو ان بیویوں میں بتایا گیا ہے جو حضرت عائشہؓ کے ساتھ سازش میں شریک تھیں۔ سورہ تحریم کی آیت نمبر ۵ اس بات میں بالکل واضح ہے کہ اس سورت کا نزول سورہ احزاب (ذوالقعدہ ۵ ہجری) سے پہلے ہوا ہے۔ جب کہ حضرت صفیہؓ غزوہ خیبر (۷ ہجری) کے بعد حرم نبویؐ میں داخل ہوئی ہیں۔ گویا سورہ تحریم کے نزول کے وقت حضرت صفیہؓمدینہ منورہ میں موجود ہی نہیں تھیں۔ دوسری طرف ابن جریج کی روایت کہتی ہے کہ شہد حضرت زینبؓ بنت جحش کے گھر میں نوش فرمایا تھا، حضرت زینبؓ کی شادی غزوہ احزاب کے بعد مدینہ منورہ میں ہوئی اور سورہ تحریم کے نزول کے وقت وہ ام المومنین کے درجہ پر فائز ہی نہیں ہوئی تھیں۔ گویا دونوں روایات میں جن ازواج کے نام استعمال کیے گئے ہیں، وہ اس سورت میں مذکور ازواج ہو ہی نہیں سکتیں۔

 

یاایھاالنبی لم تحرم— نبی کریمﷺ نے اپنے اوپر کیا حرام کیا تھا؟

قسط نمبر ۳

ان دونوں قصوں کے علاوہ ایک تیسرا قصہ بھی بیان کیا جاتا ہے جو ابن ابی حاتم نے اپنی تفسیر میں بھی درج کیا ہے وہ یہ ہے کہ الله نے نبی اکرمﷺ کے لئے ہبہ کو حلال قرار دیا تھا۔ ہبہ یہ ہے کہ کوئی عورت خود اپنے آپ کو نبی اکرمﷺ کی زوجیت میں (بلا مہر) پیش کرے۔ اور نبی اکرمﷺ بھی اس کی اس درخواست کو قبول کر لیں تو وہ عورت آپﷺ کی زوجیت میں آ جائے گی (حضرت میمونہ ؓ بنت حارث سے آنحضرتؐ کا نکاح عمرہ قضاء ۷ ہجری کے موقع پر ہبہ ہی کے اصول کے مطابق منعقد ہوا تھا )۔ تو بعض دفعہ ایسا ہوتا کہ عورتیں امہات المومنینؓ کے حجروں میں آکر بھی ہبہ کے اصول کے مطابق نکاح کی درخواست پیش کر دیتی تھیں۔ اور یہ بات انسانی فطرت کے تحت امہات المومنین کو پسند نہیں آتی تھی۔ لہٰذا نبی اکرمﷺ نے اپنی بیویوں کی خواہش کے احترام میں ہبہ کو اپنے اوپر حرام قرار دے دیا۔

اگرچہ مروجہ قصوں کے برعکس یہ قصہ سورہ تحریم کی پہلی دو آیتوں کے الفاظ سے تو متصادم نہیں کیونکہ اس کے مطابق تمام بیویوں کی خوشنودی کے لئے یہ اقدام کیا گیا تھا اور مزید یہ کہ ہبہ کی اجازت صرف نبی اکرمﷺ کے لئے خاص تھی نہ کہ عام مسلمانوں کے لئے بھی۔ لہذا اگر آیات کے الفاظ کی بنیاد پر کسی قصے کو ترجیح دی جانی چاہیے تھی تو وہ یہی قصہ ہونا چاہیے تھا مگر اردو تفاسیر میں شاذ و نادر ہی اس کا ذکر کیا گیا ہے۔ لیکن سورت کے الفاظ سے عدم مطابقت نہ رکھنے کے باوجود بھی یہ قصہ سورہ تحریم کی شانِ نزول کے طور پر قبول نہیں کیا جا سکتا کیونکہ پچھلے دونوں قصوں کی مانند یہ قصہ بھی سورہ تحریم کے دور نزول سے مطابقت نہیں رکھتا، اس لیے کہ ہبہ کی اجازت سورہ احزاب کی آیت ۵۰ (نزول ذوالقعدہ ۵ ہجری) میں دی گئی ہے اور باعتبار نزول سورہ تحریم سورہ احزاب پر مقدم ہے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب یہ ساری ہی معروف شان نزولیں سورہ تحریم کے الفاظ اور دور نزول سے مطابقت نہیں رکھتیں، تو پھر وہ کیا معاملہ تھا جو کہ نبیؐ کے لیے تو اللہ نے حلال کیا تھا، مگر انہوں نے اپنی ازواج کی خوشنودی کے لیے اپنے اوپر حرام کر لیا- اس کو سمجھنے کے لیے بعض مدنی سورتوں کے ادوار نزول کو دیکھنا پڑیگا، تاکہ اس دور کے معاشرتی ارتقاء کا اندازہ ہو جائے- جب سورتیں اپنے ادوار پر درست بیٹھیں گی، تو واقعہ خود بخود سامنے آجائے گا- کیونکہ سورہ تحریم ایک عائلی موضوع سے متعلق سورت ہے، تو مدنی سورتوں کا عائلی پہلو ہی مدنظر رکھنا رکھنا ہوگا۔ اس سورت کا موضوع دراصل پہلے سے چلتے ہوئے معاملہ کی ایک درمیانی کڑی ہے-

ہجرت مدینہ کے بعد پہلی تفصیلی سورت سورہ بقرہ نازل ہوئی، جس میں دیگر کئی پہلوؤں کے ساتھ ساتھ خاندانی معاملات بھی زیر بحث آئے- غزوہ احد کے بعد ذوالقعدہ ٣ ہجری میں سورہ نساء میں عائلی قوانین بڑے تفصیل سے نازل ہوئے۔ سورہ نساء کی پہلی تقریر ١٨ آیات پر مشتمل تھی جوکہ یٰـا ایهَا النَّاسُ کے صیغے کے ساتھ شروع ہوئی۔ اور جس کا اطلاق نبی پاکﷺ کو چھوڑ کر بقیہ مسلمانوں پر تھا۔ اور اسی تقریر کی آیات میں مسلمان مرد (بجز نبیؐ) کے لئے ۴ بیویوں کی تحدید کر دی گئی۔ اسکے بعد ربیع الاول ۴ہجری میں غزوہ بنو نضیر ہوا اور سورہ حشر نازل ہوئی، جس میں مال فے کے احکامات نازل ہوئے (سورہ حشر آیت ۷)- شوال ۴ہجری میں غزوہ بدر الصغری ہوا، اور وہاں سے واپسی پر سورہ مائدہ کا نزول ہوا، سورہ بقرہ اور نساء کے لیے یہ سورہ کئی اعتبار سے تتمہ تھی، اسی کی آیت ۸۹ میں قسم کے کفارے کی بھی بات ہوئی (جسکا حوالہ سورہ تحریم کی آیت ۲میں دیا گیا ہے)- ۵ ہجری کا آغاز ہوا، اور مدینہ میں ایک صحابیہ نے اپنے شوہر کے ماں کہدینے کے معاملہ کے خلاف رسول اللہ کے دربار میں عرضی پیش کی- اس وقت تک طلاق سے متعلق تفصیلی احکامات سورہ بقرہ اور سورہ طلاق کے اندر نازل ہو چکے تھے، جس میں بیوی کو ماں کہدینے والے معاملہ کا کوئی ذکر نہیں تھا۔ اس کے بعد سورہ مجادلہ نازل ہوئی۔ اسی سورت کا حوالہ بھی بعد میں سورہ احزاب (آیت ۴) میں دیا گیا- سورہ مجادلہ کے بعد سورہ تحریم نازل ہوئی، جسکی آیت ۵ بتاتی ہے کہ سورہ تحریم دراصل سورہ احزاب (آیت ۵۲) سے پہلے نازل ہوئی ہے۔ ذوالقعدہ ۵ہجری میں سورہ احزاب نازل ہوئی- اس لحاظ سے سورہ تحریم کا دور نزول ۵ ہجری کا وسط بنتا ہے۔

اگرچہ ۱سے ۵ ہجری کے درمیان سورہ جمعہ، سورہ صف، سورہ محمد، سورہ انفال، سورہ طلاق، سورہ ال عمران بھی نازل ہو چکی تھیں، مگر سورہ تحریم کا یہ معاملہ خالص سماجی نوعیت کا ہے، اس لیے ان سورتوں کو دور نزول کے اعتبار سے اس مضمون میں زیر بحث نہیں لایا گیا ہے۔ اگرچہ سورتوں کا ربط اور اس دور کی تاریخ کو نگاہ میں رکھا جائے، تو واقعہ سمجھنا کوئی مشکل کام نہی ہے، مگر اس واقعہ کی نشاندہی میں بعض روایت بھی معاونت کردیتی ہیں (تاکہ روایت پرست افراد تفسیر بالرائے کا الزام نہ لگائیں، وگرنہ بات روایات کے بغیر بھی واضح ہوجاتی ہے)۔

زہری کا بیان ہے کہ "عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ میں ہمیشہ اس بات کا آروز مند رہتا تھا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ان دو بیویوں کے نام پوچھوں جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ ٰنے ( سورۃ التحریم، آیت ۳) فرمایا ہے ” اگر تم دونوں اللہ کے سامنے توبہ کرو ( تو بہتر ہے ) تاہم تمہارے دل تو (توبہ کی طرف) مائل ہیں ہی۔“ —- انہوں نے فرمایا ، "ابن عباس ! تم پر حیرت ہے ۔ وہ تو عائشہ اور حفصہ ( رضی اللہ عنہما ) ہیں ۔ پھر عمر رضی اللہ عنہ میری طرف متوجہ ہو کر پورا واقعہ بیان کرنے لگے ———- (میں نے حفصہ سے کہا کہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ چیزوں کا مطالبہ ہرگز نہ کیا کرو ، نہ کسی معاملہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی بات کا جواب دو اور نہ آپ پر خفگی کا اظہار ہونے دو ، البتہ جس چیز کی تمہیں ضرورت ہو ، وہ مجھ سے مانگ لیا کرو ، کسی خود فریبی میں مبتلا نہ رہنا ، تمہاری یہ پڑوسن تم سے زیادہ جمیل اور نظیف ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوزیادہ پیاری بھی ہیں ۔ آپ کی مراد عائشہ رضی اللہ عنہا سے تھی ۔ ——-۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ پھر وہ آیت نازل ہوئی جس میں ( ازواج النبی کو ) اختیار دیا گیا تھا (سورہ احزاب آیت ۲۸)۔ — آپ نے (عائشہؓ سے) فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ” اے نبی ! اپنی بیویوں سے کہہ دو “ اللہ تعالیٰ کے قول عظیما تک ۔ میں نے عرض کیا ——-کہ میں اللہ اور اس کے رسول اور دار آخرت کو پسند کرتی ہوں ۔ اس کے بعد آپ نے اپنی دوسری بیویوں کو بھی اختیار دیا اور انہوں نے بھی وہی جواب دیا جو عائشہ رضی اللہ عنہا نے دیا تھا ۔” (صحیح البخاری، کتاب المظالم)

اگرچہ یہ روایت زہری کی ہے، اور جہاں کہیں موقع ملتا ہے وہ حضرت عائشہؓ کی تنقیص بھی ضرور بیان کرتے ہیں، تاہم اس پہلو کو نظرانداز کرکے اس روایت میں کچھ اہم نکات سامنے آتے ہیں:

۱) قرآن جو ترتیب سورتوں کی بیان کر رہا ہے، یعنی کہ سورہ تحریم سورہ احزاب پر مقدم ہے، یہ روایت اسکے خلاف نہیں جارہی، بلکہ سورہ تحریم کو سورہ احزاب سے متصل قبل ہی کی سورت بیان کر رہی ہے۔
۲) زہری اکیلے یہ روایت نہیں کر رہے بلکہ کہیں اختصار اور کہیں تفصیل سے یہ واقعہ یحیی بن کثیر اور عکرمہ سے بھی بیان کیا گیا ہے۔
۳) اس پہلو سے مختلف روایتوں میں جن ازواج کا ذکر ہے ان میں حضرت عائشہؓ، حضرت حفصہؓ اور حضرت ام سلمہؓ کے نام بیان ہوئے ہیں، یعنی وہی ازواج ہیں، جو سورہ/غزوہ احزاب سے پہلے ام المومنین کے درجہ پر فائز ہوچکی تھیں۔ کسی ایسی زوجہ کا ذکر نہیں ہے جو کہ اس وقت تک حرم نبوی میں داخل ہی نہیں ہوئی تھیں، دوسری جانب ہشام کی شہد والی روایت میں حضرت صفیہؓ کا ذکر ہے، اور ابن جریج کی روایت میں حضرت زینبؓ بنت جحش کا ذکر ہے، جو کہ ظاہر ہے سورہ تحریم کے نزول کے وقت ام المومنین نہیں بنی تھیں۔
۴) سورہ تحریم میں جس واقعہ کی طرف اشارہ ہے، اس میں معاملہ کی ابتداء نان نفقہ کو لیکر ہوئی تھی، شہد کی بنیاد پر کوئی سازش نہیں تیار ہوئی تھی۔

غزوہ احد (شوال ۳ ہجری) میں ٧٠ مسلمان شہید ہوئے اور کئی عورتیں بیوہ ہوئیں۔ رسول پاکﷺ نے اپنے پھوپھی زاد بھائی حضرت عبد اللہؓ کی بیوہؓ سے نکاح کر لیا۔ تاہم اُن خاتونؓ کا تین ماہ بعد ہی انتقال ہو گیا۔ مدینہ منورہ کا یہ دور جہاں اندرونی اور بیرونی شورشوں کو لے کر بہت کٹھن تھا، وہیں مسلمان معاشی طور بھی بہت پریشان تھے۔ مہاجروں کی صورتحال بہت زیادہ مخدوش تھی۔ خاندان نبویؐ بھی اس سے مستثنیٰ نہیں تھا۔

سن ۴ ہجری میں سریۃ بنو اسد وقوع پذیر ہوا۔ حضرت ابو سلمہؓ (حضورؑ کے ایک اور پھوپھی زاد بھائی) وہاں سے واپسی پر جمادی الثانی ۴ ہجری میں شہید ہو گئے۔ رسول پاکﷺ نے ان کی اہلیہ حضرت ام سلمہؓ سے شوال ۴ ہجری میں نکاح فرما لیا۔ حضرت ام سلمہؓ درمیانی عمر کی ایک عیال دار عورت تھیں۔ آپؓ کے پہلے نکاح سے ۴ بچے بھی تھے۔ اور اب وہ بچے بھی رسول پاکﷺ کے زیر کفالت آ گئے تھے۔

ربیع الاول ۴ ہجری میں غزوہ بنو نضیر کے بعد ‘مالِ فے’ کی صورت میں مسلمانوں میں کچھ معمولی مالی کشادگی آئی تھی، مگر غزوہ احد کے شہداء کے اہل خانہ اتنی تعداد میں تھے کہ وہ مال مسلمانوں کی مجموعی حالت میں کوئی نمایاں فرق نہیں لا سکا۔ حضرت ام سلمہؓ سے نکاح کے بعد بیت نبویﷺ میں پانچ افراد کا اضافہ ہو چکا تھا۔ اور اس نکاح کے بعد وہ موقع آیا جب ازواج کرامؓ بشمول حضرت ام سلمہؓ نے رسول الله ﷺ سے مزید نان نفقہ کا مطالبہ کیا تھا۔ یہ وہ حالات ہیں جن میں سورہ تحریم نازل ہوئی۔ اور اس کے بعد جب سورہ احزاب نازل ہوئی تو اس میں ان چاروں ازواج کرامؓ کو یہ اختیار دیدیا گیا تھا کہ اگر وہ دنیا کی زینت چاہتی ہیں تو بھلے طریقہ سے ان کو کچھ دے دلا کر رخصت کر دیا جائے۔ لیکن اگر وہ الله، رسول اور آخرت کی طلبگار ہیں تو الله نے ان کے لئے بڑا اجر مہیا کر رکھا ہے ۱۶۔ چاروں ازواجؓ (حضرت سودہؓ، عائشہؓ، حفصہؓ اور ام سلمہؓ) نے الله اور رسول کو ہی منتخب کیا اور دنیاوی رزق کی کشائش کے مطالبہ سے دستبردار ہو گئیں (احزاب ٢٨ .٢٩)۔ غالباً جس وقت آپﷺ کی ازواجؓ نے نان نفقہ کی کشائش کا مطالبہ کیا تھا اس وقت یہ بھی مطالبہ کیا تھا کہ عام مسلمانوں کی طرح آپﷺ بھی اپنے آپ کو ۴ بیویوں تک ہی محدود رکھیں گے۔ نبی کریمﷺ نے ازواجؓ کی خوشنودی کے لئے اس مطالبہ کو منظور کر لیا۔ لیکن ۵ ہجری میں کچھ ایسے واقعات مدینہ منورہ میں پیش آئے (جن کا ذکر آیات نمبر ٣ کی تفصیلات میں آئے گا)، کہ الله تعالیٰ نے نبی کریمﷺ کو مزید شادی نہ کرنے کی اپنی قسم سے رجوع کرنے کا حکم دے دیا۔ کیونکہ اب آپﷺ کو چار بیویوں کی موجودگی میں پانچواں نکاح کرنے کا حکم دیا جانے لگا تھا۔ اور اس نکاح سے پہلے ازواجؓ کو دنیا و آخرت میں کسی ایک کو منتخب کرنے کا اختیار بھی دے دیا۔ اس اختیار کا ذکر سورہ احزاب میں ٢٨-٢٩ میں ہے۔ جبکہ پانچویں نکاح کا ذکر آیت ٣٧ میں ہے۔

سورہ تحریم کی آیت نمبر ایک میں جس چیز کا اشارہ دیا گیا ہے ‘یٰااَیهَا النَّبِىُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَا اَحَلَّ اللّٰهُ لَـكَ‌ۚ’، (اے نبی تم کیوں حرام کرتے ہو وہ چیز جو الله نے (سورہ نساء میں) تمہارے لئے حلال کی ہے)، اس کی تصدیق سورہ احزاب کی آیت نمبر ٥٠ میں کر دی گئی ہے ‘یااَیهَا النَّبِىُّ اِنَّا اَحۡلَلۡنَا لَـكَ اَزۡوَاجَكَ’ یعنی ‘اے نبی ہم نے تم پر حلال کی ہیں تمہاری (پانچوں) بیویاں‘، پانچوں اس لئے کہ سورہ احزاب ہی میں اس آیت سے پہلے آیت ٣٧ میں پانچویں نکاح کے تصدیق کر دی گئی ہے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس (پانچویں) نکاح کی اتنی اہمیت کیوں تھی۔ اور سورہ تحریم میں اس کا بالکل واضح ذکر کیوں نہیں کیا گیا۔ تو اس کا جواب آیت نمبر ٣ کی تفسیر میں آ جائے گا۔ لیکن کیونکہ یہ نکاح رسول الله کے لئے بھی ایک بہت بڑی آزمائش تھا، جس کا مختصر ذکر سورہ تحریم کی آیت نمبر ٩ میں ہے اور سورہ احزاب کا پورا پہلا رکوع (آیت نمبر ١تا ٨ ) اسی سے متعلق ہے۔ سورہ تحریم کی دوسری آیت کے آخری دو الفاظ هُوَ الۡعَلِیۡمُ الۡحَكِیۡمُ اسی بات کی اہمیت واضح کر رہے ہیں یعنی کہ الله علیم ہے وہ سب کچھ جانتا ہے (جو کچھ ہو چکا ہے وہ بھی اور جو کچھ آیندہ ہونا ہے وہ بھی، جو کچھ لوگوں کے دلوں میں ہے وہ بھی اور جو کچھ زبانوں پر ہے وہ بھی)، لہٰذا اب الله کی یہی حکمت ہے کہ نبی پاک ﷺ کے (ایک وقت میں) پانچویں نکاح کا وقت آ گیا ہے۔ اور اسی حکمت کے تحت ابتداء ہی میں جب سورہ نساء (۳ ہجری) میں مسلمان مردوں کے لیے چار نکاح کی تحدید کی گئی تھی تو نبی اکرمﷺ کو اس سے مستثنیٰ رکھا گیا تھا۔

غور کیا جائے تو کتنے واضح الفاظ میں اللہ تعالیٰ نے پانچویں نکاح کے بعد خود بھی اس بات کی وضاحت سورہ احزاب کی آیت نمبر ٥٠ میں کر دی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تو مزید نکاح حلال رکھے تھے جو کہ رسولﷺ نے ازواج کی خوشی کے لیے خود اپنے اوپر حرام کر لیے تھے۔ قرآن کریم کی بہترین تفسیر قرآن خود ہی کر دیتا ہے- ایک جگہ ایک بات اگر مختصر الفاظ میں بیان کرتا ہے تو دوسری جگہ اسی بات کو کھول کر بیان کر دیتا ہے- سورہ نحل کی آیت نمبر ۸۹ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ:

اور ہم نے یہ کتاب تم پر نازل کر دی ہے جو ہر چیز کی صاف صاف وضاحت کرنے والی ہے اور ہدایت و رحمت اور بشارت ہے اُن لوگوں کے لیے جنہوں نے سر تسلیم خم کر دیا ہے (۸۹)

قرآن کریم کے اتنے واضح اور دو ٹوک بیان کے باوجود بھی، اس نوعیت کی شان نزولوں کی بنیاد پر فیصلے صادر کرنا، جو کہ نہ صرف آیات کے الفاظ کا احاطہ نہیں کر پاتیں بلکہ ان سے متصادم بھی ہوتی ہیں، ایک نہ سمجھ میں آنے والی بات ہے۔ کہا جاتا ہے کہ شانِ نزول کی روایتیں نہ ہوتیں تو قرآن کو سمجھنا ناممکن ہو جاتا- سورہ تحریم کے سلسلے میں تو کم از کم ایسا نظر نہیں آ رہا۔ ایک ہی آیت کے سلسلے میں اتنی متنوع اور متضاد روایتیں پیش کی گئی ہیں جو کہ ہم آہنگ نہ ہونے کے سبب بیک وقت قبول بھی نہیں کی جا سکتیں۔ لہذا ہر مفسر نے اپنے ذوق کے مطابق بعض روایات کو ترجیح دیکر قبول کر لیا اور پھر انہی کے آئینے میں تفسیر کردی۔ تطبیق کے قائل لوگوں نے کہا کہ تمام ہی روایتیں شان نزول کا باعث ہیں، اور جب تمام واقعات ہو گئے تبھی آیات نازل ہوئی تھیں- یہی وجہ ہے کہ تفاسیر میں اتنا اختلاف نظر آ رہا ہے- جبکہ قرآن کا دعوی یہ ہے کا وہ اختلاف سے بالکل مبرا ہے، اور یہی بات اس کے کتابُ اللہ ہونے کی دلیل ہے۔ ان روایات نے تفاسیر میں اختلافات پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ ایک اور کام ضرور کیا ہے، وہ یہ کہ بیتِ نبویؑ کی ایک مکروہ منظر کشی کی ہے کہ وہاں صرف سازشیں بُننے والی عورتیں رہتی تھیں اور نعوذبااللہ حضور پاکﷺ ایک کوتاہ نظر اور عجلت پسند شخص تھے۔

یاایھاالنبی لم تحرم— نبی کریمﷺ نے اپنے اوپر کیا حرام کیا تھا؟

قسط نمبر۴

سورہ تحریم آیت ۳-۴

اور (یاد کرو) جب نبی نے اپنی ایک بی بی سے ایک بھید کی بات کہی تو (اُس نے وہ بات نے دوسری کو بتا دی) ۔ جب اُس نے اس بات کو افشا کیا اور اللہ نے نبیؐ کو اِس (افشائے راز) کی اطلاع دے دی، تو نبی نے اس میں سے کچھ بات جتلا دی اور کچھ ٹال دی، پس جب نبیؐ نے اُس کو وہ بات جتلا دی تووہ پوچھنے لگی کہ آپ کو کس نے بتایا؟ نبیؐ نے کہا کہ مجھے اس نے بتایا ہے جو جاننے والا خبردار ہے (۳) اگر تم دونوں الله کی جناب میں توبہ کرو تو (بہتر) ورنہ تمہارے دل تو مائل ہو ہی چکے ہیں اور اگر تم نبیؐ کے خلاف ایک دوسرے کی مدد کرو گی تو جان رکھو کہ اللہ اُس کا مولیٰ ہے اور اُس کے بعد جبریل اور تمام صالح اہل ایمان اور سب ملائکہ اس کے ساتھی اور مددگار ہیں (۴)

آیت نمبر ٣ یہ بتا رہی ہے کہ نبی پاکﷺ نے اپنی ایک زوجہ محترمہؓ کو ایک بات بتائی اور وہ بات انہوں نے ایک دوسری زوجہؓ پر ظاہر کر دی تھی۔ جن لوگوں نے پہلی دو آیتوں کو حضرت ماریہؓ کے قصہ سے متصف کیا ہے، انہوں نے اس آیت کی تفسیر یہ کی ہے کہ نبی پاکﷺ نے حضرت حفصہؓ کو حضرت ماریہؓ کو حرام کرنے کی بات کی تشہیر کرنے سے منع کر دیا تھا مگر وہ حضرت عائشہؓ کو بتا بیٹھیں۔ اس واقعہ کی کمزوری شان نزول میں بتائے گئے مقصد سے عدم مطابقت رکھنے کی وجہ سے پہلے ہی بتائی جاچکی ہے، مزید یہ بھی کہ سورت کے الفاظ، اور دور نزول دونوں سے اس روایت کا انکار ثابت ہوجاتا ہے (قسط نمبر ۱)۔ دوسری جانب جن لوگوں نے ان آیتوں کا تعلق شہد سے جوڑا ہے ان کا کہنا ہے کہ حضرت حفصہؓ نے شہد حرام کرنے والی بات حضرت عائشہؓ کو بتائی تھی۔ سوال یہ ہے کہ ہشام کی روایت ہو یا ابن جریج کی، دونوں نے حرام کروانے میں بنیادی کردار حضرت عائشہؓ کا ہی بیان کیا ہے، لہٰذا اگر خوشنودی کے لیے ہی شہد کو حرام کیا گیا تھا تو کم از کم حضرت عائشہؓ کو تو مطلع کیا ہی جانا چاہیے تھا (قسط نمبر ۲)۔

شاہ ولی الله نے اپنی کتاب ازالۃ الخفاء میں تیسری اور چوتھی آیت کے سلسلے میں ایک اور شان نزول بھی بیان کی ہے وہ یہ ہے کہ حضرت جبرئیلؑ نے نبی پاکﷺ کو ان کے بعد حضرت ابو بکرؓ اور حضرت عمرؓ کی خلافت کی خبر دی تھی۔ یہ بات نبیؐ نے حضرت حفصہؓ کو بتائی اور فی الوقت کسی کو نہ بتانے کی تاکید کی۔ حضرت حفصہؓ غالباً اس گمان میں کہ اس میں اگر میرے والد کا ذکر ہے تو حضرت عائشہؓ کے والد کا بھی ذکر ہے، انہوں نے اس کی خبر حضرت عائشہؓ کو بھی دیدی۔ اگرچہ یہ بیان سورت کی ان دونوں آیتوں کے الفاظ سے نہیں ٹکرا رہا لیکن سورت کے عمومی ربط سے کوئی مناسبت نہیں رکھتا۔ جن لوگوں کو نظم قرآن سے کوئی دلچسپی نہیں ان کو تو اس روایت کو قبول کرنے میں کوئی عار نہیں ہونا چاہیے تھا لیکن شاہ ولی الله کے لکھنے کے باوجود بھی کسی بھی نمایاں اردو تفسیر میں اس روایت کا کوئی حوالہ نہیں ملتا اگر ملتا بھی ہے تو انتہائی ضمنی طور پر۔

اصل بات یہ تھی کہ غزوہ احد (۳ ہجری) کے بعد جب سورہ نساء نازل ہوئی تو اس میں تفصیلاً عائلی قوانین بھی بیان کیے گئے۔ انہی قوانین میں یہ بھی بتا دیا گیا کہ حرمت کے رشتے اب صرف خون، سسرال یا رضاعت کے واسطہ سے ہی ثابت ہو سکیں گے۔ انہی تفصیلات میں سورہ نساء کی آیت نمبر ٢٣ میں یہ بھی ارشاد ہوا کہ:

وَحَلَا ٮِٕلُ اَبۡنَآٮِٕكُمُ الَّذِیۡنَ مِنۡ اَصۡلَابِكُمۡۙ
(حرام ہیں تم پر) تمہارے صلبی بیٹوں کی بیویاں بھی (سورہ نساء)

یعنی اب وہ عورتیں جو کسی شخص کے سگے بیٹوں، پوتوں یا نواسوں کی بیویاں رہ چکی ہیں وہ اس کے لیے ہمیشہ کے لئے حرام ہو گئی ہیں۔ اس وقت (۳ ہجری) کے مدنی معاشرے میں زبان کی بنیاد پر بھی رشتے قائم تھے جن کو متبنیٰ کہا جاتا تھا اور ان کی حرمت بالکل حقیقی رشتوں کی مانند ہوتی تھی-۔ گویا اس آیت کے ذریعے منہ سے بولے ہوئے رشتوں پر یہ پہلی ضرب لگائی گئی تھی۔ ۵ ہجری میں مدینہ منورہ میں ایک واقعہ ہوا، انصارِ مدینہ سے تعلق رکھنے والی ایک صحابیہ حضرت خولہؓ بنت ثعلبہ کو ان کے شوہر نے ماں سے تشبیہ دے دی (فقہی زبان میں اس کو ظہار کہا جاتا ہے)۔ حضرت خولہؓ معاملہ کو لے کر نبی پاکﷺ کے پاس حاضر ہوئیں، اور اللہ تعالیٰ کے حضور فریاد کرنے لگیں۔ اس پر سورہ مجادلہ (آیات ۱ تا ۴)۱۹ نازل ہوئی جس میں کہا گیا کہ منہ سے بول دینے سے بیوی ماں نہیں بن جاتی۔ نتیجتاً آپﷺ نے دوبارہ رجوع کروا دیا۔ کیونکہ قدیم زمانے سے عرب معاشرے کے رواج میں منہ سے بولے ہوئے رشتے کا تقدس بالکل حقیقی رشتے کے جیسا ہوتا تھا اور کوئی مرد اگر اپنی بیوی کو ماں سے تشبیہ دے دیتا تو وہ اس پر ہمیشہ کے لئے ماں کی طرح سے حرام ہو جاتی تھی، جبکہ طلاق کی صورت میں دوبارہ رجوع کی گنجائش باقی رہتی تھی۔ لہٰذا بعض لوگوں کو حضرت خولہؓ کا یہ رجوع باآسانی قبول کرنے میں دشواری ہو رہی تھی۔ اس معاملے سے کچھ ہی عرصہ پہلے، یعنی ۴ ہجری میں ہونے والے دو واقعات، غزوہ بنو نضیر (ربیع الاول ۴ ہجری) اور غزوہ بدرالصغری (شوال/ذوالقعدہ ۴ ہجری) میں مسلمانوں کو حاصل ہونے والی غیر معمولی برتری نے منافقین مدینہ اور مدینہ کے یہودیوں(بنو قریظہ) کو پہلے ہی بہت جزبز کر رکھا تھا۔ حضرت خولہؓ بنت ثعلبہ کے واقعہ نے ان کو فتنہ پھیلانے کے لئے ایک نیا موقع فراہم کیا اور وہ معاشرے میں اس حکم کے خلاف باتیں پھیلانے لگے۔ سورہ مجادلہ کی اگلی آیات اسی فتنہ کے بارے میں نازل ہوئیں۔ آیت نمبر ٨ میں الله تعالیٰ انہی منافقین کی بابت فرماتا ہے:

کیا آپؐ نے اُن لوگوں کو نہیں دیکھا جنہوں سرگوشیوں سے منع کیا گیا تھا پھر وہ لوگ وہی کام کرنے لگے جس سے روکے گئے تھے اور وہ گناہ اور سرکشی اور نافرمانیِ رسولؐ سے متعلق سرگوشیاں کرتے ہیں ۔۔۔۔(۸)

منہ بولے رشتوں کی حرمت کی مکمل طور پر بیخ کنی کے لیے الله تعالیٰ نے نبی پاکﷺ کے اس وقت (۵ ہجری) تک کے لے پالک بیٹے، حضرت زیدؓ بن حارثہ (جو کہ اس وقت کے عرب قاعدے کے مطابق زیدؓ بن محمدؐ کہلاتے تھے) کی مطلقہ، حضرت زینبؓ بنت جحش سے خود رسول پاکﷺ کو نکاح کرنے کا حکم دے دیا۔ اس بات کا ذکر آنحضرتﷺ نے اپنی ایک زوجہؓ محترمہ سے کیا کہ الله نے مجھے حضرت زینبؓ سے نکاح کا حکم دیا ہے۔ مدینہ کا ماحول پہلے ہی حضرت خولہؓ کے واقعہ کو لے کر منافقین اور یہود نے آلودہ کیا ہوا تھا۔ نبی پاکﷺ نے معروضی حالات کو دیکھتے ہوئے اس حکم کو فی الوقت ظاہر نہ کرنے کی تاکید کی تھی۔ لیکن ام المومنینؓ (حضرت حفصہؓ) یہ قیاس کرتے ہوئے کہ شاید نبیﷺ نے گھر سے باہر بتانے سے منع کیا ہے، اس بات کو دوسری ام المومنینؓ (حضرت عائشہؓ) کے آگے ظاہر کر بیٹھیں۔ یہ بات واضح رہے کہ دوسری زوجہؓ محترمہ (حضرت عائشہؓ) نے اس بات کو کسی اور پر ظاہر نہیں کیا جس کی گواہی خود الله نے سورہ تحریم کی اسی آیت نمبر ۳ میں اپنے اور اپنے نبیﷺ کے الفاظ میں دو بار دی ہے۔ پہلے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ‘اَظۡهَرَهُ اللّٰهُ عَلَیۡهِ’ یعنی یہ بات خود اللہ نے نبی پاکؐ پر ظاہر کی تھی، اور پھر جب پہلی بیویؓ نے یہ پوچھا کہ آپؐ کو یہ بات کس نے بتائی (کیونکہ انؓ کو یہ خیال گیا کہ ممکن ہے کہ حضرت عائشہؓ نے نبیؐ تک یہ بات پہنچادی ہو کہ حضرت حفصہؓ نے یہ بات مجھے بتادی ہے)، تو رسول پاکﷺ نے فرمایا ‘نَـبَّاَنِىَ الۡعَلِیۡمُ الۡخَبِیْرُ’ یعنی ‘مجھے اُس نے خبر دی جو سب کچھ جانتا ہے اور خوب باخبر ہے’۔

اللہ تعالیٰ نے دونوں ازواجؓ کو توبہ کا حکم دیا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پہلی بیویؓ (حضرت حفصہؓ) نے تو ایک راز افشا کیا اس وجہ سے ان کو توبہ کا حکم دیا گیا۔ لیکن دوسری بیویؓ (حضرت عائشہؓ) نے تو وہ راز بشمول نبی اکرمﷺ کسی پر بھی ظاہر نہیں کیا تھا، تو آخر دونوں بیویوںؓ سے توبہ کا مطالبہ کیوں کیا گیا؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ حکم الله کی طرف سے اس کے رسولؐ کو دیا گیا تھا۔ اور اس وقت کے زمینی حقائق کے مد نظر کوئی معمول کی نوعیت کا حکم بھی نہیں تھا۔ اس لئے دونوں بیویوںؓ کو بتایا گیا کہ وہ اپنے آپ کو محض محمدؐ بن عبداللہ ہی کی بیویاں نہ سمجھیں بلکہ وہ محمدؐ رسول الله کی بیویاں ہیں، اس لیے جب پہلی بیویؓ (حضرت حفصہؓ) کو رسولﷺ نے ذکر کرنے سے منع کیا تھا تو انؓ کو یہ بات زبان سے نکالنی ہی نہیں چاہیے تھی- مگر پھر بھی جب انہوں نے دوسری بیویؓ (حضرت عائشہؓ) کے سامنے اس بات کا ذکر کر ہی دیا تھا اور یہ بھی معلوم ہو گیا کہ رسول اللهﷺ نے یہ بات ابھی دوسری بیویؓ (حضرت عائشہؓ) کو نہیں بتائی تو انؓ کو الله سے توبہ کرنی چاہیے تھی اور دوسری بیوی‌‌ؓ (حضرت عائشہؓ) کو بات وہیں دفن کرنے کے ساتھ ساتھ پہلی بیویؓ (حضرت حفصہؓ) کو متنبہ کرنا چاہیے تھا کہ وہ رسول اللهﷺ کے حضور معذرت کر لیں کہ وہ اس بات کو اپنے تک محدود نہیں رکھ سکیں۔ اب کیونکہ دونوںؓ ہی کسی درجہ میں خطا کر بیٹھی تھیں لہٰذا دونوںؓ ہی کو توبہ کا حکم دیا جا رہا ہے۔ لیکن یہ بات غور طلب ہے کہ الله نے توبہ کا حکم دینے کے ساتھ ہی یہ بات بھی واضح کر دی کہ دونوں بیویوںؓ کے دل پہلے ہی حق کی طرف مائل تھے کیونکہ توبہ کے حکم کے فوری بعد ‘فقد صغت قلوبکما’ کے الفاظ آئے ہیں یعنی ‘تمہارے دل حق کی طرف (پہلے ہی) مائل ہیں’۔ اگر یہاں پر ‘صغت’ کی بجائے ‘زاغت’ کا لفظ آتا تو اس کا مطلب ‘تمہارے دل کج ہو گئے ہیں یا حق سے ھٹ گئے ہیں’ کے ہوتے۔ مگر آفریں ہے ان لوگوں پر جو کلام الله میں تو ‘صغت’ پڑھتے ہیں لیکن اس کا مفہوم ‘زاغت’ کا لیتے ہیں۔ اسکی وجہ دراصل شہد اور حجرت ماریہ سے متعلق واقعات بنتے ہیں، جن میں ان دونون ازواج کا کردار مسخ کرکے بیان کیا گیا ہے، لہذا جب آیت مین الفاظ ‘صضت’ کے آئے، تو روایات کے زیر اثر اذہان نے قبول کرنے سے انکار کردیا، اور ترجمہ زاغت کا کردیا- اس ترجمہ کے لیے بھی مزید روایات نے پشتیبانی کی، کہا جاتا ہے کہ حضرت ابن عباسؓ اس آیت کو بمعنی زاغت کے لیتے تھے۔ (استغفراللہ)

توبہ کے حکم ساتھ ہی الله نے تنبیہ بھی کر دی ہے کہ گو ایک دوسرے کے عیبوں کی پردہ پوشی یقیناً اچھی بات ہے مگر رسولؐ کے صریح حکم کے مقابلے میں ایک دوسرے کی پردہ پوشی اچھا عمل نہیں ہے۔ اور یہ بھی وضاحت کر دی کہ اگر رسولؐ کے مقابلے میں تم دونوں ایک دوسرے کی یونہی مدد کرتی رہیں تو رسولؐ تنہا نہیں ہے اور اس حکم کی عمل درآمدگی کے بارے میں اس کے مددگار الله، جبرائیل امین (کیونکہ یہ حکم بزبان جبرائیل امین آیا تھا)، صالح المومنین (غالباً یہاں ان دونوں ازواجؓ کے والد حضرت ابو بکرؓ اور حضرت عمرؓ مراد ہیں) اور فرشتے ہیں۔

اسلام کی دعوت کو الله نے آفاقی اور عالمی بنانا تھا اور اس مقصد کے لئے تمام سماجی اور معاشرتی رسمیں جو اسلام سے متصادم تھیں ان کا بھی سد باب لازمی تھا۔ اسی لئے سورہ مجادلہ جو سورہ تحریم سے پہلے نازل ہوئی ہے اس میں منہ سے بولے گئے رشتوں (بیوی کو ماں قرار دے دینا) پر ایک کاری ضرب لگائی گئی ہے۔ اور ساتھ ہی ساتھ الله نے چہ میگوئیاں، سرگوشیاں اور سازشیں کرنے والوں کو سخت عذاب کی نوید بھی سنائی ہے۔ ہمارے آج کے معاشروں میں بھی اگر کوئی بات ہمارے رسم و رواج کے خلاف ہو تو سخت طوفان برپا ہو جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کاروکاری، ونی، سوراہ جیسی رسمیں ناسور کی صورت اختیار کر چکی ہیں، لیکن ان کے ماننے والے ان کو چھوڑنے پر بھی تیار نہیں۔ عرب کا معاشرہ بھی اسی دنیا کا معاشرہ تھا وہاں بھی ظہار جیسی رسمیں معاشرے کے لیے زہرِ قاتل بنی ہوئی تھیں۔ اور ایسی رسومات کو معاشرے کی جڑوں سے اکھیڑنے کے لیے لازم تھا کہ منہ سے بولے ہوئے رشتوں پر ہی ضرب لگا دی جائے۔ اور اس کا موثر ترین عملی اظہار خود رسولؐ کا انہی کے متبنیٰ کی مطلقہ سے نکاح کی صورت میں ہو سکتا تھا۔ لیکن یہ بات بھی بالکل واضح تھی کہ فوری رد عمل کے طور پر یہودی (بنو قریظہ) اور منافقین مدینہ اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مسلمانوں کے دلوں میں رسول اکرم کے کردار کے خلاف شکوک پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ ان لوگوں کی دورِ جاہلیت کی معاشرتی حمیت کو اجاگر کر کے ان کو اسلام سے متنفر کرنے کی کوشش کریں گے۔ اسی کی وجہ سے سورہ مجادلہ ہی میں الله نے مسلمانوں کو سخت الفاظ میں تلقین کر دی تھی کہ وہ چہ میگوئیوں کا حصہ نہ بنیں۔ سورہ مجادلہ کی آیت نمبر ۹ میں کہا گیا کہ:

مومنو! جب تم آپس میں سرگوشیاں کرنے لگو تو گناہ اور زیادتی اور پیغمبر کی نافرمانی کی باتیں نہ کرنا بلکہ نیکو کاری اور پرہیزگاری کی باتیں کرنا۔ اور خدا سے جس کے سامنے جمع کئے جاؤ گے ڈرتے رہنا (۹)

 

 

یاایھاالنبی لم تحرم— نبی کریمﷺ نے اپنے اوپر کیا حرام کیا تھا؟

قسط نمبر۵

بعید نہیں کہ اگر نبیؐ تم سب بیویوں کو طلاق دیدے تو اللہ اسے ایسی بیویاں تمہارے بدلے میں عطا فرما دے جو تم سے بہتر ہوں، فرمانبردار، باایمان، اطاعت گزار، توبہ گزار، عبادت گزار، روزہ دار، خواہ شوہر دیدہ ہوں یا کنواریاں (۵)

آیات نمبر ۵ میں گفتگو کا رخ اس وقت کی موجود تمام ازواجؓ کی طرف پھیر دیا گیا ہے کہ وہ اپنے اس منصب کو مستقل یاد رکھیں کہ وہ محمدؐ رسول الله کی بیویاں ہیں اور الله اس بات پر قادر ہے کہ اگر رسولﷺ تم بیویوں کو (یا تم میں سے کسی کو) طلاق دے دیں تو وہ دوسری بیویاں عطا کر دے جو کہ اطاعت گزاری، ایمان، نماز، توبہ، عبادت و ریاضت میں تم سے بڑھ کر ہوں۔ کلام اگرچہ سخت ہے مگر ساتھ ہی الله نے امت کے سامنے اس بات کی بھی تصدیق کر دی ہے کہ امہات المومنینؓ ان تمام خصوصیات سے متصف ہیں۔ مثلاً اگر کوئی مالک اپنے کسی ماتحت کو یہ کہے کہ اگر تم نے فلاں کام نہ کیا تو میں تم سے زیادہ قابل شخص کو وہ کام سونپ دوں گا تو یہاں یہ بات اپنے ایک اندر ایک تنبیہ تو ہے ہی مگر ساتھ ہی اس بات کی تصدیق بھی ہے کہ ماتحت ایک قابل شخص ہے۔ پچھلی آیات کے مطالعہ سے تو یہ بات عیاں ہو گئی ہے کہ امہات المومنینؓ کے ساتھ کیا معاملہ پیش آیا تھا مگر تنبیہ کا انداز اتنا سخت اس لئے ہے کہ ‘جن کے رتبے ہیں سِوا، ان کی سِوا مشکل ہے’۔ اگر الله نے ان کو اتنے بلند مقام پر فائز کیا ہے تو ان سے توقعات بھی اسی طرح زیادہ بھی ہونگی۔

سورہ تحریم کے بعد جب سورہ احزاب نازل ہوئی تو اس کی آیات ٢٨- ٢٩ میں ازواج کرامؓ کو واضح الفاظ میں اختیار دیا گیا کہ اگر وہ دنیا کی سہولتوں کی طلبگار ہیں تو ان کو کچھ دے دلا کر رخصت کر دیا جائے گا اور اگر وہ آخرت کی کامیابی کی امید رکھتی ہیں تو ان کے لئے بڑے اجر کا وعدہ ہے۔ تمام ازواجؓ نے آخرت کو ہی ترجیح دی اور الله تعالیٰ نے ازواج کے اس عمل سے راضی ہو کر نبی پاکﷺ سے طلاق کا حق سلب کر لیا۔ ارشاد ہوتا ہے:

اس کے بعد تمہارے لیے دوسری عورتیں حلال نہیں ہیں، اور نہ اس کی اجازت ہے کہ ان کی جگہ اور بیویاں لے آؤ خواہ اُن کا حسن تمہیں کتنا ہی پسند ہو، البتہ لونڈیوں کی تمہیں اجازت ہے اللہ ہر چیز پر نگران ہے (۵۲)

سورہ احزاب کی آیت نمبر ٥٢ میں بتا دیا گیا کہ مخصوص کلیہ کے باہر اب نبی پاکﷺ پر کوئی عورت حلال نہیں ہے۔ مزید یہ کہ موجود بیویوںؓ کو چھوڑ کراس کلیہ میں سے بھی کوئی شادی نہیں کی جا سکتی۔ تاہم لونڈیوں کے سلسلے کے قوانین وہی ہونگے جو عام مسلمانوں کے لئے ہیں۔ (یعنی حضرت ماریہؓ کو الگ کرنے کا اختیار تو ان کے حرم نبویؐ میں داخل ہونے سے دو سال پہلے، ٥ ہجری میں ہی الله تعالیٰ نے تفویض بھی کر دیا تھا)۔

سورہ تحریم کی اس آیت میں دو ایسے الفاظ ایسے بھی ہیں جن کی ترتیب بہت غور طلب ہیں۔ ازواجؓ کو تنبیہ کے ساتھ جب نبیؐ کے لیے جدید بیویوں کا ذکر ہوا تو ثیبہ یعنی شوہر دیدہ کا ذکر باکرہ یعنی کنواری کے ذکر سے پہلے آیا ہے۔ نبی پاکﷺ کی اس وقت کی بیویوں میں تین شوہر دیدہ تھیں اور کنواری صرف ایک یعنی حضرت عائشہؓ تھیں۔ مروجہ روایات بتاتی ہیں کہ ساری ‘سازشیں’ حضرت عائشہؓ (کنواری بیوی) کے ذہن کی پیداوار تھیں۔ لہٰذا جب الله کی طرف سے تنبیہ آ رہی ہے تو کنواری کا ذکر شوہر دیدہ کے ذکر سے پہلے آنا چاہیے تھا، مگر ایسا نہیں ہے۔ ممکن ہے کہ کوئی یہ کہے کہ کیونکہ شوہر دیدہ اکثریت میں تھیں اس لئے شوہر دیدہ کا لفظ پہلے آیا ہے، تو اس بات سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے کہ بیویاں لگ بھگ برابر کی ہی خطاوار تھیں اور حضرت عائشہ ہرگز زیادہ خطاوار نہیں تھیں۔ ان کو اصلی ‘مجرم’ دکھا کر درحقیقت یہ باور کرانے کی کوشش کی گئی ہے کہ وہ ہمیشہ سے سازشیں بُننے کی عادی تھیں اور جنگ جمل بھی ان کے اسی کردار کی غماز ہے۔ دراصل عراق اور ایران میں شروع سے ہی ایک بڑی تعداد ایسے لوگوں کی رہی ہے جو کہ حضرت عائشہؓ، حضرت عثمانؓ اور حضرت امیر معاویہؓ کے لئے اچھے جذبات نہیں رکھتے تھے۔ وہاں کے روایت ساز اپنی روایات بھی اسی طرح سے بناتے تھے کہ ان تینوں اصحاب کی بری تصویر کشی ہو۔ حضرت عثمانؓ، حضرت عائشہؓ، اصحاب بنو امیہؓ یا وہ صحابؓہ جو جنگ جمل یا جنگ صفیِن میں عراقیوں کے مدمقابل تھے، ان کے خلاف ایک زہریلا پروپیگنڈا کیا گیا۔ عباسیوں کی پوری خلافت اسی پروپیگنڈے کی مرہونِ منت تھی۔ لہٰذا خلافت کے کوفہ/بغداد منتقل ہونے کے بعد ایرانیوں اور عراقیوں نے تاریخ نویسی کے نام پر اس پروپیگنڈے کو باقاعدہ صنعت کا درجہ دیدیا۔ خلیفہ منصور عباسی کے دور میں ہشام بن عروہ عراق آئے۔ یہ ہشام کا دورِ اختلاط تھا۔ عراق کے روایت سازوں نے اس بات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے نجانے کیا کیا روایتیں ان کے منہ میں ڈالیں اور وہ بیچارے ان روایات کو اپنے والد کی روایات سمجھ کر آگے بیان کرنے لگے- امام مالکؒ کو جب مدینہ میں ہشام کی عراقی روایات پہنچیں تو انہوں نے ہشام کو کذّاب قرار دیدیا۔ یہی وہ دور ہے جس میں ہشام نے شہد والی روایت بھی بیان کی تھی۔ اسی دورِ اختلاط کی چند دیگر روایتوں میں نبی پاکﷺ پر جادو ہونے والی روایت ہے یا حضرت عائشہؓ کے کم سِنی میں نکاح کی روایت بھی ہے۔

عراق میں جہاں ایک طبقہ کو بنیادی بغض حضرت عائشہؓ اور بنو امیہ سے تھا، وہیں ایک طبقہ اور بھی تھا جس کو جنگ قادسیہ کا زخم حضرت عمرؓ سے لگا تھا، لہٰذا وہ طبقہ ان کو بھی معاف نہیں کر سکتا تھا۔ چنانچہ ابنِ جریج نے ہشام کی روایت (جس میں حضرت حفصہؓ کو متاثرہ فریق گردانا گیا تھا) میں تبدیلی کر کے حضرت حفصہؓ بنت عمرؓ کو بھی سازشی ٹولے میں شامل کروا دیا۔ ان روایات کی تاریخی بحث سورت کی پہلی آیت کی تفسیر میں آ چکی ہے۔

سورہ تحریم آیات ۶-۸
کیونکہ اگلی نازل ہونے والی سورت احزاب کے ساتھ ہی رسول اللہ نے اپنے متبنی کی بیوی سے شادی کرنی تھی، تو معاشرہ دوبارہ اسی راہ پر نہ چلے جیسا حضرت خولہ کے رجوع کی دفعہ ہوا اور جسکا ذکر سورہ مجادلہ میں آیا کہ بعض لوگ چہ مگوئیوں میں لگ گئے تھے، تو یہاں سورہ تحریم میں پہلے ہی تنبیہ کردی گئی ہے کہ اپنے آپکو اور اپنے گھر والوں کو جہنم کے ایندھن سے بچاؤ۔

سورہ تحریم آیت ۹
اے نبی کافروں اور منافقوں سے جہاد کر اور ان پر سختی کر اور ان کا ٹھکانا دوزخ ہے اور وہ بہت ہی بری جگہ ہے (۹)

نبی پاک کو حکم دیا جا رہا ہے کہ آپﷺ حضرت زینبؓ سے شادی کر کے کفار اور منافقین کے خلاف معاشرتی نوعیت کا جہاد کریں۔ دیگر اقسام کے جہاد کے برخلاف، یہ جہاد اپنے اندر ایک الگ نوعیت کی سنگینی رکھتا تھا۔ کیونکہ سیاسی اور بنیادی عقائد کے سلسلے میں ہونے والے معاملات میں لوگوں کی سوچ کے زاویے اور طرح کے ہوتے ہیں۔ لیکن معاشرتی اقدار بالخصوص نکاح کے سلسلے میں زاویے اور طرح کے ہوتے ہیں۔ مخالفین ان معاملات کو اخلاقی گراوٹ کا رنگ دے کر، کردار کشی کی مہم شروع کر دیتے ہیں۔ رسول اللهﷺ کے سامنے مدینہ کے مکمل حالات تھے۔ انھیں پورا ادراک تھا کہ اس نکاح کے بعد منافقین مدینہ کیا طوفان اٹھانے کو ہیں اور انہوں نے وہ طوفان اٹھایا بھی۔ سورہ تحریم کے بعد جب سورہ احزاب نازل ہوئی تو اسکی پہلی ہی آیت کا مضمون یہی تھا، ارشاد ہوتا ہے
"اے نبیؐ! اللہ سے ڈرو اور کفار و منافقین کی اطاعت نہ کرو، حقیقت میں علیم اور حکیم تو اللہ ہی ہے (۱) پیروی کرو اُس بات کی جس کا اشارہ تمہارے رب کی طرف سے تمہیں کیا جا رہا ہے، اللہ ہر اُس بات سے باخبر ہے جو تم لوگ کرتے ہو (۲) اللہ پر توکل کرو، اللہ ہی وکیل ہونے کے لیے کافی ہے (۳) سورہ احزاب

سورہ تحریم آیات ۱۰-۱۲

سورہ تھریم کی ان آخری آیات میں حضرت نوح ، حضرت لوط، اور فرعون کی بیویوں اور حضرت مریم کی مثالیں دیکر سمجھایا گیا ہے، کہ ہر بہترین ساتھ ملنے کے باوجود بھی حضرت نوح اور لوط کی بیویاں خسارے مین رہی ہیں اور فرعون کی بیوی کامیاب، لہذا ہر شخص اپنے اعمال کی بنیاد پر پرکھا جائے گا، اور مسلمان یہ نہ سمجھیں کہ نبی کریم کے ساتھ انکی نسبت بن گئی ہے تو بس یونہی بخش دیے جائیں گے، لہذا جو بھی تنبیہات کی جارہی ہیں، انکو پورے طور پر سنجیدگی سے لیا جائے، وگرنہ خسارہ مقدر بن سکتا ہے۔ آخر میں حضرت مریم کی مثال دی گئی، لیکن ان کی مثال بحیثیت والدہ حضرت عیسی کے نہین دی گئی ہے بلکہ یہ بتایا گیا ہے کہ جب انہوں نے اپنی عصمت کی حفاظت کی تو ہم نے ان کو حضرت عیسی کی والدہ ہونے کا شرف بخشا۔ اور انکو تمام جہان کی عورتوں پر فضیلت دی۔

حرف آخر
اب سوال یہ ہوتا ہے کہ سورہ تحریم کے اس بیان کی ضرورت کیوں پیش آئی۔ جو بنیادی بات یہاں بیان کی گئی ہے، یہ اوروں نے کہی بھی ہے کہ قرآن راجح ہے اور روایتوں کو اس کے آئینہ میں پرکھا جائے گا نہ کہ روایتوں کے مطابق قرآن کی تاویل کی جائے گی۔ بہت سے علماء نے ان روایتوں پر سند کے اعتبار سے بھی اعتراضات لگائے ہیں۔ اور دوسری رائے بھی دی ہیں۔ ۱۲ سو سال تک بنیادی طور پر ہمیں صرف انہی گروہوں سے سابقہ پڑا جو کہ نبیﷺ، ان کی ازواجؓ و اصحابؓ کو لے کر نہ صرف بُری آراء رکھتے تھے بلکہ ان کو بدنام کرنے کے لیے روایت سازی کے ذریعے سے عملی میدان میں بھی سرگرم رہے (چند مثالیں اسی مضمون میں گزر چکی ہیں)، اور جواباً ہم ان روایتوں کی بس تاویلیں ہی کرتے رہے اور آج تک کر رہے ہیں۔ نتیجہ کیا نکلا ہے، وہ سب کے سامنے ہے۔ لیکن آج کے حالات میں کئی مزید جہات پیدا ہو چکی ہیں۔ مغربی اقوام کے عروج کے بعد اب اُن قوموں کا بھی سامنا ہے۔ سائنسی تعلیم عام ہونے کے سبب اب بہت سے سوچنے والے افراد بھی پیدا ہو گئے ہیں۔ جب وہ اِن تبرائی روایات کی روشنی میں دین اور حضورؐ کو پہچاننے کی کوشش کرتے ہیں تو نتیجہ وہی نکلتا ہے جو آج نکل رہا ہے۔ ہمارا سوچنے والا دماغ دین سے برگشتہ ہے۔ جس دین کی بنیادی دعوت میں ہی غور و فکر کو بنیادی اہمیت دی گئی تھی آج اس میں سوچنے پر ہی قفل لگا دیے گئے ہیں۔ اور جو پھر بھی سوچنے کی کوشش کرتا ہے تو اکثر و بیشتر مایوس ہوئے بغیر نہیں رہتا۔ کیوں!!!!!!! اس لیے کہ وہ دین کو، اس کی تعلیمات کو، اس سے وابستہ شخصیات کو قرآن کے آئینہ میں نہیں بلکہ اُنہی روایات کے آئینہ میں دیکھ رہا ہے جو کہ وضع ہی اس دین کو روکنے کے لیے کی گئی تھیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ اسلام کا جو پھیلاؤ پہلے سو سالوں میں ہوا ہے، بعد کے تیرہ سو سالوں میں اس کا چوتھائی بھی نہیں ہوا۔ کیوں!!!!!!! اس لیے کہ پہلے سو سالوں میں مسلمانوں کے ہاتھ میں قرآن تھا اور بعد میں روایات کی بنیاد پر قرآن کی تاویلات۔ کوئی یہاں یہ نہ سمجھے کہ یہاں روایات کا کلی انکار کیا جا رہا ہے، صرف اتنا کہا جا رہا ہے کہ لاریب اور فرقان صرف اور صرف قرآن ہے، لہذا کوئی بھی روایت قبول کرنے سے پہلے صرف اس کی سند کو نہیں بلکہ اس کے متن کو بھی قرآن کی کسوٹی میں پرکھا جائے، اور یہ حکم خود قرآن دے رہا ہے، اور قرآن ہی محکم کتاب ہے، باقی جو بھی کتب ہیں وہ متشابہ ہیں(سورہ آل عمران ۔ آیت ۷)، اور ان کتابوں کو قرآن پر راجح ماننے والوں کے دل درحقیقت کج ہیں۔

ایک اور نقصان جو صرف روایات کی تابع تفسیر کرنے کا ہوا ہے کہ قرآن کا نظم بری طرح مجروح ہوا ہے، ایک آیت کا اپنی اگلی پچھلی آیات سے کوئی ربط ہی نہیں رہتا۔ وہ کتاب جس نے اپنے بارے میں مبین ہونے کا دعویٰ کیا ہے، مبہم ترین کتاب بن کر رہ گئی ہے۔ نتیجتاً اس کا پیغام اور اس کے اندر موجود ہدایت نظروں سے اوجھل ہو گئی ہے اور قرآن کے سلسلے میں ہماری زیادہ کاوشیں اپنی روایت کو زیادہ صحیح ثابت کرنے میں صرف ہو جاتی ہیں۔ سورہ تحریم ایک چھوٹی سی سورت اپنے اندر بہت سے معاشرتی پہلوؤں کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ ہر قبیلے، علاقے کے کچھ رسم و رواج ہیں اور جیسے جیسے اسلام عرب سے نکل دوسرے علاقوں میں پھیلا ویسے ہی سے اس کا سامنا کچھ ایسی رسومات سے بھی ہوتا گیا جو اسلام کے منافی تھیں۔ تو یہ سورت مسلمانوں کو یہ درس دے رہی ہے کہ ان خلافِ اسلام معاشرتی بتوں کو توڑے بغیر ایمانیات کی تکمیل نہیں ہے۔ اور یہ معاشرتی جدوجہد بھی ایک جہادِ عظیم ہے۔ یہاں پر یہ بیان بھی ضروری ہے کہ دین کو اتنا تنگ نظر بھی نہ بنایا جائے کہ ہر ہی چیز پر فتویٰ لگا دیا جائے (جیسا کہ ایک طبقہ کر ہی رہا ہے)۔ ساتھ ہی مسلمانوں کے لئے یہ بھی پیغام ہے کہ الله اور رسول کا حکم معاشرتی عقائد اور’ لوگ کیا کہیں گے’ کی سوچ سے بالاتر ہونا بھی لازمی ہے۔

بعض بھائیوں کا کہنا ہے کہ لمبی تحریر پڑھنا دشوار ہے، لہذا سورہ تحریم کے اس موضوع کو مختصر ترین الفاظ میں بیان کردوں؛

۱) شوال ۳ہجری؛ غزوہ احد
۲) ذولقعدہ ۳ ہجری؛ سورہ نساء کا نزول؛ پہلی اٹھارہ آیات کا مخاطب نبی کریم ﷺ کو چھوڑ کر باقی امت؛ آیت ۳میں مسلمان مرد کے لیے چار بیویوں کی حد
۳) شوال ۴ہجری: حضورؐ کا اپنے پھوپھی زاد بھائی کی بیوہ حضرت ام سلمہؓ سے نکاح، جن کے پہلے سے ۴ بچے تھے۔ ایک ہی وقت میں یہ حضور کی چوتھی بیوی تھیں۔ بیت نبوی میں ۵افراد کا اضافہ۔
۴) ازواج بشمول حضرت ام سلمہؓ کا نان نفقہ بڑھانے کا مطالبہ۔ (توثیق سورہ احزاب آیت ۲۸)
۵) نبی کریم ﷺ کا بیویوں کی خوشنودی کے لیے خود کو عام مسلمانوں کی مانند ۴ بیویوں تک محدود کرنے کا فیصلہ تاکہ جذباتی لحاظ سے خوشی کے ساتھ ساتھ گھر مزید معاشی دباؤ میں نہ آئے، کیونکہ ازواج نان نفقہ میں اضافہ کا مطالبہ لائی تھیں- (جزوی توثیق؛ سورہ احزاب آیت ۵۰)
۶) ذوالقعدہ ۴ہجری: سورہ مائدہ کا نزول اور قسم کے کفارے کی آیت کا بیان (آیت ۸۹)
۷) آغاز ۵ ہجری: حضرت خولہؓ بنت ثعلبہ کی دربار نبویؐ میں حاضری، جن کے شوہر نے انکو ماں بول کر ہمیشہ کے لیے حرام کردیا تھا، اس وقت کے رواجی قاعدے کے مطابق اب واپسی کا کوئی راستہ نہ تھا، رسول اللہ ﷺ کا رواج کے برخلاف رجوع کروانا اور مدینہ میں چہ مگوئیاں (سورہ مجادلہ)
۸) وسط ۵ ہجری: سورہ تحریم کا نزول
۹) آیت ۱ میں اللہ کی طرف سے سورہ نساء مین حلال کردہ مزید نکاح کو بیویوں کی خوشنودی کے لیے حرام کردینے کا ذکر، گویا اب حضرت خولہؓ کے رجوع کے معاملہ کو لیکر نبی کریم ﷺ نے اپنے متبنی حضرت زیدؓ کی مطلقہ سے نکاح کرنا ہے تاکہ معاشرہ منہ سے بولے گئے جملوں کی بنیاد پر قام رشتوں کی ابدی حرمت کے شکنجے سے ہمیشہ کے لیے نکل جائے
۱۰) آیت ۲میں سورہ مائدہ کی آیت ۸۹ کا حوالہ تاکہ نبی کریمﷺ اپنے قسم سے باہر آئیں
۱۱) آیت ۳میں حضرت زینبؓ بنت جحش سے نکاح کے حکم سے متعلق نبی کریم ﷺ کا حضرت حفصہؓ سے ذکر کرنا، اور حضرت حفصہؓ کا وہ بات حضرت عائشہؓ کو بتادینا؛
۱۲) آیت ۴ میں اللہ پاک کا دونوں ازواج کو توبہ کرنے کا حکم 
۱۳) آیت ۵ میں تمام ازواج کو بتادیا گیا کہ اللہ کے نبیؐ اگر طلاق دیدیں تو اللہ مزید بہتر بیویاں بھی عطا کرسکتا ہے۔ بعد میں سورہ احزاب میں تمام ازواجؓ سے سوال کہ اگر دنیاوی کشائش چاہیے تو کچھ دے دلاکر رخصت کردیا جائے، ورنہ اللہ کے پاس بڑا اجر ہے، چاروں ازواجؓ کا نان نفقہ میں کشائش کے معاملہ سے دستبرداری اور اللہ کا نبی کریم ﷺ سے ازواجؓ کو طلاق دینے حق واپس لے لینا (سورہ احزاب آیت ۵۲)
۱۴) آیات ۶-۸ میں مسلمانوں کو خود کو اور اپنے اہل خانہ کو جہنم کا ایندھن بننے سے بچانے کی ہدایت، اور ساتھ ہی توبہ کرنے کی بھی ہدایت- یہ پیشگی فرمان اسی لیے جاری ہوا کہ جب رسول اللہ ﷺاپنے متبنی کی مطلقہ سے نکاح کریں گے تو حضرت خولہؓ کے رجوع کے معاملہ کی طرح دوبارہ چہ مگوئیاں شروع نہ ہوں، جن کا ذکر سورہ مجادلہ میں آیا ہے
۱۵) آیت ۹ میں نبی کریم ﷺ کو کفار و منافقین کے خلاف معاشرتی جہاد کا حکم، یعنی کہ اب حضرت زینبؓ سے نکاح کا وقت آگیا ہے، ذوالقعدہ ۵ ہجری میں سورہ احزاب میں جب یہی معاملہ بالکل کھول کر بیان ہوا تو پہلی آیت میں ہی اس نکاح کے معاملہ میں منافقین اور کفار سے نہ ڈرنے کی ہدایت۔
۱۶) آیت ۱۰-۱۲ میں حضرت نوحؑ،حضرت لوطؑ اور فرعون کی بیویوں اور حضرت مریمؑ کا ذکر- یہ بیان کیا گیا کہ محض نبی سے تعلق کی وجہ سے مغفرت نہیں ہوجاتی، اور کسی برے شخص سے تعلق کی وجہ سے سزا- ہر شخص کو اس کے اعمال کے مطابق دیکھا جائے گا، لہذا آیت ۶-۸ مین جو تنبیہ آئی ہے اسکو تمام مسلمان سنجیدگی سے لیں۔

 

Dr. Muhammad Hamidullah
Visit Website of Dr. Muhammad Hamidullah
Leave A Reply

Your email address will not be published.